آواگون : ایک کہانی، از، نصیر احمد

Transmigration of souls
آواگون : ایک کہانی، از، نصیر احمد

آواگون

از، نصیر احمد

خواتین و حضرات آج شام  جو بوڑھا آپ کو آج کی کہانی سنائے گا  اس بوڑھے کے چہرے پر اس قدر جھریاں ہیں کہ اس کے نقش مٹ گئے ہیں۔ جیسے کسی لڑکے بالے نے بوڑھے کے چہرے کو اپنی کاپی کا کوئی بے کار سا صفحہ جان کر قلم سے بڑی بے دردی سے لکیریں کھیینچ دی ہوں اور کاغذ کی سفیدی یا سیاہی ڈھونڈنے کے لیے کچھ کوشش کرنی پڑ جائے۔

یہ مہ و سال ایسی سفاک شرارتوں کی طرح ہوتے ہیں، انھیں کچھ احساس نہیں ہوتا کہ دوسروں پہ کیا گزرتی ہے۔ جوش ملیح آبادی بھی اپنے چہرے کے بگڑنے کا بہت ماتم کرتے تھے۔ وہ حسینوں کی بیزار نگاہوں سے بڑے دکھی رہا کرتے تھے۔ لیکن یہ بوڑھا اپنے بڑھاپے سے کچھ سمجھوتا کر گیا ہے۔ نہ گلہ، نہ شکوہ، نہ سرد آہیں، نہ درد کی شکایتیں بس نپے تلے انداز میں قصے کہنے کا شوق اور قصے کے دوران حاضرین کے سکوت کی خواہش۔

ذرا حاضرین نے تھوڑی بہت مداخلت کی، اس کی روانی ٹوٹی اور قصہ ملتوی۔ قصہ پھر جڑے نہ جڑے، سب بوڑھے کی مرضی پر ہے۔ دو ایک ایسے تجربوں کے ہم لوگ بوڑھے کی داستان گوئی سے لطف اندوز ہونے کے آداب سے آگاہ ہو گئے ہیں۔ اور جن  لوگوں کو بہت بے قراری رہتی ہے، انھیں ہم یا تو بوڑھے کی مجلس میں لاتے ہی نہیں ، لاتے ہیں تو سمجھا بجھا کر، ڈرا دھمکا کر، رشوتوں کی لالچ دے کر بے قراری کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ادھورے قصے پیچ و تاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ادھوری کہانیاں بھی اس محفل یا ملاقات کی طرح ہوتی ہیں جس پر اچانک پولیس کا چھاپہ پڑ جائے اور پولیس کے چھاپے کے بعد کسی کو یقین نہیں رہتا کہ ٹوٹی ہوئی کہانی جڑ بھی پائے گی یا نہیں۔

لیکن پولیس والے  بھی  ماہ و سال کی طرح سفاک شرارتی ہوتے ہیں، اچھا ہو یا برا، انھوں نے وہی کرنا ہوتا ہے، جس کی وہ ٹھان لیں۔ ہمارے ہاں تو چھاپے کے بعد عزت نفس کے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ ماہ سال گزر جاتے ہیں ملال ہی نہیں ختم ہوتا کہ ایسی صورتحال میں موجود ہی کیوں تھے، کبھی جسم توہین کی داستان کہہ رہا ہوتا ہے، اور کبھی خالی جیب نادانی کے شکوے کرتی ہے۔ پھر زندگی بھر کے طعنے۔ اور اکثر بات اتنی معمولی ہوتی ہے، جس سے آسانی سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسانوں کی تذلیل سے مسرت کشید کرنے کی خواہشیں ایسا سیلاب ہوتی ہیں جن کے سامنے بند باندھنا یاروں دوستوں کو شام کی شاندار تفریح سے محروم کرنا ہوتا ہے۔

میں نے کبھی کسی پولیس والے کو اس طرح کے واقعے کے بعد اداس یا مغموم نہیں دیکھا۔ کسی کے پیسے لٹے، کسی کی عزت گئی، کسی کو تکلیف ہوئی، اس بات پر میں نے کبھی کسی پولیس والے کو مغموم نہیں دیکھا۔ میرا تجربہ محدود ہے، بہت سارے پولیس والے اچھے ہوں، اخباروں میں ان کے نام آتے رہتےہیں، فرض کی ادائی کے دوران وہ جان بھی دیتےہیں  بھی  بس میری بدقسمتی  میں کبھ کسی اچھے پولیس والے سے نہیں ملا۔

