ترقی پذیر دانش ور کی چُست فہمیاں

Yasser Chattha, the writer

ترقی پذیر دانش ور کی چُست فہمیاں

از، یاسر چٹھہ

خان صاحب کل شام کی چائے کے بعد خالی معدے کے ساتھ کی گئی تقریر میں عالمی سیاست، جغرافیہ، تاریخ اور ادب وغیرہ کو خاص وقت نہیں دے پائے۔ نا ہی ان کے پاس سرفراز کی جمائیوں اور شعیب ملک کے شیشہ پینے پر بات کرنے کا وقت تھا۔ اس سلسلے میں پٹواری، جیالے اور دیگر سٹیٹس-کو کے دم بھرنے والے ابو جہل مُنھ دیکھتے اور اپنی انگلیاں کاٹتے رہ گئے، کہ خان صاحب کے علم، فضل، اور لذتِ تقریر و ٹویٹر سے کچھ حسد کے سامان کی پوٹلیاں باندھ سکیں۔ لیکن ہمارے ترقی پذیر دانش ور جو یورپ سے نیا پاکستان کی حالت دیکھنے پاکستان آئے ہوئے تھے ان سے ٹاکرا ہو گیا۔ کیا بات ہوئی، آپ بھی سن لیں۔

“کل خان بہت کچھ کہنا چاہتے تھے، لیکن خان کی تقریر کو سنسر کر دیا گیا۔ بھئی پی ٹی وی بھی کچھ کچھ سٹیٹس-کو سے بھرا پڑا ہے۔ خان نے کل بتا دیا تھا کہ وہ پشاور میٹرو بنانے میں کیوں دیر کر رہا ہے۔ لیکن اب صرف خاص بندوں کو ہی پتا ہے۔”

کیا وجہ ہے؟ وہ تو قیامت والے مکمل نہیں تھی ہونی؟

“قیامت، ویامت کی کیا بات کرتے ہو، دجال کو آ تو لینے دو ابھی۔ “

اچھا تو دجال نے ابھی آنا ہے؟

“ایک تو تم سٹیٹس-کو کے پالے ہوئے کیا سمجھو گے۔ پھر بھی بتاتا ہوں۔ پشاور میٹرو پر خان کا بہت دور دراز کا ویژن ہے۔ میٹرو، سڑک مڑک سے پہلے پہل تو قومیں نہیں بنتی تھیں۔ لیکن خان نے اپنے ویژن سے یہاں بھی قومیں بنانے کا طریقہ نکال لیا ہے۔ لیڈر بہت آگے کی سوچتا ہے۔ بہت دور دراز کی۔ دیکھو ناں، میٹرو جب تک بن رہی ہے، ٹریفک پھنس رہی ہے، تو زیادہ پٹرول خرچ ہو رہا ہے، زیادہ پٹرول خرچ ہو گا، تو زیادہ ٹیکس آئے گا۔ اور اسی ٹیکس سے میٹرو بنتی جائے گی۔ ویسے تو یہ ٹیکس چور پاکستانی ٹیکس دیتے نہیں۔
زمانہ جاہلیت اور سٹیٹس-کو میں جلدی جلدی بننے والی سڑکوں کی وجہ سے ہمارے ملک کو قرضے لینے پڑے، اور قومی خزانے سے پیسے لگانے پڑے، اسی وجہ سے چوکی داری اور نظریاتی سرحد کے لیے اسحاق ڈار پیسہ کم دیتا تھا۔ ان حالات اور غدار توپیوں کی وجہ سے ہی تو ملک میں دہشت گردوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ اب بالکل ٹھیک ٹھیک پالیسی راج آ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی صرف بجلی گیس سے ہی مسئلہ ہے، دوسرے پوشیدہ امراض اور hidden charges والے خرچے پانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں۔”

اچھا تو انڈوں، مرغیوں اور کٹوں، بھینسوں کے بعد ٹیکس اب سڑکوں کے لیے کھدائی سے ٹریفک کھجل خراب کر کے ٹیکس کمایا جائے گا؟

“بس میں نے کہا تھا ناں کہ تم جاہلوں کا تو بھیجہ ہی فارغ ہے۔ تم کیا جانو بکسے سے باہر باہر کیسے سوچا جاتا ہے، وہ ہی آؤٹ آف دا باکس سلوشن، ٹیکس جمع کرنے کا؟”

آؤٹ آف دا باکس سلوشن؟… ہیں؟… وہی ناں جو RTS سسٹم سے سلوشن کیا جاتا ہے؟

“پرانی باتیں چھوڑو اب، الیکشن پر نظر مظر نا رکھی جائے تو بنگلہ دیش بن جاتے ہیں، سیکیورٹی رسک آ جاتے ہیں۔ ویسے بھی میں نے تو پی ٹی وی پر دیکھا تھا الیکشن بالکل سولہ آنے ٹھیک ہوا تھا۔
اچھا تو میں بات کر رہا تھا آؤٹ آف دا باکس کا۔ ہاں، حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ عوام کے لیے گلی، محلوں اور دیہاتوں سے ہسپتال دور کچھ فاصلے پر بنائے جائیں۔ پہلا فائدہ، ایک تو لوگ پیدل چل کر آئیں گے تو ان کی 95 اعشاریہ چھ فی صد بیماریاں رستے ہی میں دم توڑ جائیں گی۔ اور اگر وہ موٹر سائیکل، ویگن، گاڑی پر بیٹھ کر ہسپتال آئیں گے تو ظاہر ہے پٹرول ڈیزل خرچ کر ہی آئیں گے ناں، ہیلی کاپٹر پر تھوڑی آئیں گے جس پر کوئی خاص تیل نہیں لگتا۔ جب لوگ پٹرول ڈیزل، خرچ کر آئیں گے تو زیادہ ٹیکس جمع ہو گا۔ ہے ناں، لیڈر دور کی کوڑی، sorry، دور کی ویژن لے کر آتا۔”
۔۔۔

“آپ سے بھائی نے کئی بار کہا تھا ناں کہ لیڈر کے پاس ویژن کے علاوہ ہوتا کیا ہے، وہ ایک نہیں، چار آنکھیں رکھتا ہے، چار۔”

ہیں کیا بولے، زرتاج گل نے کل کی خان صاحب کی تاریخ، ادب، جغرافیہ پر بولنے سے پرہیز والے دن کی کمی پوری کر دی۔

“کیا مطلب؟ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں لیڈر دیوار کے دونوں طرف دیکھتا ہے۔”

اس لیے ناں کہ جس دن خان بولے اس دن فیصل واوڈا اور زرتاج گل صاحبہ لَسّی پی کر ہی پڑے رہیں، ورنہ زیادہ سے بھی کچھ زیادہ ہو جائے گا۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