انل ٹھکر فن، شخصیت اور ناول “پس اشک” پر ایک نظر

انل ٹھکر

انل ٹھکر فن، شخصیت اور ناول “پس اشک” پر ایک نظر

از، مہر افروز

انل ٹھکر ایک شخصیت، ایک ہمہ پہلوی دیو ہیکل ادیب، ایک ڈراما نگار، ہدایت کار، اداکار، مصور، افسانہ نگار اور ناول نگار، ایک ناظم مشاعرہ، ایک ایسی ادبی شخصیت جس نے اپنے تن من دھن سے اردو کی آبیاری کی ہے ایک اصل فن کار اور ایک محسن اردو کا نام ہے۔ مگر اتنا ہی عاجز اور غنی ہے۔ ان کو نہ اپنی تحریروں پر فخر ہے اور نہ ہی اس بات کا گمان کہ میں ایک چوٹی کا ادیب ہوں۔

چتر بھوج بھائی جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، ایک ذہین، فطین، اور متین شخصیت کا نام ہے جو اپنی عمر کی ۸۳ بہاریں دیکھ چکی ہے۔
آپکی کہن سال کنچے جیسی آنکھوں نے گجرات کے رن آف کچھ میں جنم لیا، گجرات سے کرناٹک کا رخ کیا، پھر پاکستان پہنچیں، تقسیم کی کربناکیوں کی شاہد و گواہ رہیں۔ پھر واپس اپنے وطن پہنچ کر کیمپس کا نفسا نفسی کا عالم بھی دیکھا۔ پھر واپس کرناٹک پہنچیں جب یہ آنکھیں تنومند اور جوان ہورہی تھیں۔ یہاں کی انگریزی کنڑی اور مرہٹی پڑھنے سے منکر آنکھیں بمبئی اس لیے پہنچیں کہ انہیں اپنی پیاری زبان اردو کی شناسائی میسر ہو۔ بمبئی پہنچیں تو میٹرک کی سند باصرہ نواز ہوئی۔ واپس ہبلی آکر دھارواڑ کی اسکول آف آرٹس میں داخل ہوئیں تو دھارواڑ کی ایک خاتون سے یہ آنکھیں لڑیں جو بعد میں ان کی زندگی بھر کی ساتھی بن گئیں۔ پھر ان آنکھوں نے ہبلی اور اس کے اطراف و اکنآف کی نظارگی کو اپنا مسکن بنا لیا۔

ان کہن سال آنکھوں نے زندگی کے جو تماشے دیکھے ہیں، شاید ہی کسی نے دیکھی ہوں ،کہتے ہیں آنکھیں جو دیکھتی ہیں ،وہ بات اور حالات دل پر اثر پذیر ہوتی ہیں۔ ایک ادیب و قلم کار وہ حساس ذہن رکھتا ہے ،جو آنکھوں کے عکس کو نہ صرف قید کرتا ہے، بلکہ اپنی زبان بیان ،ھاؤ بھاؤ اور رنگوں سے اسے اظہار اور منعکس بھی کرتا ہے۔

انل ٹھکر صاحب کے اظہار کے احساس نے جب بیان کی شکل لی تو مکالمہ بنا،اور ڈرامہ نگاری شروع ہوئی۔ زبان کم پڑگئی تو اداکاری اور ہدایت کاری سے اسے پورا کیا۔ اتنا پورا کیا کہ رسالہ آجکل کا ایک پورا شمارہ آپکی ڈرامہ نگاری کے نام سے موسوم ہوگیا۔
جب ڈرامہ نگاری میں بیان کے پیراۓ کی تنگی محسوس کی تو افسانہ نگاری میں وسعت اظہار کو سمیٹنے کی کوشش کی۔اپنے اندرونی احساس کو رنگوں کی زبان دی تو مصور بن گئے ۔حسن کے اس پر ستار نے جہاں جہاں نئرنگئی حیات اور خوبصورتی دیکھی وہاں اسے اپنے کیمیرے کی آنکھ میں قید کرلیا۔جب ان کے اظہار کی معنویت ،تجربہ کا بیان مزید وسیع ہوگیا تو آپ نے ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔

لیو ٹالسٹائی نے جب “جنگ و امن “ لکھا ہوگا تب اسے بھی اسی احساس نے بیچین رکھا ہوگا۔میکسم گورکی نے جب “ماں “لکھا ہوگا ، تب اس نے بھی یہی محسوس کیا ہوگا۔پریم چند نے جب “گئو دان “کے کینوس کو سوچا ہوگا،، تب انہیں ادب کی ہر صنف کوتاہ لگی ہوگی ۔ان شاہکاروں کو پڑھتے وقت ہمیں محسوس ہوگا کہ ہر بڑے قلمکار کو اپنے اظہار کے احساس کی تکمیل کرنی ہوتی ہے ،تو وہ ناول نگاری کی طرف ہی پلٹتا ہے اور اس کے اظہار کی تان ناول پر ہی آکر ٹوٹتی ہے ۔اور ناول نگاری میں ہی وہ اپنے احساس اظہار کی تکمیلیت کو پاتے ہیں ۔۔انل ٹھکر صاحب خود میری اس بات کی تائید کریں گے کہ انہوں نے اپنے احساس کے اظہار کی تکمیلیت ناول نگاری ہی میں محسوس کی ہے۔
آپ نے کل پانچ ناول تخلیق کیے ہیں:

اوس کی جھیل ۲۰۰۲
خوابوں کی بیساکھیاں ۲۰۰۷
رشتے ۲۰۱۲
گم شدہ شناخت ۲۰۱۴
اور
پس اشک ۲۰۱۷

