’’رات کی رانی‘‘: عورت کے باطن کو موضوع بناتی کہانیاں

’’رات کی رانی‘‘: عورت کے باطن کو موضوع بناتی کہانیاں
از، حمیرا اشفاق

احمد جاوید، کے افسانوی مجموعہ میں ”رات کی رانی” عورتوں کے مسائل پر لکھی گئی کہانیوں پر مشتمل ہے۔اس میں شامل بارہ کہانیا ں عورت کے کسی نا کسی رنگ اور تاثر کی نمائندگی کرتی ہیں۔”عورت” پر لکھنا یا عورت کو موضوع بنانا دونوں عمل اگرچہ نئے نہیں ہیں لیکن احمد جاوید نے عورت کے ظاہر کو نہیں بلکہ باطن کو موضوع بنایا ہے۔بقول باچا خان ”کوئی معاشرہ کتنا مہذب ہے اس کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ عورت کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔یہ بارہ کہانیاں بھی عورت کے ساتھ ہونے والے سلوک کی ایسی

تصویر کشی کرتی ہیں کہ قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں رہتا کہ ہمارا معاشرہ کتنا مہذب ہے۔
اس میں کہانی نویس نے عورتوں کے حقوق کا نعرہ بلند نہیں کیا جس میں مرد کو ہر برائی اور ہر تباہی کے لیے موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے بلکہ یہ کہانیاں عورت کو مرکزمانتے ہوئے اس کے ساتھ جڑے ہوئے معاشرے کی سچی اور کھری تصویریں دکھاتی ہیں۔کسی عورت کو اس کے حقوق بتانے سے کہیں بہتر ہے کہ معاشرے کو اس کے فرائض سے آگہی دی جائے۔مؤخرالذکر صورت میں شاید ہی کسی عورت کو حقوق مانگنے کی ضرورت پڑے۔معاشرے کی اٹھان میں مرد اور عورت اہم ترین عناصر ہیں اسی لیے ان کا توازن در اصل معاشرے کا توازن ہے اور ان کا بگاڑ ، معاشرے کو بیمار اور غیر متوازن کر دیتا ہے۔

احمد جاوید کی کہانیوں کے پلاٹ ہمارے ارد گرد کی زندگی سے لیے گئے ہیں ۔اس لیے کوئی واقعہ انوکھا نہیں لگتا۔ان کہانیوں میں ،عورت کی پیدائش پر معاشرے کا ردِ عمل،بطور شے ،عورت کو دیکھنے اور پرکھنے کا طریقہ،اس کی شکل کے ظاہری اور اس کے والدین کے مالی حالات کا جائزہ،عورت کو دھتکارنے کا اختیار،اس کو بطور دان ونی کرنے کی رسم،تاریخی تواہمات میں عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک اور ایسے میں اس کے تکیے کے نیچے رکھے خواب،کو بہت باریکی سے موضوع بنایا گیا ہے۔
پھر وہ انہی خوابوں کا نوحہ لکھنے پرہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ ان خوابوں کے ٹوٹنے پر ان کے مزاروں پر رنگوں اور بیلوں کی چادر بھی چڑھاتا ہے۔کہیں یہ رنگ مور کے پروں میں سمٹ جاتے ہیں اور کہیں یہ رات کی رانی کے پھول بن جاتے ہیں۔کبھی یہ ناتمام آرزوئیں سمندر میں ملنے کی خواہش میں بیچ منجدھار میں دم توڑ دیتی ہیں۔

افسانوی مجموعے”رات کی رانی” میں شامل”بیر بہوٹی” ایک ایسی کہانی ہے جس میں لڑکی کے ماتھے کے زخم کے داغ علامت بنا تے ہوئے معاشرے کے بد نما داغوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔لڑکی کی ظاہری شکل و صورت کو تماش بینوں کی طرح پرکھا جانا، جہیز کے بوجھ تلے دبے بوڑھے ماں باپ اور نفسیاتی دباؤ کا شکار لڑکی ان تمام کیفیات کو احمد جاوید نے پوری سچائی اور انسان دوستی سے پیش کیا ہے۔
مادیت پرستی کے اس دور کو احمد جاوید نے اس کی تمام آلائشوں اور اس منفی رویے کے پڑنے والے اثرات کو پوری مہارت اور مشاہدے کی گہرائی سے پیش کیا ہے۔ اسی کہانی میں جہیز کے بوجھ تلے بوڑھے کلرک کی نفسیات کو بہت گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔

