ہمارا معاشرہ اور دہرے معیارات : چند مناظر

Fida ur Rehman
فداءالرحمٰن، صاحبِ نگارش

ہمارا معاشرہ اور دہرے معیارات

از، فداء الرحمن

سین نمبر1

ادریس صاحب مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور ٹیکسی کے ذریعے یونیورسٹی آتے جاتے ہیں۔ آج جس ٹیکسی سے جانے کا اتفاق ہوا اس کا ڈرائیور اخبار پڑھ رہا تھا۔ کرایہ مقرر کرنے کے بعد جب ٹیکسی چلنے لگی تو ادریس صاحب نے ڈرائیور سے اخبار پڑھنے کی وجہ پوچھی۔ ڈرائیور کہنے لگا کہ اس کے ذریعے ملکی حالاتِ حاضرہ سے آگاہی کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں “اغیار” اور یہود و ہنود کے ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں کے حالات کا بھی علم ہوتا رہتا ہے۔ یہود و ہنود والی بات ادریس صاحب کو کھٹکنے لگی اور وجہ پوچھی تو ڈرائیور گویا ہوئے کہ “مسلمانوں کے پاس جو سماجی، سیاسی اور اخلاقی نظام موجود ہے وہ “اغیار” برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ تمام نظام ہائے زندگی ایک خوشحال، فلاحی، پُرامن، انسانی ہمدردی اور ترقی یافتہ معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس لیے وہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تُلا ہوا ہے حالانکہ  مغربی معاشرہ بد اخلاقی، بدتہذیبی، مادہ پرستی اور مذہب دشمنی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا”۔

ادریس صاحب نے حل دریافت کیا تو ڈرائیور نے جھٹ سے کہا کہ “مغرب کے خلاف  جہاد و قتال اور اسلامی ریاست کا قیام مسلمانوں کی کامیابی کی واحد ضمانت ہے۔۔۔”

اچانک مخالف سمت سے آنے والی گاڑی نے غلط اوور ٹیک کیا تو ڈرائیور موصوف نے ہر وہ گالی ان کے گوش گزار کی جو اسے از بر تھی۔ نیز باتوں ہی باتوں میں معلوم ہوا کہ موصوف کا گاؤں میں بھائیوں کے ساتھ دو کنال زمین کے ٹکڑے پرعرصہ پانچ سال سے کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔ ادریس صاحب نے “اسلامی جمہوریہ” کی اخلاقی حالت کے بارے میں ان کے معلومات میں اضافہ کیا کہ جو خواتین کے لیے خطرناک قرار دیے گئے دس ممالک میں سے ایک ہے جو یقیناً  “اعزاز” کی بات ہے۔

نیز سیاسی نظام کا حال یہ ہے کہ سیاستدان باری باری کورٹ کچہریوں اور جیلوں کی یاترا کر کے اپنے کرموں کی مکتی کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ نیز جیل یاترا کے بعد سکندرِ اعظم کی طرح فاتح بن کر تشریف لاتے ہیں۔

اگلے بیس منٹ میں ادریس صاحب یونیورسٹی پہنچ گئے لیکن تب تک گاڑی میں خوفناک سناٹا رہا، کیونکہ تمام نظام ہائے زندگی کی اصل حقیقت طشت ازبام ہو چکی تھی۔

سین نمبر2

اخبار کی شہ سرخی ملاحظہ فرمائیے:” امریکہ نے اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور ظلم و ستم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے”۔

تبصرہ نمبر1: یہ امریکہ انسانی حقوق کا بڑا ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے حالانکہ اسلام نے انسانی حقوق کا جو تصور دیا ہے اس کی مثال معلوم تاریخ میں تلاش کر کے  بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔

تبصرہ نمبر 2: امریکہ فلسطین کے معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ برما میں بربریت کے شکار مسلمانوں کے متعلق اس کی زبان گنگ کیوں ہوجاتی ہے؟ بڑا آیا ہمیں انسانی حقوق کا درس دینے والا!

