ہماری خبروں کا موضوع سیاست کیوں ہے؟

(قاسم یعقوب)

ہماری خبروں کا موضوع سیاست کیوں ہے؟ ہم جہاں بھی محوِ گفتگو ہوں، ہم جو بھی اخبار اُٹھا لیں، ہم کہیں بھی کچھ بھی سن رہے ہیں ، ہمیں کہیں بھی اصلاح اور ترقی کی بات کریں ہمیں مرکزی خبر کے طور پر سیاست کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاست نے کچھ اس طرح ہمارے روز مرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ ہم اس سے باہر نہیں جا سکتے ہیں یا پھر سیاست کا موضوع واقعی سب سے اہم ہے اور اسی سے ہماری پوری معیشت اور معاشرت وابستہ ہو چکی ہے۔ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی سچ ہو مگر ہمیں ماننا پڑے گا کہ اب سیاست ہمارے گھروں کے اندر آ چکی ہے ۔ باورچی خانوں میں چلنے والے چولہے بھی اب اس کی تپش کے آگے ماند پڑ گئے ہیں۔

عدالتوں میں سیاست، تعلیمی اداروں میں سیاست، دفتروں، کھیل کے میدانوں میں سیاست، ہوٹلوں اور چائے خانوں میں سیاست حتیٰ کہ اب تو مساجد کے منبروں پر بھی سیاست نے اپنا ڈیرہ جما لیا ہے۔ ہماری ترجیحات خواہ کوئی بھی ہوں ہم غیرشعوری طور پر سیاست کے داؤ پیچ سے آگاہ معلوم ہوتے ہیں۔ استاد اپنے لیکچرز میں سیاسی’ خون ریزی ‘کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔شادیوں پر بیٹھے خوش گپیاں کرتے افراد بھی اس عارضے سے محفوظ نہیں رہتے۔ بعض اوقات شادی حال میں اونچی آواز ،بحث و تکرار میں منتقل ہو کر کسی جلسہ گاہ کامنظر پیش کرنے لگتی ہے۔ مجھے بہت حیرانی ہوتی ہے کہ کیا ہمارے پاس اب سوچنے اور گفتگو کرنے کے لیے کوئی اور Facultyنہیں رہ گئی۔ کیا ہمارے موضوعات اس ایک موضوع میں ضم ہو چکے ہیں ۔ کیا ہمیں اس ایک مسئلے کے حل کے ساتھ اپنے اپنے مسائل کے حل کی نوید سنا دی گئی ہے۔ایسا تو نہیں کہ ہم اس ایک موضوع کو ڈسکس کرتے ہوئے اپنے اپنے دکھ رو رہے ہوتے ہیں یا اس موضوع میں اپنے اپنے غصے کااظہار کر رہے ہوتے ہیں؟
سرِ شام کبھی دیہاتوں میں بزرگ چوپالوں پر بیٹھ کراپنے دانش کدے کو آباد کر لیا کرتے تھے۔ نوجوان اپنے اردگرد کا سارا ماحول انھی دانش بھری باتوں کے زیرِ سایہ تشکیل دیتے۔ اب تو یہ ہے کہ نوجوان اپنی اپنی چوپالوں (بلکہ ڈیروں)پر بیٹھے بندوقیں تانیں اپنے اپنے پارٹی جھنڈوں کو ہوا دینے پر مامور ہوتے ہیں۔ ہوا چلے نہ چلے اُن کی پارٹی کا جھنڈا ہوا میں لہراتا رہتا ہے۔ اب بزرگ روزانہ اپنی موت کی دعا مانگ کر اُٹھتے ہیں اور شام ہوتے ہی اپنے بستروں میں زندہ مر جاتے ہیں۔یہی کچھ حال شہروں کا ہے۔ بزرگ ایک طرف اب تونوجوانوں نے سیاست کو دلچسپ سرگرمی سمجھتے ہوئے فیشن کے طور پر اپنا لیا ہے۔ اپنی خوبصورت گاڑیوں پر’’ فلیگ سٹیکر‘‘آویزاں کیے جاتے ہیں۔ اور اپنی پارٹی سے وفاداری کے عہد کااظہار ’’الاعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