اصل میں قانون اور سماج کی مہر تصدیق میں بات ہی کچھ ایسی ہوتی ہے، جس کے بعد نرم دلی ایک شخصی کمزوری سی لگنے لگتی ہے۔ اپنے آپ سے ہی گھن آنے لگتی ہے کہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ کیسا پولیس والا ہے جس کی بات میں دبدبہ ہی نہیں ہے۔

آپ بھی کیا سوچیں گے کہ پولیس کی اصلاح کے چکر میں کہانی کہیں گم ہو گئی۔ لیکن کہانیاں ایسے ہی گم ہو جاتی ہیں، کہانیوں کے ساتھ سچ بھی اور سچ کے ساتھ انسانیت بھی کہ ہم غیر متعلق باتوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ مطمئن رہیے، کہانی بھی موجود ہے، کڑیاں بھی جڑی ہوئی، سچ بھی محفوظ ہے اور انسانیت بھی باقی ہے۔ کبھی آپ کو مہمل لگے گا، کبھی آپ کو مبتذل لگے گا، کبھی غیر متعلق، لیکن شجر ظلمت کی جڑیں اتنی گہری اور شاخیں اس قدر پھیلی ہوئی ہیں، کہ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ نیا ہی کرنا پڑتا ہے۔

لیجیے بوڑھا آگیا، ہمیں اجازت، اور تھوڑے سے وقت کے ضیاع کے لیے معذرت، اپنے موبائل فون بند کر لیں۔ اور جس قدر خاموشی ممکن ہو، مہربانی فرما کر اسے اختیار کیجیے۔

دوستو تاخیر کے لیے معذرت۔ نوجوانی میں تاخیر کھٹکتی ہے اور بڑھاپے میں نوجوانوں کی گستاخی اور بدتمیزی۔ لیکن عمر بھر کے سکوت نے یہی سبق دیا ہے کہ کہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اب سوچتے ہیں اگر چپ نہ رہتے تو شاید آپ کی زندگی بہت اچھی ہوتی۔ ہم چپ کیے رہے اور خاموشی آپ کے لیے گڑھے کھودتی رہی۔ اور انجام ہم بھی خستہ و آزردہ اور شاید آپ بھی خستہ و آزردہ۔ اب یہ جو چند سانسیں بچی ہیں، کیوں نہ کچھ کہہ جائیں، ناروائی کے باوجود، دریدہ دہنی کے باوجود، بدتمیزی کے باوجود، جو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے کہہ دیں گے۔ بوڑھا آ گیا ہے، ہم کبھی ایسے کہتے تو ہر طرف سے وہ شور اٹھتا کہ شرمندگی خاموشی میں پناہ ڈھونڈتی۔ شیخی خوری پر خاموشی ہے، شرمندگی کہیں نہیں۔ انسانیت کا احترام کرنے والی پولیس کا آسمان سے نزول ہو گا؟

جی چاہتا ہے کہ کہانی سنانے کی بجائے آپ کو رمتے کی جگنی سنا کر شام کا اختتام کر دیں، لیکن زفرق میان من و تو چیست بگو، ہم آپ کو کہانی سناتے ہیں۔

اگنی دیو کے ڈھلتے سمے گاؤں کی طرف آتی سڑک پر پنڈت جی گھوڑی پر سوار اور پیادہ دینو نمودار ہوتے تھے۔ دینو پر کچھ نہ کچھ لدا ہوتا تھا، کبھی کوئی توڑا، کبھی کوئی بوری، کبھی کوئی تھیلا اور کبھی کوئی باندھ۔ یہی دینو کی زندگی تھی۔

دینو ذات کا شودر تھا اور پنڈت جی برہمن تھے۔  شاید مقامی تحصیل میں میر منشی بھی تھے۔ انیائے نا انصافی کی بات نہ تھی، بوجھا ڈھونا، چیزیں اٹھانا دینو کا فیصلہ تھا اور دینو کی نظر میں معلومات پر مبنی فیصلہ تھا۔ پنڈت جی ساٹھ کے پیٹے میں ایک طرح دار بزرگ تھے۔ سب کچھ دھلا دھلا اجلا۔ اور دینو تیس پینتیس سال کا ہٹا کٹا نوجوان۔ دینو پنڈت جی کا غلام تھا، نوکر تھا، گدھا تھا، گھوڑاتھا، پنڈت جی کے حویلی میں پھٹکا بھی مارتا تھا، لکڑیاں کاٹتا تھا، سندیسے دیتا تھا، چلم تازہ کرتا تھا، کھیتوں میں ہل چلاتا تھا، اور پنڈت جی کا بیٹا گردھاری جو کہ دینو کا ہم عمر تھا وہ دینو کو ہر وقت جھڑکیاں دیتا تھا، پیٹتا رہتا تھا۔ اور دینو ہاتھ باندھے سب کچھ سہتا رہتا تھا۔ اور اس سب مزدوری کا صلہ پنڈت جی دینو  اور اس کی بیوی رام دئی کو روٹی کپڑے کی شکل میں دیتے تھے اور تیوہاروں پر میاں بیوی کو کچھ نقدی بھی مل جاتی تھی۔