”میں نے غلطی کی اور پکڑی گئی … وہ بوڑھا کلرک … اس کی آنکھیں مجھے آج بھی یاد ہیں جو میرے چہرے پر پیوست ہو گئی تھیں … وہ دیر تک میری غلطی پر انگلی ٹھکورتا رہا تھا … پھر بڑے طنطنے سے بولا تھا ”…لڑکی… ذات تو مردوں کی ہوتی ہے … عورتوں کی تو کوئی ذات نہیں ہوتی…”
میں نے سنا تو ہنس پڑی … اور ہنستے ہنستے کہا … ”انکل لگتا ہے … تمہیں لڑکیاں بری لگتی ہیں۔”
”ہاں بری لگتی ہیں …” وہ طیش میں آ گیا۔
”اپنی بھی …؟”
”ہاں … اپنی بھی …” وہ مشتعل ہوا تو پنسل کاغذوں پر پھینک میزوں کے درمیان سے ٹھوکریں کھاتا … جھکا جھکا دروازے سے باہر نکل گیا … میں نے دیکھا اس کی جھکی ہوئی پیٹھ پر اس کی لڑکیوں کے بوجھ کے نشانات ابھرے ہوئے تھے… کبڑا کہیں کا …(۱)
احمد جاوید کی کہانی ”گالی ” میں منٹو کے کرداروں کی طرح ہوا میں ،بند کھڑکیوں کے سامنے تحلیل ہوتی ہو ئی گالیاں نہیں ہیں ۔اور نا ہی” ہتک” کی سو گندھی کی طرح ایک طوائف کے منہ سے نکلی گالیوں کا طوفان ہے جو اس کے کردار کا لازمی جزو سا لگتی ہیں۔اس کہانی میں اس لفظ کی معنویت جدا ہے ۔یہ ایک ایسی عورت کے منہ سے نکلی ہو ئی گالی ہے جو ہر لمحہ خود کو معاشرے کے سامنے”گالی” بننے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے مگر اس کے باوجود اس کی زندگی کو شک کا گھن چاٹ جاتا ہے ۔مرد کے پاس معاشرے کا دیا ہوا اختیار ہے جب چاہے کسی عورت کو گھر لے آئے اور جب چاہے چوکھٹ سے باہر معاشرے کی گالیاں کھانے کے لیے چھوڑ دے اور پھر کوئی دوسری لے آئے یا تیسری۔۔۔عورت کے اسی عدم تحفظ کے احساس کو کہانی کار نے بہت مہارت اور ہمدردی سے پیش کیا ہے۔ گالی ”میں بظاہر ایک عورت کا کردار مرکزی حیثیت کا حامل نظر آتا ہے لیکن اس عورت کے ساتھ ساتھ پس منظر میں دوسری عورت کا کردار بھی قابلِ توجہ ہے۔احمد جاوید بہت لطیف انداز میں دوسری عورت کے روپ کو معاشرے کا عمومی ذہنی رویے کا عکاس بنا کر پیش کرتے ہیںجسے اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن چاہیے جو اس کے پاؤں بھی داب دے اور اس کی نسل بھی آگے بڑھائے ،نہ پسند آئے تو چھوڑ کر بیٹا دوسری لے آئے۔

