اسم حقیقت نہیں فعل ہوتا ہے

Farrukh Nadeem

اسم حقیقت نہیں فعل ہوتا ہے

از، فرخ ندیم

The present epoch will perhaps be above all the epoch of space. We are in the epoch of simultaneity: we are in the epoch of juxtaposition, the epoch of the near and far, of the side-by-side, of the dispersed.

(Michel Foucault: Of Other Spaces)

کم و بیش اسی دور میں مظفر علی سید بھی، حلقہ اربابِ ذوق میں پیش کیے گئے خطبے بہ عنوان ’’عصرِ حاضر میں ادب کا کردار‘‘ میں، اسی قسم کے ثقافتی، زمانی و مکانی مسائل اور تناقضات (paradoxes) کے ادراک کا اظہار کرتے ہیں۔

ہمارا زمانہ نئے علوم و فنون کا بھی ہے اور نئی بربریت کا بھی، تکنیکی تعمیر کا بھی ہے اور برقیاتی جارحیت کا بھی، تسخیرِ کواکب کا بھی ہے، اور جنگِ کواکب کا بھی، تعلیم و تربیت کا بھی ہے اور سوقیانہ مذاق کا بھی، عوامی جمہوریت کا بھی ہے اور تہذیبی فاشیت کا بھی۔ ایک طرح کے اِمکان سے دوسری طرح کے اِمکان اِس انداز سے باہم پیوست ہے کہ دونوں کو جدا کر کے دیکھنا بھی محال ہے۔ ایسے میں ادب کا کردار یک رخا نہیں ہو سکتا۔

                                                                                        (سخن اور اہلِ سخن: تنقیدی مضامین، صفحہ، ۲۳)

انسان کی ایک تاریخ وہ ہے جو دو انسانی کرداروں حضرت آدم اور حوا علیھما السلام سے شروع ہوتی ہے۔ لباس کے شعور سے پہلے ان دو انسانی کرداروں کا سپیس متعین کیا گیا تھا جہاں دوسری مخلوقات کے ساتھ ایک (لا) مکانی زندگی ان کا متن بنی۔ ایک ما وارئے بیانیہ زندگی، جس کا ثقافتی اور محاکماتی جائزہ لیتے وقت کہانی کی مبادیات مشکل میں پڑ جاتی ہے۔

کسی بھی کہانی کا تجزیہ ابتدا، وسط اور انتہا کی حدود کے تعین کے بغیر ممکن نہیں۔ بیانیہ وقت سے مشروط ہوتا ہے اور وقت کے لیے مادہ اور اس کا تحرک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ دو کردار اس مقدس مکان کا حصہ تھے جس میں شعور مادی محرکات و محسوسات سے مشروط نہیں۔

لباس کے شعور کے بعد، تحدید کے تجربے سے گزرنے کے بعد، یہ دو مقدس کردار لا مکان سے (مادی) مکان کا سفر اختیار کرتے ہیں اور زمین پر زمینی، سماجی، معاشی اورثقافتی بیانیے کا اجراء ہو جاتا ہے جو تاریخ کی شکل میں آج بھی اپنی انتہا کی طرف مراجعت کرتا نظر آتا ہے۔ اس مکان کی ابتدائی شکل سُومیری ادب میں کسی ’’سنہرے زمانے‘‘ کی بابت یوں ملتی ہے:

’’ایک وقت تھا جب سانپ نہیں تھا، بچھو نہیں تھا،

جنگلی کتا نہیں تھا، بھیڑیا نہیں تھا،

کوئی ڈر نہیں تھا، دہشت نہیں تھی،

انسان کا کوئی حریف نہیں تھا،

ایک وقت تھا (جب) ملک ’’شوبوز ہمازی‘‘،

بادشاہت کے مقدس قوانین کا عظیم ملک سومیر،

ہر مناسب چیز رکھنے والا (ملک) اُری اور ملک مارتُو،

امن و سلامتی میں رہتے تھے،

ساری کائنات اور لوگ مل کر،

ایک زبان ہو کر اَن مِل ( دیوتا) کی ثنا کرتے تھے۔‘‘

                                                             (دنیا کا قدیم ترین ادب، اول، صفحہ ۱۳۱)