میں منظر عام پر آچُکے ہیں۔

انل ٹھکر صاحب کی خاص عنایت مجھ پر یہ رہی ہے کہ اپنی ہر تخلیق لے کر ہمیشہ وہ میرے دفتر تک آئے ہیں اور مجھے اپنے دست شفقت سے اپنی تخلیقات سے نوازا ہے ۔اور ہمیشہ میری عزت افزائی کی ہے۔

جب آپ ۲۰۱۳سے لے کر ۲۰۱۷ تک اکادمی کے رکن تھے تو ۲۰۱۶ مئی میں مجھے ان کے گھر جانے کا موقع ملا، اکادمی کا ہی کچھ کام تھا۔تب پس اشک اشاعت کے مراحل میں تھا۔ پس اشک کو لے کر وہ بہت پر امید تھے۔ جس کی بابت انہوں نے بتایا کہ “پس اشک کا موضوع چونکہ حساس اور جلتا ہوا موضوع ہے، پتہ نہیں مسلمان قوم اور اردو کا قاری میرے اس ناول پر کس طرح ردعمل دکھائیں گے اور نہ جانے کیسی پذیرائی کریں گے۔ مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے ناول لکھنے کے تین سال خود کو ہر بری چیز سے پرے رکھا ہے اور یہ تین سال کی معیاد مسلمان بن کر جیا ہوں۔ مسلمانیت کو اپنے اندر اتار کر اسے محسوس کیا ہے ،ایک مسلمان کے موجودہ مسائل کو محسوس کیا ہے ۔پھر اس کے بعد قلم اٹھائی ہے ۔مگر سب سے بڑھ کر مجھے آپکی رائے کا انتظار رہیگا،کیونکہ نہ صرف آپ اسلام کی باریکیوں کو سمجھتی ہیں بلکہ ایک مسلمان عورت کے احساسات اور مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں ،اور حالات سے جوجنے کا حوصلہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں ۔چونکہ پس اشک ،آنسووں کے پس منظر کی کہانی ہے اس لیے میرے  لیے آپکی رائے سب سے زیادہ معتبر رہے گی۔”

پس اشک ناول اسوقت منظر عام پر آیا ہے جب طلاق ثلاثہ کا مسئلہ جلتا ہوا قومی مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ جس پر حتی الامکان سیاست کھیلی جارہی ہے۔اور اسے گرم کیک کی طرح بھنایا، کھایا اور کھلایا جارہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ کئی ایک کی روزی روٹی کا مسئلہ اور کئی ایک ٹی وی چینلز کے چلتے رہنے کا سبب بن گیا ہے۔ ایک اقلیتی قوم کے مذہب ،نام ،ناموس، شریعت اور اقلیتی شناخت کو مجروح اور مسخ کرنے کی کوشیشیں زوروں پر ہیں۔

ایسے قومی اور بین الاقوامی پس منظر میں جناب انل ٹھکر کا ناول پس اشک کی رونمائی اپنے آپ میں ایک جراءت مندانہ اقدام اور قابل رشک تحریک ہے ۔اس ضمن میں میں انل ٹھکر صاحب کی ہمت مردانی، ذکاوت، ذہانت ،متانت ،اور حساسیت کی تعریف کرنا چاہونگی، کہ ایسے دور پر فتن میں جہاں کسی مسلمان قلمکار نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی زحمت نہ کی ہو ،وہاں نہ صرف آپ نے قلم اٹھایا موضوع کو ناول کا محرک بنایا ،اور ایک بہتر حل بھی سمجھانے کی کوشش کی ۔مگر اسطرح کہ مسلمان قوم کے جذبات کہیں مجروح نہ ہوں ۔نہ ہی کسی کے دل آزار ی کا گناہ ان سے سرزد ہوا ۔اسطرح پل صراط سے صحیح سلامت گزرنے کی جرات وہی کرسکتا ہے جو زیرک قلم رکھتا ہو۔انل ٹھکر صاحب کا یہ اقدام نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ اس کی ہمت افزائی کرنا اور انہیں داد و دہش دینا بھی ہمارا فرض اولین بن جاتا ہے ۔
تمام اصناف ادب میں ناول نگاری ،مشاہدہ ،تحقیق،حساسیت ،مسائل زندگی کا عمیق گہرائیوں اور مختلیف جہتوں سے مطالعہ کرنا ،اوراسےسماجی منظر نگاری کے ساتھ کردار کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو سلجھاتے ہوئے ،بہترین مکالمہ نگاری ،مضبوط بیانیہ کو ایسی تحریکی سچائیوں کے ساتھ پیش کرنا ناول نگار کا فرض اولین بنتا ہے ،تاکہ ناول نہ صرف اپنے وقت کی تاریخ کو دامن میں سمیٹ لے بلکہ اسوقت کے حالات ،جغرافیہ ،معیشت ،سماج ،روایات، عقائد ،تہوار ،چلن ،اقدار ،کردار ،کو بھی اسی دیانتداری سے پیش کرے کہ اگر کوئی کھوجی قاری اسوقت کی تاریخ کا تعین کرنا چاہے تو با سلیقہ کرسکے۔

ناول نگار، ناول کے متعین وقت کو جیتا ہے ،محسوس کرتا ہے اسی میں سانس لیتا ہے اور ہوا کی آلودگی ،بدبو ،خوشبو ،خنکی، خشکی، طراوت اور فرحتوں کو محسوس کرتا اور اپنے قلم سے منعکس کرتا ہے ۔انل ٹھکر صاحب نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔
ادب میں صنف ناول وہ بہتی ندی ہے جو اپنے منبع یا مخرج سے آہستہ روی سے نکلتی ہے میدانوں میں صراحت کے ساتھ پھیلتی ہے،چٹانوں کو کاٹتی ہے پہاڑوں سے گرتے ہوئے شور مچاتے آبشار بناتی ہے ،پھر اپنے ساتھ وقت کے خس وخاشاک کو بہاتے ہوئے اپنے اطراف و اکناف کو صاف کرتی ہے اور پھر ساگر میں جاکر خود کو زم کر دیتی ہے۔