وہ اختیار استعمال کرنے کے بعد فتحمندی سے سرشار کھڑا تھا اور یہ اس طرح خجل ہو رہی تھی جیسے اچانک بیچ بازارکسی نے اس سے چھیڑ خانی کی ہو۔ اس کا آنچل کھینچا ہو۔ اس کے جسم کو چھوا ہو۔ ایک بار اس کا جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اپنے ناخنوں سے اس کا منہ نوچ لے۔ مگر پھر ضبط کیا کہ ابھی ایک التجا باقی تھی۔ اٹھی اور اپنے بازوئوں کو اپنے بیٹے کی طرف پھیلا دیا۔ مرد نے اسے آگے بڑھتے دیکھا تو بچے کا بازو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا۔ ”یہ میرا ہے……”

یہ اس کا تھا۔ اس کا وارث تھا۔ اسی کے ذریعے اس کی نسل کا نام آگے بڑھنا تھا وہ اسے کسی غیر عورت کے سپرد کیسے کر دیتا۔
وہ پھر گڑ گڑانے کے عمل میں پڑگئی۔ وہ چیخ رہی تھی مگر کوئی اس کی آواز سننے والا نہیں تھا۔۔۔۔ کوئی اس کی طرف کیسے توجہ دیتا۔

۔۔۔کوئی اس کی طرف کیسے توجہ دیتا حالانکہ اب تو وہ بھی ایک گالی تھی۔ تین لفظوں نے اس کے وجود کو بھی یکلخت گالی بنا دیا تھا۔(۲)
”گالی ” اور ”بیر بہوٹی ” کا اگر ملا کر تجزیہ کریں تو یہ دونوں کہانیاں ایک دوسری کا تسلسل نظر آتی ہیں ۔پہلی کہانی میں عورت کے ماتھے کا داغ اور معمولی شکل و صورت اس کے ٹھکرائے جانے کی وجہ بنتی ہے تو دوسری کہانی میں عورت کا خوبصورت ہونا اس کے لیے مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔گویا عورت ہونا ہی دکھ ہے خواہ وہ قبول صورت ہو یا خوب صورت۔

احمد جاوید کی کتاب ”رات کی رانی” عورتوں کے مسائل پر مختلف انداز سے روشنی ڈالتی ہے۔ابھی ایک عورت کا دکھ قاری کو اپنی گرفت میں لیے ہوتا ہے کہ اگلی کہانی اسی ایک کہانی کا کوئی دوسرا پہلو سامنے لے آتی ہے۔”رات کی رانی ” ایسی کہانی ہے جس میںپھولوں ،رنگوں کی خوشبو ؤںمیں چھپی ناآسودہ خواہشوں کے سانپ کسی نہ کسی کھڑکی ،دروازے یا درزسے کمروں میں آن داخل ہو تے ہیں۔احمد جاوید نے حقیقت نگاری میں بڑھے ہوئے رجحان کی بجائے دھیمے مگر علامتوں کے سہارے کہانی کا تار و پود بُن کر ایک تلخ حقیقت سے پردہ اٹھا یا ہے۔انہوں نے ہم جنس پرستی کے معاشرتی عوامل کو بڑی گہرائی سے پیش کیا ہے ۔وہ عصمت چغتائی کی طرح ان حقیقتوں سے لحاف نہیں کھینچ لیتے بلکہ ان بد رنگیوںکو پھولوں کی چادر سے ڈھک دیتے جن کے نیچے ناآسودہ خواہشوںکے مزار دفن ہوتے ہیں۔

اس کتاب کی تیسری کہانی ” پارسائی کی گرہ”ایک ایسی کہانی ہے جس میں پیاس کے معنی کو ذومعنی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ”مورنی” کا مرکزی کردار گھروں میں کام کرنے والے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔وہ ایک ایسا کردار ہے جو صدیوں کی غلامی میں جکڑے جکڑے ،تازہ ہوا کے احساس کو بھی بھول جاتا ہے۔وہ خادمہ بنتِ خادمہ تھی جسے اس کی خدمت کے بدلے صرف رسوائی ملنی تھی۔وہ ایک لمحہ اسے زندگی کے دشت میں چھوڑ آتا جہاں سے اس کی واپسی ممکن ہی نہ تھی۔کہانی کا بیانیہ بہت اعلیٰ ہے ایک عجیب کشمکش میں الجھی زندگی اور اس میں رنگ بھرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے کرداروں کو پوری جزئیات کے ساتھ متشکل کرتاہے۔
جذبوںکی اس کشمکش میں بھی افسانہ نگار نے امیری اور غریبی کے دکھ کو بھلایا نہیں بلکہ اس خلیج کو اور واضح کردیا ہے۔