رام دئی کو کام تھوڑا کم کرنا پڑتا تھا اور نقدی اسے زیادہ ملتی تھی۔ یہ نقدی گردھاری کی مساوات اور آزادی کی سیاست سے قربت کا نتیجہ تھی۔ کچھ اور قربتیں بھی تھیں جن پر پنڈت جی، پنڈتانی جی،  گردھاری، دینو، رام دئی سب خاموش رہتے تھے۔ ان کی اس خاموشی کا احترام کرتے ہوئے ہم بھی تفصیل میں نہیں جاتے۔

بھگوان ان صاحب کو سورگ میں راحتیں دے، سوچتے ہیں وہ یہ بات کرتے تو اس وقت تک آپ غصے کی شدت اور شہوت کے وفور سے  پاگل ہو چکے ہوتے۔ بس کبھی کبھار آخر شب رام دئی اپنی کوٹھڑی میں لوٹتی تو چیزیں گھسیٹتی، اور زور سے ماتھے پر ہاتھ مار کے کہتی وحشی، بے غیرت۔ دینو جاگ رہا ہوتا، اس کا دل کٹ سا جاتا کہ بے بسی نہیں یہ ایک فیصلہ تھا، ایک وچن تھا، جس کی سزا رام دئی سہتی تھی اور رام دئی بھی تو پنڈت جی کی  دیا تھی۔

رام دئی دینو کو یہ باتیں نہیں کہتی تھی، اسے معلوم تھا دینو تو معدوم تھا، موہوم تھا لیکن دینو کا وہ دل سے احترام کرتی تھی کیونکہ دینو ایک اچھا آدمی تھا۔ یہ الفاظ تو وہ دینو سے اپنی دلداری اور وفاداری کے ثبوت کے طور گردھاری کے لیے استعمال کرتی تھی۔ وہ نام نہیں لیتی تھی، بس جانتی تھی کہ دینو ان الفاظ کے مخاطب سے بخوبی آگاہ ہے۔ ویسے بھی بے چارگی ایک دوسرے کے لیے دل کشادہ کر دیتی ہے اور پریشان حالی میں ایک دوسرے کی سمجھ بھی بڑھ جاتی ہے۔

لیکن ایسا رام دئی سمجھتی تھی، دینو کے خیال میں یہ ایک ایسا طعنہ تھا جو اسے اپنے برسوں پہلے کیے ہوئے فیصلے پر سوچنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ دینو کی یہ صورتحال اس کے اسی فیصلے کا نتیجہ تھی۔

برسوں پہلے دینو کے ماں باپ بھی پنڈت جی کے خاندانی خدمت گزار تھے۔ یہ سلسلہ جانے کتنی صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ لیکن کچھ نئی روشنی آگئی تھی اور کچھ دینو خود سر بھی تھا۔ بنے میاں کاخ امرا کے ساتھ زبانی کلامی دھکم پیل کر رہے تھے۔ جواہر لال جی بھوکوں ننگوں کے ساتھ بھوجن کرتے تھے۔ محمد علی جوہر گاندھی جی کے ساتھ بغل گیر رہتے تھے، اور دونوں ہریجنوں کے لیے پیار کے بول بولتے تھے۔ اور مسٹر جناح تنے ہوئے اصولی اور قانونی باتیں کیے جاتے تھے۔ اور کچھ انگریزی سرکار بھی انسان کے تحفظ کے لیے قوانین بنا رہی تھی۔

دینو کو بھی کچھ سن گن تھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ ملیچھ مہاراج سید تسکین علی شاہ تھے جن کو ہر کوئی ناپسند کرتا تھا۔ حتی کہ مسلمان بھی انھیں ملیچھ مہاراج کہا کرتے تھے۔ لیکن انھیں کچھ سرکار دربار میں اثرو رسوخ تھا۔ اس لیے ایک طرح سے وہ سب کی ضرورت بھی تھے۔