انل ٹھکر کا ناول پس اشک ڈانڈیلی شہر کے مضافاتی جنگلات میں جنمی کالی ندی کی طرح ناول کے کردار نغمہ سے شروع ہوتا ہے ۔برساتی نالے کی طرح منہ زور الہڑ لڑکی نغمہ، جو ناول کی ہیروئین ہے اس کی پہلی جھلک ہمیں ناول کے ابتداءً میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔۔لڑکی کی پڑھائی ،لڑکی کے پڑھنے کے مسایئل ،سماج کا بیانیہ اور اس کے مسایئل اور ظمنی کرداروں کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے ۔ناول کا سن ۱۹۴۶ کے آس پاس کا ہے ۔لڑکی اور اس کے ماں باپ کی ہجرتوں کے ساتھ تقسیم کا نوحہ ،اور ہجرتوں کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لڑکی ہبلی پہنچ کر کسی طرح میٹرک پاس کر لیتی ہے ۔

ادھر ادھر کے ضمنی واقعات کے ساتھ کچھ اور کردار سامنے آتے ہیں ۔ وقت کی روایات لڑکی کی تعلیمی خواہش پر بھاری پڑتی ہیں ،پھر اس کا نکاح اس کے آوارہ ماموں زاد کے ساتھ طے پاتا ہے جو پہلے ہی اپنے ڈھیلے کردار کی وجہ سے نغمہ سے گالیاں کھاچکاہوتا ہے ۔جس کا زہر اپنے دل میں پالے رکھتا ہے۔ پھر اس کی زندگی جہنم زار بن جاتی ہے ۔سسرال میں خود کو زم کرنے کی کوشش کرتی ہے ،مگر پہ در پہ واقعات اور حالات اور مناظر اتنی تیزی سے بدلتے ہیں،، کہ وہ سسرال میں جم نہیں پاتی اور ایک دن نشے کی حالات میں اختر اس کا شوہر بیک وقت طلاق ثلاثہ دے دیتا ہے ،جبکہ اس کی ماں بھی اسے روکنے میں ناکام ہوجاتی ہے ۔نغمہ طلاق کا داغ لے کر میکے میں آجاتی ہے۔

وقتی مایوسیاں، اسے بھی شرمسار رکھتی ہیں۔ پھر حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئےخود کو نئے سرے سے،سمیٹ کر والد کی پشت پناہی سے ،دوبارہ پڑھائی شروع کر دیتی ہے، حتی کہ کرناٹک میڈیکل کالج ہبلی سے ،اپنی میڈیکل کی پڑھائی پوری کر لیتی ہے اور ڈاکٹر بن جاتی ہے۔ دوران تعلیم گلبرگہ کا ایک ہم مکتب اس سے متاثر ہوتا ہے، رشتہ بھی دینے کا ارادہ کرتا ہے، مگر نغمہ منع کر دیتی ہے کہ وہ طلاق یافتہ ہے ۔اور خود ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم سے اپنی پیشہ روانہ تحریک شروع کرتے ہوئے، خو د کو خدمت خلق کے  لیے وقف کر دیتی ہے ۔اور ہبلی کی پہلی مسلم لیڈی ڈاکٹر بن کر مسلم سماج اور طلاق یافتہ لڑکیوں کے  لیے نظیر اور مثال بن جاتی ہے ۔
ناول کا کلائمیکس کچھ یوں ہے ،کہ اس کا وہ ماموں زاد سابقہ شوہر جنسی بے راہ روی کی وجہ کسی شدید قسم کی جنسی بیماری کا شکار ہوکر ،بہت تشویش ناک حالت میں اسی ہسپتال میں آتا ہے اور یہ جانے بنا کہ وہی اس کی سابقہ طلاق یافتہ زوجہ ہے ،اس کی تیمار داری لے کر کچھ ہی گھنٹوں میں اس جہان فانی سے رخصت لیتا ہے۔

حالانکہ طلاق کی وجہ دونوں میں کوئی شرعی رشتہ نہیں ہے ،مگر دل کے وہ رشتے جو ایک بار وابستہ ہوجایئں ،تو بس ہوجاتے ہیں،۔وہ پھر سے کسک کی چٹکی لیتے ہیں ،اور وہ میت سے دور ہٹ کر کھڑکی سے لگی کھڑی آنسو بہار ہی ہوتی ہے ۔۔”عورت آخر عورت ہوتی ہے “ وہ اپنے پہلی چھوون کے احساس کو نہیں بھولتی اور یہی احساس بھی اسے رلا رہا ہوتا ہے ۔۔ناول یہاں ختم ہوجاتا ہے ۔
کالی ندی ڈانڈیلی سے بہتی ہوئی ،پہاڑوں ،چٹانوں ،اور گھاٹیوں، سے گزرتی ہوئی ،وقت کے خاشاک سمیٹی ،پہاڑوں سے ٹکراتی ،خدمت خلق کے سمندر میں جا ملتی ہے۔

ہیئت

جدیدیت نے بیانیہ ناولوں کا رواج تقریباً ختم کردیا ہے ۔ترقی پسند تحریک نے جس بیانیہ ناول کو جنم دیا تھا، وہ اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ ایسے میں انل ٹھکر کا واپس سے بیانیہ ناول کو فوقیت دے کر پوری قوت ، سے اسے دوبارہ تحریک دینا اپنے آپ میں ایک قابل قدر اقدام ہے۔