ننھے منے خوبصورت چہرے اب اپنے سکولوں میں بریک ٹائم برگر کم کھاتے ہیں اور سیاست کو زیادہ موضوع بنائے رکھتے ہیں اور بعض اوقات تو تکرار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سکول کی کینٹینوں کے اندر ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً کوئی ایک پارٹی جیت جاتی ہے۔
ہمارے زندگی کے دیگر شعبے کہاں گئے ہیں، ہر شام ہر چینل پر ہونے والا’ ٹاک شو ‘ صرف سیاست کو ہی موضوع کیوں بناتا ہے۔ سیاست کے علاوہ اگر کسی شعبے کی خبر ہماری زندگیوں کی اہم خبر بنتی ہے تو وہ ’’موت‘‘ ہے۔ ہم سیاست کے علاوہ صرف موت سے چونکتے ہیں۔ دھماکے، فائرنگ، قتل اور بھتہ خوری________یہ ہیں ہماری زندگیوں کی دوسری خبریں۔موت کی خبر ہمیں پریشان کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اب ناکام ہونا بھی سیکھ گئی ہے۔ کیوں کہ ہم اب موت سے بھی نہیں ڈرتے۔ موت ہمارے گھروں ، باورچی خانوں میں آ چکی ہے مگر ہم سیاست کو اپنا سب کچھ سونپ چکے ہیں۔ نجانے کیوں ہم نے سیاست کو ہر ادارے ، ہر فکر اور ہر خواب کا محور بنا دیا ہے؟ عدالت ہو، تعلیمی یا فوجی ادارہ ہو، ہسپتال ہو، کوئی دفتر ہو، یا کوئی عبادت گاہ_____وہاں سے برآمد ہونے والی اہم خبر بھی کسی نہ کسی طرح سیاست سے منسلک ہوتی ہے۔ یا کسی سیاسی لیڈر کی اُس میں شمولیت سے وہ اہم بنی ہو تی ہے۔ عدالت سارا دن اپنا کام کرتی ہے مگرصرف وہی خبر اہم بنتی ہے جس میں سیاست دخل انداز ہوتی ہے۔ہمارے چائے خانے سیاست جیسی بے ڈھنگی ، بے سوداور بے مروّت گفتگو کا تختِ مشق بنتے ہیں مگر کبھی سماج کی کسی روشن خیال فکر کا مرکز نہیں بنے۔
آئیے ہم سوچتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اصل میں پچھلی چند دہائیوں سے اپنے مسائل پر سوچ و چار شروع ہُوا ہے۔ عوام کو اپنے بااختیار ہونے کا ’’گمان‘‘ سا پیدا ہو گیا ہے۔ سوچتے سوچتے جب کسی بھی مسئلے کی تہہ پر پہنچا جائے تو ہر مسئلے کے پیچھے ’’سیاست بازی‘‘ اپنی بازی گری کا تماشا دکھا رہی ہوتی ہے۔ کبھی سیاست خود تماشا گر ہے اور کبھی تماشا گاہ بنی ہوئی ملتی ہے۔ دھیرے دھیرے لوگوں نے اس مسئلے کو تمام مسئلوں سے وابستہ سمجھنا شروع کر دیا اور اُن کے مسائل کا حل بھی اسی ایک مسئلے کے سلجھنے میں نظر آنے لگا۔ ادارے ٹھیک نہیں چل رہے تو سیاست ذمہ دار ہے، ثقافت میں رس نہیں رہا تو سیاست ذمہ دار ہے، دھماکے ہیں تو سیاست کا کیا دھرا ہے۔ تعلیم، ہسپتال اور زندگی کے بنیادی ادارے اپنا کام نہیں کر رہے تو سیاست ہی واحد ادارہ ہے جہاں سے ان کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس کو’’ قومی شعور‘‘ کا نام دے دیا اور سیاست سے وابستہ ہو کر اداروں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔ اب ہر جگہ اسی ایک ادارے’سیاست‘ کی شمولیت نظر آتی ہے۔
