توہین مذہب: سوشل میڈیا پر پس پردہ کردار کون، اور اسلام آباد ہائیکورٹ

Asad Ali Toor aik Rozan writer
اسد علی طور، صاحب مضمون

(اسد علی طور)

جنوری 2017 میں ریاست کی پالیسیوں کے ناقد پانچ بلاگر
کو اٹھائے جانے کے بعد جب انگلیاں ان ریاستی اداروں کی طرف اٹھنے لگیں جن کے یہ بلاگرز ناقد تھے اور وزیرداخلہ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں تاثر دیا کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اغوا شدہ بلاگرز کن کی حراست میں ہیں اور وہ ان کی خیریت سے گھروں کے لیے کوشاں ہیں تو عوام کی ایک بڑی تعداد سمیت میڈیا کا جھکاؤ بھی بلاگرز کی غیرقانونی حراست کے خلاف تھا۔ ایک ایسے وقت میں مبینہ طور پر انہی ریاستی اداروں کا سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کرنے کے لیے معروف پیجز پر اغوا شدہ پانچ میں سے تین بلاگرز کی تصاویر جاری کرکے انہیں ایک توہین مذہب پیج بھینسا کا ایڈمن بتایا گیا۔ وار کاری تھا اس لیے کامیاب رہا۔ رات و رات وہ مذہبی حلقے بھی جو اپنے کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کی ریاستی پالیسی کے ناقد تھے ان بلاگرز کی گمشدگی کے دفاع میں سرگرم ہوگئے۔

اسی دوران آف دی ریکارڈ خود کو میڈیا میں کچھ ریاستی
اداروں کا ترجمان بتانے والے ٹی وی اینکرز بھی تلواریں نکال کر میدان میں آگئے اور انہوں نے بھی ان بلاگرز کی “منجی گستاخ مذہب کہہ کر ٹھوکنی” شروع کردی۔ اس بھیڑ چال میں ان نام نہاد اینکرز میں سے کسی نے بھی صحافت کے بنیادی اصولوں کے مطابق سوشل میڈیا پر موجود افواہوں کی بنیاد پر ملزم بننے والے بلاگرز کے اہلخانہ، اہلِ علاقہ اور تدریسی اداروں سے رابطہ کرکے ان کی ساکھ، نظریات اور مذہبی وابستگیاں جاننے کی زحمت نہ کی۔ اس دوران اپنی بنیاد پرستی کے لیے مشہور وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بلاگرز پر توہین مذہب کے الزامات کی مکمل تردید کرتے ہوئے ان کو پھیلانے والے عناصر کو شٹ اپ کال دینے کی کوشش بھی کی۔ لیکن بلاگرز کے حق میں جو آوازیں اٹھ رہی تھیں ان کو دھمکانے کے لیے لال مسجد کی شہداء فاؤنڈیشن نے دارلحکومت کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے شروع کردیئے۔ ماحول جب کافی حد تک مقدور ہوگیا تو فروری کے آغاز میں ڈرے سہمے بلاگرز کو خاموشی سے گھروں پر پریشان اہلخانہ کے حوالے کردیا گیا۔

معاملہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو رہا تھا کہ لال مسجد کی شہداء فاؤنڈیشن نے ایڈوکیٹ طارق اسد کے توسط سے پیٹیشن لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ جا پہنچی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس پیٹیشن کی سماعت شروع کردی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک سیاسی اور مذہبی پسِ منظر رکھنے والے انتہائی قابلِ احترام جج ہیں، لیکن معلوم نہیں یہ مذہبی اور سماجی اخلاقیات کی پیٹیشنز محترم جج صاحب کے آگے ہی کیوں لگتی ہیں۔

