تعلیم کا مسئلہ اتنی غیر سنجیدگی سے ہی حل نہیں ہو جائے گا!

(ریحان حیدر)

 

ملازمت اور پیشہ ورانہ معاملات کے لئے مختلف ممالک جانے اور وہاں رہنے کا موقع ملا۔ ملک سے باہر رہتے ہوئے ہمیشہ سننے کو ملتا تھا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، نئی یونیورسٹیز بن رہی ہیں، معیشت اوپر کی طرف جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سن کر خوشی سے دماغ میں جو ترقی کا نقشہ ابھرتا تھا وہ بالکل ویسا ہی ہوتا جیسی ترقی ہم نے ان ممالک میں دیکھی جہاں ہم رہتے رہے۔

نفیس سڑکیں اور ٹریفک کا نظام، بہترین اسپتال، بہترین تعلیمی ادارے اور تعلیمی نظام اور ان سب سے بڑھ کر تعلیم یافتہ اور باشعور عوام۔ بحیثیت صحافی ہمیں مختلف ممالک میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ایسے لوگوں سے واسطہ زیادہ رہا جن کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے فنون سے تھا جیسے کھلاڑی، شاعر، ادیب،اداکار، گلوکار، مصور، موسیقار، ڈرامہ و فلم نگار، صحافی، اساتذہ وغیرہ شامل ہیں۔ دیگر علوم سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی واسطہ رہا جیسے ڈاکٹر، بینکروغیرہ وغیرہ ۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

اپنے وطن واپس آکر ترقی کا جو خاکہ ہمارے ذہن میں بنا تھا وہ ریت کا محل ثابت ہوا اور ایئر پورٹ سے گھر پہنچنے سے بھی پہلے ذرّہ ذرّہ بن کو ہوا میں اڑ گیا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ 16 برس پہلے پاکستان کو زبردستی اکیسویں صدی میں دھکیل دیا گیاتھا۔ ہم قطعی اس کے اہل نہیں تھے اسی لئے پاکستانی قوم تاحال اس صدمے سے باہر نہیں آسکی ہے۔ اپنے سماج کے ایسے لوگوں کو نہایت قریب سے دیکھا جن کا تعلق علم و فنون سے ہے تو بہت افسو س ہوا۔

اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے فن کو اپنی مجہول شہرت کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے فن اور پیشے کو صنفِ مخالف تک رسائی کابہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔ تمام پیشہ ورانہ اصول اور تربیت نہ جانے کہاں غائب ہوچکے ہیں۔ اکثر شاعر اور ادیب نفسیاتی مریض معلوم ہوتے ہیں۔ اساتذہ نا اہل، لالچی، اپنے مضمون اور پڑھانے کے فن سے ناواقف اور انتہائی حد تک خودغرض۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی بڑی ویران عمارتوں میں پڑھنے والے بچوں کے تاریک اور مایوس چہرے اور انہی اسکولوں میں مشکوک ڈگریوں اورنچلے درجے کی تعلیم اور قابلیت کے ساتھ پان اور دودھ فروش نا اہل لوگ پڑھانے پر معمور۔

ایک ریسرچ اور مشاہدے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بچے اسکول سے غربت کی وجہ سے نہیں بلکہ دلچسپ طریقہ تعلیم اور سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے بھاگتے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور غربت دور کرنے کے لئے اسکول بھیجتے ہیں، اسکول میں نااہل اور تربیت کے فن سے ناواقف اساتذہ ان بچوں کو کچھ اور ہی بناڈالتے ہیں۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے سندھ کے نئے، نسبتاً جوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیرِاعلیٰ جناب مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ پرائمری سطح پر ہر طالبِ علم کو ماہانہ 500 روپے وظیفہ ادا کیا جائے گا، تاکہ بچوں کے اسکول جانے اور حصولِ تعلیم کے شوق کو بڑھایا جا سکے، انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ اس سے آپ بچوں میں صرف لالچ کے تحت اسکول جانے کا چلن تو بڑھا سکتے ہیں، مگر تعلیم میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے آپ کو غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہو کر ایسے اساتذہ کی تعداد بڑھانی ہوگی۔ جو خود ہر وقت سیکھنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جن میں نت نئے علوم سیکھنے اور ان کو آگے بڑھانے کی لگن موجود ہو، جو ایماندار ہوں خود اپنے آپ سے، اپنے پیشے سے اور طلبا و طالبات سے۔

_____________________________________

ریحان حیدر پیشے کے لحاظ سے الیکٹرانک میڈیا جرنلسٹ ہیں۔ لیکن سماجی نباض بھی ہیں، رائے کا اظہار ان کی اندر کی تڑپ ہے۔ انہیں فلم میکنگ سے بھی شغف ہے۔

1 Comment

  1. Theek kaha, apnay piyaro, dosto, rishtay daro ko ya phir paise le kar kisi ko bhi teacher laga diya jata he, koi poochne wala nahi he, jise koi or job na mile wo teacher ban jata he

Comments are closed.