بیانیہ اتنا کسا ہوا اور خوبصورت ہے ،کہ کہیں بھی ناول میں جھول دکھائی نہیں دیتا نہ بیانیہ بوجھل محسوس ہوتا ہے ۔بیانیہ اتنا خوبصورت ہے کہ بیساختہ واہ نکلتی ہے۔

بیانیہ کی کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

خالق کائنات نے جب سب سے حیرت انگیز چیز بنانے کی سوچی ہوگی تو اس نے انسان اور شیطان پر وقت کو ترجیح دی ہوگی ۔وقت کو پیدا کرتے وقت ہی اس سے کہا ہوگا۔”میری کائنات کے اختتام تک تیرا وجود قائم و دائم رہیگا۔تو کبھی رکے گا نہیں ۔چلتا ہی رہیگا ۔ماہ و سال اور صدیوں سے بے نیاز ۔ کئی، دور آیئں گے اور گزر جایئں گے ۔حکومتیں بنیں گی اور نیست و نابود ہوجایئں گی ۔پیر ،اولیا ء سادھو ،سنت اور ویر سورما پیدا ہوں گے ،اور موت کی آغوش میں سو جایئں گے ۔جو بھی آئیگا،اسے لوٹنا ہی ہوگا۔سوا تیرے ۔تیرا کام ہوگا ،صرف دیکھنا ،دخل دینا نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بیانیہ نہیں کسی سنت پیر فقیر کی وانی بول رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔آگے بڑھتے بڑھتے وقت کو خیال آیا ۔یہ میرا آقا بھی عجیب ہے ،،مجھے کہہ دیا تجھے چلتے رہنا ہے۔ آنکھیں موند کر تو چل نہیں سکتا ۔آنکھیں کھلی رکھتا ہوں تو اس دنیا میں کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ میرا آقا،ان ہی کو کیوں زیادہ آزماتا ہے جو اس کی بتائی ہوئی راہ پر بے چوںو چرا چلتے ہیں ۔واہ رے اللہ ۔تیری قدرت کا تماشہ نرالا ہے ،تیرے دل کی کس نے جانی ہے ،،،یہ بیانیہ نہ ہوکر مکالمہ بن گیا ہے جو وقت ایک کردار کے طور پر خود سے خود کلامی کر رہا ہے ،اور کہانی آگے بڑھ رہی ہے ۔ (پس اشک صفحہ نمبر 161,162’163)۔

