ویکھی جا مولا دے رنگ

Waris Raza

ویکھی جا مولا دے رنگ

از، وارث رضا

آئی ایم ایف IMF کی سلیکٹیڈ عوام دشمن اور خطِ افلاس سے کم زندگی گزارنے والی عوامی قتل معاشی پالیسی پر ہمارے عوام کی حالت قابلِ رحم اس وجہ سے ہے کہ ملک کے مولا بھی اس عوام دشمن پالسی کو کڑوا گھونٹ پی کر قبول کرنے کا بھاشن یخ بستہ کمروں سے دے رہے ہیں۔ مجھے سلیکٹیڈ حکومت کی معاشی خود کشی کی جانب جاتی عوام پر اپنے بچپن کا قصہ یاد آ گیا، جب ہم سماجی اور تاریخی حقیقتوں سے مبرا بچپن گزار رہے تھے تو ہمارے نا سمجھنے آنے والے، یا مشکل سوال کا جواب نہ حل کرنے کی کوشش میں، اکثر ہمارے بڑے، یا اساتذہ یہ کہہ کر ہمیں خاموش کرا دیا کرتے تھے کہ ویکھی جا مولا دے رنگ، جب کہ ہم احترام میں نا ملنے والے جواب پر چیں بہ چیں بستر میں مُنھ دیے اپنی محدود سوچ کے گھوڑے دوڑاتے تھے۔ مگر گتھی سلجھتی نہ تھی۔

جوں جوں ہمارا ذہنی ارتقائی شعور آگے بڑھا تو ہمیں مذکورہ ویکھی جا مولا دے رنگ والی مثل ٹالنے کے مترادف نظر آئی، جو کہ حقیقتاً ایسا ہی تھا، تاریخ کے مطالَعے اور سماجی آگاہی بِنا ہم بہت جلد ایسے بے ہنگم لولی پوپ سے باہر نکل آئے جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ہم اب بھی سوشلسٹ سماج قائم کرنے والے سماجی شعور کی آگہی کے ان اساتذہ کا قرض نہیں اتار سکتے جنہوں نے ہمیں سماجی آزادی اور سوچنے کی آزادی کے شعور سمیت سوال اٹھانے کا شعور دیا۔

مگر میں اس بے سَمت جاتی نسل کا کیا کروں جو اعلیٰ صفات کے با وُجود مولائی چوکی داروں کے سماجی شعور نہ دینے کی بھینٹ چڑھ گئے، اور کسی طور، بے شعوری کے ٹیلے سے اترنے پر آمادہ نہیں۔ ہمارے بیش تر اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے نو جوان، وہ طلبہ ہیں جو کسی طلبہ سیاست، یا سیاسی تحریک کا حصہ بننے سے روک دیے گئے۔ 

جس ملک میں جنرل ضیاء کے جرنیلی مارشل لا نے ایک جمہوری حکومت کو غیر آئینی طور سے اقتدار و  طاقت کے زور پر الگ کیا اور عوام کی سیاست کو طاقت سمجھنے کے جرم میں ایک منتخب وزیرِ اعظم کو تختۂِ دار پر چڑھایا، اور پھر قومی سلامتی کے نام پر قوم کے سیاسی اور سماجی شعور میں ہَراوَل دستہ بننے والی طلبہ سیاست پر پابندی لگا دی، تو اس صورتِ حال میں کہاں سے نئی نسل میں سوچ کی امنگ اور سماجی شعور آئے گا، فوجی جنرل ضیاء نے جب سوال اٹھانے والی طلبہ نَس کو ہی کاٹ دیا ہو تو پھر ملک میں قومی سلامتی کا بے سَر و پا بیانیہ ہی چلے گا، جو اپنے آخری نتیجے میں قوم کی سیاسی اور معاشی محرومیوں پر ہی ختم ہو گا۔ 

سو وہ ہو رہا ہے اور شاید کہ سلیکٹیڈحکومت کے ہوتے ہوئے ہوتا رہے؛ کہ ایک پوری نسل کو فوجی جنرل ضیاء نے نا صرف اپنی انا کی خاطر سیاسی بانجھ کیا، بَل کہ، انہیں قومی سلامتی کے جُھولے میں ڈال کر ویکھی جا مولا دے رنگ کے ہچکولے دے کر سماجی اور سیاسی طور سے یتیم اور اپاہج بھی کیا۔

ملکی سیاسی خرابی میں فوجی جنرل ضیاء نے یہی کچھ نہیں کیا، بَل کہ، اپنے پیش رَو جنرل ایوب کے قومی سلامتی کے بیانیے کے لیے چاپلُوس اور مفاد پرست افراد کی سیاسی نرسری بنائی جس میں سلیکٹیڈ حضرات ہی سیاست کرنے کے اہل کیے گئے، جنہوں نے مولا کی طاقت کے بَل بُوتے پر جو کرنا تھاکیا، مارشلائی جنرلوں کی اس غیر سیاسی نرسریوں میں پروان چڑھنے والوں کو ہر قسم کی کرپشن اور اقربا پروری کی اجازت تھی کہ اس طریقے سے طاقت کے مولا اپنی بد عنوانی چھپانے اور سماج کو سیاسی طور سے نا کارہ بنانا چاہتے تھے۔ 

سو ہو گیا، جس پر شاباشی اور حوصلہ افزائی کے لیے مولا کی طاقت بھی جنرل ضیاء کی نرسری میں پروان چڑھنے والے سیاست دانوں کے ساتھ رکھی گئی تا کِہ وہ جو کچھ کریں مولا کی طاقت کے بَل پر کرتے رہیں۔ 