بس ایسے سمجھیں وہ بد عقیدگی، بد کرداری، بد شعاری کی ایک مثال تھے۔ ان کے بارے میں بہت ساری باتیں مشہور تھیں۔ اب جو کسی قوم کا یا بہت ساری قوموں کا مشترکہ شیطان ہو، اس کی صفائی میں کوئی کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ ان کے بارے میں ہر بری بات سچی ہوتی تھی اور اچھی بات ہو ہی نہیں سکتا کے ساتھ ختم ہو جاتی تھی۔

کبھی وہ ولایت سے غبن کر کے فرار ہوتے تھے۔ کبھی کسی بائی کو بھگا لے جاتے تھے۔ کبھی بے حد نشہ کرتے تھے، کبھی حکومت کے جاسوس تھے، کبھی ڈاکوؤں کے گروہ کے سردار، کبھی بنارسی ٹھگوں کے سرپرست، کبھی حکومت کا تختہ گرانے کی سازشوں میں مصروف، کبھی جعلی شراب کی بھٹیاں لگائے ہوتے تھے۔ کبھی ان کی ماں انھیں بددعائیں دیتی تھیں کبھی ان کے باپ ان کو عاق کر دیتے تھے۔

پنڈت جی نے ان کے ذریعے کوئی کام سلجھانا تھا۔ ایک دن انھیں گاؤں لے آئے۔ دینو بے چارہ بالا سا ہی تھا، ملیچھ مہاراج جیسے راون کی خدمت پر مامور کیا گیا۔ ویسے تو اور نوکر موجود تھے لیکن ملیچھ مہاراج کے لیے دینو ہی مامور کیا گیا۔

اب دینو کے ذہن میں تھا ملیچھ مہاراج کے بڑے بڑے دس سر ہوں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ وہ ایک ہی سر والے خوش شکل سے آدمی تھے۔ وہ دینو کے ساتھ  نہ صرف پیار سے  بلکہ احترام سے پیش آئے۔ اس سے باتیں کرنے لگے۔ تعلیم کا پوچھنے لگے۔ والدین کا حال پوچھنے لگے۔ ایک ایسا رویہ جس کا دینو کو زندگی میں پہلی بار تجربہ ہوا۔ دینو نے انھیں بتایا کہ وہ شودر ہے تو ہنس کر کہنے لگے تو کیا ہوا، میں ملیچھ مہاراج ہوں۔

اب دینو کے ہنسنے کی باری تھی۔ دینو کو زندگی میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ بھی کسی کے برابر کا انسان ہے، شودر سہی، لڑکا سہی، غریب سہی، لیکن ملیچھ مہاراج کے رویے سے اسے ایسا لگا اسے کوئی کھوئی چیز مل گئی ہے۔

دینو نے انھیں اپنے احساسات بتانے کی کوشش کی۔ اس سے کچھ بن نہ پڑا۔ لیکن وہ سمجھ گئے اور انھوں نے کہا بیٹا بطور انسان برابری میں ہی انسانی امکانات ہیں۔ اب چاہے ہم بندروں سے انسان بنے ہوں یا ایشور نے ہمیں بنایا، ہم سب برابر ہیں۔ اور ہم اگر اپنی برابری پر اصرار کریں تو کوئی سماج ہمیں برابر کے حقوق دینے سے نہیں روک سکتا۔ انھوں نے لندن میں اپنے حقوق کے لیے لڑتی خواتین کی مثالیں دیں۔ دینو کو ان کی اکثر باتیں نہیں سمجھ آئیں لیکن ان کے رویے میں دینو کے لیے جو احترام تھا، اس نے دینو کو بہت ساری باتیں سمجھا دیں۔

وہ دینو کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ کہتے تھے تعلیم کے ذریعے ہم بہت کچھ ایجاد کر سکتے ہیں، بہت کچھ دریافت کر سکتے ہیں۔ برہمن، شودر، لالچیوں اور جاہلوں کے دیے ہوئے نام ہیں جن کو علم کی ہلکی سی روشنی مٹا سکتی ہے۔ وہ بیس تیس دن وہاں رہے۔ اتنے عرصے میں پنڈت جی ان سے کچھ دیر گپ شپ کرتے۔ ان کا باقی وقت دینو کے ساتھ گزرتا۔

وہ علم، ایجاد، دریافت، برابری، حقوق، انسانی ہمدردی کے متعلق مسلسل گفتگو کرتے رہتے۔ دینو نے ان سے کی ہوئی گفتگو کا کم ہی کسی سے ذکر کیا۔ ایک اور بات ان میں تھی کہ وہ دینو کی ان کو مہان سمجھنے کی کوشش کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے۔

