تحریکِ بحالی مارشل لا: ‘اوعام’ کے نام بنی گالہ سے ایک کھلا خط

( فاروق احمد)

 

دو تین روز سے میں بنی گالہ میں نظر بند ہوں اور مزے میں ہوں ۔۔۔ میرے پرستار، میرے ساتھی، میرے یار، بڑے دلچسپ لوگ ہیں ۔۔۔ کھانے پینے موج اڑانے کے ساتھ ساتھ چٹکلے بھی سناتے ہیں اور لطیفے بھی ۔۔۔ غرضیکہ خوب محفل جمتی ہے۔ لیکن یہ جو ایک دو پڑھے لکھے بھی ساتھ آ پھنسے ہیں بھنگ میں رنگ ڈالتے رہتے ہیں ۔۔۔ اب نام کیا لکھنا کہ سنا ہے ایسے دو چار گندے انڈے ہر پارٹی میں پائے جاتے ہیں۔ اور تو کچھ نہیں بس جب بات کرتے ہیں قصے سناتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے اسکول میں بیٹھے ہم سب سبق سن رہے ہوں۔ ایسے کچھ ٹھنڈ پروگرام پہلے بھی ساتھ ہو لئے تھے جنہیں تنگ آ کر کھڈے لائن لگانا پڑ گیا تھا ۔۔۔ ارے وہی، جاوید ہاشمی اور جسٹس وجیہہ جیسے ۔۔۔ جب بات کرتے ہیں تو جہانگیر ترین کیا اور علیم خان کیا، یہ اپنا شاہ محمود بھی خراٹے لینے لگتا ہے ۔۔۔ آئیے آپ کو بھی سناتا ہوں ان کے کچھ ماٹھے چٹکلے ۔۔۔ بھئی آپ ہنس سکتے ہوں تو ہنس لیجئے گا مجھے تو سمجھ نہیں آئی ان کی ۔۔۔ یہ ذرا سنیئے دو چٹکلے :

ایک حضرت کچھ اس طرح چھڑی گھماتے رواں دواں تھے جیسے زمین و آسمان انہی کی ملکیت ہوں کہ چھڑی پاس سے گزرتے ایک صاحب کی ناک کو چھوتی ہوئی گزر آئی۔ بولے کہ حضرت یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔ حضرت بولے اپنی آزادی کا مظاہرہ ۔۔۔ جواب ملا کہ ضرور کیجئے کہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن آپ کے اس شترِ بے مہار جمہوری حق کی حدیں وہاں تمام ہو جاتی ہیں جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔

ایک مردِ دانا اس قدر کائیاں نکلے کہ ایچ جی ویلز مارکہ ٹائم مشین اڑاتے ماضی میں جا پہنچے اور اپنے قبلہ والد صاحب کو شادی کے ثمرات سے اتنا خوفزدہ کر آئے کہ انہوں نے شادی سے ہی انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ واپس لوٹے تو خود کو ہی نہ پایا۔

یہ دونوں قصے تو بس آپ کی دل آزاری کیلئے تھے کہ ۔۔۔ جی چاہتا ہے کہ آپ لوگوں کو رلاوٗں ۔۔۔ یہ کم بخت موٹو گینگ کو بھی یہی سنا سنا کر رلاوٗں گا۔ یاد ہے نا کل میں نے کہا تھا۔

ویسے آپ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیے گا کہ ہماری پارٹی میں سارے ہی ہاشمی اور وجیہہ الدین جیسے ماٹھے ڈفر بھرے پڑے ہیں ۔۔۔ کچھ ہیرے بھی ہیں اور انہی میں سے ایک ہیرے نے کل ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے جس میں اس نے جمہوریت کی اصلیت کو بے نقاب کیا ہے۔

