بھیانک خوابوں اور سانحات کی کتھائیں : نعیم بیگ کا ناول، ڈئیوس، علی اور دیا

بھیانک خوابوں اور سانحات کی کتھائیں

بھیانک خوابوں اور سانحات کی کتھائیں : نعیم بیگ کا ناول، ڈئیوس، علی اور دیا

تبصرۂِ کتاب از، احمد سہیل

نعیم بیگ کا ناول ’ڈئیوس، علی اور دیا‘ اردو کا ایک ایسا ناول ہے، جس میں فرد اور معاشرت کے خمیر کی بو ذرا مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا رزم نامہ جس میں انسانوں کی بے بسی، پیچیدگیاں، نوحہ خوانی اور آہ و زاری خاموشی میں بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے، جس میں محسوسات سے ہی ناول کے راوی نے متوازن طور پر اپنے قاری کو کمال ہوشیاری اور فطانت سے بالخصوص پاکستانی معاشرت کی وہ کڑوی گولی کھلا دی ہے جو اس سے ہضم نہیں ہو رہی ہے، یہی اس ناول کا ابلاغی بیانیہ بھی ہے۔

یہ ناول بنیادی طور پر ایک رومانی کہانی ہے جس میں سوانحی اور روئیداد نگاری، افسانوی بیانیے کا بنیادی مقولہ ہے۔ اس کے باطن میں التباس کا معاشرتی اور سیاسی التباس بکھرا ہوا ہے۔ معاشرتی حادثے، المیات، سانحات اور سیاسی شعبدہ بازیوں نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو دیمک لگا دی ہے۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ پھیل کر گہری ہو رہی ہے اور معاشرے میں اشرافیہ کا آہنی پنجہ روز بروز مضبوط اور جارحانہ ہوتا جا رہا ہے، جہاں آزادی ایک بھیانک اور خوفناک خواب ہے، جو تقریباً معاشرتی زندگی کو ریزہ ریزہ کر چکا ہے۔

ناول کا کردار علی شیزوفیرینیا، اعصابی اور نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے اور اسی طرح علی کمال ہمدانی کی کہانی تمام المیات کی کتھا بیان کر دیتی ہے اور ناول نگار نے اس حاشیائی تمدن کے اندوہ ناک المیے کی طرف اشارہ کیا ہے، جہاں انسان اپنے ورثے، اقدار اور تحریمات (ٹیبوز) سے بے بہرہ ہے اور ایک ایسی دنیا میں سانسیں لے رہا ہے، جہاں ہر لمحہ ہر ساعت فنا میں تحلیل ہوتی نظر آتی ہے۔ تشکیک، خوف اور انسان کا انسان پر عدم اعتماد کا احساس ہر سو پھیلا ہوا ہے، جو سائنسی علوم اور علم حیاتیات سے طے ہوتے ہیں اور اس کہانی میں سائنسی معاملات اور انسانی زیست اور فنا میں موت کو ایک ایسا مرحلہ قرار دیتا ہے، جو مادّہ کو اس کی اولین حیثیت، یعنی غیر مرئی حالت میں لے جاتا ہے۔ (ص۔ ۱۲۸) ’’جس کی وجہ ری جنریٹنگ بیالوجیکل نظام ہے جو انسان کے وجود میں پھیلتا جا رہا ہے۔‘‘

’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ حاشیاتی تمدن کا المیہ ہے جس میں اسطور کا عکس نمایاں ہے، جس کے رنگوں کو باآسانی شناخت نہیں کیا جا سکتا، جو معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی بحرانوں کے وسیع تناظر میں معاشرتی استبداد، نراجیت کے بین العمل کی حرکیات اور بین السطور میں متن در متن کی معنویت کی بین المتونیت کو خلق کرتی ہے۔ اس کا بیانیہ حقیقت پسندانہ اور تاریخ کاری میں پوشیدہ رموز کاری اور علامت سے مالا مال ہے، لیکن معنویت واضح ہے جس میں ابہام نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا ابلاغ اور اظہار الجھا ہوا نہیں ہے۔ فرد کی زندگی، واہموں، حسین خوابوں اور کھوکھلے آدرشوں سے بھری ہوئی ہے، جب یہ بکھر جاتے ہیں تو فرد یہ سوال کرتا ہے، کہ اس کی زندگی اتنی تنہا اور مشکوک کیوں ہے؟ اور وہ کیونکر اس ’’ لایعنی زندان‘‘ میں رہے رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ کائنات اورمعاشرتی ماحولیات سے عدم مطابقت اور اس کی دنیا کے تضادات سے عبارت ہوتے ہیں۔