دینو کو وہ نئے نئے کھیل سکھاتے رہے، کچھ وہ سیکھ پایا کچھ نہیں لیکن بچے ان بڑوں کو اکثرپسند کرتے ہیں جو بچوں کی عزت کرتے ہیں۔ دینو ایک دیہاتی لڑکا تھا، اس کے پاس بھی انھیں بتانے اور سکھانے کے لیے بہت کچھ تھا۔ اس نے انھیں درختوں پر چڑھنا سکھایا، تیرنا سکھایا، کھرے اٹھانا سکھایا، گھونسلوں میں انڈے ڈھونڈنا سکھایا، گائے کو دوہنا سکھایا۔

ایک طرح سے وہ دوست بن گئے جو ایک دوسرے کی بہت عزت کرنے لگے۔ رام دئی بہت ہنستی تھی جب دینو ان کی نقلیں اتارتا تھا اور انگریزی کے چند لفظ ویٹ اے منٹ، پلیز، تھینک یو دہراتا تھا۔

ملیچھ مہاراج نے دینو کو جمہوری خیالات سے بھی متعارف کروایا کہ انسانوں کی سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت  پر اعتماد  کا نام جمہوریت ہے اور ہر قسم کے انسان یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم کہیں برہمن شودروں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں تو ہم غلط سوچ رہے ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انگریز برہمنوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں، تو پھر آزادی کس بات کی؟

انھوں نے دینو کو قانون کی اہمیت سے آگاہ کیا کہ قانون ایک اچھی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ قانون کے بغیر امن برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ اور انسانی معاشرے کو چلانے کے لیے اٹل اور ازلی قوانین نہیں بنائے جاتے، برہمنوں کے لیے الگ اور شودروں کے لیے الگ قوانین نہیں بنائے جاتے۔ انسانوں کے حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور قوانین کے بنیادی ڈھانچے میں ان تبدیلیوں کی گنجائش رکھنی پڑتی ہے۔

دینو کے لیے یہ سب نئی باتیں تھیں، ان سب باتوں کا بوجھنا اس کے لیے بہت دشوار تھا۔ لیکن جو اس کی سمجھ میں آ جاتی تھیں، اس کی اسے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ سکول کی لائبریری سے درسی کتابوں کی بجائے دیوان غالب اٹھا لائے ہوں، کچھ بھی پلے نہ پڑھتا ہو، لیکن بہت کوشش کے بعد جو شعر سمجھ آ جائے، اس کی تفہیم کا لطف ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ کیونکہ یہ آپ کی ذاتی کاوش ہے اور آپ نے ایک مسئلہ حل کیا ہے۔

دینو نے ایک دن ڈرتے ڈرتے ان باتوں کا بھی پوچھا جو لوگ ان کے بارے میں کہتے تھے۔ انھوں نے کہا انھیں بچپن سے کچھ نعمتیں اور آزادیاں میسر تھیں جو لوگوں کو میسر نہیں تھیں، اور وہ یہ نعمتیں اور آزادیاں بڑھاتے گئے اور ان کے بارے میں باتوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور اب  اگر وہ ان باتوں کی وضاحتیں کرتے رہیں تو بہت سارا وقت ضائع ہو جائے گا۔

ایک دن پنڈت جی سے کہہ کر انھوں نے دینو کو قریبی سکول میں داخل بھی کروا دیا۔ پنڈت جی پہلے تو ان کی فرمائش پر بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ مہاراج دھرم کرم، پرم پراہ، ریتی رواج کی ایک اپنی شکتی ہوتی ہے جسے سپنے نہیں توڑ سکتے۔ انھوں نے پنڈت جی کو جواب دیا مہاراج ایسے ہوتا تو جواہر لال جی، مسٹر جناح  بھی نہ ہوتے۔

پنڈت جی دیر تک ہنستے رہے لیکن پنڈت جی کا ایک ایسا معاملہ اٹکا ہوا تھا، اس وقت اگر ملیچھ مہاراج کہتے تو وہ دینو کو لندن بھی بھجوا دیتے۔

سکول کے وہ چند دن سماجی تنہائی اور تعلیم کی آرزو کے دن تھے۔ تعلیم کی آرزو سماجی تنہائی کا دکھ کم کر دیتی تھی۔

پھر ایک دن پنڈت جی کا معاملہ سلجھ گیا۔ پنڈت جی نے ملیچھ مہاراج کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ملیچھ مہاراج نے پنڈت  جی سے اجازت طلب کی۔ پنڈت جی نے انھیں پڑے تپاک سے رخصت کیا۔ دینو تھوڑی دور تک انھیں چھوڑنے گیا۔

