ہمیں ہاکی سے محبت تو بہت ہے مگر۔۔۔۔۔!

ایک روزن لکھاری
مہر عصمت، صاحبِ مضمون

(مہرعصمت)

پاکستان ہاکی کی موجودہ صورت حال اور ہاکی کے گزرے ہوئے چند سالوں کا موازنہ کریں تو ہماری ہاکی میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان ہاکی پہ وہ دور بھی گزرا ہے، جب ہم چائنہ جیسی ٹیموں سے ہارے ہیں۔ آٹھ ملکی ٹورنامنٹ میں ہماری ساتویں پوزیشن آتی تھی۔ اور ایسے محسوس ہوتا تھا کی اب ہماری ہاکی کبھی ٹھیک نہیں ہو سکے گی۔ یہ پاکستان ہاکی کا سیاہ ترین دور تھا میرے اندازے میں۔ اتنی خطرناک پوزیشن میں جانے کے بعد ہاکی سے محبت کرنے والے سب مایوس ہو چکے ہیں۔ لیکن موجودہ ہاکی فیڈریشن کی جانب سے پاکستان میں ہاکی کو بہتر بنانے کے لئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اس کے جو نتائج نظر آنا شروع ہوئے ہیں، ان کو لازمی طور پر داد دینا پڑے گئی۔

اس وقت ایک عام پاکستانی جو پاکستان کی ہاکی سے محبت کرتا ہے، اس کے سامنے اگر ہاکی کا ذکر کیا جائے تو اس سے کافی جذباتی قسم کے فقرے سننے کو ملیں گے، کیونکہ ہاکی سے محبت تو بہت ہے۔ پاکستان میں ہاکی واحد کھیل ہے جس میں 4 ورلڈ کپ اور 3 اولمپک گولڈ میڈل اور 8 بار چیمپئن ٹرافی جیتنے کا اعزاز پاکستان کے پاس ہے۔ جب ان باتوں کو سنا ہو اور اب کی ہاکی دیکھی جائے تو موجودہ ہاکی کا حال اصل میں بہت برا نظر آئے گا۔

لیکن ایک امید کی کرن نظر آنا شروع ہوئی ہے، ایشینچیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم کا کھیل یہ بات بتا رہا ہے کہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ عام پاکستانی تو ابھی بھی یہی کہے گا کہ انڈیا سے ہار گئے ہیں۔ لیکن اگر ماہرین کی رائے لی جائے اور اس سے پہلے کی پوزیشن کو بھی دیکھا جائے، تو پاکستان کی ٹیم اس پورے ٹورنامنٹ میں بہت اچھا کھیلی ہے۔ برس ہا برس کی تباہی کو دنوں میں تو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس بات کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح محنت کی جا رہی ہے اس سے مثبت نتائج لازمی ملیں گے۔ ہمارا ہمیشہ سے ہی یہی المیہ رہا ہے کی ہماری ٹیم کی فٹنس خراب رہی ہے۔ لیکن اس ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کی فٹنس پہلے سے بہت اچھی نظر آئی ہے۔ گیم پلان، پنلٹی کارنر اٹیک ، بلڈ اپ اور فنشنگ کے حوالے سے بہت کام کرنا باقی ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا سالوں کی تباہی دنوں میں کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اور خاص طور پر اس وقت جب ساری دنیا پرفیکٹ کو بھی مزید پرفیکٹ کر رہی ہو، اس وقت ہم اپنی ہاکی کو صفر سے شروع کر رہے ہوں۔

صورتحال یہ ہے کہ آپ کے پاس فنڈز نہ ہو، کھلاڑیوں کو نوکریاں نہ دی جا سکیں، کسی کا مستقبل محفوظ نہ ہو، ہر طرف تنقید ہو، ملک کے حالات ایسے ہوں کہ سب ممالک کی ٹیمیں پاکستان آ کر نہ کھیلنا چاہتی ہوں۔ کرپشن ہو ہر طرف، کھلاڑیوں سے ہمدردی کے بجائے کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ان تمام حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے خواہش ہے کہ ہم کامیاب ممالک کی ٹیموں سے جیتیں، جہاں کھلاڑی کو ہر طرح سے سپورٹ کیا جاتا ہے۔

تمام چیزوں کو ذہن میں رکھا جائے اور پاکستان ٹیم کے تیاری دیکھی جائے اور نتائج دیکھے جائیں تو کافی فرق نظر آئے گا۔ پاکستان کی ٹیم اگر اسی طرح کی تیاری میں رہی تو بہت جلد ہم دنیا کی تمام ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہونگے۔ لیکن شرط یہ ہے کی موجودہ دور کے مطابق اب چلنا پڑے گا۔ ٹیم کو گھر بھیجنے کی بجائے اگے آنے والے ٹورنامنٹس کی تیاری ابھی سے شروع کرنا پڑے گی۔

کوچنگ کی جدید ضروریات کو سمجھنا پڑے گا۔ بہت ہی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اولمپیئن ہونا کوئی لائسنس یا کوالیفیکیشن نہیں ہے کہ آپ کھلاڑیوں کی کوچنگ کروائیں۔ موجودہ وقت تقاضوں کو سمجھنا پڑے گا۔ اپنے کوچز کو بھی جدید تعلیم حاصل کرنا پڑے گئی، اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ہمارا مقابلہ پڑھی لکھی قوموں کے پڑھے لکھے کوچز سے ہے۔