مگر تاریخ کا اپنا مزاج اور اپنی سوچ ہوتی ہے، طاقت ور مولا ایک عرصے تک خوابِ خرگوش میں اپنے تربیت یافتہ سیاست دانوں کی صلاحیتوں یا کرامات سے، عوام دشمن اقدامات کراتے رہے، مگر جُوں ہی طاقت کے مولا کے بنائے ہوئے کَٹھ پتلی کرداروں نے عوام کی طاقت کو ہی اہم جانا، یا سمجھا تو  وہ افراد مولا کے غیظ و غضب کا شکار کر کے ملک بدر کر دیے گئے، یا مختلف مقدمات میں اب تک جکڑے ہوئے ہیں، یا جیل کی دیواروں پر تاریخ کے بہاؤ کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

مگر بات یہاں پر رکی نہیں، بَل کہ نرسری کے باغیوں کے رنگ دیکھتے ہوئے ہی دو بارہ سے طاقت کے مولاؤں نے نئی نرسری کی پیداوار کے لیے جنرل حمید گل اور  جنرل مشرف کی خدمات ملک کے لیے ضروری سمجِھیں، اور یوں قتل و غارت کا بازار گرم رکھنے والی ایم کیو ایم مُحبِّ وطن ٹھہری اور سیاسی نرسری میں نئی تربیت یافتہ تحریک انصاف تبدیلی کی جماعت ٹھہری، جس میں بعد کو مولا سے بغاوت کے نتیجے میں ایم کیو ایم ملک دشمن اور غدار بنی، مگر مولا کی کرامات کو ماننے والے ایم کیو ایم اور بلوچستان کے کچھ افراد کو سلیکٹیڈ حکومت کی حمایت کی شرط پر بَہ حال کر دیا گیا۔ 

بھلا ہو جنرل باجوہ کا کہ انہوں نے کُھل کر بات کرنے کے دروازے کا پَٹ نہایت احتیاط سے کھولا ہے، جس بِنا ہم بھی تاریخ  کے وہ گوشے عوام تک لے آئے جن پر بات ہونا اب ضروری ہو چلا ہے،جنرل باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”معاشی آزادی کے بغیر قومی سلامتی آزاد نہیں رہ سکتی،“ یا ان کا کہنا تھا کہ ”ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہم معاشی بحران کا شکار ہیں،“ لہٰذا مشکل معاشی فیصلوں کے لیے قوم کو حالات کا ساتھ دینا ہو گا،“ وغیرہ۔ 

صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے، مگر شام کو گھر آنے والا اس بات پر مُصر ہو کہ وہ تو گھر بُھولا ہی نہ تھا، بَل کہ کسی اور وجہ سے دیر سے آیا ہے، تو آپ کم از کم یا تو اس کی بات مانیں گے، یا پھر اسے ہٹ دھرم قرار دیں گے؛ ہم جنرل باجوہ سے پوچھنا ضرور چاہیں گے کہ معاشی آزادی سے ان کی کیا مراد ہے، کیا معاشی پالیسیوں کو مکمل عالمی معیشت کے خد و خال کے تحت چلایا جائے گا، یا پھر سے عوام کو ویکھی جا مولا دے رنگ کی اعتقاد کی چادر میں لپیٹ کر سوچنے اور سوال اٹھانے سے محروم کر دیا جائے گا؟

جنرل باجوہ نے ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں کو موجودہ معاشی بحران، یا صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دیا ہے جو کہ ایک فکر مند کرنے والی بات اور ماضی کے تجزیے کی متقاضی ہے، سو ال یہ ہے کہ کیا اس بارے میں جنرل ایوب کا معاشی استحکام کے بَہ جائے چند مولائی کرامات کے رَسیا ر شتہ دار فوجی جنرل اور سرمایہ داروں کو نوازنے، اور ابتدائی سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے اور سیٹو، سینٹو میں جانے کا غلط فیصلہ، جنرل ضیاء کا امریکی ڈالر کی ہَوَس میں کسی پڑوسی ملک کی جنگ میں پاکستان کو جھونکنے، پاکستان کو دہشت گرد طالبان عطا کرنے اور ملک کو قومی سلامتی کے نام پر مستحکم معاشی پڑوسیوں سے دور کرنے کا فیصلہ، یا ملک کی بہتر ہوتی ہوئی معاشی صورتِ حال میں جنرل مشرف کا جمہوری حکومت کو آئین توڑ کر ہٹانے اور امریکی امداد کی لالچ یعنی کیری لُوگر بل کی امداد والا فیصلہ بھی زیرِ بحث آئے گا  جس کی بَہ دولت دہشت گردی کا عذاب عوام اور جوانوں نے جان کا نذرانہ دے کر جھیلا اور ملک سیکیورٹی اسٹیٹ کے نام پر معاشی بد حالی سے بے خبر عالمی دنیا سے جدید ہتھیار خریدتا رہا۔ 

یا صرف دو دو سال کی مولائی کرامات کے زیرِ اثر چلنے والی جمہوری حکومتوں کی معاشی پالیسیوں پر تنقید اور جمہوری حکومتوں کو ہی تمام خرابی کا ذمہ دار قرار دے کر دو بارہ سے پوری قوم کو ویکھی جا مولا دے رنگ کے بے سَمت عقیدے کی جانب لے جا کر عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کرنے کے ساتھ پھر سے کرکٹ کے بخار کی طرح دو بارہ  غدارا پڑوسیوں کے راگ میں مبتلا رکھ کر جائے گا؟

اور کیا موجودہ سلیکٹیڈ کہی جانے والی بَہ ظاہر جمہوری حکومت کی آئی ایم ایف پالیسیوں کو مولائی کرامات کی طاقت نے عوام کا خون چوسنے کا سرٹیفیکیٹ اس سیمینار ذریعے دے دیا ہے؟

یہ کالم ایکسپریس اخبار میں بھی شائع ہوا۔

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