ایک موسم آیا ایک گزر گیا۔ وہ جاڑے کا زمانہ تھا جب بڑے صاحب کا لڑکا رخصت ہوا تھا اب گرمیوں کے تپتے ہوئے روشن دن تھے۔ مگر وہ اک خوف جو لاحق ہوا تھا اب پہلے سے بھی زیادہ تھا اس لیے کہ مور کی پھڑ پھڑاہٹ بھی پہلے سے زیادہ تھی جیسے وہ اب جسم سے باہر آنا چاہتا ہو۔ اب تو اس کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ اس کی ماں کو بھی سنائی دیتی تھی سو اک خوف اس کی ماں کی آنکھوں میں بھی جاگزیں ہو گیا تھا۔ پھر ایک شب یہ بھی ہوا کہ ناگہانی ایک پر اس کے پیٹ پر اگ آیا۔ سنہری اور روپہلا جیسا کہ مور کے پر ہوتے ہیں۔ پھر ہر رات ان میں اضافہ بھی ہونے لگا۔ وہ دیکھتی اور حیران ہوتی اس کی ماں دیکھتی تو پریشان ہوتی۔ پریشانی کی بات تو تھی۔ اگر اس کا سارا جسم ایسے پروں سے بھر گیا تو پھر کیا ہو گا؟ جو دیکھے گا وہ ڈرے گا یا پھر ہنسے گا۔ اسی لیے رات بھر منہ چھپا کر سسکتی۔ عجب پریشانی کا عالم تھا۔(۳)

احمد جاوید کی اس کہانی ”تیسرا رنگ ” میں ایک خوف کا رنگ دکھایا ہے اور ایک اطمینان کا ۔مگر ایک تیسرا رنگ جس کی طرف افسانہ نگار نے بہت باریکی سے اشارہ کیا ہے وہ ہے ”عورت کی محبت کا رنگ’۔گاؤں کی سادہ سی لڑکی محض اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے روز کا معمول بنا کر اس جھولتی ہوئی لکڑی کی پُل کو پار کرتی ہے مگر دوسری طرف ایک مرد ہے جو اس کاتیسرا رنگ دیکھ ہی نہیں پاتا۔”تتلی’ میں دم توڑتی معصومیت کو معاشرے کی کجیوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسی لڑکی ہے جس کی زندگی کی ابتدا ء اور انتہا ایک تتلی کی طرح دکھائی گئی ہے ۔جس کی قسمت میں پھولوں کے گرد منڈلانا ہے مگر جب کسی صیاد کا شکار بن جائے تو اس کے سارے رنگ کسی اور کی مٹھی میں رہ جاتے ہیں اور اپنی آخری سسکی لے کر ختم ہو جاتی ہے۔ کہانی کار لکھتا ہے کہ اس کا کوئی نام نہ تھا جس کے جی میں جو آتا اس کو اسی نام سے پکار لیتا۔مگربھلے ہی اسے تتلی کہے یا جگنو مگر دونوں صورتوں میں وہ ایک عورت ہے بس یہی اس کا نام ہے۔
۔۔۔۔ اس کی ماں اس کا نام رکھنا بھول گئی تھی۔

جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس کے گھر کی چھت گر گئی۔ ایک بھائی تھا ملبے تلے دب کر ہلاک ہوا۔ گھر میں ہلاکت ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ مہینوں کسی کو سدھ بدھ ہی نہ رہی۔ بھلا ایسے میں کسے ہوش تھا۔ کون اس کا نام رکھتا؟چونکہ اس کا کوئی نام نہیں تھا لہٰذا جس کا جو جی میں آتا پکار لیتا۔ ہر روز ایک نیا نام ہوتا۔ سو وہ کہ جس کا کوئی نام نہیں تھا کتنے ہی اس کے نام ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ خود اس نے بھی اپنے کئی نام رکھ لیے۔ دن ہوتا تو خود کو تتلی کہتی۔ رات ہوتی تو جگنو۔۔۔۔جیسے اس کی کوئی گلی نہیں تھی اور اس کا نام نہیں تھا ایسے ہی اس کے سپرد کوئی کام بھی نہیں تھا۔ اس کی ماں کسی نہ کسی کام سے اسے صدائیں دیتی رہتی مگر وہ طرح دے جاتی۔ اسے کاموں سے کیا غرض تھی۔ ایک عمر میں تتلیوں اور جگنوئوں کے پیچھے بھاگتے پھرنے کے علاوہ بھی کوئی کام ہوا ہے؟(۴)
احمد جاوید کے افسانے معاشرتی مسائل کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان پہلوؤں کا بھی کھوج لگاتے ہیں جن میں عورت کو بطور دان پیش کیا جاتا ہے۔وہ کبھی کسی قتل کے بدلے ونی ہونے والی معصوم لڑکیاں ہو تی ہیں اور کبھی بنجر دھرتی کو زرخیز کرنے کے لیے بلی دان چڑھا ئی جانے والی سہاگن۔ اس کہانی میں مذہب ،رواج اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھنے والی ایک چھوٹی سی لڑکی کو بطور مرکزی کردار پیش کیا گیا ہے جسے رسموں کی چادر اوڑھا کر ایک انجانی دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے۔مگر وہ اپنے خوابوں کے پیچھے بھٹک رہی ہے وہ ان جان تو یہ بھی نہیں جانتی کہ جل پریوں کا تو کوئی سمندر کنارہ مل جاتا ہے مگر عورت کے لیے بیچ منجدھار کا بھنور ہی رہ جاتا ہے، جو اسے بھی نگل لیتا ہے۔

”مگر شرط تو دو کی تھی…”

وہ مرد جو چھوٹی کا باپ تھا اس نے اپنی پگڑی اتار کر زمین پر ایک طرف ڈال دی اور روہانسا ہو کر بولا ”سب جانتے ہیں میرے گھر میں ایک ہے۔ میں دوسری کہاں سے لائوں……”

”وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر شرط… پوری تو کرنی پڑے گی۔” کسی دوسری طرف سے آواز آئی۔
”اب گھر میں میری بیوی ہے……” وہ غصے میں اب بھی نہیں تھا۔ لہجہ دھیما تھا اور آنکھیں جھکی تھیں…
”لاحول ولاقوۃ۔ ہم شریف لوگ ہیں۔ تیری بیاہتا بیوی کا کیوں سوچیں گے……؟” ایک پیر مرد غصے میں بولا۔ وہ غصے میں بولا تو کچھ دیر کو سکوت ہو گیا۔ مگر یہ سکوت زیادہ دیر نہ رہا۔ پھر کسی سمت سے آواز ابھری…
”ہمارا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اگر دوسری نہیں ہے تو بدلے میں کچھ اور تو دینا ہو گا…”
”مگر……”

چھوٹی کا باپ اس پیر مرد سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا جو اُن میں سب سے زیادہ معتبر اور بزرگ تھا۔ مگر وہ جو سب سے زیادہ معتبر اور بزرگ تھا اس نے اسے آگے کچھ بولنے نہ دیا۔ ”اوئے …… ہم کافر نہیں ہیں… مولوی ساتھ لائے ہیں۔ چل اوئے مولوی بسم اللہ کر۔ ہمیں شام سے پہلے دریا پار اترنا ہے…”(۵)