ہرے سانپ کی مانند لیٹی پگڈنڈی، اس کے ایک طرف گنجان جنگل سے لدا ٹیلہ ،دوسری جانب ڈھلان کو مس کرکے بہتا دریا۔ دریا کا پانی چھوٹی بڑی چٹانوں کا بوسہ لیتے ہوے اپنی دھن میں گنگناتے ہوئے ہچکولے لیتا رواں تھا۔ پیڑوں پر پرندوں نے چہچہاتے ہوے ماحول کو اپنے سر پہ اٹھا رکھا تھا۔ کچھ پرواز کر کے تھے ،باقی تیاری میں تھے ۔ہفتہ کا دن تھا ،وہ قلانچیں بھرتی ہوئی اسکول جارہی تھی ۔پگڈنڈی کے کنارے اوس میں نہائی نم گھاس،اس کی گوری پنڈلیوں اور فراک کو گیلا کر رہی تھی۔جس کی خنکی سے گاہ بہ گاہ وہ کپکپاہٹ محسوس کررہی تھی ۔(پس اشک صفحہ نمبر 6).
مکان کے پچھواڑے میں چند قدموں کے فاصلے پر دریا ،عاشقی کی روایت کو تکمیل تک پہنچانے ،سمندر کی جانب تیزی سے بھاگا جارہا تھا۔پانی کی تیز دھارے کی کشش انہیں دریا کنارے لے آئی۔وہ ٹخنوں تک پانی میں اتر کر تازگی کا لطف لینے لگے ۔دریا کے سامنے کنارے گھنے جنگل کی ہریالی دیکھ کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچی ۔انہوں نے سوچا انسان کی فطرت بھی عجیب ہے،عجیب و غریب نام تجویز کرتے رہتا ہے ،کسی مفلس کا بیٹا دھن راج کہلاتا ہے،کسی نابینا کو نین سکھ کے نام سے نوازا جاتا رہتا ہے،اس نے دریا تک کو نہیں بخشا،اتنا صاف شفاف میٹھا پانی  لیے بہتے دریا کو کالی ندی کا نام دیدیا”————- پس شک صفحہ نمبر 29
اندھیرا وقت سے قبل اتر آیا تھا، دور افق پر برق رہ رہ کر حملہ کی تیاری کا اعلان کررہی تھی ۔ہلکی ہلکی گڑگڑاہٹ سر میں سر ملا رہی تھی ۔گنجان جنگل کا علاقہ شروع ہوا۔کھیت کھلیان پیچھے رہ گئے ۔سڑک کے پیچ و خم بڑھ گئے ۔بل کھاتی سڑک کے موڑ کو بڑی پھرتی سے کاٹتا ہوا سکھو ندرجیپ کو آگے بڑھا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔سکھواندر ،سامنے کا طلسمی نظارہ دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔اس کی عقل جواب دے گئی۔یہ کیسے ممکن ہے ۔۔اس نے اشتیاق سے اوپر آسمان کی جانب دیکھا،وہاں بھی وہی نظارہ تھا۔نہ آسماں نظر آیا نہ پیڑ پودے،جہاں دیکھو وہاں صرف اور صرف جگنو ہی جھلملاتے نظر آئے ۔سکھ اندر نے جیپ کی ہیڈ لائیٹس بند کردی۔اس نے محسوس کیا جیسے آسمان سے کہکشاں اس جنگل میں اتر آئی ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔،پس اشک صفحہ نمبر 74
یہ ناول کا آخری منظر اور بیانیہ ہے
ڈاکٹر کے جانے کے بعد نرس مریضوں کو دوا اور ٹیکہ لگانے دوسرے وارڈ میں چلی گئی،اختر کے کمرے میں سناٹا طاری ہوگیا ۔نغمہ اس کے قریب کرسی پر بیٹھی اس کے ہوش میں آنے کی دعا مانگ رہی تھی۔دعا سے فارغ ہوئی تو اس نے سوچنا چاہا،مگر اس کی سوچ کند ہو چکی تھی ۔نہ وہ ماضی کے بارے میں سوچ پارہی تھی اور نہ حال پر غور کرنے کی سکت اس میں باقی تھی۔وہ تو اختر کے ہوش میں آنے کے انتظار میں اشکوں کے دئے جلائے بیٹھی تھی۔
نصف شب گزرنے کے بعد نغمہ نے محسوس کیا اختر کی نبض ڈوب رہی ہے دھڑکنوں دھیمی پڑ رہی ہیں ۔اس نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابقانجیکشن لگایا۔کچھ لمحات کے بعد اس نے دیکھا،اختر کا سانس الٹا چلنے لگا ہے ۔نجمہ کی امیدیں ہچکیاں لینے لگیں ۔وہ اختر کی نبض ٹٹولنے لگی۔تبھی ہلکے سے مریض نے سانس چھوڑ دیا اور زندگی سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا ۔نغمہ اور نرس نے اس کی دھڑکنوں کو پھر سے حرکت میں لانے کی بھر پور کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔نرس ڈاکٹر کو فون کرنے لپکی ۔نغمہ نے عالم مجبوری میں اپنے ہتھیار ڈال کر اختر کے جسم پر پاؤں سے سر تک چادر ڈال دی ۔وہ اپنے بے بس شکستہ کوششوں کو سمیٹ کر کھڑکی کے پاس آئی باہر سیاہ آسمان میں تارے جھلکیاں لیتے نظر آئے ،جنھیں دیکھ کر نغمہ کے ادھورے رشتے کا درد اس کی پلکوں دیوڑھی پر آکرٹھٹک گیا۔اشک کے وہ قطرے اس کے خوابوں کی تربیت پر بکھرنے تھرتھرا اٹھے “پس اشک صفحہ نمبر 360.
ناول کا کوئی جملہ بیانیہ کا کوئی انداز بھرتی کا نہیں ہے ۔ہر جملہ دوسرے جملے کی پیروی کرتا ہے ،اور ناول کے تانے بانے کو مکمل کرتا ہے ۔۔ناول کے بیانیہ کے ساتھ کہانی کا تسلسل آگے بڑھتا ہے ۔ناول کا بیانیہ اتنا جاندار ہے کہ قاری کے ذہن میں فلم سی چلتی ہے ،اور وہ اپنے تخیل میں اسی ماحول سے گزرتا ہے اور اسی دور میں جیتا محسوس کرتا ہے جس سے ناول نگار گزارنا اور محسوس کروانا چاہتا ہے ۔
بہترین ناول وہ ہے جو اپنے زمانے کی تاریخ جیتا ہے1946کے الناور کی منظر کشی ہو یا کہ ڈانڈیلی کے جنگلات کی منظر کشی ،جگنوؤں کی کہکشاں ، بارش کی منظر کشی ،فیکٹریوں کا بننا ،جنگلات کا کٹنا،،جنگلی جانوروں کا گاؤں میں در آنا ،سدی قبیلے کی آبادکاری ،انگریزوں کا شکاری عیاشیاں کرنا اور ماحول کی فسوں کاریاں اتنی حقیقی ہیں، کہ بیانیہ ناول کو حقیقت نگاری کے قریب لے جاتا ہے۔

مکالمہ نگاری
مکالمہ نگاری میں انل ٹھکر صاحب ید طولٰی رکھتے ہیں ۔چونکہ انہوں نے اپنے ادبی سفر کی ابتداءً بطور ڈرامہ نگار کی تھی، تو ان کی مکالمہ نگاری میں یہ وصف ،بہترین صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کچھ مکالمے دیکھیں
“جنگل اسی طرح کٹتے رہے ،تو سب جانور آدم خور ہوجایئں گے “یہ مکالمہ زمان و مکان کی قید سے اوپر اٹھ گیا ہے۔ یہ ایک آواز اور تنبیہہ ہے جو ایک نیچر لسٹ یہاں بول رہا ہے ۔
“بیٹا یہ تو تمہاری جنگ کی ابتداءً ہے۔ برق اعلان کررہی ہے ،یہ کتابیں جنگ کا ہتھیار ہیں ،برستا آسمان تمہاری حوصلہ افزائی کررہا ہے ،اور تمہیں یہ جنگ جیتنی ہے “یہ مرزا صاحب کی زبان سے ادا شدہ نہ صرف مکالمہ ہے، بلکہ ایک طرح کی پیشن گوئی ہے ۔ان واقعات کی جو کہ آئندہ ناول میں وقوع پذیر ہونگے ۔ باپ کی آواز بیٹی کے مستقبل کی نشاندہی کررہی ،جو کہ واقعی آگے چل کر جنگ ثابت ہوتی ہے۔
“حوصلہ ہارنے سے جنگ نہیں جیتی جاتی “یہ مکالمہ بھی زمان و مکان کی قید سے اوپر اٹھ گیا ہے اور مکالمہ نہ ہوکر سنہری قول بن گیا ہے ۔

