ایک روزن: کسی ’’ازم‘‘ کا اسیر نہیں

’’ایک روزن‘‘ ایک آن لائن ویب میگزین ہے جس کی بنیادی پالیسی کسی دائیں یا بائیں فکر سے منسلک نہیں بلکہ اُن چند سوالات کی پیش کش تک محدود ہے جوہمارے سماج کے بنیادی مسائل میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ ہماری مخلصانہ کاوشوں کو کسی ’’ازم‘‘ سے نہ جوڑا جائے۔ کسی بھی مضمون کو اس مقصد کے تحت شائع کیا جاتا ہے کہ مکالمہ ہو سکے اور متبادل یا جوابی بیانیہ(counter narrative)تشکیل دینے میں سہولت ہو اور وہ تمام بیانیے(narratives)جو سماج کے مختلف اذہان میں مختلف ادوار یا مختلف سطحوں پر پنپتے رہے ہیں انھیں مرکز میں لایا جائے اور اُن کو مکالمہ کے ذریعے رَد کیا جائے یا انھیں معاشرتی سطح پر مفید ثابت ہونے کی وجہ سے ایک سرگرمی کے طور پر منوانے میں کرداراداکیاجائے۔
اس سلسلے میں ’’ایک روزن‘‘ کی پالیسی ہے کہ:
۱۔ اخباری خبروں پہ تبصروں کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے بلکہ بیانیے کو زیرِ بحث لایا جائے مگر میگزین کو کلی طور پر اخباری تبصروں سے الگ بھی نہیں رکھا گیا۔
۲۔ سماجی، سیاسی، مذہبی اور تہذیبی سطح پر درپیش نئے سوالات کو شائع کیا جائے مگر سوالات کی نوعیت علمی اور تحقیقی ہو تاکہ مکالمہ ہوسکے، محض توہین آمیز بیانات کی اشاعت ہماری پالیسی میں شامل نہیں۔
۳۔ اس وقت صنفی تفریق، نئی سماجی ومذہبی صورتِ حال، فنون (Arts)کی جمالیات،فلسفۂ تعلیم اور تعلیم کے مسائل،ادبی تھیوری اور فلسفہ، وغیرہ ہماری ترجیحات میں شامل ہیں۔
۴۔ تقریباً ہر مہینے ایک سوال پہ شرکائے مذاکرہ سے گفتگو کروائی جائے اور اُن کے مضامین کو ’’گفتگو فورم‘‘ کے نام سے شائع کیا جائے۔
۴۔ ہمارے میگزین کا ہفتہ وار ’اداریہ‘ بھی ہماری سماجی و علمی معاملات کی غمازی کر رہا ہے۔

ہمیں یہ بتاتے خوشی ہو رہی ہے کہ جہاں ہمارے ساتھ ناصر عباس نیر، آصف فرخی،نعیم بیگ، محترمہ نسیم سید سرپرست کے طور پر موجود رہے، وہیں ہمیں نوجوانوں کا بھی بھرپور ساتھ رہا ،جن میں سید کاشف رضا، اصغر بشیر،محمد عثمان، وقاص احمد، اورنگ زیب نیازی،عرفان شہزاد، حیدر شیرازی،شکور رافع، خرم شہزاد، حر ثقلین،جنید الدین،توقیر کھرل، شہریار خان، یاسر اقبال، نوید نسیم،سالار کوکب ،ڈاکٹر شیراز دستی, زمرد مغل، منیر فیاض، تالیف حیدر شامل ہیں، خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد ہمارے قافلے میں شامل ہے جو ہمارے لیے کسی حوصلہ افزائی سے کم نہیں۔ ان خواتین میں فارینہ الماس،انعم حمید،عرفانہ یاسر، رابی وحید،نجیبہ عارف، سبین علی،نازش ظفر، ثنا ڈار، ثمرین غوری، شازیہ نیر,عافیہ شاکر پیش پیش ہیں۔
ہم اپنے تمام لکھاریوں کے شکر گزار ہیں جن کی وجہ سے ہم مکالمہ آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔ امید ہے یہ سلسلہ مزید بہتر ہوتا جائے گا اور ہم بہت سے بند سوالوں کی گرہ کھولنے میں کامیاب ہوں گے۔

ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ کے مورخ کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ ماضی میں انتہا پسندی اور متشدد بیانیوں میں کون سے پلیٹ فارم اعتدال اور محبت کا پیغام دے رہے تھے اور سماج کے منتشر اذہان کو اعلیٰ علمی مذاکرے کی میز پہ لا رہے تھے۔