احمد جاوید کے افسانہ ”گمشدہ ستارے”میں ترقی پسند ی کی گونج بہت واضح ہے ۔جہاں آرٹ،عشق اور حسن سے ماوراء ایک ہی جبلت یعنی”بھوک”حاوی نظر آتی ہے۔دونوں مرکزی کرداروں کے ذریعے دو مختلف طبقوں کی ترجیحات کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایک شخص، حسن کے گم شدہ ستارے کینوس پر اتارنا چاہتا ہے مگر اس کے لیے الگ کیے گئے برتن کی تلاش جاری رہتی ہے ۔یہاں تک کہ اس کی پیاس کو نظر انداز کرتے ہوئے کاغذ اٹھائے اس کے سامنے پہنچ جاتا ہے ۔مگر بھوک خود کو بھولنے نہیں دیتی وہ تو بقول کسے چاند اور سورج کی گولائی میں بھی روٹی کی تصویر دیکھ لیتی ہے۔یہاں بھی وہ ان لپٹے کاغذوں کو دیکھ کر تھیلا پھیلا دیتی ہے اور کسی گم نام سفر پر چل پڑتی ہے۔اس کہانی کا بنیادی اور مرکزی خیال ”بھوک” ہے جو حسن کے چمکتے ستاروں کو بھی مٹادیتی ہے۔
احمد جاوید نے نا صرف اپنے ارد گرد پھیلے دکھوں کو کہانی کا موضوع بنایا ہے بلکہ وہ تاریخ کے ان تاریک ادوار کو بھی نہیں بھولے جن میں عورت توہمات کے نام پر قربان کی جاتی رہی۔ان کا افسانہ ”قصۂ غم کی ہیروئن”ایک عورت میں صدیوں کا سفر دکھا دیتا ہے جس میں وہ ملکہ سے لے کر کنیز تک بے بس اور لاچار ہے۔وہ کبھی انعام یا بخشش بنا کر دی جاتی رہی تو کبھی بادشاہوں کے انتقام کا نشانہ۔یہ سارا سفر ماضی سے حال کی طرف جاری رہتا ہے اور کہانی ختم ہو جاتی ہے۔شائد کہانی ختم ہو جاتی ہے مگر عورت کا سفر جاری رہتا ہے۔

”دیکھ……اے پارسا عورت سامنے دیکھ…… ہمارے کھیت سوکھے پڑے ہیں……دیوتاؤں نے ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں……زمین کی زرخیزی رخصت ہو گئی ہے…… دیکھ سامنے دیکھ……یہ مٹی دھول نہیں موت اڑ رہی ہے……اب تو ہی مدد کر سکتی ہے…”
اس نے سامنے دیکھا……مندر سے باہر دور تک پھیلے کھیتوں کے لب سوکھے تھے اور لب سوکھے تھے آسمان کے……مگر اس کے اختیار میں کیا تھا……؟اس نے حیرت سے پروہت کو دیکھا۔
”حیران نہ ہو……”پروہت اس کی آنکھوں میں چھپی حیرت سے مخاطب ہوا۔ یہی رسم ہے…اور یہی رواج ہے…عورت تو سب میں زیادہ زرخیزہے …ہمارے کھیتوں کو زرخیزی عطا کر……”
”کون؟……میں؟……مگر کیسے”

”زمین کوتیرا زرخیز خون چاہیے……اور تیرے اعضا ……تیرا سارا وجود……تجھی سے لہلہاتی فصلیں بھی جنم لیں گی……اس نے لب کھولنا چاہے مگر منظر بدل گیا……کھیتوں کے درمیان صلیب گڑی تھی……اسے بناؤ سنگھار کر کے دلہن بنا دیا گیا تھا مگر کسی حجلہ عروسی کے لیے نہیں صلیب پر گاڑنے کے لیے ……ایک جلّاد اپنے کام کا منتظر تھا……اور منتظر تھا ایک ہجوم حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا ہوا……ہر کوئی اس کے جسم کی ایک بوٹی کا منتظر تھا اپنے کھیت کے لیے……اس کے بس میں اب کچھ بھی نہ تھا ماسوا اس کے کہ آنکھیں بند کر لے اور پھر سو جائے……(۶)