کردار نگاری ۔۔
ناول چونکہ ایک عہد اور زندگی جیتا ہے ،اس میں آنے جانے والے کردار تو بہت ہوتے ہیں ،مگر اہم کردار وہ ہیں جنکی گرد ناول بنا جاتا ہے ۔
ناول کا سب سے اہم کردار نغمہ ہے ،جو اپنی زندگی جیتی ہے ۔جیسی آتی ہے قبول کرتی ہے ۔مگر اپنے عزم ،حوصلے اور تعلیم سے حالات کا رخ بھی موڑتی ہے ۔یہ ایک ہمہ پہلوی کردار ہے،جس میں نسائی نرمی،چھوئی موئی پن،نزاکت ،شرم ،حیا،پاکیزگی ،اخلاق ،نفاست ،ذہانت بدرجہء اُتم موجود ہیں ۔وہ والدین کی فرمانبردار بیٹی ،سہیل کی محبی آپا،نانا نانی کی لاڈلی نواسی ،ذہین طالبہ ہوکر اختر کی بیوی ،محض اس لیے بننا قبول کرتی ہے ،کہ وہ اس کے بڑوں کی خواہش تھی۔بیوی بن کر شوہر کی وفا شعاری ،خدمت، اپنا فرض سمجھتی ہے ۔ساس سسر کی اچھی بہو ،اور چھوٹے دیور اور نند کی بہت اچھی بھابی بن جاتی ہے ۔اختر جو اس کے ایک پچھلے رویہ کی وجہ سے ناراض تھا اور جس کا بدلہ لینا چاہتا تھا ،اس کے ہر ظلم کو اسوقت تک برداشت کرتی ہے ،جب تک کہ طلاق نہیں ہوجاتی ۔اس کے بعد نغمہ کی قوت فیصلہ ،چٹانوں جیسا حوصلہ ،اور اس کے پختہ کردار کی استقامت کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے ۔جب وہ حالات سے ابھر کر اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے ،اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جاتی ہے ۔ناول نگار کا فن وہاں ابھر کر آتا ہے جب وہ نغمہ کی ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ،اس کے اندر کی نفسیاتی کشمکش ،اس کی خود کلامی،اس کی سوچ اور اندرونی احساسات کو اجاگر کرتے ہیں ۔نغمہ کا کردار ہمارے مسلم سماج کا ایک جیتا جاگتا کردار جو کہ مسلمان قوم کی ایک مثالی بیٹی کا ہوسکتا ہے ۔یہ کردار اتنا جیتا جاگتا خود کو محسوس کرواتا ہے کہ ہمارے چند معدو دے نسائی کرداروں میں سے ایک ہے جن کو صدیوں تک یاد رکھا جایئگا۔جیسے کے امراؤ جان ادا کا کردار یاد رکھا گیا ہے ۔یہ ناول کا مرکزی اور لیڈنگ کردار ہے جس کے اطراف ناول کی کہانی گردش کرتی ہے ۔یہ اردو ادب کے زندہ جاوید کرداروں میں سے ایک کردار ہوگا۔
دوسرا کردار مرزا صاحب کا ہے جو نغمہ کے ہیں ۔یہ ایک دیانتدار معلم ہے جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور تعلیم نسواں کا حامی اور روشن خیال کردار ہے ۔یہ حالات کو بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں مگر جب حالات بدل نہیں سکتے تو ملازمت کو ترک کرتے ہوئے اپنے سسر دیوان صاحب کی طب کو سیکھ کر اپنا گزر بسر چلاتے ہیں بلکہ عوام آلناس کی خدمت کازرئعہ بھی بنتے ہیں ہر حال میں حوصلہ قائم رکھنے مثبت سوچ رکھنے والی یہ شخصیت اپنی بیٹی کی ڈھال اور پشت پناہ ثابت ہوتی ہے جن کی بنیاد پر ایک شکستہ لڑکی اپنے حوصلے بٹورنے اور نئے سرے سے جینے کے حوصلے سمیٹ لیتی ہے ۔یہ مثالی کردار مسلم سماج کے ان ستونوں کا ہے جنہوں نے تعلیم نسواں کے  لیے راہ ہموار کی اور جہاں راہ نہ ملی وہاں چٹانوں جیسی روایات کو توڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں ۔یہ کردار عرصہ ء دراز تک یاد رکھا جایئگا۔
دیوان صاحب جو نغمہ کے نانا ،مرزا صاحب کے سسر ہیں ،ایک نیک انسان اور پیشے سے حکیم ہیں۔ ان کی ہر قدم قدم پر مرزا صاحب کی راہنمائی کرنا اور نغمہ کی پشت پناہی کرنا یہ دکھاتا ہے کہ وہ ایک نیک انسان اور مثبت سوچ کا حامل انسان ہے ۔وہیں وہ عطاء اللہ جیسے عیار عیاش اور ابن الوقت انسان کے والد بھی ہیں۔ ان کی ہمراہی اور تربیت جہاں داماد مرزا صاحب کو ایک کارآمد انسان بناتی ہے وہیں ان کی عدم توجہی اور گھر سے غیر موجودگی عطا اللہ کے کردار میں کج روی بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ کبھی کبھی سوالیہ نشان بھی پیدا کرتا ہے ۔ مگر یہ سچ کے نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی باپ کی ہمراہی میں گمراہ ہی رہا ۔بحر حال یہ ایک فلیٹ کیریکٹر ہے جو نیکی کا پیکر روایتوں کا امین اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے والا کردار ہے ۔
چوتھا کردار نغمہ کی نانی بی اماں کا کردار ہے جو مسلم سماج کی روایتی دادی اور نانی کا ہوسکتا ہے ، جو ہماری گذشتہ کچھ دہائیوں کے مسلم گھرانوں کا خاصہ تھیں ۔روایتوں کی امین اور پاسدار جن کو مذہب کی کوئی شق توڑ نہیں سکتی عورت کی تعلیم کے خلاف ذہنیت ،جو یہ سوچتی تھیں کہ عورت امور خانہ داری میں طاق ہو اور بالغ ہوتے ہی جس کی جتنی جلد شادی کردی جائے اسی میں عافیت سمجھنے والی دبنگ نانی اور دادی جس سے اہل خانہ مرعوب رہتے ہیں جو اپنی روایتوں میں جیتی اور دوسروں کو بھی جینے پر مجبور کرتی ہیں ۔
رابعہ جو نغمہ کی امی ہے دیوان صاحب کی اکلوتی بیٹی عطاء اللہ کی بہن ہے ساتویں کلاس تک پڑھی لکھی ہے ،نیکی کا پرتو ہے ،کم گو سمجھدار خاتون خانہ فرماؤں بردار بیوی اور شفیق محبت کرنے والی ماں ہے جسے تعلیم کی اہمیت کا کم اندازہ ہے ،مگر حالات کے ساتھ بدلنا اور سمجھوتہ کرنا جانتی ہے نغمہ کی پرورش میں اس کا اچھا خاصہ ہاتھ ہے جو ہر گھڑی بچی کو سمیٹ لیتی ہے۔
عطا ء اللہ رابعہ کے واحد بھائی دیوان صاحب کے اکلوتے فرزند ہیں ۔جو ہبلی کے ماحول میں وکالت سیکھ کر بڑے ہوئے ہیں ۔گھر کی خوش حال مالی حالات نے ان کو فراغت دی ہے جو تعلیم کے ساتھ دنیاداری بھی بہت جلد سیکھ لیتے ہیں ۔یہ نغمہ کے ماموں اور سسر بھی ہیں ۔جوبدلتے زمانے کی وہ تصویر ہیں ،جہاں روایات اور اقدار دم توڑ رہی ہیں ،اور مادیت پرستی Materialism ہماری زندگیوں میں داخل ہورہا ہے جس نے جوائینٹ فیمیلی کی روایت کو ختم کیا اور جو شخصی آرام دہ زندگی کو ترجیح دیتا ہے جہاں ایثار نے دم توڑا اور خودغرضیاں نے راہ پائی ۔عطاء اللہ شخصی دولت مندی اور ذخیرہ اندازی پر یقین رکھنے والا ایک سازشی ذہن ہے جسے حرام حلال کی تمیز نہیں ہے ،جو شراب پینا برا نہیں سمجھتا ۔یہ بھی ایک ہمہ رضی کردار ہے جو حالات کے ساتھ اپنا پہلو بدلتا ہے اور اپنے بیٹے کی عیاشیاں کی جسے قطعی پرواہ نہیں ہے اور جو اس کی برائیوں پر پردہ ڈال کر طلاق کے بعد نغمہ کو چپ چاپ اس کی گلی میں رات کے وقت اکیلا چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر لیتا ہے ابن الوقتی کی اپنی مثال آپ ہے۔

