ثقافتی تنزلی

Dr Lal Khan
ڈاکٹر لال خان، صاحبِ مضمون

ثقافتی تنزلی

ڈاکٹر لال خان

جہاں سیاست سکینڈلز اور کرپشن کا گہوارا بن گئی ہے وہاں اس ملک کے سیاست دانوں اور آئیڈیل شخصیات کے اسکینڈل بھی سامنے آرہے ہیں۔ صحافت ،سیاست اور سماجیات کے عنوان کبھی اتنے نہیں گرے تھے ۔ یہ کوئی حادثہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ اس معاشرے میں رائج اقتصادی اور سماجی نظام اور ڈھانچے کے شدید بحران اور عمومی زوال کی ہی غمازی ہے۔

جس سماج پر مسلط اقدار اور اخلاقیات ہی متنازعہ اور جعلی ہوں وہاں ان کے معیار کیسے متعین ہو سکتے ہیں! سارا کھیل پیسے کا ہے۔ جو خواتین اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کے الزام لگاتی ہیں ان پر بھی پیسے لینے دینے کے الزام لگتے ہیں۔ مخالفین ہر کام میں رشوت کے کلیدی کردار کا ہی ذکر کرتے ہیں۔ اداروں کے خریدے جانے کی بات ہو یا پھر سیاست دانوں کی وفاداریوں کے بکنے کا واویلا، اب حکمرانوں کے اپنے مطابق سب معیار پیسہ ہی طے کرتا ہے۔

یہاں صادق اور امین ہونے کا بھی شور ہے اور شاختی کارڈ بنوانے سمیت ہر فائل کو پہیے صرف پیسے کے ہی لگتے ہیں۔ آئین کی دفعات پر تو ضیاءالحق خود پورا نہیں اترتا تھا،نوے دن کے انتخابات کے وعدے سے لے کر اس آئین کو توڑنے کا مجرم ہو کر بھی آج اسی تقدس اور پاکیزگی کا اتنا جبر ہے کہ اسی نظام کے کسی سیاست دان یا پارٹی میں نہ اتنی جرأت ہے اور نہ کوئی سچائی ہے کہ وہ جس بات پر یقین رکھتے ہیں اس کو بیان بھی کر سکیں۔

ہر طرف دوہرے معیار ہیں۔ حاکموں کے آگے کاسہ لیسی کا کردار ہوتا ہے اور محکوموں پر جبر اور جاہ وجلال کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ کسی مُردار روح اور احساس کی ہی غمازی ہے۔ کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے ریاستی یا طاقت کے عہدے پر براجمان فرد اس حاصل کردہ اتھارٹی کا بھرپور رعب ڈالنے کی بیماری میں مبتلا ہے۔

سب آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں لیکن آئین اور قانون لاگو صرف ان پر ہوتے ہیں جن کا (دولت اور طاقت کی اس کشمکش میں) پلڑا کمزور ہوجاتا ہے یا پھر جو اس معاشرے میں مقدمہ کرنے یا قانونی چارہ جوئی کی مالی حیثیت نہ رکھتے ہوں۔ جہاں دوہرے معیار ضیاء الحق نے ٹھونسے تھے تو اسی معاشرے کی تمام گرتی ہوئی قدروں کو شدت سے مفاد پرستی اور خود غرضی کی کھائی میںدھ کیلنے والا بھی جنونیت کے نظریے کا داعی فوجی آمر تھا۔

چادراورچاردیواری والا احترام صرف انہی درمیانے طبقے والی خواتین کوحاصل ہوسکتاہے جن کے خاندانوں کے پاس چادراورچاردیواری خریدنے یا رکھنے کی مالی حیثیت ہو۔ حکمران طبقے کی خواتین کے پاس اتنی مالی حیثیت ہوتی ہے کہ چادراورچاردیواری سے نکل کرزرق برق ملبوسات اورلمبی لمبی گاڑیوں میں اس گھٹن سے آزاد ہو سکیں۔

غریب خواتین کو فیکٹریوں اورکارخانوں میں کھیتوں اورکھلیانوں میں حبس کی گرمی اورشدید سردی میں بھی محنت کرکے زندہ رہنے کے لیے روٹی روزی کاانتظام کرناہوتاہے۔ وحشت کا نشانہ وہ بھی بنتی ہیں لیکن ان کے اسکینڈلزاس لیے نہیں بنتے کیونکہ جنسی طورپرہراساں کیے جانے کے خلاف نہ تووہ قانونی چارہ جوئی کرسکتی ہیں اورنہ ہی ان کی محروم زندگی کسی بااثر طاقت کے خلاف شکایت کی گنجائش دیتی ہے۔

جس معاشرے میں بسنے والے انسانوں کے حالات اتنے مختلف ہوں طبقات کے درمیان تضادات اتنے شدیدہوں توپھرایسے سماج میں اخلاقیات اوراقداریکساں اورمساوی کس طرح ہوسکتے ہیں؟ عزت سب سے بڑھ کرانکی محنت کی ہونی چاہیے۔لیکن یہاں عزت دارصرف درمیانے اوربالادست طبقات کی خواتین ہیں۔

عزت اورسماجی حیثیت کا تعین یہ سرمایہ دارانہ معاشرہ پیسے سے کرتاہے۔جہاں ضیاالحق نے خواتین کے خلاف جابرانہ قوانین اورریاستی طاقت کی بنیادپرمعاشرے کی اخلاقیات درست کرنے کانظریہ پیش کیا تھا وہاں اس کوحکمران طبقات ابھی تک سطحی طورپرجاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ چیز مغربی ثقافت کی یلغارکاسامنانہیں کرسکی۔ اور اب اس کی زد میں حکمران اوردرمیانے طبقات کے وسیع حصے آگئے ہیں۔