ایک آخری بات  ملیچھ مہاراج نے دینو سے یہ کہی اچھے لڑکے تمھارا بہت بہت شکریہ، تم نے ہمارا بہت خیال رکھا، ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا، تم ہم سب کی طرح ایک انسان  ہو، اور تمھاری اصل پہچان تمھاری انسانیت ہے اور تم نے  اپنی اور دوسروں کی انسانیت کا تحفظ کرنا ہے اور وہ تم تب ہی کر سکو گے جب تمھیں  غلطیوں کے باوجود اپنی انسانیت پر اعتماد رہے گا۔

پھر ملیچھ مہاراج دینو کے گاؤں سے چلے گئے ،کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ دینو کی یادوں میں وہ ایسے راکھشس کی طرح رہے، جس کے رشی ہونے کا دھڑکا دینو کو  جیتے سمے تک لگا رہا۔

لیکن اس رات دینو روتا رہا تھا۔ پنڈت جی کی یادوں میں وہ ایک ایسے دشٹ کی طرح رہے جس سے کام نکلوایا جا سکتا تھا۔ گردھاری کی یادوں میں وہ انسانیت کے ایسے دشمن کی طرح رہے جو سامراجیوں کا ادنی سا ایجنٹ تھا، جسے جدلیاتی مادیت کی کچھ خبر نہ تھی۔ رام دئی اگرچہ ان سے ملی بھی نہ تھی لیکن ساری زندگی ان کی عزت کرتی رہی کہ وہ ایک موقع تھے جس کے نتیجے اس کا اچھا دینو ایک بڑا آدمی بن سکتا تھا۔ وہ برسوں دینو کو ان سے ایک بار پھر ملنے کا کہتی رہی، منتیں کرتی رہی،پاوں پڑتی رہی لیکن دینو مان کے نہ دیا۔

کوئی کسی کی یادوں میں رہے نہ رہے، وقت تو بڑھتا جاتا ہے۔ ملیچھ مہاراج دینو کے ہیرو تھے اور ان کی آخری بات دینو کی زندگی کا مقصد بن گئی۔ جس قسم کی غربت میں وہ مبتلا تھا وہ سر تسلیم خم کرنا سکھا دیتی ہے لیکن اس نے اپنے ہیرو کی متابعت اختیار کی۔ ایک بنیادی فرق وہ بھول گیا کہ ملیچھ مہاراج جس مقام پر کھڑے تھے، وہاں سے وہ آدرش کے نتائج بھگت سکتے تھے لیکن وہ تو ایک شودر لڑکا تھا  وہ برابری پر اصرار اور انسانیت کا تحفظ کیا کر پاتا۔ اور جس معاشرے میں وہ رہتا تھا وہ اسے یہ بات کہاں بھولنے دیتا۔

اور ایک دن یہی ہوا۔ گردھاری سے اس کا جھگڑا ہوا۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ دو ہاتھ دینو نے بھی گردھاری کو جڑ دیے۔ گردھاری رونے لگا۔ پنڈتائن چیخنے لگیں۔ دینو کا باپ دینو کو پیٹنے لگا۔ دینو کی ماں رونے لگی۔

بات پنڈت جی تک پہنچ گئی۔ پنڈت جی دھرم کرم کے سارے اصول جانتے تھے۔ کتوں سے نچوانے کی بات ہونے لگی۔ پنڈت جی نے کہا گردھاری بیٹے سزا وہی ہوتی ہے جو لمبی ہو اور مسلسل ہو اور جو سپنے کو روز اجڑتا دیکھے۔ ایک طرح سے پنڈت جی دھرم کے بہت بڑے گیانی تھے۔ وید، اپنشد، شاستر، کتھائیں، لیلائیں سب جانتے تھے۔ اور ان میں سے ایسے نکات دریافت کر لیتے جن پر پہلے کسی کی نظر بھی نہ پڑی ہو۔

گردھاری کی کچھ خاص تشفی نہ ہوئی۔ پنڈتائن مسرور سی ہو گئیں اور گردھاری کی تشفی کا مطالبہ کیا۔ پنڈت جی نے کہا ایشور نے اسی اتاولے پن کی وجہ سے ناری کے لیے نر کے پاوں چھونے کی حکمت طے کر دی ہے۔ بھگوان کا کام ہے پجاری ہر بات کو دھیان میں رکھے گا۔

دینو کو بلوایا گیا۔ دینو کے ماں باپ بھی ساتھ آ گئے۔ ساری زندگی کا تجربہ تھا لیکن رحم کی کچھ امید ہمیشہ دل میں رہ ہی جاتی ہے۔چھڑیوں کی سنسناہٹ میں، دینو کی درد بھری چیخوں  میں، دینو کے باپ کے مسلسل آنسووں میں، دینو کی ماں کی فریادوں میں رحم کی امید کہیں گم ہو گئی۔ اور ایک فریب عظیم میں لپٹی ہوئی ملی۔