ایک اور کردار میمونہ کا ہے۔ میمونہ عطاء اللہ کی بیوی اختر کی ماں ،نغمہ کی ممانی اور ساس ہے چار بچوں کی ماں ایک خوش حال وکیل کی بیوی اور ایک روایتی خاندان کی چالاک بہو ،ابن الوقتی میں شوہر کے ہم پلہ اور خود فرضی میں سب سے آگے ۔اپنی ذاتی مقاصد کے  لیے نغمہ کو اپنی بہو بناتی ہے ،اپنے گھر کی ذمہ داری بھی سونپتی ہے ،اور اپنے بیٹے کے ہر عیب کی پردہ پوشی کرتی ہے ۔جب نغمہ شراب کی بو کی وجہ سے قے کرتی ہے تو وہ اس کے کردار پر شک کرتی ہے ۔مگر طلاق کے وقت اپنے بیٹے کو اپنے دودھ کا واسطہ دیکر روکنے کی بھی کوشش کرتی ہے جوکہ ناکام ہوتی ہے اور اسی کی گواہی میں اختر نغمہ کو طلاق دیدینا ہے جسے نغمہ بادل ناخواستہ قبول کرتی ہے اور جب نغمہ گھر جانے کی بات کرتی ہے تو وہ اور اس کا شوہر اسے گلی کے نکڑ پر چھوڑ کر منہ چھپائے واپسی کی راہ لیتے ہیں ،ایک ایسا منفی کردار جو منافقانہ ذہنیت رکھتا ہے اس کو ڈھالنے کے  لیے انل صاحب نے کافی محنت کی ہے جس سے ناول کے اندر مثبت کرداروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ناول کا آخری اہم کردار وہ اختر کا ہے۔ اختر نغمہ کا ماموں زاد اور شوہر ہے جو لڑکپن سے آوراگی سگریٹ نوشی کا شکار بن جاتا ہے ۔باپ کی دولت اسے بری راہ پر ڈال دیتی ہے اس کی اپنی ذات اس بات کا ثبوت بن جاتی ہے کہ جب دو سازشی ذہن و جسم مل جاتے ہیں تو کیسی اولاد پیدا ہوتی ہے۔

حرام کی کمائی اور اچھی پرورش کی کمی اولاد کو کس روش پر لے جاتی ہے۔ جب والدین اپنی ذاتی عیاشی اور آرام کو ترجیح دیتے ہیں اولاد کس طرح کی بے راہ روی اختیار کرتی ہے ۔اختر کہانی کا اصل ویلن اور ضمنی ہیرو بھی ہے جس کے ساتھ ہیروئن اپنے کچھ اچھے لمحے گزارتی ہے جو اس کے مستقل دکھ کاسب بنتے ہیں ۔اس لیے اس کردار کو ہم Heroic Villain کا نام دے سکتے ہیں۔ اس قسم کے کردار کو انل صاحب کے کردار نے کمال خوبصورتی سے تراش ہے یہ بھی ایک ہمہ جہتی کردار ہے جو سماج کے بدلتے تیوروں کو جتاتا ہے۔