’’میرے آدرش کیا ہیں؟ کیا مجھے عام انسان کی طرح بِنا یہ جانے، کہ دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا؟ زندگی گذار دینی چاہیے، کیا میں اِس رہائی کو ذات کے سِحر میں تحلیل ہونے دوں یا اسے اسیر کر کے اپنے قدموں کو آگے بڑھنے کی قوت بخشوں؟ کیا مجھے زندگی کی تمنا کرنی چاہیے یا تمناؤں کو پا لینے کے لئے زندگی گذار دینی چاہیے؟ (ص۔ ۱۶۶۔۱۶۷)

ناول میں نقل مکانی (ہجرت نہیں) ایک دردناک پسِ کربیہ (ناسٹیلجیا) کی اذیت ناکی لیے ہوئے ہے، کیونکہ اس بدنظمی، عدم انضرام اور انتشار میں ایک تہذیب ٹوٹ پھوٹ کر منتشر ہو گئی ہے۔ ’’قیامِ پاکستان سے پہلے دادی کا انتقال، ابا کا گھر چھوڑ دینا وغیرہ دوسرے لفظوں میں وہ پورا گھرانہ جو اندرون شہر اپنی پہچان رکھتا تھا، تقسیم ہند کے ساتھ ہی تتر بتر ہو گیا۔ یہ بد قسمتی تھی کہ اِس انتشار میں سب کچھ بگڑ گیا۔ بعد میں ہندوستان میں منقسم مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‘‘ (ص۔۳۶)

ناول میں چند اہم مسائل کو بڑی چابک دستی سے چھیڑا گیا ہے، جس میں ثقافتی اور الٰہیات کی روایت کا تصادم ملتا ہے۔ جس میں امت مسلّمہ کئی برسوں سے دوچار ہے اور اس پر بحث و مباحثہ کرتی نظر ٓتی ہے۔ ’’کون سی کتاب؟ صرف قران الحکیم کی حد تک ٹھیک ہے۔ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ باقی انسانی کلام میں بہت سے بشری نقائص ہیں، تفاہیم و تشریحات انسانی ہیں۔ عربی زبان کا دیگر علاقائی فہم و ادراک سے انسلاک اور عربی ثقافت کا مسئلہ ہے۔ اب میں تمہیں کیا کہوں۔ (ص۔ ۱۳۰) اور یہاں وجودی فلسفی کیریکے گارڈ کا یہ جملہ ذہن میں آتا ہے کہ ’’مذہب ہمیشہ لایعنی معنوں کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

ناول میں یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کی انگریز ایک سامراج کی صورت میں وارد ہوا، مگر ساتھ ہی ناول نگار چُپکے سے اپنے خاموش لہجے میں دریافت کر لیتا ہے کہ عربوں اور وسطی ایشیا کے جنگجوؤں کی ہندوستان میں آمد ایک ’’سامراج ‘‘ اور اس کا استبداد نہیں تھا۔
ناول میں سوانحی اور موضوعی کلامیہ ایک اجتماعی کلامیہ بن جاتا ہے، معاشرت اور تاریخ کا کرب اور المیات کے تجربات قاری کو اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔ زبان کا بیانیہ داستان گوئی کا اسلوب و مزاج نہیں ہوتا بلکہ یہ روداد نگاری کا اسلوب اور مناجیات ہے، جس کے کردار بیانیہ کو خلق کرکے کہانی کو ماجرا بنا دیتے ہیں۔

مزید ملاحظہ کیجیے: ممنوعات کا ناول : چار درویش اور ایک کچھوا، از سید کاشف رضا

ناول میں معاشرے کی وہ کہانیاں ہیں، جو فرد کی بکھری ہوئی کتھائیں ہیں، جو کمزور اور مخدوش ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں، جہاں انسان کو اپنے آپ سے ہی نہیں بلکہ ماحولیات سے بھی اکتاہٹ ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ہر چیز سے جدا کر لیتا ہے، جہاں بے بسی، لاچارگی، قہر، مکاری ، ریا کاری اور جبر کی مسموم فضا ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔

’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ میں سیاق معروض ہوتے ہوئے بھی بیانیے کی جمالیات کا فکری مکالمہ بن جاتا ہے، جس میں ایک ملک کا جغرافیائی لینڈ اسکیپ کوئی نہیں۔ وہ کوئی ’’قوم‘‘ نہیں ہے وہ ’’رعایا‘‘ ہے جس کو کسی بھی وقت خریدا اور فروخت کیا جا سکتا ہے۔ ناول میں افسانوی شعریات رموزیاتی ہے اور ایک اکہری معروضیت کے بین السطور پر اپنا ’مقولہ‘ قائم کرتا ہے، جس کا عنوان فرد کے معاشرتی المیات اور اذیت ناکیاں، پسِ کربیہ اور سامراج کی باقیات ہیں۔

زیرنظر ناول اٹھارہ (۱۸) مربوط کہانیوں سے باہم ہوکر اپنی ہیت اور روپ کا آفاق تشکیل دیتا ہے۔ یہ ناول سیاسی، مقالاتی، جدلیاتی، آئیڈیالوجیکل، یساریت پسندی اور مزاحمت کے رویوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس ناول کو سیاحتی ناول بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں افسانوی واقعات، فرد کی نقل مکانی اور کسی حد تک زمان و مکاں کی جدلیات اور خود کلامی کا محاکمہ بھی ہے، جو انسانی زندگی کے المیات اور کھوکھلے پن سے مکالمہ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پسِ نوشت: راقم الحروف نے گذشتہ ایک سال میں اردو کے کوئی درجن بھر ناولی پڑھے، جس میں اردو ناول کا نیا ارتقاء نظر آتا ہے۔ جس نے ایک جمود کو بھی توڑا، اور اردو میں اچھے ناول کی معدومیت اور گمشدگی کے احساس کو بھی کم کر دیا، کہ اردو ناول مائل بہ زوال ہے، یا اچھا ناول نہیں لکھا جا رہس۔ انہی دنوں میں چند ایک اچھی جدید ترحیبّیت اور قدرے بہتر سیکولر مزاج اور تازہ لہجے کے ناول پڑھے۔

خاص طور پر اقبال حسن خان کا ناول ’یہ راستہ کوئی اور ہے‘ ، صفدر زیدی کی ’چینی جو میٹھی نہ تھی‘ اور نعیم بیگ کا ’ڈئیوس، علی اور دِیا‘ کا ذکر کروں گا، جس میں افسانوی لہجہ منفرد اور ان کی شعور کی رو بھی متاثر کن اور اسلوب بیاں منفرد ہے۔
اِن ناولز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان میں اردو کا روایتی ’’پس کربیہ (ناسٹیلجیا) نئے انحرافی فریم ورک میں رکھ کر اس تصور کو توسیع اور ان کی نئی توجہیات کو دریافت کیا گیا ہے۔ ان ناولوں میں تنقیدی نظریے کے حوالے سے نیا ’مابعدپس کربیہ ( ناسٹیلجیا) کا تصور ابھرا ہے۔ یہ اردو فکشن کی تنقید و تحقیق کی نئی تھیوری ہے۔ جس پر کبھی نہیں سوچا گیا۔

اس پر نہ صرف سوچا ہی جائے بلکہ اس پر محاکمہ اور مکالمہ قائم ہونا چاہیے۔ یہ نئے اردو فکشن کا نیا موڑ اور تھیوری ہے، جس نے نئی کروٹ لی ہے۔ فرار، قنوطیت نوحہ گری اور بیزاری کے ناسٹیلجیا کی باتیں بہت ہو گئیں۔ اب اس سے ہٹ کر ہم کو نئی سمتوں پر سوچنا پڑے گا۔ رجائی اور مثبت انداز میں مابعد پسِ کربیہ یا ناسٹیلجیا کی افسانوی تھیوری کو افسانوی تنقید سے باہم کرنا ہوگا اور مسرت اور فرحت کے جذبات اور رویوں کو بھی اس میں شامل کرنا ہوگا۔