سی ایس ایس کے گرتے نتائج: لمحہ فکریہ سے بھی آگے کا وقت

 

“ایک با صلاحیت، موثر اور غیر جانبدار سول سروس کسی بھی ملک کے انصرام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ملک جن کے پاس باقاعدہ اور منظم سول سروس موجود نہیں ہوتی، انہیں اپنے حکومتی منصوبوں اور پروگراموں کو احسن انداز سے سر انجام دینے میں مقابلتا زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” یہ الفاظ سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان، ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم ہونے والے قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات کی پیش کردہ رپورٹ کے صفحہ 21 کی پہلی سطر میں درج ہیں۔ یہ الفاظ ہمیں کسی ملک کی سول سروس کی صلاحیت اور اس کی اہمیت کے باہمی ربط پر ایک سنجیدہ، تجربہ کار اور علمی بنیاد رکھنے والی شخصیت کے زیر سایہ مرتب ہونے والی رپورٹ باور کروا رہی ہے۔ لیکن اس اہم قول کے ساتھ ہی 12 اکتوبر کو انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کے رپورٹر، ریاض الحق، کی اس سال کے سی ایس ایس کے انتہائی پست نتائج کی بابت رپورٹ پڑھئے۔ متذکرہ رپورٹ کے مطابق امتحان میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے صرف 2.09 فی صد تحریری امتحان میں کامیاب قرار پائے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریری امتحان ان امیدواروں کی ملازمت کے حصول کے سلسلے کی محض پہلی کڑی ہے۔ ابھی تو بالمشافہ انٹرویوز کا مرحلہ آنا ہے۔ جس میں ایک بار پھر ان 2.09 کامیاب امیدواروں میں سے مزید کی چھانٹی ہونا ہے۔ یہ شرح 2011 کی کم سے کم نوٹ کی گئی 9.75 فی صد شرح کامیابی سے بھی کم ہے۔

اعلی حکومتی سروس میں بھرتی کا ایک لمبا اور کافی پیچیدہ سلسلہ ہے جس میں ایک اچھی خاصی افرادی قوت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ جو بات ایف پی ایس سی اور کسی بھی سنجیدہ طبقے کے افراد کے لئے باعث فکر اور لائق توجہ ہے وہ یہ ہے کہ روز افزوں ایسے برے نتائج کیوں آ رہے ہیں؟ ایسے پست نتائج کا آنا ملک کی سول سروس کی پہلے سے ہی گرتی ہوئی اور غیر تسلی بخش صورتحال میں مزید مایوسی کی نموداری کا باعث ہے۔ وہیں ساتھ ساتھ یہ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان مزید گہرا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ایف پی ایس سی کی ادارہ جاتی سطح پر ٹھنڈے دل و دماغ سے ایک وسیع البنیاد جائزے کی متقاضی ہے۔

ایسے کسی بھی جائزے کے نکتئہ آغاز کے طور ہم ریاض الحق کی رپورٹ سے مزید مدد لیتے ہیں۔ حوالے کے طور پر پیش کی گئی رپورٹ ایف پی ایس سی کی جانب سے کئے گئے پرانے تجزیات سے مدد لیتی ہے جو کافی حد تک پہلے ہی کسی خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ایف پی ایس سی کی ویب سائٹ پر 2006 سے لے کر 2014 تک اعلی امتحانی مقابلوں کے متعلق جائزہ رپورٹیں موجود ہیں۔ ان رپورٹوں میں مختلف چیزوں اور اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر مختلف زاویوں سے صورتحال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس منظر نامے میں سے ایک اہم بات لازمی مضامین کے پرچوں کے ممتحنوں کی آراء ہیں۔ ان آراء میں سے نمائندہ رائے کا لب لباب یہی ہے کہ امیدواروں کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا انگریزی کے پہلے دو پرچوں میں ہے۔ ان میں سے ایک تو انگریزی انشاء پردازی کا پرچہ ہے، اور دوسرا انگریزی تلخیص کاری و گرائمر کا ہے۔