دیکھیں ہم نے پاکستان کی اوعام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے ۔۔۔ سب کچھ نیا کریں گے، پرانے جیسا کچھ بھی نہیں کریں گے ۔۔۔ ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے ۔۔۔ پاکستان میں اب تک جو تحریکیں بھی چلی ہیں وہ بحالی جمہوریت کیلئے تھیں، لیکن ہم ان پر یقین نہیں رکھتے۔ اب یہ ہماری جو تحریک ہے یا جمہوریت کی بحالی کیلئے نہیں ہے ۔۔۔ وہ تو خورشید شاہ جیسے منشی اور سعد رفیق جیسے پٹواری چلاتے ہیں ۔۔۔ ہماری تحریک ایک نئی تحریک ہے ۔۔۔ تحریکِ بحالیٔ مارشل لا ٔ۔۔۔ دو نومبر کو جو میں کہنے لگا ہوں وہ یہی بات ہے جو اب لوگوں کو سمجھ آ جانی چاہیئے، ورنہ یہ ملک نہیں بچے گا ۔۔۔ دیکھیں یہ کہاں کی اور کیسی جمہوریت کہ خود جمہوریت کے خلاف بھی آواز نہ اٹھائی جا سکے ۔۔۔ یہ دوغلہ پن اور مناقفت ہے کہ جو حق اپنے لئے تفویض کیا جائے مخالفین کو اس سے محروم رکھا جائے۔

ہماری فوجی آمریت اس بد کرداری سے پاک ہے۔ ہم جو کہتے نہیں وہ کرتے بھی نہیں۔ علی الاعلان کہتے ہیں کہ حقوق نہیں دیں گے اور نہ دیتے ہیں ۔۔۔ اسی لئے آمروں کا کردار سچا اور شفاف ہوتا ہے ۔۔۔ جمہوریت کی منافقت کی اس سے بڑی مثال مل ہی نہیں سکتی کہ تحریک بحالی جمہوریت تو چلائی جا سکے۔ لیکن تحریک بحالی آمریت ممنوع قرار پائے ۔۔۔ اور کم و بیش یہی مخمصہ آزادی کا بھی ہے، یعنی آزادی کے لئے تو تحریک چلائی جا سکے لیکن آزادی کے خلاف نہیں ۔۔۔ پریس فریڈم کے حق میں تو بات کی جا سکے اس کے خلاف نہیں ۔۔۔ میں ہوچھتا ہوں کہ کیا آمروں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے کوئی جمہوری حقوق نہیں ہوتے؟

کیا آزادی رائے، میڈیا کی آزادی، عوام تک معلومات تک رسائی کے مخالفین کے کوئی جمہوری حقوق نہیں ہوتے ۔۔۔ کیا ان کا یہ جمہوری حق نہیں آمریت کی حمایت میں تحریک چلائیں ۔۔۔ کیا ان کا یہ جمہوری حق نہیں کہ وہ عوام کو آمریت کے ثمرات یاد دلا سکیں اور کس کس طرح جمہوریت نے ان کو نقصان پہنچائے یہ بتا سکیں ۔۔۔ نہیں جناب، ایسے کام نہیں چلے گا ۔۔۔ آمریت اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کے حامیوں اور جانثاروں کو بھی یہ جمہوری حق ملنا چاہیئے کہ وہ اپنی بات جمہوریت کے پلیٹ فارم سے لوگوں تک پہنچا سکیں ۔۔۔ کیا یہ ہمارا جمہوری حق نہیں کہ ہم جمہوریت کے نقصانات اور زہریلے پن سے لوگوں کو آگاہ کر سکیں ۔۔۔ آخر کس بنیاد پر یہ لوگ جمہوریت کو آمریت سے بہتر قرار دیتے ہیں۔

آمریت میں جمہوریت پابند سلاسل ہوتی تو کیا جمہوریت میں آمریت آزاد ہوتی ہے ۔۔۔ کیا جمہوریت میں ہمیں یہ آئینی حق د یتی ہے کہ جمہوریت کا تختہ الٹ سکیں حالانکہ بلند و بانگ دعویٰ یہ ہے کہ جمہوریت سب کو حقوق دیتی ہے۔

یہ جو کچھ جو میں نے ابھی آپ سے کہا ہے ۔۔۔ اب میں دو نومبر کو اسے اپنے خطاب میں شامل کرنے لگا ہوں ۔۔۔ اس کے بعد کوئی مجھے آکسفورڈ کا تھرڈ کلاس پاس لیڈر نہیں کہہ سکے گا ۔۔۔ اور میرا نام بھی ونسٹن چرچل کے نام کے ساتھ لیا جائے گا۔

خیر اندیش

عمران چرچل