ادے پرکاش کا فکشن (۲)

رفاقت حیات

ادے پرکاش کا فکشن (۲)

از، رفاقت حیات

اگر ادے پرکاش یہ کہانی اسی مقام پر ختم کر دیتے تو یہ کہانی اپنے کرداروں سمیت موت سے ہمکنار ہو جاتی۔ لیکن وہ کہانی کو ہیرا لال کے انتقام کی طرف لے جا کر نئی جہت عطا کرتے ہیں۔ ہیرا لال جو کام عمر بھرِ مشقت کے جبرکی چکی پیس کر نہیں کر پایا، وہی کام اس نے موت کے بعد ایک بھوت کے روپ میں دوسرا جنم لے کر کیا۔ یعنی ٹھا کر اور اس کے پورے خاندان کو بھوت بن کر تباہی و بربادی سے دوچار کیا ۔ چونکہ دیہی معاشرے میں مافوق الفطرت اشیا ، دیہاتی لوگوں کیلئے ایک ٹھوس حقیقت اور ان کے روز مرہ تجربے کا حصہ ہوتی ہیں، اس لیے اس انتقام کو ہمارا ذہن فوری طور پر قبول کر لیتا ہے۔

دیہی معاشروں میں ہیرا لال جیسے سینکڑوں لوگ آئے دن بالائی طبقے کے شکنجے میں دم توڑتے رہتے ہیں ۔ مگر ان میں سے کوئی بھی نعرہ بغاوت بلند نہیں کرتا۔ اور کرتا بھی ہے تو صرف اپنی موت کے ذریعے۔ نچلے طبقے کے انسانوں کی اتنی بے توقیری ادے پرکاش کو گوارا نہیں۔ ان کے تخلیقی وژن کے لئے انسانوں کی اس خاموش اکثریت کی یہ بے چارگی ، یہ بے توقیری اور یہ تذلیل کسی طرح قابل برداشت نہیں۔ اسی لیے ہیرا لال کتے کی موت مر کر ایک جیتا جاگتا بھوت بن جاتا ہے اور اٹھا کر ہرپال سنگھ اور اس کی بیٹی، بہن اور بیوی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا کرڈھنڈار حویلی پر حکومت کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے گوگول کے شہرہ آفاق افسانے اوور کوٹ کا مرکزی کردار اپنا نیا کوٹ چھن جانے کے بعد، اس واقعے کے غم میں مبتلا ہو کر مرجاتا ہے ۔ اور موت کے بعد جہاں سے اس کا کوٹ چھینا گیا تھااسی مقام پر ایک بھوت بن کر سرکاری افسروں کے کوٹ چھینتا پھرتا ہے ۔گوگول کے اس افسانے کے بارے میں چیخوف کا ایک جملہ روسی ادب کے حولے سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم سب گوگول کے اوور کوٹ سے برآمد ہوئے ہیں۔کیا گوگول کا یہ افسانہ طلسمی حقیقت نگاری کا نقطہ آغاز قرار نہیں دیا جاسکتا؟ اگر اس حوالے سے ادے پرکاش کے فکشن کا جائزہ لیا جائے تو مارکیز سے زیادہ گوگول کے قریب نظر آتے ہیں۔

ان کی ایک اور کہانی ’’ہندوستانی ایوان دینیسووچ کی زندگی کا ایک دن ‘‘ کامحل وقع دہلی ہے یعنی ہندوستان کی راج دھانی ۔۔۔ اس کی کہانی کا مرکزی کردار رام سہائے شری واستو ہے ۔ مگر سولژے نتسن کے کردارایوان دینیسووچ کی طرح ادے پرکاش کا مرکزی کردار بھی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام آدمی ہے ۔ رام سہائے ایک پرائیویٹ پریس میں پروف ریڈر ہے ۔ اس کی بیوی ایک اسکول میں آیا کا کام کرتی ہے ۔ دونوں میاں بیوی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں ۔ ان کے تینوں بچے معذور ہیں اور یہ مختصر سا خاندان غربت کی لکیر سے بہت نیچے کہیں زندگی بسر کررہا ہے۔