 سُومیری ادب Sumerian literature سے ہی ایک اور نظم ’’سنہرے زمانے‘‘ سے نکل کر زمینی مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ ایک ماں کی اپنے بیٹے کے لیے اس ’’لوری‘‘ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ (ایک ماں کی حیثیت سے) ایک عورت اپنے بیٹے کے لیے جن خیالات و جذبات کا اظہار کرتی ہے ان میں دیوتاؤں کی حمد، بیٹے کی عظمت کی خواہش، اس کی نسل کا پدر سری تسلسل اور ساتھ ہی خوف اور اندیشے بھی شامل ہیں۔ نظم کی طوالت کی وجہ سے اسے یہاں شامل کرنا ممکن نہیں، لیکن سُومیری عہد میں نِسائی مکان کی بحث کے سلسلے میں اس کے چند مصرعے شامل کیے جا سکتے ہیں۔

اُدا! اَیُوا!

میرا نغمہ مسرت    وہ تنو مند بنے گا،

میرا نغمہ مسرت    وہ بڑا ہو گا،

اِری نا، درخت کی طرح اس کی جڑ مضبوط ہوگی،

شکر پودے کی طرح وہ اوپر سے پھیلا ہو گا،

    ………….

اپنے نغمۂِ مسرت میں ۔۔۔۔۔ میں اسے ایک دلہن دوں گی،

میں اسے ایک نغمہ دوں گی، میں اسے ایک بیٹا دوں گی،

خوش دل انا اسے دودھ پلائے گی،

میں اپنے بیٹے کے لیے ایک دلہن لاؤں گی،

وہ اس کے لیے بہت ہی پیارا بیٹا جنے گی،

بیوی اس کی گرم گود میں لیٹ جائے گی،

    …………..

کتے کو خوف زدہ کر کے اپنے سامنے جھکا دے،

ایسا نہ ہو کہ وہ تیری کمر تھیلے کی طرح چاک کر ڈالے۔

                                                (دنیا کا قدیم ترین ادب، اول، صفحہ۱۳۷)

موضوعاتی اعتبار سے سُومیری کہانیاں اساطیری اور صنمیاتی ہیں جن میں دیویوں اور دیوتاؤں کی پیدائش اور ان کی زندگیوں کے عروج و زوال کے (منظوم) قصے شامل ہیں۔ جگہ جگہ تحریماتی مکانات سے متشکل یہ داستانیں مادی دنیا کے مسائل کو ما بعد الطبیعیات سے مختلف دیکھنے کی اولین کوششیں محسوس ہوتی ہیں۔ انسانی تخیل کی تحدید اور (ہمہ گیر) کائناتی تحیر کی وسعت میں فرق سے انسانی سوچ پر مرتب فطری اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔


فرخ ندیم کے ایک روزن پر دیگر تحریروں کا لنک


یہاں، یونانی اساطیر کی طرح تحریماتی تحیربھی موجود ہے جس سے ابتدائی متون کے خد و خال وضع ہوتے ہیں۔ تحریماتی جبراور سہولت دونوں طرح سے انسانی شعور کی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ قدیم یونانی اساطیری داستانوں میں تحریمات کے نقوش اس طرح گہرے ہیں کہ افلاطون اور ارسطو کے عہد کا یونانی المیہ حدود کی تجاوزی ثقافت transgression سے مشروط نظر آتا ہے۔

یہ انسانی سوچ کا نیا سپیس تھا جس میں انسانی تکبر کی نا گزیر شکلوں اور وارداتوں سے یونانی ذہن نبرد آزما رہا ہے۔ بھلے مغرور اور متکبر سزا وار ٹھہرتا ہے اور عبرت ناک تجربات سے گزرتا ہے، لیکن اس کردار کے سوالات اہم اور معنی خیز ہیں۔ اسی سپیس سے ٹریجیڈی تشکیل پاتی ہے۔

مشرقی ثقافتی کلامیوں کے مطابق انسان کی ایک اور تاریخ بھی ہے جسے قدیم ہندی اساطیر نے ساخت کیا ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب میں ما بعد طبیعاتی کلامیوں کو ثقافتی سرگرمیوں اور متون میں مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ان متون کو انسانی سرگرمیوں کے گرد حفاظتی دیوار کی حیثیت حاصل ہے۔

