لیاقت علی کا سچا جھوٹ

لیاقت علی کا سچا جھوٹ

لیاقت علی کا سچا جھوٹ

تبصرۂِ کتاب از، ضیغم رضا

جھوٹے آدمی کے اعترافات لیاقت علی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ 2008ء میں پلیٹ فارم کے نام سے چَھپا تھا۔ دونوں مجموعوں کے درمیان کم و بیش دس سال کا فاصلہ ہے اور ظاہر ہے اس دوران ہمارا معاشرہ کئی طرح کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تبدیلیوں سے ہم کِنار ہو چکا تھا۔ پرویز مشرف کا جبری دور حکومت ختم ہونے کے بعد دس سالہ جمہوری دورانیہ بہ ظاہر خوش آئند ہے مگر کئی عوامل ایسے ہیں جنہوں نے بہ حیثیت قوم ہمیں شکستگی سے دو چار کیا ہے۔

اس دوران میں کئی اہم سیاسی و سماجی شخصیات اور ہزاروں عام شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ملکی صورتِ حال عجیب دو راہے پہ آ ٹھہری ہے کہ ایک طرف ہم خود دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، تو دوسری طرف عالمی سطح پہ ہمیں بہ طور دہشت گرد متعارف کرایا جاتا ہے۔

آمریت کے بادل بہ ظاہر چَھٹ چکے ہیں، مگر ایک طبقہ اب بھی باقی ہے جو اپنی سماعتوں سے بُوٹُوں کی چاپ ٹکرانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ میڈیائی یلغار نے سانحے کو واقعہ، اور واقعے کو سانِحَہ بنانے کے ایسے حربے ایجاد کر لیے ہیں کہ جو بہ ظاہر نظر آتا ہے وہ عموماً ہوتا نہیں۔ خبروں کی گَرد اس قدر اُڑائی جاتی ہے کہ حقیقی واقعہ کہیں گُم ہو کے رہ جاتا ہے۔ پھر کمرشلزم ہے کہ جس نے رشتوں اور قدروں کو کہیں پیچھے دھکیل کر ترجیحات و مفادات کے پیمانے وضع کر دیے ہیں۔

ان تمام حالات میں اگر کوئی رَویہ جنم لیتا ہے تو وہ اعتباری کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ ہر گز کہیں کہ ہے، نہیں ہے، کا یہ رویہ اب اجتماعی طور پر ہمارے اندر سَرایَت کر چکا ہے۔ ہم جو مَکّے مدینے سے اپنی نسبت گِنواتے آئے ہیں، اب اس رشتے سے بھی تا دیر بندھے رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا، کہ ہمارا خمیر وہاں سے نہیں ہے۔

ہماری زمین کہ جس سے ہمیں اٹھایا جانا ہے، ہم پہ اس قدر تنگ ہے کہ آئے دن ہماری جڑیں مزید اُکھڑتی چلی جا رہی ہیں۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ ایک جھوٹا سچ مان لیا جائے اور اسی کے ساتھ ہی اپنی تمام تر وابستگی کو مُجتَمِع کر کے کم سے کم خود کو تو مطمئن رکھا جائے؛ اور یہی رویہ ہمیں لیاقت علی کے ان افسانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

افسانے کا وہ عنوان جو اس مجموعے کا بھی عنوان ہے ہمارے درج بالا نتیجے سے میل کھاتا نظر آتا ہے۔ اس افسانے کے اختتام پہ کیا گیا اعتراف گویا ہمارا اجتماعی اعتراف ہے:

“وہ اب تک جو کہتا، سنتا اور لکھتا آیا، وہ، وہ نہیں تھا جو وہ کہنا سننا یا لکھنا چاہتا تھا۔ زندگی کے سچ میں سَر گَرداں وہ آج یہ اعتراف کرتا ہے کہ جھوٹ دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔”

یہاں شاید یہ بیان قدرے مایوس کن یا مُبالَغَہ آمیز لگے، مگر ہماری ملکی تاریخ کو اگر مدِ نظر رکھا جائے تو کیا یہ بیان مبنی بَر حقیقت نظر نہیں آتا؟ ہمارا وہ بچہ جس کی تربیت اعلیٰ انسانی قدروں پہ کی جاتی ہے، مذہبی حکایات جس کے لیے مثالی نمونہ ہوتی ہیں، کیا زندگی بھر انہِیں اُصُولوں پہ کار بند رہنا اس کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ اس افسانے کا کردار بھی اس صورتِ حال سے دو چار ہے کہ جس کی دُنیَوی کامیابی کو اس کی نِیت کے ساتھ مشرُوط کر دیا جاتا ہے۔