سزا کے مرحلے ختم ہوئے۔ اب پنڈت جی نے دینو کے  تیمار وعلاج کی ذمہ داری سنبھالی۔ چند دنوں میں دینو بھلا چنگا ہو گیا۔ لیکن ڈرا ہوا، سہما ہوا، چھپتا ہوا اور ایک دن چھپے ہوئے دینو کو ڈھونڈ کر پنڈت جی نے وعظ کیا۔

مورکھ، تمھارے وہ سادھو سنت ملیچھ مہاراج راکھشس ہیں لیکن راکھشسوں کا مقدر ناکامی ہے۔ دھرم کرم، ریتی رواج، پرم پراہ پر دھرتی قائم ہے اور دھرتی راکھشسوں نے نہیں بنائی۔ جنھوں نے دھرتی بنائی ہے، وہ اس کی حفاظت کر لیتے ہیں۔ہم کوئی سنگدل نہیں، گردھاری کی بات بھی کوئی اتنی بڑی نہیں لیکن تمھارے اندر کے راکھشس نے دھرتی کی بنیادیں ہلانے کی جسارت کی تھی۔یہ پنڈت شودر کچھ بھی نہیں، تو بھی میں بھی وہی، تمھارے اس راکھشس نے بھی کچھ ایسا ہی ہو گا لیکن اس کے کہنے سے بنیادیں ہلتی ہیں کیونکہ جب وہ یہ بات کہتا ہے تو ہم دونوں کچھ بن جاتے ہیں۔لیکن شاستر کہتے ہیں ہم دونوں کچھ نہیں۔

بس ازلی ابدی قوانین ہیں۔جو بات پنڈت کے لیے لکھی ہے، وہ پنڈت نے ہی کرنے اور جو بات شودر کے لیے وہ شودر  کے لیے طے ہے وہ شودر نے ہی کرنی ہے۔ اور ہر کرنی کا بھرن ہے۔ تو شودر کا دھرم دل سے نبھائے گا، ایشور اگلے جنم میں تجھے پنڈت بھیجیں گے اور میں پنڈت کے دھرم سے ہٹوں گا تو ایشور اگلے جنم میں مجھے شودر بنا کر بھیجیں گے۔ وہ ملیچھ مہاراج زندگی کو ایک مختصر سفر جانتے ہیں یہ تو ایک مسلسل سفر ہے۔کبھی رہٹ کے بیل بن کر گھومو اور کبھی چھڑی ہاتھ میں لیے رہٹ کے بیلوں کے پیچھے گھومو۔تو دھرم سے ہٹا ہے اور میں نے دھرم نبھایا ہے۔ اب تو نے دھرم نبھانا ہے، دھرم نبھائے گا پھل پائے گا۔ اب تیرا وچن چاہیے کہ پھر سے دھرم سے نہیں ہٹے گا۔

بیچارے دینو نے پنڈت جی کی باتیں سنیں اور سمجھیں۔ ملیچھ مہاراج کی لچھے دار باتیں اسے کم پلے پڑتی تھیں، یہ آسان سی سیدھی سادھی باتیں اس کے دل میں اتر گئیں۔اس نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ اس نے انسان کی پہچان نہیں کھونی۔ زندگی کے شروع ہی میں اس نے انسان ہونے کے اصرار کی ایسی قیمت چکائی تھی کہ اسے  ملیچھ مہاراج سے نفرت سی ہو گئی۔

ایسے دینو نے وچن دے دیا۔ ساری زندگی گردھاری سے جھڑکیاں کھاتا رہا، پٹتا رہا لیکن دھرم نبھایا۔بٹوارے ہوئے، فساد ہوئے، آزادی ملی اور نہ جانے کیا کیا ہوا لیکن دینو رہٹ کا بیل تھا، رہٹ کا بیل رہا۔ اور ملیچھ مہاراج  ایک ناخوشگوار یاد بن کے رہ گئے۔