دنیا بھر میں نظریاتی دیواروں کی خلاف ورزی ایک جرم سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے ان مقامات کی نشان دہی کر دی گئی ہے جہاں انسان کی کمزور حالت اس کو کسی بھی سمت ورغلائے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک ایسا ہی مقام ہندی اساطیر میں بیان کیا گیا ہے جسے ایک مشہور لسانی ترکیب ’’لکشمن ریکھا‘‘ سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔

ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے تحقیقی مجلے میں آئیڈیالوجی اور چوکھٹ/دہلیز میں تعلق پر چھپنے والے مضمون میں عنبرین صلاح الدین اور ساتھی محققین نے مشہور اساطیری لسانی ساخت ’’لکشمن ریکھا‘‘ کا چوکھٹ سے انسلاک کرتے ہوئے عورت کے سپیس کا جائزہ لیا ہے۔

تحقیق کے مطابق لکشمن ریکھا مرد اور عورت کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتی ہے اور اب بھی مختلف مجازی اشکال میں یہ روایت جاری ہے جس کا عکس خواتین لکھاریوں کے فکشنل متون میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح قدیم یونانی اساطیر میں بھی مرد اور عورت کے سپیسز کا مطالعہ کیا جا چکا ہے جس سے نسائی کرداروں کے مکانات لا اسطور (demystify) ہوتے ہیں۔

دوسری تاریخ یعنی سیکولر تصورِ ارتقاء کے مطابق ایک ذی روح جسم ہزاروں منزلیں اور مراحل طے کرتا ہوا سلسلہ وار اس انسان کی صورت میں متشکل ہوتا ہے جو کائنات اور اس کے اسرار و رموز سمجھنے اور اس کی تعبیر کرنے میں محو سفر ہے۔ یہ دو مختلف نظریات ہی، آفاقی سطح پر، مکانی تخصیص کا پہلا سبب ہیں لیکن ایک قدر دونوں میں مشترک ہے اور وہ انسان کی زبان اور انسانی کہانی ہے۔

زمان زاد time bound اورمکان زاد space bound انسان کی کہانی جو اس کی بنیادی ضروریات سے شروع ہو کر جذبات اورخواب و خواہش ، لالچ، ہوس، طاقت، تسلط، محبت، افزائشِ نسل، تجنیس، تخصیص، امتیاز، رقابت اور رشک ، تحفظ، عدم تحفظ، حاکمیت اور اطاعت، دوستی، دشمنی، تقسیم اور ہجرت جیسے مسائل اور اس بھی آگے منطق، فلسفہ، دریافتوں، ایجادات اور تعقلات سے گزرتے ہوئے نئے سوالات اور نئی وسعتوں کی طرف رواں دواں ہے۔

ان تمام سرگرمیوں میں لسانی ثقافت جبر اور سہولت دونوں صورتوں میں موجود (رہی) ہے۔ مذہبی نظریۂ ارتقا ہو یا سیکولر، دونوں طرح سے لسان ہی وہ بنیادی وسیلہ ہے جو مطلوبہ مقصد، جذبہ، احساس، کوشش، سیاست اور فلسفے کے ابلاغ کو ممکن بناتا ہے۔ انسان نے (مادی) وقت کے متعلق جو سنا پڑھا، یا جو قصے کہانیاں سنیں یا پڑھیں وہ مروج لسانی ساختوں کی مرہونِ منت ہیں۔

انہیں لسانی ساختوں میں فکشن بھی ہے، بیانیہ narrative اور کلامیہ discourse بھی۔ کہانی اور وقت کا تعلق اس لمحے سے شروع ہوتا ہے جب انسان نے مادی زمان و مکان میں آنکھ کھولی۔

کہانی کی طرح وقت بھی ایک مقام سے دوسرے مقام تک کے سفر کا نام ہے جب کہ سپیس ایک مکان کی ثقافتی وسعت ہے جس میں انسان مختلف لسانی اکائیوں کی طرح ایک ثقافتی وحدت میں متشکل ہوتے ہیں۔ وقت، جیسا بھی ہو، کہانی کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔

موضوعیت میں بھی اور معروض میں بھی، متن میں بھی اور تناظر میں بھی۔ جب کسی انسان (مرد و زن) یا اس کی کہانی کا ذکر ہے تو اس کا مکان بھی ہے یعنی وہ سپیس (معاشرہ، سماج و ثقافت) جس میں وہ اپنی زندگی کی خوشیوں غمیوں کا تجربہ کرتا/تی ہے۔

یہ مکانی شکل متن کی داخلی کائنات بھی اور خارجی بھی۔ فرق اس کی کہانی کی فسانویت کا ہے جو (ممکنہ، نظریاتی اور جائز ساخت کی گئی) حقیقت اور (جائز) تخیل کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے۔ (حقیقت اور تخیل کے ساتھ مذکورہ اسمائے صفات کا استعمال ضروری تھا، کیوں کہ تخلیقی عمل میں حقیقت اور تخیل دونوں کی شعوری یا لا شعوری طور پر تہذیب کی جاتی ہے اور اس کے بعد انہیں پیش کیا جاتا ہے۔)

فکشن، بھلے وہ جانوروں، پرندوں کی کہانی ہو، سپیس انسان کا ہی استعمال ہوتا ہے اس لیے کہ راوی اور کرداروں کا کلام انسانی ہوتا ہے۔ متصوفانہ سپیس میں لکھی گئی تماثیل جانوروں اور پرندوں کی عادات و خصائص کی نسبت سے پیش کی گئی ہیں۔ یہ جانور اور پرندے آدھے انسان ہوتے ہیں۔ ان کے اندر سے انسان بولتے ہیں۔ یا جانورو ں کو انسان بنانے کی لا شعوری انسانی کوشش ہے اور یا انسانی جانوروں کو اصل جانوروں کے مقابل لا کران کو تزکیۂ نفس کا موقع دیا جاتا ہے، یا primitivity تجسیم ہوتی ہے، یا انسانوں کے باطنی حیوانات کو ان کے جسموں سے باہر لانے کا طریقہ ہے یا حیوانیت اور آدمیت کا تقابلی موازنہ کیا جاتا ہے، یا ثنویت کی رُو سے اچھے اور برے جانور الگ کیے جاتے ہیں، ان جانوروں کے نظریاتی مکان بھی الگ کر دیے جاتے ہیں؛ جو بھی ہے، ادیب و راوی کے شعور و لا شعور میں سیاق و تناظر کی عمل داری کے بغیر ممکن نہیں اوریہ تخلیقی عمل ایک تیسرے مکان میں تمکین کیا جاتا ہے جسے فسانویت کا مکان کہتے ہیں۔

سنجیدہ ادب ہو یا پاپلور، اپنی تمام تر رعنائیوں؛ جمالیات اورجسمالیات (ایسا منظر، کیمرہ کا فوکس، یا پیرایہ جس میں نسائی جسم اور جِلد کی سیاست کا شائبہ گزرے) کے ساتھ، اسی فکشنل سپیس میں تخلیق ہوتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تخلیق کار (پرسونا) سماجی (مذہبی، سیاسی، ثقافتی) انسان کا ایک فکشنل سپیس ہی ہوتا ہے۔

فکشنل ادب میں تاریخی کرداروں کی کردار نگاری بھی ایک الگ سپیس میں تخلیق ہوتی ہے۔ خاص طور پر جدیدیت کی رُو سے لکھا گیا علامتی اور تجریدی ادب، سرئیلزم اور وجودیت جیسی تخلیقات میں فسانوی وفور کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔

مغربی جدیدیت میں جوائس اور ایلیٹ نے اسطورہ اور جدید معاشرتی کرداروں کے ملاپ سے ایک تیسرا مکان تخلیق کیا۔ جیمز جوائس کے ناولوں میں سٹیفن نام جدید ہے اور ڈیڈلس یونانی میتھ سے لیا گیا ہے۔ اس کے افسانوی کردار آئرلینڈ کی رہتل سے لیے گئے ہیں، مگر فکشن میں ڈھل کر ایسے مکان کی ترجمانی کرتے ہیں، جو تجرباتی صورت حال کے مطابق کسی بھی خطے کے رہنے والے انسان کا مکان بن جاتا ہے۔

