ایک پروفیسر جنت میں(فکاہیہ تحریر)

ایک پروفیسر جنت میں

از، خالد کرار

اوّل تو ہمیں حیرت ہے ہم یہاں پہنچے کیسے؟ ضرور ہمارے شاگردوں کی دعائیں شامل حال رہی ہوں گی جن کو ہماری وجہ سے سرکاری ملازمت حاصل ہوئی اور اب وہ مع اہل و عیال خوش باش زندگی گزارتے، ہمیں دعائیں دیتے نہیں تھکتے کہ سوا اس کے انہیں کچھ اور آتا بھی نہیں۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایسے بھی تو ہزاروں ہیں جو اس ملازمت کے حصول میں ہماری وجہ سے ناکام رہے اور انہوں نے ہمیں جی بھر کے کوسا اور بد دعائیں دیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے خلاف کی گئی بد دعاوں میں اتنا اثر نہیں جتنا دعاوں میں ہے۔ یہ سوچ کر ایک خوش گوار حیرت ہوئی ہے اور جی چاہا کہ معاصرین کو پیغام دیں کہ چلے آئیے، گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ یہاں بھی دنیاوی ماحول لگتا ہے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر باز رہے کہ اگر سب کے سب یہیں چلے آئے تو ہماری افادیت جاتی رہے گی۔

جنت اور جہنم کو علیحدہ کرتی جو چیز سب سے زیادہ عجیب اور ہمارے نکتہ نظر سےمعیوب نظر آئی وہ ہے اس کے درمیان ایک باریک سی حد فاصل۔ ہم زمین پر یہ سمجھتے رہے کہ یہ دیوار چین جتنی کشادہ اور طویل ہو گی تاکہ جنتیوں کو جہنمیوں کی اور جہنمیوں کو جنتیوں کی ہوا نہ لگے۔

ہوا نہ لگنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ دونوں، جنتیوں اور جہنمیوں کی تعداد میں کمی بیشی کا امکان نہیں رہتا اور ان کی تاثیر پر نیک و بد اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ لیکن میاں یہ کیا؟

یہ دیکھ کر ہماری مایوسی کی انتہا نہ رہی کہ اسے محض ساٹن کی باریک سی جالی نما دیوار سے پاٹا گیا ہے اور دونوں طبقوں کے من چلے ایک دوسرے پر نہ صرف آوازے کستے بلکہ قہقہے بھی لگاتےہیں۔

بسا اوقات کئی لوگ جالی نما دیواروں کے بیچ کے بفر زون یا نو مینس لینڈ تک چلے آتے ہیں اور ایک دوسرے کا منہ چڑاتے ہیں۔ ویسے بفر زون کا لفظ اردو میں نا مانوس ہے، اس کا مناسب ترین ترجمہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ خیر! جس طرح ہندوستان پاکستان کی مملکتوں کے درمیان سرحد پر بھولے بھٹکے انسان یا باغی مویشی نکل آتے ہیں اور بعد ازاں ان کی واپسی کے لیے وزارت داخلہ و خارجہ سمیت ملٹری کمانڈروں کو متحرک ہو کر فوری اجلاس طلب کرنا پڑتا ہے جس کے بعد انہیں روایتی تزک و احتشام کے ساتھ واپس ان کے وطن روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے کیا خوب مثل بنائی ہے بنانے والوں نے کہ ‘’جتھےدی کھوتی، مُڑ اُتھے ہی کھلوتی۔’’