ریکارڈ پر موجود جائزہ رپورٹوں کے مطابق زیادہ تر امیدواروں کو تلخیص کاری اور مضمون نویسی کے بنیادی تصورات کی شد بد نہیں۔ امیدواروں کی ایک کثیر تعداد مضمون لکھتی ہے تو مناسب انداز میں دلائل نہیں دے پاتی: رائے، مثال، حقائق اور وضاحت میں فرق کا پتا تک نہیں؛ نا مضمون کا تعارف مناسب انداز سے کرایا جاتا ہے، نا ہی اس کے منطقی اختتام پر کوئی خاص توجہ ہوتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا حال تلخیص کاری میں بھی یے۔ امیدوار دیئے گئے متن کی سطروں کو نقل کر کر کے لکھتے جاتے ہیں۔ تلخیص کاری کرتے وقت پیراگراف لکھنے کی بنیادی تکنیکوں سے لاعلمی سطر در سطر عیاں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جنرل نالج کے تین مضامین کے پرچے بازاری امدادی کتب میں سے رٹے رٹائے خیالات کا نمونہ در نمونہ پیش کرتے ہیں۔

ان حالات میں ایک مجوزہ اقدام کے طور پر ایف پی ایس سی نے دو سال پہلے حکومت سے ابتدائی سکریننگ ٹیسٹ کی اجازت مانگی جس پر ابھی کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اس اقدام کے پیچھے یہ دلیل پیش کی گئی کہ روز افزوں امتحان دینے والے امیدواروں کی بڑھتی تعداد میں سے کسی حد تک تو سنجیدہ امیدواروں کی اولین مرحلوں میں چھانٹی کر لی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ایف پی ایس سی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حکام سے بھی اس صورتحال پر مشاورت کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابھی تک تو ایف پی ایس سی نے عمومی نظام تعلیم میں خامیوں پر ہی سوال اٹھائے ہیں۔ اس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی، اور متعدد دیگر جائزے بھی ملک کے عمومی نظام تعلیم پر وقتا فوقتا پائی جانے والی خامیوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ پر اس بات پر بھی سنجیدہ انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ سی ایس ایس کے تحریری، نفسیاتی، اور انٹرویو کے امتحانی مرحلے پاس کر لینے والے عبوری امیدواروں کے سول سروس کی تربیتی اکیڈمیوں میں سے تربیت لینے کے بعد بھی آخری امتحان میں(جسے Final Passing Out امتحان کہتے ہیں) کئی سالوں میں 40 سے 50 فی صد تک دوبارہ سے ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ ان تربیتی اکیڈمیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا اس لئے بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ایف پی ایس سی کے موجودہ نظام میں مضامین کا انتخاب کسی طور پر بھی ایک جدید سول سروس کے تقاضوں اور درپیش چیلنجز کے شایان شان نہیں۔ یہ تربیتی اکیڈمیاں ہی کسی حد تک سول سروس میں شامل ہونے والی نئی افرادی قوت کو اپنے اپنے تفویض شدہ گروپس کی پیشہ ورانہ سوجھ بوجھ فراہم کرنے کا کچھ اہتمام کر سکتی ہیں۔

آخر میں ہم ڈاکٹر عشرت حسین کے زیر نگرانی کام کرنے والے حکومتی اصلاحات کے کمیشن کی اس رائے کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ:

” ( ڈاکٹر عشرت حسین) کمیشن، سول سروس کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد، اور ان کی قابلیت کے سال بہ سال گرتے معیار کی دگر گوں صورت حال سے بخوبی آگاہ ہے۔ …. اس صورتحال کے پیدا ہونے میں بہت سے عوامل کا عمل دخل ہے۔” لیکن ایک اہم وجہ ” جاندار اور تیزی سے ابھرتا پرائیویٹ سیکٹر ہے، ( خاص طور پر بینکنگ سیکٹر، ٹیلی کام، آئی ٹی، الیکٹرانک میڈیا اور تیل اور گیس کا سیکٹر) جو کہ ابتدائی سطحوں پر ہی اچھے پیکیج دے رہا ہے۔” یہ پہلو بھی غور طلب رہنا چاہئے کہ با صلاحیت افراد ترجیحی طور پر سول سروس میں آنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں، تو پھر اصلاحات کو حقیقت پسندی سے کرنے میں تاخیر کسی صورت نہیں کرنا چاہئے۔