ہندوستانی ایوان دینیسو وچ کی زندگی کا جو دن کہانی میں مذکور ہے۔ وہ اپنے بڑے معذور بیٹے کو ہر روز ایک گھنٹے کے لیے معذور افراد کی تربیت گاہ لے جاتا ہے ۔ کہانی میں جس دن کا بیان ہے اس دن جب وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے معذوور بیٹے کے ہمراہ تربیت گاہ پہنچتا ہے تو نزدیکی بوٹ کلب میں سیاسی اجتماع کے سبب تربیت گاہ بند ہوتی ہے ۔یہ دیکھ کر رام سہائے کو بہت مایوسی ہوتی ہے۔اس کے پاس صرف بس کے ذریعے واپس جانے کا کرایہ ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اچانک بند کر دی جاتی ہے ۔ کوئی بس اس راستے سے نہیں گزرتی جبکہ رام سہائے کی اپنی حالت پیٹ کے درد سے غیر ہو رہی ہے اور اس کا معذور بیٹا شدید بھوک سے کلبلانے لگاہے۔ وہ آٹو رکشہ نہیں لے سکتا اور اس کے بیٹے کی بڑھتی بھوک سے اس پر دورہ سا پڑجاتا ہے ۔ مجبوراً پیسوں کے حصول کیلئے اسے نزدیکی ہسپتال میں گردہ بیچنا پڑتا ہے ۔ اس کے بعد آٹورکشہ میں بیٹے کے ساتھ گھر جاتے ہوئے وہ بے ہوش ہو جاتا ہے ۔ اور آٹو رکشہ اسے شہر کی سڑکوں پر گھماتا رہتا ہے ۔ اس کا گونگا اپاہج بیٹا شور مچاتا رہتاہے اور بوٹ کلب میں سیاسی اجتماع جاری رہتا ہے۔


مزید دیکھیے: ترکی کی صورت حال، اورحان پامک اور سفید قلعہ

’’رات کی رانی‘‘: عورت کے باطن کو موضوع بناتی کہانیاں


ہندوستانی ایوان دینیسو وچ یعنی رام سہائے کی طرح تیسری دنیا کا عام آدمی یعنی نچے طبقے کا فرد زمانوں سے قسمت کے آٹو رکشہ میں بے ہوش محوِ سفر ہے مگر آٹو رکشہ ایک ہی شہر کی سڑکوں پر چکر کاٹ رہا ہے ۔ منزل کا خیال سراسر لغو ہے بلکہ لغویت کا ہم پلہ ہے۔ ادے پرکاش کی کہانیاں اسی لغویت کو اجاگر کرتی ہیں۔

ایک اور کہانی ’’پال گو مٹرا اور اس کا اسکوٹر‘‘ کا مرکزی کردار جو اخباری صنعت سے منسلک ایک عام آدمی ہے ۔ جو دھیرے دھیرے عمر رسیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ اپنا نام تبدیل کر کے ایک تخلص اختیار کرتا ہے اور ہندی زبان کا شاعر بننے کا خواب دیکھتا ہے ۔ مگر زندگی کے اذیت بھرے واقعات کے شکنجے میں پھنس کر پاگل ہو جاتا ہے ۔ اور کام دھام چھوڑ کر آدھی راتوں کو شاہراہوں پر مٹر خرامی شروع کر دیتا ہے ۔ مٹر خرامی کرتے ہوئے وہ نوآبادیاتی دور کے قومی ترانے گاتا پھرتا ہے ۔ پال گومڑہ کا پاگل ہو کر نوآبادیاتی دورکے ترانے گانا تحریک آزادی اور اس تحریک کے نتیجے میں ملنے والی آزادی دونوں ہی پر گہرا طنز ہے ۔

’’موہن داس‘‘ ادے پرکاش کی فنی زندگی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ ایک ناولٹ ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں گاندھی جی کا اصلی نام موہن داس تھا ۔ گاندھی جی ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے مارے گئے۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے ہندوستان میں اکیسویں صدی میں بھی دیہی زندگی کے حالات ما قبل تاریخ کے حالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افسانے کے بنیادی کردار موہن داس سے اس کی بنیادی پہچان چھین لی جاتی ہے۔ وہ اپنے علاقے میں بی اے پاس کرنے والا واحد لڑکا ہے۔ وہ او رینٹل کول مائنز میں ایک نوکری کی درخواست دیتا ہے۔ اس کا امتحان لیا جاتا ہے اور وہ اس امتحان میں سرِ فہرست رہتا ہے۔ مگر اسے اپوائٹمنٹ لیٹر موصول نہیں ہوتا۔ اس کی جگہ اسی کے علاقے سے تعلق رکھنے والا برتر ذات کا ایک ہندو اس کا اصل نام اور اس کی تعلیمی قابلیت چراکراس ملازمت پر قبضہ کر لیتا ہے۔