لائقِ توجُّہ: جنونی ہجوم اورقتل کا تجزیہ و تحلیل (اناٹومی)  از،  آتش تاثیر

خفتہ جسموں میں جاگتی شریانیں  از، نعیم بیگ


موجودہ عہد میں دُنیَوی کامیابی کے جو پیمانے ہیں ان کے بر عکس نیت کا ٹھیک ہونا بے معنی ہو کے رہ جاتا ہے اور ظاہر ہے اس کا نفسیاتی ردِ عمل حد درجہ مایوسی کی صورت ہی سامنے آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہمارے پیشِ نَظَر ہمارے عہد کی ملکی صورتِ حال رہے تو یہ جھوٹ، بہت حد تک سچ لگے گا۔ ذرا ایک نظر “پرچھائیاں”، “گم شدہ لوگ”،گُنبدِ بے در”، اور “مہیب سائے” کو دیکھیے۔ کیا ایسی صورتِ حال میں بے اعتباری و بے یقینی کی فضا با معنی نہیں؟ “گمشدہ لوگ” کا مُتَکَلِّم جو ایک کہانی کار ہے، ایک ایسی کہانی لکھ بیٹھا ہے جس کی وجہ سے اس کا ادبی قد کاٹھ تو بڑھ سکتا ہے مگر اسے خود کا گمشدہ لوگوں میں شمار ہونے کا اندیشہ ہے۔ کہانی ایک ایسے مصور کی ہے جس نے ایک تصویر میں ان لوگوں کے چہرے دکھائے جو دیکھتے ہی دیکھتے کہیں لا پتا ہو گئے۔ اس تصویر کی پاداش میں مصور کو سزائے موت ہو جاتی ہے۔

رمز و کنایہ سے مَملُو یہ کہانی ہمارے ملک کے گمشدہ لوگوں کو موضوع تو بناتی ہے، مگر اس طرح کہ پسینہ افسانہ نگار کے ماتھے سے بہہ رہا ہے۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں سچ کہنا تو موت کو دعوت دینا ہے ہی، اس سچ کے ساتھ جینا بھی مسلسل کرب کا سامان ہے۔ اس کرب کو “پرچھائیاں” اور “گنبد بے در” میں ملاحِظہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر ‘بلڈی سویلینز’ کی اصطلاح استعمال کرنے والے “مہیب سائے” بھی ہیں جو اپنے ہی پیاروں کو خونم خون کر رہے ہیں۔ ایسے میں “مکوڑے” ہیں کہ دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کا سَدِ باب ہم سے ہونے میں نہیں آتا۔

مکوڑوں کے ساتھ رہنے کی عادت بھی ہماری “شناخت” کو مسخ کر رہی ہے سو حیلہ یہی ہے کہ اپنی عصبیت بدلی جائے؛ ایک سچ اگر جھوٹ ثابت ہو جائے تو ایک اور سچ تشکیل دے لیا جائے اور یہی رویہ “گھوڑے” میں سامنے آتا ہے جو کہ قدرے متوازن بھی ہے۔

جنریشن گیپ کے اس دور میں یہ ایک ایسے باپ بیٹے کی کہانی ہے کہ مشترکہ جنون نے جنہیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ مختصر سی اس کہانی میں روز مَرّہ کی تفریح (کرکٹ) کو موضوع بنا کے وسیع منظر نامہ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ میڈیا جو ایسے مواقع پہ سنسنی پھیلانے اور اپنے ہیروز کو قبل اَز وقت فاتح ثابت کرنے کا ہر حیلہ آزماتا ہے؛ عوام کا رد عمل جو شکست کی صورت میں کئی دنوں کی جھلاہٹ کا سبب بنتا ہے اور سب سے اہم بات اپنے بچوں کے سامنے اپنے روشن (کرکٹ کے) ماضی کی تابندگی کو موہُوم ہوتے دیکھنا۔

اگر بات یہاں تک رہتی تو یہ محض ایک معمول کی بات ہوتی جسے سن کے بہ آسانی اُڑایا جا سکتا تھا، مگر معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ یہ اِختصاص لیاقت علی کو ضرور حاصل ہے کہ وہ علامت کو کہانی میں یوں تحلیل کر دیتے ہیں کہ معنویت دُہری تِہری سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ اوپر ذکر کیا تھا کہ اس افسانے میں قدرے متوازن رویہ سامنے آتا ہے اب ذرا اس مکالمے کو دیکھیے:

“یہ تو مسلمان نہیں ہیں تو اللہ ان کا ساتھی کیسے ہو سکتا ہے؟

میں نے اس سے کہا: یار شیگی، اللہ محنت کرنے والوں کا ساتھی ہے۔”

یہاں مجھے بیپسی سدھوا کا یاد گار کردار فریڈی یاد آ رہا ہے کہ جو اپنی غرض اور کامیابی سے بڑھ کر کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں بھی دین و دنیا کے بیچ میں اَٹک کر عموماً دونوں کو اَدُھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس “گھوڑے” میں قطعیت کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنے ماضی کے ہیروز کو مشعلِ راہ مان کر اگر دَنیَوی کامیابی کا حصول ممکن نہیں تو کیوں نہ “گھوڑے” بدل لیے جائیں اور اپنی عصبیت ان “گھوڑوں” کے ساتھ مشروط کر دی جائے کہ جن کا حال روشن ماضی کی گواہی دے سکے، جو ہمیں سر اٹھا کے چلنے کے قابل بنا سکیں۔

صرف اسی افسانے کی نہیں مذکورہ بالا تمام افسانوں میں رمز و علامت کا برتاؤ اس سلیقے سے کیا گیا ہے کہ کہانی ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی۔ یوں یہ مفروضہ دَم توڑ جاتا ہے کہ علامت اور کہانی ایک ساتھ نہیں چل سکتے بس ان کو یک جا کرنے کا ہُنر چاہیے جسے لیاقت علی نے ان افسانوں میں بہ احسن برتا ہے۔