اس طرح ادب انسانوں میں مکانی اشتراکات پیدا کرتا ہے۔ یعنی رنگ و نسل اور زبان و مذہب کے مختلف ہونے کے با وجود ان کا حادثاتی، واقعاتی اور نفسیاتی سپیس ایک ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی ادبی متن بھلے وہ ترقی پسند ادب ہو، بھر پُور حقیقت نگاری کے با وجود فکشن کی آمیزش سے عاری نہیں ہوتا۔

گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ یا مہا سویتا دیوی کا ’’ایک ہزار چوراسی کی ماں‘‘ اپنے عہد کی خوفناک حقیقتوں کے عکاس ہیں، مگر ان کی بیانوی مکانیت میں ان کی فکشنیلیٹی کا مکان بہت اہم ہے جس میں ان ناولوں کی صورت حال کے مطابق ہر معاشرے کی عورت اشتراکی رشتے سے منسلک ہو جاتی ہے۔

لیکن، چُوں کہ سماجی نفسیات کو متعین کرنے والے محرکات میں یکسانیت شرط نہیں، جغرافیائی وحشت ایک جیسی نہیں، آشوب چشم کا سر چشمہ ایک نہیں، نہ ہی انسان ایک جیسے، نہ ان کے رنگ و نسل میں (ایک طرح کی) یکسانیت، نہ ہی طاقت، صورت، معاشی و اقتصادی حالات ایک جیسے ہوتے ہیں اس لیے فکشن میں بھی مکانی مماثلتوں کے ساتھ ساتھ مکانی مخالفتیں اور مخاصمتیں بھی (شعوری یا لا شعوری طور پر) متنائی جاتی ہیں۔

اس طرح اشتراکاتی اور مماثلاتی مکان الگ ہے اور افتراقی الگ جس پر پس ساختیات، ما بعد نو آبادیات اور تانیثی تھیوری کے نقاد فوکس کرتے ہیں اور آفاقیت پر تشکیک کا اطلاق کرتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کا ادب آفاقی قدروں کا ترجمان ہوتا تو Caribbean ثقافت کی ایک Creole عورت Jean Rhys انگلستانی لکھاری Charlotte Bronte کے ناول Jane Eyre کی مکانی و افتراقی سیاست کے رد عمل میں اپنا ناول Wild  Sargasso Sea لکھنے پر مجبور نہ ہوتی نہ ہی سوڈانی فکشن نگار طیب صالح کا ناول Season of Migration to the North پوسٹ کولونیل کلامیہ کا ترجمان بنتا اور نہ ہی فرائڈ لیونارڈو ڈونچی کے فن پاروں کا نفسیاتی جائزہ لیتا، نہ ہی ان فن پاروں کی رمز کشائی کی جاتی اور نہ ہی ڈی ونچی کوڈ جیسا ناول لکھا جاتا۔

مغربی مفکرین نے مکالماتی اور جدلیاتی طریقے سے دوسرائے گئے بیانیوں کی رمز کشائی میں استقلال سے کام لیا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ آفاقیت، عالم گیریت کی طرح، عمومیت کا دوسرا نام ہے، ایک ایسا التباس ہے جو متنی مارکیٹ کی نظریاتی سیاست کو سپیس دیتا ہے۔

لکھاریوں کے ساتھ یہ ابدی مسئلہ لا حق ہوتا ہے کہ وہ ہر قدر کو اخلاقی اور آفاقی سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہر قدر کی اپنی ثقافتی جُڑَت ہوتی ہے، اور دوسری یہ کہ قدر ہونا اور قدر ساخت کرنے میں فرق ہے۔ اسے گرامر اور سماج کے تعلق سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی فعل اور سماج کے تعلق سے جب کسی اسم کو فعل کے عمل سے گزارا جاتا ہے تو صورت حال واضح ہوتی ہے۔ آج کی تنقید ہر اسم کو حقیقت ماننے کی بجائے اس کو فعل سے گزار کر دیکھنے کی قائل ہے لیکن اکثر لکھاری، آفاقیت کی رو میں مستغرق اس ساختیاتی صداقت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