پیٹر بیری سے الیاس بابر اعوان تک

پیٹر بیری سے الیاس بابر اعوان تک

پیٹر بیری سے الیاس بابر اعوان تک

از، نوشین قمر 

 رابعہ آپی کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ ساتھ ہی ایک بھاری ذمہ داری بھی میرے نا تواں کندھوں پہ ڈالی گئی کہ میں نے اس حوالے سے اپنی رائے بھی دینی ہے۔ میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا جسے میں نے بَہ خوشی قبول کیا۔ ساتھ ہی ایک خوف یہ بھی تھا کہ  میں اس کتاب پہ اپنی رائے کیسےدوں گی۔ میری یہ مشکل گرد میں لپٹی پیٹر بیری کی کتاب نے حل کر دی جو الماری میں پڑی میرا مُنھ چِڑا رہی تھی، جسے انگریزی والوں نے تھما دیا تھا۔ اسے پڑھیں اپنے طور پر سمجھیں اور اپنے الفاظ میں لکھ ڈالیں۔ وہ انگریزی کہ جس سے بچپن کا بیر ہے۔ 

یہ ہی وجہ ہے کہ بی اے میں بیاسی نمبر لے کر خود کو پھنے خان سمجھتی تھی کہ چلو چھیاسٹھ سے تو زیادہ ہی ہیں۔اب ایک مکمل کتاب وہ بھی تھیوریز سے بھری ہوئی۔ میرے لیے یہ کسی شجرِ ممنوعہ سے کم نہ تھی۔ جسے صرف ہاتھ لگایا اور سانبھ کر رکھ دیا۔ اگلی کلاس میں صاف لفظوں میں دُہائی دی کہ مجھے پیٹر کی ذرا سمجھ نہیں آئی۔ 

وہیں سے معلوم ہوا کہ محترم الیاس بابر اعوان صاحب نے حال ہی میں اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے، سو اس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ پھر کیا تھا اس کتاب کے حصول کی تگ و دو شروع ہوئی اور با لآخر وہ کتاب اب میری دست رس میں تھی۔ 

بنیادی تنقیدی تصورات (تھیئری تناظرات)۔ اب یہ تھیئری کیا بلا ہے۔ ہم تو ایم۔ اے سے ایم۔فل تک تھیوری تھیوری پڑھتے آئے تھے۔ پھر سوچا کہ اب لیول ذرا بڑا ہے تو پی۔ایچ۔ڈی میں تھیوری،تھیئری ہو گئی ہے۔ لیکن اسے اتنی جلدی قبول نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ میری زبان تھیوری کا رَٹہ لگا چکی ہے۔ 

میری تلاش سب سے پہلے مقدمے کی تھی کہ مترجم نے کیا طریقۂِ کار اختیار کرتے ہوئے،اور کن اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترجمہ کیا ہے۔ لیکن یہ تلاش بے کار گئی کیوں کہ پیش لفظ محترمہ نجیبہ عارف صاحبہ کا لکھا ہوا تھا اور محترم ڈاکٹر روش ندیم صاحب کے بھی تھیوری کے حوالے سے کلمات درج تھے۔ بَہ حیثیت ایک طالب علم مجھے یہ ایک بڑا خلا محسوس ہوا کیوں کہ ایسی صورت حال میں مترجم کی جانب سے ایک نوٹ، چاہے وہ مختصر سا ہی کیوں نہ ہو، لکھا جانا ضروری تھا، تا کِہ مجھ جیسے نا لائق طالبِ علم تھوڑا سا آگاہ ہو جاتے کہ مترجم نے آیا با محاورہ ترجمہ کیا ہے، لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا ہے، یا مفہوم کو سمجھتے ہوئے اسے اپنے الفاظ میں رقم کیا ہے۔ 

جب فہرست پہ ایک نظر ڈالی تو کچھ نئے الفاظ سے واسطہ پڑا جن میں ساختیاتی مرغیاں اور لبرل ہیومن ازم انڈے، فرائڈ، ہم دو صنفی ہم جنس پرستانہ تنقیدی تھیئری۔ یَہ الفاظ دیگر، میرے لیے نئے تھے ہو سکتا ہے اس میں میری کم علمی کا زیادہ دخل ہو۔ جب پیٹر کی کتاب کو سامنے رکھا تو hens اور eggs سے اندازہ لگایا کہ یہ حرف بَہ حرف ترجمہ ہے۔ فروئڈ جسے ہم فرائڈ پڑھتے آئے تھے اب فروئڈ بن چکا تھا۔ ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں ہونے والے ترجموں میں اسے بَہ طورِ فراڈ کے پیش کر دیا جائے۔ 