بعض حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاشرے میں مذہب کی آڑ میں بےچینی پھیلانے والے عناصر جسٹس صاحب کی مذہبی شہرت کا فائدہ اٹھا کر اپنے متنازع ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے اِن کے کورٹ روم کو استعمال کرنے کی سازش میں رہتے ہیں جس کے لئے کبھی وہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے اوپر سے دہشت گردی کی دفعات کا جسٹس شوکت عزیز کی طرف سے ہٹایا جانا اور کبھی ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگائے جانے کو اپنی کامیابی بتا کر جسٹس صاحب کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسا ہی ایک مذہبی شدت پسند گروہ، شہداء فاؤنڈیشن، بھی سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب کے خلاف پیٹشن لے کر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں موجود ہے۔ معزز جج صاحب اپنے مذہبی جذبات سے مغلوب ہوکر روزانہ کی بنیادوں پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ مواد اگر سوشل میڈیا پر موجود ہے تو اس پر پابندی کے لئے حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے اور ان پیجز کے پیچھے موجود عناصر کی تلاش کے لیے کیا کاروائی کی۔ اس سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے کچھ ایسے ریمارکس بھی پاس کیے جن کی وجہ ان کے جج ہونے سے زیادہ ان کا مذہبی بیک گراونڈ معلوم ہوتا ہے۔

جبکہ سوشل میڈیا پر اس قسم کی افواہیں بھی پھیلائی جارہی
ہیں کہ کیونکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سی ڈی اے سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی سرکاری گھر پر سوا کروڑ کے قریب لگوانے کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرِ سماعت ہے تو مبینہ طور پر کچھ ریاستی ادارے ان کے اس ریفرنس کو ان کی کمزوری سمجھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اہم کیسز میں دبنگ فیصلے دیکھیں
تو ایسی افواہوں میں کوئی دم نظر نہیں آتا۔

میڈیا میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے رپورٹ ہونے
والے ریمارکس قابلِ بحث ہیں جیسا کہ انہوں نے کہا لبرلزم دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے، مبینہ طور پر توہین آمیز بلاگرز کے لیے مباح الدم کی اصطلاح استعمال کی یعنی واجب القتل، سابق گورنر پنجاب کے قاتل ممتاز قادری کی مثال دی اور حکم دیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی جائے جو ایسے ارکان پر مشتمل ہو جو مسلمان ہونے کی شرط پر پورا اترتے ہوں اور جن کے دل میں حب رسولﷺ موجود ہو۔

میں تمام ریمارکس کی وجہ سے بطور ایک امن پسند شہری پریشان ہوا ہوں۔ کم از کم ہمارے علم میں پاکستان میں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں جس میں کسی لبرل نے اپنے لبرل نظریات کی وجہ سے کسی مذہبی یا کسی بھی عام شہری کی جان لی ہو بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھیں تو بھارت، امریکہ اور یورپ سمیت جن بھی ممالک میں مسلمان اقلیت میں بستے ہیں وہ ہمیشہ لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ لبرل جماعتوں کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں وہ اپنے مذہبی تشخص اور مذہبی عبادت کی آزادی کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لبرل توہینِ مذہب کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسی طرح ایک قاضی وقت کے ریمارکس میں واجب القتل کی اصطلاح کا استعمال بھی قابلِ تشویش ہے کہ وہ کیسے آئین اور قانون کے بطن سے جنم لینے والے عدالتی فورم پر ماورائے آئین اقدام واجب القتل کی اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے یہ کہنا کہ جب قانون پر عمل نہیں ہوتا تو ممتاز قادری پیدا ہوتے ہیں کیا درست مثال ہے؟ اگر ادارے قانون کے مطابق ایکشن نہ بھی لے رہے ہوں تو کیا کسی شخص کی طرف سے کسی دوسرے شخص کو قتل کو جائز مانا جاسکتا ہے؟

جسٹس صاحب کی طرف سے یہ حکم دینا کہ ایسے ارکان پر مشتمل کمیٹی ہو جن کے دل میں حب رسولﷺ موجود ہو تو کیا کوئی بلڈ ٹیسٹ یا تحریری سوالنامہ سے اراکین کے دل و دماغ میں پائے جانے والے جذبات جانچے جائیں گے؟ میری درخواست ہوگی کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ایسے ریمارکس دینے سے گریز کرنا ان کے منصب کی ذمے داریوں کے شایان شان ہوگا۔ کیونکہ معاشرے میں پائی جانے والی نظریاتی تقسیم میں معزز جج صاحب کی آبزرویشنز کہیں ایک فریق کی حوصلہ افزائی کا باعث نہ بن جائیں۔ آپ کو بطورِ جج اپنے سامنے پیٹیشن کو مذہبی جذبات کے زیرِ اثر رہ کر نہیں بلکہ آئین اور قانون کی آنکھ سے دیکھ کر آرڈر پاس کرنے چاہیے۔