”خوابوں پہ تکیہ” میں بہت سادگی سے ایک ایسے احساس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے صرف حساس افسانہ نگار ہی گرفت میں لے سکتا تھا۔تکیہ کے لفظ کی ذومعنویت کو اجاگر کرتے ہوئے کہانی کار مرد کو تو اپنے خواب کسی صندوق میں بند کر کے سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے مگر عورت کے تکیے کے نیچے چھپے کسی خواب کی آہٹ بھی اس کے وجود کو بکھیرنے کے لیے کافی ہو تی ہے۔عورت کو اس کے لاشعور میں چھپے ان تمام خیالات کو بھی کسی اندھے کنویں میں پھینکنا پرتا ہے جہاں سے ان کی بازگشت بھی سنائی نہ دے سکے۔

پہیلی ایک ایسی کہانی ہے جس کا آغاز ایک پہیلی کی طرح اور انجام بھی ایک ان بوجھی پہیلی کی طرح سامنے آتا ہے۔اس افسانے میں عورت کے مرد کو دیکھنے کے انداز، ایک مرد کے عورت کے طرز تکلم سے ہی اس کے کردار کو ماپنے کی کوشش کا سفر بڑی آسانی سے طے کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں مردا نہ معاشرے کی اس کجی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کیسے صرف ہنس کر بات کر لینے والی عورت کے ساتھ کئی خوش گمانیاں جوڑ لی جاتی ہیں۔انہی خوش گمانیوں کا شکار اس کہانی کا مرکزی کردار اپنی ان بوجھی پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔

احمد جاوید کا افسانوی مجموعہ ‘رات کی رانی’عورت کو فطرت کے رنگوں کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔وہ اس کی محبت کے رنگ بھی ہیں اور خوابوں کے بھی۔وہ کرداروں سے زیادہ واقعات کو پیش کرتے ہیں جہاں سے کردار اپنے لیے مکالمے اور اگلا لائحہ عمل خود متعین کرتے جاتے ہیں۔

وہ نہ تو ببانگ دہل کسی تانیثی رو میں بہہ کر دنیا میں ہر گناہ کو مرد کے سر تھوپ دیتے ہیں اور نہ ہی کہیں عورت کی ایسی دکھیا بنا کر پیش کرتے ہیں جو کسی طاق میں رکھے دیے کی طرح گھُل رہی ہو۔ وہ اپنے ارد گرد جیتی جاگتی زندگی کو پیش کرتے ہیں جہاں کمزوریاں اور کجیاں دونوں موجود ہیں ۔وہ اپنے دور کے مسائل اور اس دور میں عورت کو درپیش مشکلات کا تجزیہ کرتے ہوئے معاشرے کے دوہرے معیارِ زندگی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔یوں تو اردو افسانے میں سماجی حقیقت نگاری کا رنگ شاعری کی نسبت زیادہ گہرا ہی رہا ہے مگر اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد عورت کے دکھ کو موضوع بنائے اور عورت اپنی ذات سے نکل کر سیاسی ،سماجی اور عصری حقائق کو اپنی کہانیوں میں پیش کرے تاکہ معاشرہ اپنے بگڑے توازن کو بحال کر سکے ۔اس ضمن میں احمد جاوید کا افسانوی مجموعہ ”رات کی رانی” قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے۔
ناشر: پورب اکادمی ،اسلام آباد

٭٭٭٭
حوالہ جات

۱۔ احمد جاوید، بیر بہوٹی ” مشمولہ ”رات کی رانی”،پورب اکادمی،اسلام آباد،جنوری ۰۱۴ ۲،ص ۱۵
۲ ۔ ایضاََ،” گالی ” ص۲۵
۳۔ ایضاََ، مورنی”ایضاََ ص ۵۹
۴۔ ایضاََ،”تتلی ” ص ۷۰۔۷۱
۵۔ ایضاََ،”جل پری” ص، ۸۵۔۸۶
۶۔ ایضاََ،”قصۂ غم کی ہیروئین” ص ۱۰۰۔۱۰۱

1 Trackback / Pingback

  1. ادے پرکاش کا فکشن (۲) — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.