کہاں کہ بات کہاں جا نکلی۔ وزارت خارجہ سے یاد آیا ہمارے ترکی کے سفر کے لیے دستاویزات ابھی تک وزارت خارجہ کے دفتر میں پڑی ہیں گو کہ وہاں کا منتظم ہمارا شاگرد ہے اور ادب سے اس کو ایک خاص مس ہے، لیکن اس کے باوجود ناہنجار نے ہمارے سفر کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ ہاں تو عمرانی اصول کی وضع داریاں نمود ہائے روش تازہ کار معاف کیجئے گا۔ زمین سے نکلتے ہوئے آخری مضمون فلسفیانہ تنقید کی اساس پرلکھا تھا،اسلوب پر اس کا اثر ہے۔ ہاں تو ارتقائی نظریہ اور بقائے باہم کے اصول کے تحت تو یہ باریک سی تقسیم لکیر جائز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر جنتیوں اور جہنمیوں کو آپس میں مکالمہ کی اجازت کیوں ؟جبکہ دنیا میں انہیں یکسر مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ امید ہے کارکنان ِ قضا و قدر ِ جنت و جہنم اس پر غور کرکے اس کا ازالہ کریں گے کیونکہ ہم کوئی بھی شئے خلاف ِ طبع برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں ا ور ڈسپلن شکنی کو سم ِ قاتل جانتے ہیں۔ہم نےاپنے شعبہ میں بھی یہی رواج اور اپنی تھیوری میں بھی اس کا التزام رکھا ، اس کے لئے ہماری خاص شہرت ہے۔
نو مینس لینڈ یعنی بفر زون میں تانک جھانک کرتے ہوئے ہمیں ایک پرانا‘‘لحاف’’ نظر آگیا کہ معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ عصمت آپا کا ہے ۔ جب جی چاہتا ہے گھوم گھام کر کہیں سے آنکلتی ہیں اور سو رہتی ہیں۔ بہت معلوم کیا کہ آتی کہاں سے ہیں،جنت یا جہنم لیکن کچھ معلوم نہیں پڑا کہ رات کے آخری پہر کہیں سے نمودار ہوتی ہیں۔ اسی جگہ ہمیں احمد فراز بھی ‘‘ جاناں جاناں’’ کرتے نظر آئے اورجون ایلیا کو یہاں بھی لٹھ لئے ان کے پیچھے دیکھے۔ حالانکہ ہم دونوں کی شاعری پر ایک ایک مضمون‘‘ جون ایلیا کا جانی’’ اور ‘‘احمد فراز ، تکلف سے اخلاص تک’’ لکھ چکے ہیں جو ماہنامہ ‘‘ دودھاری’’ اور سہ ماہی‘‘حشرات الارض’’ میں چھپ چکےہیں۔ لیکن یہاں ان دونوں اس کے باوجود ہم، خود ہم سے، حد درجہ بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا اور اس میں ،بے اعتنائی میں،ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی بھی کوشش کی جس کا ہمیں افسوس اس وقت جاتا رہا جب جون نے اکیلے میں ہمیں اس بات پر سرزنش کی کہ مجھ پر مضمون لکھنے کے بعد احمد فراز کی قصیدہ خوانی کی کیا تُک تھی جانی!! اسی طرح فراز ملے تو بولے کہ مجھ پر لکھنے تک تو ٹھیک تھا لیکن اس کایاں بوڑھے کی لچر پر اس قدر طویل مضمون لکھ کر تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟اس کے علاوہ دونوں نے اس کی بھی شکایت کی کہ جب ہم اپنے شعبہ کے صدر تھےتو ان کے اعزاز میں کوئی تقریب برپا نہیں کی۔بعدازاں ذکر چھڑنے پر دونوں کوظفر اقبال کے نام پر متفق پایا۔ اور جون نے تو اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے معنی خیز انداز میں یہاں تک کہہ دیا ‘‘ آنے دو، آنے دو دیکھ لیں گے’’ایک جگہ احمد ندیم قاسمی ‘‘ فنون ’’ کے پرانے شماروں کی ورق گردانی کررہے تھے۔
جنت کے کنارے کی جھاڑ جھنکار میں ہمیں پروفیسر گل اندام بھی نظر آ گئیں۔ ہماری شاگرد تھی تحقیق بھی ہماری نگرانی میں کی اور نوکر بھی ہمارے بعد ہوئیں لیکن صدر شعبہ بنتے ہی ان کے پر نکل آئے۔ یہاں ان کو دیکھ کر بے انتہا حیرت ہوئی کہ یہاں بھی ہمارے ہی خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ اسے کہتے ہیں نیکی کر دریا میں ڈال۔ ہم تو نیکی کو دریا برد کر چکے تھے سو اس کی اٹھکلیاں دیکھ کر دل مسوس کر رہ گئے۔
نو مینس لینڈ میں ہی ایک جگہ چند کرسیوں پر کچھ دیگر اصحاب نظر آئے۔ ان میں فیضؔ،ناصر کاظمیؔ،اور منیرؔنیازی شامل تھے۔ ناصر کاظمی اونگھ رہے تھے جبکہ فیضؔ انہیں حبیب جالبؔ کے لطیفے سنا رہے تھے۔ منیر نیازی پنجابی میں کچھ گنگنا رہے تھے۔ان سے دور تنہا اور نیم متجسس عرفان صدیقی بیٹھے تھے۔بہت تلاش کیا لیکن میراجی نہیں ملے، معلوم ہوا نہانے گئے ہیں اس پر مزید حیرت ہوئی۔ اسی دوران ایک جگہ اختر شیرانی اور جوشؔ کو بھی دیکھا ۔جوشؔ خلاف ِ طبع صماً بکماً کی مثال بنے بیٹھے تھے جبکہ اختر شیرانی درمدح ِ نیّر واسطی کے عنوان سے لہک لہک کر قصیدہ پڑھے جا رہے تھے۔ ایک اونچے سے ٹیلے پر گھٹنوں پرکتاب اور کتاب پر کچھ کاغذ رکھے سعادت حسن منٹو خاموشی سے لکھے جا رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک جگہ پہلے آل احمد سرور اور بعدازاں قدرت اللہ شہاب سے ملاقات ہوئی۔شہاب بڑے تپاک سے ملے اور بولے‘‘ یہاں بھی وہی مسئلہ میاں! بیوروکریٹو کو آداب ِخلد نشینی سکھا رہا ہوں۔ تیس افراد پر مشتمل تیس کے گروپ فارغ ہو چکے ہیں۔اس کے بعد سفرنامہ لکھوں گا جس میں نائنٹی کا باب نہیں ہوگا۔ ‘‘ یا خدا’’ پھر ملاقات ہوگی‘‘ یہ کہہ کر کہیں نکل لئے۔ سرور سے لہک کر مصافحہ کرنےکی کوشش کی تو ہلکے غصے سے ہمارا ہاتھ جھٹک کر بولے‘‘ تو کیا میں مسترد کر دیا گیا ہوں؟’’ پھر جھلاہتے اور ‘‘ایک ایک کو دیکھ لوں گا ، ایک ایک کو دیکھ لوں گا’’ کہتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے۔سرور کا یہ طرز عمل ہمیں بالکل پسند نہیں آیا،کچھ فرسٹریٹ سے نظر آئے۔ آخر ہم دونوں ہم پیشہ و تیشہ رہے ہیں لہذا اس طرح کا طرز  عمل اخلاقی، سماجی،ادبی اور شائستگی کے تمام مروجہ قواعد کے خلاف نظر آیا۔ ہم نے ارادہ باندھ لیا کہ ذرا سیٹ ہو لیں تو انجمن ِارباب ِ ذوق کی بنیاد رکھ کر اس کے بانی صدر بنیں گے اور اس مسئلہ کو، آل احمد سرور کی ترشی کے مسئلہ کو، اس میں اٹھائیں گے۔اس اجلاس میں سرور کو نہیں بلایا جائے گا یہی اس کے قیام کی شرط ِ اوّل ہے۔
………