مگر ہم نے کچھ زیادہ ہی امید کی لَو جلا رکھی ہے۔ ابھی قافلوں کی گرد کا کہیں پتہ نہیں اور ہم اپنے گھروں سے باہر آ کر بیٹھ گئے ہیں ۔ یہ تو وقت گزاری اور گھر بربادی ہوئی۔ہر مسئلے کا سیاست سے وابستہ کر دینا اور اُس کا حل سیاست سے طلب کرنا بھی حماقت ہے۔ ہمارے بیشتر مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ اور اُن کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے۔بہت سے زندگی کے شعبے ہماری اپنی بھی توجہ مانگ رہے ہوتے ہیں مگر ہم انھیں توجہ کے قابل نہیں سمجھتے۔ ہمارے ماحول میں کچھ حصہ داری ہماری اپنی بھی ہوتی ہے جسے ہم قبول نہیں کر رہے ہوتے۔ ذرا ایک نظر سوچئے؛ کتنے ڈاکٹرز، کتنے پروفیسرز، کتنے انجینئرز مسائل میں پھنستے، ترقی کرتے اور قوم کے لیے اہم خبریں لاتے ہیں مگر وہ کبھی زندگی کا خوشگوار اضافہ نہیں بنتے۔ نہ ہی اُن کی سرگرمیاں ہماری موجودہ زندگی کی رفتار کو کم یا تیز کرتی ہیں۔کسی ادیب کی اہم کتاب، کسی بینکر کی ترقی، کسی معیشت دان کی اعلیٰ سرگرمیاں، کسی طالب علم کی ذہانت اور کسی کسان کی سونا اگلتی مٹی ہماری خبر نہیں بنے گی۔ ہاں کسی ’ٹاک شو‘ میں بس میں بیٹھی ایم پی اے کے ساتھ ’بس ہوسٹس‘ کی تلخ کلامی ’ریڈ ہیڈ لائن‘ بن کر قومی مسئلہ بن کر ڈسکس ہوتی ہے۔یا کسی ماڈل کی منی لانڈرنگ یا کسی سیاست دان کی دوسری شادی کی ناکامی۔ ہاں ہمارے ہاں کرکٹ کی نہایت احمقانہ خبروں کا بھی رواج پڑ گیا ہے۔ یاد رہے کھیل کی خبروں کا نہیں صرف کرکٹ کا۔ کھیل میں ہاکی یا دوسرے درجنوں کھیل ہزارہا جیت کے منار لگا دیں مگر مانگ چوں کہ کرکٹ کی ہے اس لیے خبر صرف کرکٹ کی بنے گی۔ مثلاً ایک کرکٹر کی شادی کی خبر نے کرکٹر کے باتھ روم تک دکھا دئے۔اس لیے کہ کرکٹ کا رتبہ اب سیاسی ہو چکا ہے۔ آپ کوئی بھی اخبار اُٹھالیں آپ کو ملک کی ترقی صرف چند سیاست دان کرتے نظر آئیں گے۔ملک کی تباہی بھی چند سیاست دان نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ آپ کسی بھی کالم پر نظر جمائیں آپ کو سیاست کے بازار میں بکتی اقدار نظر آئیں گی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ سب غلط ہیں یا ایسا تو ہوتا ہی نہیں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ہمیں اپنے اہم شعبوں میں موجود اہم خبروں کو بھی ایک دوسرے تک لانا ہوگا۔ اپنے ٹیلنٹ کو نمایاں کرنا ہوگا۔ ہماری اور بھی تو بہت سی خامیاں ہیں جو اپنے تئیں کسی سیاست سے منسلک نہیں۔ ہم نے بہت سے مسائل کو اسی ایک سیاست سے جوڑ لیا ہے۔ ہم اپنے مسائل کو کب خبر بنائیں گے۔ روزانہ ہمارے ہزارہا شعبوں میں بہت سی اہم خبریں بنتی ہیں مگر ہم نے اُن کو کبھی اہم نہیں سمجھا۔ بہت سے لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہوتے ہیں مگر ہم نے انھیں کبھی اپنی گفتگو کا حصہ نہیں بنایا۔ آئیے اپنے ارد گرد معمولی مگر اہم نوعیت کی خبریں تلاش کریں اور سیاست کو کچھ دیر کے لیے سانس لینے کی آزادی مہیا کریں۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