موہن داس یہ سب معلوم ہونے کے بعد اوریئنٹل کو ل مائنز کے دفتر جاکر احتجاج کر تا ہے۔ اس کے احتجاج کے نتیجے میں اس ادارے کا جی۔ایم انکوائری کا حکم دیتا ہے۔ موہن داس ہونے والی انکوائری اور اس کے بعد عدالت میں مقدمے کے دوران ثابت نہیں کر پاتا کہ وہ اصلی موہن داس ہے۔عدالت میں جو جج اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے ۔ موہن داس پر اتنا زیادہ ذہنی، روحانی اور جسمانی تشدد ہوتا ہے کہ وہ اپنی بنیادی پہچان کو جھٹلانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور خود ہی ایک دن کہیں غائب ہو جاتا ہے ۔موہن داس کی ایک بہتر طرز زندگی حاصل کرنے کی تمام تر کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔وہ اور اس کا پورا خاندان کسمپرسی کے عالم میں جینے پر مجبور کردئے جاتے ہیں۔یہ صرف ہندوستان کی نہیں بلکہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے تمام ملکوں کی کہانی ہے۔

موہن داس کی تکنیک اور اس کا بیانیہ بے حد دلچسپی کا حامل ہے۔ایک طرف ادے پرکاش موہن داس کی زندگی کی کہانی بے حد تیکھے مگر غنائیت میں ڈوبے ہوئے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ادے پرکاش موہن داس کی زندگی کی تلخیوں، محرومیوں،اور ناکامیوں کے احوال کو اکیسویں صدی کے ہندوستانی سیاست دانوں کے بلند بانگ سیاسی نعروں کے مخالف کچھ اس طرح رقم کرتے ہیں کہ گاندھی جی سے مودی تک تمام ہندوستانی سیاست پر خط تنسیخ پھر جاتا ہے۔ موہن داس کی کہانی کے ساتھ ساتھ ادے پرکاش اکیسوں صدی کی دنیا میں ہونے والی بڑی بڑی سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کا کاٹ دار بیان کرتے ہیں۔ اس طرح موہن داس اکیسویں صدی کے ہندوستان کا نمائندہ چہرہ بن کر سامنے آتا ہے۔ اور یہ صرف ہندوستان کا نہیں بل کہ تمام تیسری دنیا کا اصل چہرہ ہے۔ موہن داس پر پاکستان میں ٹی وی ڈراما جب کہ انڈیا میں فلم بھی بن چکی ہے۔

ادے پرکاش دیہی اور شہری دونوں طرز کی معاشرت کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ دونوں طرح کی زندگیوں کو سہولت سے بیان کرتے ہیں۔ وہ ان کی تمام پیچیدگیوں، گہرائیوں اور وسعتوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ان کا افسانہ جج صاحب دہلی میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔یہ ایک ایسے جج کی کہانی ہے جو اپنی تعیناتی کا منتظر ہے۔ کہانی کا راوی ہر روز اس سے ایک پان کی دکان پر ملتا ہے۔جج صاحب اپنے جوان بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں، جو کالج کا طالب علم ہے۔ ان کے بیٹے کو بلا کسی سبب کے پولیس ان کاؤنٹر کرکے مار دیتی ہے۔اس کے بعد جج صاحب دہلی سے غائب ہوجاتے ہیں۔ پان والا اپنا ادھار واپس لینے کے لئے ان کے آبائی شہر جاتا ہے مگر وہاں کے ان کے آبائی گھر پر قفل پڑا ہوا ملتا ہے۔اس افسانے میں جج صاحب جیسے معتبر شخص کا اچانک غائب ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ قانون کے رکھوالوں سے انصاف کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے جج بھی محفوظ نہیں ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.