معاشرے میں تمام ترقدامت پرستانہ رحجانات کے باوجودمغربی یاسامراجی ثقافت کی سرایت نے اس ملک کے ثقافتی اور اخلاقی معیاروں کوعجیب و غریب سوال بناکررکھ دیاہے۔ نہ صرف نت نئے ملبوسات میں مغربی ڈیزائنوں کی بھرمار ہے بلکہ معاشرے کے ہر پہلو میں ہمیں جعل سازی نظر بھی آتی ہے اور محسوس بھی ہوتی ہے۔ اگر مغربی ثقافت ایک بے ہودگی ہے تویہاں کی ریاستی آمریت کے ذریعے مسلط قدامت پرستانہ ثقافت بھی منافقت اور فریب کے بغیر چل نہیں سکتی۔

حکمران طبقات اور درمیانہ طبقہ یہ ثقافتی اخلاقی اور سماجی معیار نقل کرتا ہے۔ پھر کسی تحریک کی عدم موجودگی میں ایک ہیجان زدہ محنت کش طبقے پر اس ملاوٹ کے فیشن اور اقدار کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لیکن ہر اخلاقی ا سکینڈل میں یہ تضاد ابھر کر سامنے آتا ہے۔

جہاں مسلم لیگ (ن) ایک قدامت پرست نظریے پر ہوتے ہوئے جدیدیت اور سیکولرازم کا تڑکا لگاتی ہے وہاں تحریک انصاف جدیدیت کا زیادہ ماڈرن ملغوبہ ہے۔ باقی سیاست بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ جن طبقات کی خواتین پر الزامات لگتے ہیں وہ کبھی مذہبی قدامت پرستی، کبھی قدیم قبائلی اقدار اور کبھی مغربی لبرل ازم اور”فیمن ازم‘‘ کے دلائل پیش کرتی ہیں۔جن حکمران طبقات کے مرد حضرات پر الزام لگتا ہے وہ اس کو صرف بلیک میلنگ ہی قرار دیتے ہیں ۔ بلیک میلنگ بھی ایک حقیقت ہے۔ مرد خواتین کو اور خواتین مردوں کو جنسی بنیاد پر دولت اور طاقت کے حصول کے لیے اس طبقاتی معاشرے میں ہمیشہ استعمال کرتے آئے ہیں۔

حقوق نسواں کی تحریک کا المیہ یہ بن گیاہے کہ ایک خاتون کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت کے خلاف اس کی سب سے زیادہ تضحیک کرنے میں خواتین ہی سب سے آگے ہیں۔ جہاں بالادست طبقات کی خواتین کبھی محنت کش خواتین کی نمائندگی نہیں کرسکتیں وہاں مالی اور سیاسی مفادات خواتین کی اس یکجہتی کے نظریات کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ محنت کش خواتین کی صنعتی آزادی اور مردانہ جبر سے چھٹکارا اس نظام زر کو بدلے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس نظام کی منافع خوری کے لیے خواتین کی محنت کا دہرا اور تہراستحصال سماجی اور ثقافتی جواز بن کر یہاں کی اقدار کا معیار بنا دیا گیا ہے۔

جبر کے نظام کا خاتمہ محنت کش مردوں اور خواتین کی طبقاتی جڑت اورجدوجہد کی کامرانی سے منسلک ہے۔ آج کے اخلاقی اسیکنڈل، کرپشن کے الزامات ،فیصلے اور سبکدوشیاں حکمران طبقات کی تاریخی اقتصادی ،اخلاقی اور معاشرتی تنزلی کی ایک انتہا کی غمازی کرتے ہیں۔ معاشرے کا بحران اور محنت کش عوام کی حالت اتنی اذیت ناک ہوچکی ہے کہ معاشرہ سلگ اور تڑپ رہا ہے۔

لیکن حکمران طبقات کے پاس نہ کچھ دینے کو ہے نہ اس نظام میں کسی اصلاح یا بہتری کی کوئی گنجائش باقی ہے۔ ثقافت بھونڈ اور اخلاقیات منافقت پر مبنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایسے میں پھر اسکینڈلوں، الزامات کی بوچھاڑ اور سیاسی اور میڈیا کی نورا کشتیاں ہی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔

اگر سیاست اور معاشرت اتنی گر رہی ہیں تو فن، ادب اور تہذیب بھی کسی کم تنزلی کا شکار نہیں ہوئے۔ نہ کوئی فلم دیکھنے کو ہے نہ کوئی اچھی دھن سننے کو ملتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ سب کچھ چلتا ہے جس کو باہر نکل کر پارسائی کی منافقت میں چھپایاجاتا ہے۔ یہ اس بنیادی سماجی ومعاشی نظام کا زوال ہے جس کی بنیاد پر یہ ریاست، سیاست ،معاشرت اور اخلاقیات موجود ہیں اوراس کے ڈھانچوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

استحصال اور جبر میں عام انسان تعلیم علاج اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم سے محروم تر ہوتے جارہے ہیں۔ سکینڈلوں اور الزام بازی پر کب تک ان محنت کشوں کو خاموش اور دبا کر رکھا جاسکتا ہے۔ اس نظام نے ان کی زندگیوں کو ہر حوالے سے ایک جہنم بنا دیا ہے۔ جبرو استحصال کے خاتمے سے ہی وہ اشتراکی ثقافت، معیشت ،معاشرت اور اقدار جنم  لے سکتیں ہیں جن میں روح آزاد، احساسات مسرور اور زندگی سہل ہو۔

بشکریہ روزنامہ دنیا