میری تجویز ہوگی جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب وزارتِ داخلہ سے پوچھیں کہ بلاگرز کو کس نے اٹھایا تھا؟ وہ کس کی حراست میں تھے؟ اور جن کی حراست میں تھے کیا ان اداروں کے پاس بلاگرز کے بھینسا جیسے توہین آمیز پیج کا ایڈمن ہونے کا کوئی ثبوت ہے؟ کیونکہ بی بی سی کو انٹرویو میں ایک لاپتہ رہنے والے بلاگر وقاص احمد گورایہ نے توہینِ مذہب والے پیجز چلانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ انہیں پاکستان کے عسکری اداروں نے حراست میں لیا تھا۔ جن پیجز سے بلاگرز پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا ان کے ایڈمن کا پتہ چلایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ کیا ان کے پاس بھی بلاگرز کے خلاف کوئی ثبوت موجود تھا؟ اور اگر نہیں تھا تو وہ کس کے ایماٴ پر یہ الزامات لگا رہے تھے؟

جن ٹی وی اینکرز نے بلاگرز کے خلاف پروگرام کئے ان کو عدالت خود بلوا کر پوچھے کہ ان کے پاس کیا ثبوت تھے اور اگر نہیں تھے تو انہوں نے کس کے کہنے پر یہ پروگرام کیے؟ کیونکہ یہ پیٹیشن ایسے ہی الزامات سے مشتعل ہو کر دائر کی گئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ الزامات لگانے والے ذرائع سے ثبوت مانگے جائیں تاکہ کمیٹی کے قیام کے بغیر ہی معاملہ کی تہہ تک پہنچ کر تیز تر انصاف کا حصول ممکن ہوسکے۔ ورنہ پی ٹی اے کو بلا کر ایسے توہین آمیز پیجز کو بلاک کرنے کے آرڈر دیئے جائیں تاکہ ہم سب مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بننے والے یہ پیج بند ہوسکیں اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور ٹی وی پروگراموں میں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کو اکسانے والوں کو بھی سزا دی جائے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز جیسے قابلِ بصیرت جج کو احساس ہوگا کہ اس کیس کو طول دینے کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ شام و عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کی حمایت کرنے والے متنازع مولانا حضرات مسجد و منبر کا غلط استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں فساد برپا کردیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس کیس کے ذریعے جہاں توہینِ مذہب کے پسِ پردہ کرداروں کو سزا دے سکتے ہیں وہیں وہ ایسے عناصر کو بھی قانون کے کٹہرے میں لاسکتے ہیں جو ریاستی پالیسیوں یا اپنے سیاسی ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے توہینِ مذہب کے الزام کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ روز قبل بلاگرز کی طرح ایک خاتون صحافی عفت رضوی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی پھٹیچر والی وڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرنے پر مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے پیروکاروں نے اسی گستاخ پیج بھینسا کا ایڈمن کہہ کر ہراساں کیا تھا جس کی بعدازاں عمران خان صاحب نے مذمت کی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلاگرز کے خلاف ان الزامات میں بھی کتنی صداقت ہوگی اور توہین مذہب کے سنگین الزام کا شرپسند عناصر کس دیدہ دلیری سے استعمال کررہے ہیں۔ جس سماج میں ادارے قابلِ احتساب ہوں، اصلی مجرم قابلِ گرفت ہوں، اختلافِ رائے کو دشمنی میں بدلنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ریاستی پالیسیوں پر تنقید کو مثبت سمجھ کر ان میں بہتری لائی جائے وہی معاشرے اپنے ممالک کو ترقی کی منزلیں طے کرواتے ہیں۔ گھٹن، خوف اور محرومی کا شکار معاشرے ہمیشہ پسماندہ ہی رہتے ہیں۔ امید ہے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنی بصیرت سے اس کیس کو معاشرے میں بے چینی کا باعث نہیں بننے دیں گے۔

توہین مذہب

About اسد علی طور 14 Articles
اسد علی طور، براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، ان دنوں اے آر وائی چینل کے ایک پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ لیکن آزاد منش فکر اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سوال کی اجازت نا دینے والی طاقتوں کو بھی سوال زد کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