لڑکپن کا بگاڑ کس طرح ایک لڑکے کو اس کے برے انجام تک پہنچاتا ہے وہ اس کردار کے زریعہ انل صاحب نے درشانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ایک برا کردار نہ صرف خود برے انجام سے دو آر ہوتا ہے بلکہ اپنے رویوں سے بہت ساروں کی زندگی برباد کرتے ہوئے اپنے سماج پر گہرے ناسور چھوڑ جاتا ہے ۔ان ساری منفی عادتوں کا یہ کردار بھی یاد رہ جانے والا ہے۔

پلاٹ

پس اشک ناول کا پلاٹ کس کر گوندھا اور بنا گیا ہے ۔کہانی کہاں سے شروع ہوئی ،کہاں سے گزری ،کہاں جاپہنچی ،کہاں سے واپس لپٹی اور کس طرح اختتام پذیر ہوئی ،اس کو جاننے کا تجسس قاری کے ذہن میاں پنجے گاڑ دیتا ہے ۔سبک و چست بیانیہ ،حالات و واقعات کو جوڑنے کی فنکارانہ چابکدستی اور منظر نگاری ،و کرداروں کی آپسی رگڑ اور ذہنی کشمکش اور خو کلامی نے ناول کے بیانیہ کو کہیں بھی بوجھل نہیں ہونے دیا ۔یہ نہ تو جاسوسی ناول ہے ،نہ رومانوی ناول ۔یہ تو ایک خالص ادبی ناول ہے جسے میں نے صرف تین قراءتوں میں مکمل کیا ہے ۔اور کہیں بھی مجھے اپنی طبیعت پر پڑھنے کے  لیے جبر کرنا نہیں پڑا۔ناول کے بیانیہ کو پر اثر بنانے کے  لیے انل صاحب نے شعور کی رو والی اور فلیش بیک تکنیک کا بھر پور طریقہ سے استعمال کیا ہے۔

یہ ناول ایک تانیثی مسئلہ پر لکھا گیا تانیثی ناول ہے جو ایک مرد نے لکھا ہے ۔فیمینسٹ تحریک عورتوں نے شروع کی تھی مگر کچھ مرد قلمکاروں اس کے  لیے اتنے اچھے شاہکار لکھے کہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ جناب انل ٹھکر ان تاریخ ساز ادیبوں کی فہرست میں اپنا نام داخل کر کے ۔ایک مرد ہوکر ایک عورت کے کردار اور اس کے اندرون کی عکاسی آپ نے اتنے اچھے انداز میں کی کہ یہ کامیابی واقعی قابل ستائش ہے۔
اس کے علاوہ انل ٹھکر صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک نیچر لسٹ ہیں، ایک مصلح سماج ہیں ۔ایک قلمکار ایسا جو اپنی قلم کو ہتھیار بنا کر سماجی برایئوں سے لڑنے والا ایک فنکارانہ خدائی فوجدار بھی ہیں۔

یہ ناول اتنا مثالی ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی میں نصابی مثالی ناول کے طور پر لگایا جاسکتا ہے ۔جو ناول کی ہیں، تیکنک ،پلاٹنگ ،مکالمہ نگاری اور کردار نگاری کے بیانیہ پر کھرا اتر سکتا ہے۔

مسلم سماج کے طلاق ثلاثہ کے مسئلے کو اٹھا کر اس کے مابعد انسانی زندگیوں پر اثرات کو در آتے ہوئے اس کے حل کولڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور خودکفیلی بتایا ہے ۔انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ انسانی رشتوں کی بقا کے  لیے نوجوانوں کی کردار سازی ،اخلاق کا بنانا کس قدر اہم ہے ۔انسان کا ذاتی حسن سلوک اور آپسی برتاؤ ایک دوسرے کے حقوق کی تکریم اور تحریم دنیاوی دولت سے زیادہ اہم ہے ۔اس موضوع پر قلم اٹھا کر انل صاحب نے نہ صرف سماج کو آئینہ دکھایا ہے بلکہ مشعل راہ بھی دی ہے ۔کہ طلاق ثلاثہ کا حل کیا ہوسکتا ہے۔ آج حکومت اور سیاست اس مسئلے کو ہوا بنا کر قانون سازی کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ اس کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ بھی مارا ہے کہ طلاق ثلاثہ کابل قانون سازی نہیں بلکہ نوجوانوں کی اخلاق و کردار سازی میں مضمر ہے ۔
میں انل صاحب کو تمام مسلمان ماموؤں بہنوں اور بیٹیوں کی جانب سے عقیدت مندانہ سلام پیش کرتی ہوں ،اور بہ حیثیت کم مایہ ادیبہ اپنی بھیگی پلکوں سے ان کی قدم بوسی کرتی ہوں۔ دعا ہے اللہ ان کی عمر دراز کرے اور ان کے قلم کو ہمیشہ جوان رکھے کُہ آپ سماج کے کئی اور ناسوروں پر اپنی قلم نشتر زین کرتے رہیں۔

ناول کا سر ورق انل صاحب کی اپنی پینٹنگ کا عکس ہے ،ناول کی قیمت چارسو روپیہ ہے جسے ماڈرن پبلشنگ ہاؤس نمبر ۹-گولا مارکیٹ ،دریا گنج ،نئی دلی ادارے نے نشر و اشاعت کیا ہے ۔ناول سابق چیر پرسن کرناٹک اردو اکادمی محترمہ مرحومہ ڈاکٹر فوزیہ چودھری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