تبصرہ نمبر3: یقیناً اسلام نے انسانی حقوق کا شاندار اور قابلِ تقلید تصور پیش کیا ہے لیکن آخر مسلمان اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے کیوں تیار نہیں؟ کیا اس سے بھی امریکہ نے روکا ہے؟ آخر دنیا بھر میں برپا  کیے گئے ظلم و ستم کے واقعات کو مسلم اور غیر مسلم کے خانوں میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے؟ فلسطین اور برما کے ساتھ ساتھ افریقہ اور دنیا کے مختلف ملکوں  میں روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟

اخبار کے دوسرے صفحے پر مقامی میونسپل کمیٹی کا اشتہار چھپا تھا جس میں خاکروب کی آسامیوں کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھی۔ شرائط میں جلی حروف میں انسانیت کی تقسیم کا ذکرِ خیر کیا گیا تھا “صرف شیعہ اور عیسائی درخواست دینے کے اہل ہیں”۔

قاری نے فوراً صفحہ پلٹ دیا، مبادا “یہودی سازش” کا پتہ چل جائے۔

سین نمبر3

حفیظ صاحب فلسفے کے استاد ہیں لیکن دینی رجحان بھی رکھتے ہیں۔ پرسوں ان کی مسجد میں دعوتی تحریک سے تعلق رکھنے چند نوجوان علماء دعوتِ دین کے سلسلے میں تشریف لائے۔ خطاب کا عنوان مسلمانوں کے درمیان رائج الوقت فرقہ واریت اور علمی تنزل تھا۔ ایک نوجوان عالمِ دین نے پُرسوز آواز میں باہمی اتحاد و اتفاق کو رواج دینے اور جدید علوم  و فنون کے حصول پر زور دیا  تاکہ مسلمانوں کا “کھویا ہوا اور لُوٹا گیا وقار” واپس لایا جاسکے اور “اغیار” کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں منھ  توڑ جواب دیا جا سکے۔ نیز “اغیار” کی اس سازش کو ناکام بنایا جا سکے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کی درمیان فرقہ واریت پیدا کرتا اور اس کو ہوا دینے کی ناپاک کوشش کرتا ہے۔

تقریر اتنی سحر انگیز تھی کہ  جس سے تمام مجمع پر سناٹا چھایا رہا اور آخر میں دعا مانگتے ہوئے ہر آنکھ اشکبار تھی۔

آخر میں حفیظ صاحب نے مقرر کو ترک سائنسدان ہارون یحییٰ کی کتاب پیش کی جو خدا کے وجود کو سائنسی طور پر ثابت کرنے اور ملحدین کےاعتراضات اور سوالات کے سائنسی جوابات کی ایک علمی کاوش تھی۔

مقرر نے کتاب لینے سے انکار کیا اور حفیظ صاحب کو ایسی گمراہ کن کتابوں سے دور رہنے  اور صرف “مستند” اور اکابرین کی تائید کی حامل کتابوں کے مطالعے کا مشور دیا۔ وجہ؟ کیونکہ مصنف  جبہ و دستار کی بجائے پینٹ شرٹ زیبِ تن کرتا ہے نیز کلین شیو ہے۔

سین نمبر 4

صبح کا وقت ہے۔ بچے اور بچیاں سکول اور کالج جا رہے ہیں۔ آوارہ گردان ڈیپارٹمنٹ کے چند سرکردہ زعماء مرکزی چوک میں تشریف فرما ہیں۔

پہلا: کیا زمانہ آگیا ہے بھئی۔ دیکھو نا بچوں کا سکول جانا تو سمجھ میں آتا ہے، لکھ پڑھ کر کل دو پیسے کمانے کے قابل ہوجائیں گے، لیکن بچیوں کا لکھنے پڑھنے سے کیا غرض؟ یہ یقیناً آزادی نسواں کی مغربی تحریک  کا حصہ ہے جو آہستہ آہستہ بےپردگی کو رواج دینے اور  مردوں کی غیرت کو للکارتے رہتے ہیں۔ کیا عورت اور کیا اس کے کمانے کی اوقات!

دوسرا: یار کل سے بیوی کی طبیعت خراب ہے جو مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانا غیرت گوارا نہیں کرتی۔ کیا آس پاس کے علاقے میں کوئی خاتون ڈاکٹر کا اتہ پتہ معلوم ہے؟

منافقت کونے میں کھڑی خندہ زن تھی اور نام نہاد مردانہ غیرت مارے شرم کےسہمی ہوئی سر جھکائے کھڑی تھی۔