دینو  دھرم نبھاتا رہا، بوڑھا ہوتا رہا اور دوسرے جنم پنڈت بن کر لوٹنے کی آشا میں روزانہ مرتا رہا۔اس دوران ایک دن پنڈت جی کا دیہانت ہو گیا۔ گردھاری نے پنڈت جی کا کریا کرم دھوم دھام سے کیا۔ گردھاری بھی نیتا بن گیا۔ بیاہ بھی کر لیا۔ دینو کے بھی بیٹے جوان ہو گئے۔ ان کی شادیاں بھی ہو گئیں۔ بچے ہوئے تو دینو نے پوتوں میں راحت پائی۔ رام دئی جب گردھاری کے کام کی نہ رہی تو دینو کی ازدواجی زندگی بھی کچھ خوشگوار ہو گئی۔ پنڈتائین بھی پرلوک سدھاریں۔ پنڈت جی کی بیٹیاں بھی  بیاہی گئیں۔ دینو اب گردھاری کے لیے بوجھ اٹھاتا رہا۔  گردھاری وہ دو طمانچے ساری زندگی نہ بھولا۔ دینو کی مشقت عمر گزرنے کے ساتھ گردھاری بڑھاتا گیا۔ لیکن دینو نے وچن دیا تھا سو دھرم کی راہ نہیں چھوڑی۔اب اس کی مرنے کے آرزو بڑھ گئی اور پنڈت بن کر لوٹ آنے کی امید قریب تھی۔ اور ایک دن تھیلوں کے بوجھ تلے دبا دل ڈوب گیا۔

پرلوک میں دینو کسی انتظار گاہ میں ڈال دیا گیا۔ ایک دن باری آنے پر اسے بلا بھیجا گیا۔ آنکھوں میں پٹی ڈال دی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک نہایت خوشگوار آواز میں اسے کہا گیا کہ دوسرا جنم مبارک، تو اپنے ہی گاوں میں ہے، اور پٹی کھلی تو پیچھے نہ دیکھنا۔ اور تیرے سامنے گردھاری اور تیرا پوتا ہوں گے۔

اس آواز کے ذریعے دینو کو زندگی میں پہلی دفعہ راحت، سکون اور شانتی جیسے لفظوں کے معنی ملے۔پچھلی زندگی کے وہ سارے دکھ بھول گیا اور بڑھ کر اپنے گاوں کی اسی سڑک پر آگیا۔ وہاں پر گردھاری گھوڑی پر چلا آ رہا تھا اور ایک پیدل چلتا توڑا اٹھائے ایک چودہ پندرہ سال کا لڑکا اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ اس نے دوڑتے ہوئے اس لڑکے سے کہا پتر میں ہوں تیرا دادا دینو  توڑا پھینک دے اور میرے ساتھ چل ، اب گردھاری تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اب میں بھی پنڈت بن گیا ہوں۔ لڑکے نے اس کی طرف دیکھا اور بے دردی سے اسے دھتکار دیا۔ تب دینو کو سمجھ آئی کہ اسے تو اس جنم میں کتا بنا کر بھیج دیا گیا ہے۔ اس نے کہا بیٹے توڑا پھینک دے اور میرے ساتھ چل، ہمارے تو ایشور بھی نہیں ہیں۔ اس کمر پر ایک چابک پڑا۔

بیٹے کس لیے بوجھ اٹھاتا ہے، بوجھ پھینک کر میرے ساتھ چل۔ کمر پر ایک اور چابک پڑا۔ ہائے ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہو گیا۔چابک پر چابک دینو کی پیٹھ پر پڑتے گئے، آخرکار گردھاری نے لڑکے کی کمر پر چابک رسید کیا، بوجھ زمین پر رکھنے کو کہا اور کتے کو پتھر مارنے کا حکم دیا۔ اب ہر پتھر کے بعد  دینو کہتا بیٹے ہمارے تو ایشور بھی نہیں ہیں، میرے ساتھ چل ۔ کچھ دیر  دینو یونہی پتھر کھاتا رہا  لیکن جب گردھاری نے لڑکے کو ایک اور چابک رسید کیا تب دینو کی سمجھ میں آیا کہ  اس کا پوتا بھی ساری زندگی گردھاری اور اس کے بیٹوں کا بوجھ اٹھائے گا۔ ایک آخری دلدوز التجا کے ساتھ  کہ بیٹے، ہمارا کوئی نہیں ہے، میرے ساتھ چل، دینو بھاگ نکلا اور بھاگتا ہی چلا گیا۔

شکریہ خواتین و حضرات

لائٹیں آن کر دی جاتی ہیں۔

اس کہانی کو ہم یہاں ختم نہیں کر نے چاہتے تھے، ایشور کے ساتھ دینو کا ایک ڈائیلاگ رکھنا چاہتے تھے،  آپ کا کیا خیال ہے؟ لکھیں یا ختم کر دیں، آپ کا مشورہ آنے تک یہیں پہ ختم کر دیتے ہیں۔