پرائیویٹ سکولوں کی فیسیوں کی حد بندی کا معاملہ

Dr Irfan Shahzad

پرائیویٹ سکولوں کی فیسیوں کی حد بندی کا معاملہ

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

یہ ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے کہ پرائیوٹ سکولوں کی فیس کم کرنے یا کوئی حد مقرر کرنے کی کوشش کی جائے۔ تعلیم سرمایہ داری سے الگ کیوں کر ہو سکتی یے؟ یہ ایک بے معنی اور غیر عملی بات ہے کہ تعلیم کو کار و بار نہیں بنانا چاہیے۔ تعلیم کار و بار کیوں نہیں ہو سکتی؟ اس میں بھی ہمیں وہ تمام انفراسٹرکچر اور لاجسٹکس در کار ہیں جو ایک ادارے کو چلانے کے لیے ضرورت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے بھی اسی طرح آمدن اور اخراجات ہوتے ہیں جو ایک ادارے میں ہوتے ہیں۔

ایک سکول کھولنے کا رسک لینے والا اس سے منافع کمانے کا بہ جا طور پر حق دار ہے۔ اب یہ کھلی مارکیٹ کا معاملہ ہے کہ فیس کتنی ہو کون سا طبقہ اس کا گاہک ہو۔

یہ افراد کا اختیار ہے کہ وہ کس سکول کا انتخاب کرتے ہیں۔ چُناں چِہ ہر طبقے کے لیے ہر قسم کے سکول مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اسی طرح اساتذہ جو نج کے سکولوں میں ملازمت کرتے ہیں اپنی قابلیت اور تجربے کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر سکولوں میں ترقی پاتے اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔

آپ اگر ان سکولوں کی فیس کم کرا دیں گے یا کوئی حد مقرر کر دیں گے تو اس کا بہ راہِ راست اثر تعلیم کے معیار، ملازمین کی تنخواہوں اور اساتذہ کی ترقی اور آگے بڑھنے کی ذاتی تحریک پر پڑے گا۔

کسی کو اس سے کیا مسئلہ ہے اگر مہنگے سکولوں کی فیس ادا کرنے پر راضی والدین موجود ہیں۔ اب جو افورڈ نہیں کر سکتا اس کے لیے دوسرے سستے اور سرکاری سکول موجود ہیں۔ اگر ان میں تعیلم معیاری نہیں تو اس کو بہتر بنانے کے لیے کوئی لائحۂِ عمل بنایا جائے نہ کہ جہان معیاری تعلیم مل رہی ہے اس کو نیچے لایا جائے۔


مزید دیکھیے:  پرائیویٹ سکولوں کا کار و بار اور تعلیمی خلفشار  از، زاہد یعقوب عامر

سیاہی افسانہ از، زبیر فیصل عباسی


موجودہ حکومت اور عدلیہ سرمایہ داروں سے ایک مخصوص مخاصمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ کہیں اشتہار کے بورڈز پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو کہیں سکولوں کو فیس کم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ملک کا کار و باری طبقہ سخت پریشان ہے۔ یہ درست رویہ نہیں۔

سکول فی سبیل اللہ نہیں بنایے گئے. تعلیم اگر ایسا ہی مقدس پیشہ ہے تو انصاف کی فراہمی بھی مقدس شعبہ ہے  اس کو بھی مفت ہونا چاہیے۔ سکول کے مالکان کے لیے زیادہ منافع کمانا کسی خود ساختہ قاعدے کے مطابق درست نہیں تو جج حضرات کی لاکھوں کی تنخواہوں اور مراعات بھی نا جائز ہونی چاہییں۔ صرف تعلیم ہی کیوں انصاف سے بھی مالی منفعت حاصل کرنے پر روک لگانی چاہیے۔

حکومت اگر سرکاری سطح پر معیاری تعلیم کو یقینی بنائے جو کہ اس کا فرض ہے تو کسی عدالتی اور انتظامی حکم کے بغیر ہی پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں اعتدال پر آ جائیں گی۔ لوگ تو پرائیویٹ سکولوں کو اختیار کرنے کے لیے مجبور ہیں۔

مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دیگر وجوہات کے علاوہ امیر اور کامیاب لوگوں سے حسد کا ہماری قومی وتیرہ مقتدر اداروں کی نفسیات میں شامل ہو کر یہ شاخسانے پیدا کر رہا ہے۔

سرمایہ دار بد دل ہو رہا یے۔ کامیاب ذہین لوگوں کی بے عزتی کی جا رہی ہے اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ سب ملک کی مجموعی معاشی اور تعلیمی صورت حال کے لیے اچھا نہیں۔