جہاں کہیں ایسے جملے پڑھنے کو ملے وہیں گماں گزرا کہ شاید مترجم کے الفاظ ہیں، جیسے ”میں اس تصور کو بے کار سمجھتا ہوں، نہ ہی مسترد کرتا ہوں۔ محض اس تصور کو دیگر تناظرات اور اس کے فرق کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔“  

”کتابِ ہٰذا جس قسم کی تعارفی کتاب ہے وہ اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اس میں تمام موضوعات کو زیرِ بحث لایا جائے… ۔“ یہیں پیٹر نے میرا کندھا تھپتھپایا اور کہا کہ بیٹا یہ میرے ترجمہ شدہ الفاظ ہیں۔ اسی طرح چند اصطلاحات کی اگر انگریزی اردو دونوں میں وضاحت کی جاتی تو میرے جیسے نا لائق طالب علموں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ اینگلو امریکی تنقید، اینگلو امریکی تحریک۔ 

انگریزی نام کہیں ساتھ دیے ہوئے ہیں، کہیں صرف اردو میں لکھے ہوئے ہیں۔ جیسے ڈن، ٹورل موئی وغیرہ۔ ان کو دونوں صورتوں میں لکھا جانا ضروری تھا کیوں کہ بعض الفاظ ہماری روز مرہ گفتگو میں شامل ہو کر ایک الگ پہچان بنا چکے ہوتے ہیں، جیسے ڈن کو میں ڈان ہی پڑھتی آئی تھی۔ اس طریقۂِ کار کو مترجم مقدمے کی صورت میں بیان کر سکتا تھا کہ میں نے یہ طریقۂِ کار استعمال کرتے ہوئے ترجمہ کیا ہے۔ جہاں کہیں الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے مشکل پیش آئی ہے اسے جوں کا توں بیان کر دیا ہے۔ جیسے لبرل ہیومنزم شروع سے آخر تک وہی رہا ہے۔ 

پیٹر نے سٹاپ اینڈ تھنک کے حوالے سے کچھ مشقیں دی ہوئی ہیں، انہیں کیوں شاملِ کتاب نہیں کیا گیا۔ ترجمہ شدہ کتاب کے آخر میں جو یاد داشت کے عنوان سے صفحات خالی ہیں وہ کس لیے ہیں؟ یوں پیٹر بھی ناراض نہ ہوتا اور پڑھنے والوں کو بھی آسانی رہتی۔ 

 قاضی عبدالودود کی عینک لگا لی جائے تو املاء کی اغلاط بے شمار ہیں۔ لیکن میں نہ ہی کوئی نقاد ہوں اور نہ ہی ٭ماہرِ لسانیات (ہمارے یہاں کے اردو علمی کلچر میں اکثریتِ افراد، لسانیات کو زیادہ تر املاء کے ساتھ ہی نتھی کر کے دیکھتے ہیں، ٭مدیر۔) بَہ حیثیت ایک طالب علم کے میں یہ ساری ذمہ داری ٹائیپنگ کرنے والے کے سر ڈال دیتی ہوں۔ جو متن کا ستیا ناس کر دیتے ہیں۔ پایۂِ تکمیل کو پایا بنا دیتے ہیں، ہمزہ کو اگلے لفظ کے ساتھ جوڑ کر نیا لٖفظ تخلیق کر لیتے ہیں۔ مذکر لفظ کے ساتھ جہاں مذکر ہی لگنا چاہیے، وہاں مؤنث کا صیغہ استعمال کر دیتے ہیں۔ جملوں میں سے چند لفظوں کو کھا جاتے ہیں؛ اور کا اضافہ کر کے جملے طویل کر دیتے ہیں۔ جس سے عبارت کی روانی میں نہ صرف رکاوٹ پیدا ہوتی ہے بَل کہ طویل جملے مفہوم کا ذائقہ بھی خراب کر دیتے ہیں۔ جس کی ایک ہی مثال سمجھنے کو کافی ہے جو صفحہ ۱۵۱ میں کچھ یوں ہے:

”جیسے کہ برونٹے کہتی ہے کہ جہاں کیتھرین سیکھتی ہے کہ کیسے دوغلا کردار اپنایا جائے بغیر اس سوچ کے کہ ہم کسی کو دھوکہ دیں گے اور جس کے بارے میں گلبرٹ اور گیوبر کہتی ہیں کہ اسے یہ سیکھنا تھا کہ کیسے اپنی کواہشات کو دبایا جاتا ہے اور اپنی توانائیوں کے گرد آہنی حصار قائم کیا جاتا ہے اور منطق کو بھول جانا پڑتا ہے اور اسے بھی دوہرے پن کی تعلیم کہتے ہیں جو کہ دراصل فریب کاری اور اپنی ذات کا بکھراؤ ہے۔“

ترجمے میں جب ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو عموماََ مفہوم سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ جس سے مطلب آسان اور واضح صورت میں قاری تک پہنچ سکتا ہے۔ کچھ جملے سے اور جیسے کے الفاظ پر ختم ہو جاتے ہیں۔ 

بعض اوقات پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بات ادھوری ہے لیکن دو بارہ سے لفظوں کے توڑ جوڑ سے وہ جملے واضح ہو جاتے ہیں۔ ان تمام اَغلاط، جن کی نشان دہی کی گئی ہے، مختلف صفحات پر موجود ہیں۔ ان کی مثالیں صفحہ نمبر ۲۳ سے ۸۳ تک  صفحہ ۱۶ پردیکھی جا سکتی ہیں۔ طوالت کے باعث انہیں یہاں بیان نہیں کر سکی، اور نہ ہی دیگر صفحات کا ذکر کر سکی ہوں۔ میرا مقصد صرف توجہ دلانا ہے۔ 

یہ وہ دُہائیاں تھیں جو میرے ارد گرد کے طالب علموں اور خود میری زبان سے نکلی تھیں۔ پیٹر نے یہ کتاب طالب علموں اور تنقیدی بصیرت کے حامل افراد کے لیے لکھی تھی، اس کے پیشِ نظر یہ بات تھی کہ اسے طالب علموں نے بھی پڑھنا ہے۔ اردو میں ترجمہ کرتے وقت مترجم نے بھی حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اسے مدِّ نظر رکھے، لیکن چند جگہوں پر اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ 

مندرجہ بالا چند دُہائیوں سے قطع نظر یہ کتاب میرے لیے کسی من و سلویٰ سے کم نہیں۔ جو انگریزی کا ایک صفحہ پڑھنا خود پہ ایک بوجھ سمجھتی ہے، اس کتاب کے بعد بڑے فخر سے پیٹر کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ کام ان ادیبوں، ناقدین اور محققین سے تو بہت ہی بہتر ہے جو ایک دوسرے کے نظریات کا حوالہ دے دے کر اپنے کئی مضامین تخلیق کر کے انہیں مُرتّبَہ کتابی صورت میں شائع کر دیتے ہیں۔ 

بلا شبہ ایک ایسی کتاب جو تنقیدی نظریات کے حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل تھی اسے اردو میں ترجمہ کر کے نہ صرف اردو پہ ایک احسان کیا ہے، بَل کہ طالب علموں کو ادھر اُدھر کی خواری سے بھی بچا لیا ہے، جو ان نظریات کو بکھری ہوئی صورت میں یہاں وہاں تلاش کرتے پھرتے تھے۔ اس کتاب کی ایک اور بڑی خوبی ہر نظریے کے ساتھ اس کا متن پہ اطلاق بھی ہے۔ جنہیں مثالوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ موجودہ دور، جو ادب کے میدان میں نظریات میں گھر چکا ہے، بے شک یہ ترجمہ ایک اہم اوزار ہے۔

 میری صرف ایک گزارش ہے کہ اس کتاب پہ نظرِ ثانی ضرور کی جائے۔ مقدمہ ترتیب دیا جائے اور ترجمے میں مزید روانی اور آسان اصطلاحات کا اہتمام کیا جائے۔ جس طرح انگریزی مُتُون پہ تھیوری کا اطلاق کر کے مثالیں پیش کی گئی ہیں ایسی ہی ایک ایک مثال ارود ادب سے بھی لی جائے۔ بے شک یہ ترجمہ ہے لیکن مترجم اپنے چند اصول وضع کرتے ہوئے اسے عام فہم اور آسان بنا سکتا ہے۔ اسی گزارش کے ساتھ میں محترم الیاس بابر اعوان کو اس عظیم کام پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ جو انہوں نے مجھ جیسی نا لائق اور انگریزی سے دور بھاگنے والے طالبات پر کی ہے۔

کتاب کی تقریب رونمائی کے روز پڑھا جانے والا تبصرہ