نئے زمانے کا بڑھتا ہُوا مسئلہ:جنریشن گیپ

اوشو کا تعلیمی نظریہ
اوشو

(اوشو) (ترجمہ: صفدر رشید)

ماضی میں جنریشن گیپ کا کوئی وجود نہیں تھا۔کیونکہ اس کا اظہار انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے اس لیے اس مسئلے کو گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔دن بدن اس گیپ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے پیچھے ایک پوری نفسیات کام کر رہی ہے۔اگر باپ بڑھئی ہوتا تو بچہ بڑھئی کا کم سیکھتا تھا یا کم از کم باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا۔اگر باپ کسان ہوتا تو بچہ اس کے ساتھ کھیت میں جاتا اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں اس کی مدد کرتا۔بیس برس کی عمر میں اس کی شادی ہو جاتی اور وہ کچھ بچوں کا باپ بن جاتا۔ماضی میں کوئی جونئیر (Junior) جنریشن نہیں ہوتی تھی۔اس لیے گیپ کوئی بھی نہیں تھا۔ایک جنریشن کے بعد دوسری جنریشن کا ایک سلسلہ تھا۔باپ کی موت سے پہلے اس کے بیٹے زندگی کے ہر شعبے میں اس کی جگہ لے لیتے تھے۔کھیلنے کے لیے کوئی وقت نہیں ملتا تھا۔سکول اور کالج بھی نہیں تھے۔ماضی میں سیکھنے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ سینئر (Senior)جنریشن کے ساتھ کام کیا جائے۔بلاشبہ سینئیر جنریشن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ اساتذہ تھے۔وہ جانتے تھے اور آپ جاہل۔جاہل عالم کی عزت کرتاہے اس لیے ماضی میں یہ تقریباََ ناممکن تھا کہ جونئیر جنریشن اپنی سینئیر جنریشن کی عزت نہ کرے۔جاننے والوں کے پاس طاقت ہوتی تھی،علم طاقت ہے جیسی ضرب المثل انہی دنوں کی یاد گار محسوس ہوتی ہے۔اسی لیے آپ نے ماضی میں نوجوانوں کی طرف سے کسی بغاوت کے بارے میں نہیں سنا۔موجودہ نسل ایک بالکل نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔بچہ اپنے والد کے نقش قدم پر نہیں چلتا۔وہ سکول جاتا ہے۔باپ اپنی دوکان دفتر یا کھیت میں جاتا ہے۔یونیورسٹی سے فارغ ہونے تک بچہ تقریباََ پچیس برس کا ہو چکاہوتا ہے۔ان پچیس برسوں میں بہت سی چیزیں رونما ہوتی ہیں۔پہلی تو یہ کہ وہ اپنے والدین سے زیادہ جانتا ہے کیونکہ اس کے والدین پچیس یا تیس برس پہلے سکول گئے تھے۔ان تیس برسوں میں علم ایک بڑی جست لگا چکا ہوتا ہے۔یونیورسٹی کے زمانے میں، میں بہت پریشان تھا۔ میرا نفسیات کا پروفیسر ان کتابوں کے حوالے دیتا جو تین دہا ئیاں پہلے متروک ہوچکی تھیں۔کیونکہ میں ہر چیز کو جاننے کا بہت شائق ہوتا تھا اس لیے میں لائبریری میں مستقل موجود رہتا تھا۔اس پروفیسر کی عزت کرنا ناممکن ہے جو آپ سے کم جانتا ہو۔ایسے شخص کے لیے پروفیسر رہنا باعثِ شرم ہونا چاہیے۔میں نے اپنے نفسیات کے پروفیسر کو کہہ دیا تھا کہ آپ کے لیے پروفیسر رہنا باعثِ شرم ہے کیونکہ نفسیات کے میدان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس سے بے خبر ہیں۔آپ صرف وہ جانتے ہیں جو آپ نے تیس برس پہلے پڑھا تھا۔جس دن سے آپ نے یونیورسٹی چھوڑی ہے آپ نے کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔
یقیناًتجربے میں سینئیر جنریشن ہمیشہ آگے ہوتی تھی۔اب تعلیم کی بدولت تجربے کی اہمیت نہیں رہی۔پڑھنے اور سیکھنے کے زریعے آپ جتنا چاہیںآگے بڑھ سکتے ہیں۔لائبریری میں بیٹھ کر آپ پوری دنیا سے با خبر رہ سکتے ہیں۔ابھی ایک اور گیپ بھی دیکھنا باقی ہے جس سے ہم ابھی بے خبر ہیں اور میں پہلی مرتبہ اس کے متعلق بات کر رہا ہوں۔ایک گیپ تعلیم کا پیدہ کردہ ہے۔اگر میڈیسن ایک عالمگیر تحریک بن جائے تو ایک اور گیپ پیدا ہو گا یا زیادہ وسیع ہو گا۔پھر بوڑھا اور جوان دو انتہائی سمتوں کے مسافر ہوں گے۔بوڑھوں کو آپ کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ آپ ذہن کی دنیا سے آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔اور دنیا میڈیٹیشن میں بڑی تیزی سے دلچسپی لے رہی ہے۔وہ دن دور نہیں جب میڈیٹیشن ہی آپ کی آخری تعلیم بن جائے گی۔آپ کی مروجہ تعلیم خارجی دنیا سے متعلق ہے۔ میڈیٹیشن کی تعلیم آپ کے اندرکے جہان کے بارے میں ہو گی۔یقیناًاس میں کچھ عرصے لگے گا کیونکہ بہت سے دھوکے ہوں گے۔بہت سے بناوٹی اور جھوٹے پیغمبر پیدا ہوں گے۔آپ کو ایک میڈیٹیٹر اور اس شخص کے درمیان فرق سے آگاہ ہو نا چاہیے جو محض میڈیٹیشن کی تکنیک سے واقف ہے۔بہت سے لوگ غلط تصوارات کے ساتھ ظاہر ہوں گے یا تصورات ٹھیک ہوں گے تو افراد غلط ہوں گے۔ میڈیٹیشن کوئی میکینکل شے نہیں ہے اس لیے اس کے کوئی فنی پہلو نہیں ہو سکتے۔تعلیم کی وجہ سے جنریشن گیپ مقداری نوعیت کا ہے جبکہ میڈیٹیشن کے سبب پیدا ہونے والا گیپ کیفیتی نوعیت کا ہو گا۔ایک میڈیٹیشن کرنے والا شخص عمر سے ماورا ہے۔وہ نہ بچہ ہے ۔نہ جوان اور نہ بوڑھا،مگر اب بہت ہوشیار اور چوکنے ہونے کی ضرورت ہے۔اس بات سے زیادہ متاثرنہ ہوں کہ ایک شخص کیا کہہ رہا ہے۔اس فرد اور اس کی انفرادیت کو گہرائی سے دیکھو۔دیکھیں کیا اس کی آنکھوں میں سر مستی ہے؟کیا اس کی حرکات میں بدھا سا وقار ہے؟ کیا آپ اُس میں محبت اور سچائی پاتے ہیں؟آپ کو اپنی ہستی تلاش کرنا ہے۔آپ کو اپنی ذہانت بڑھانی ہے۔آپ کو مطلق سچائی کو اپنے اندر مہمان ٹھرانا ہو گا۔اس کے بعد آپ ایک شعلہ بن جائیں گے،یقیناًآپ کی آگ کسی شخص کو جلائے گی نہیں بلکہ زخم مندمل کرے گی۔یہ آگ کنول کا پھول ہو گی۔سچائی کے متلاشی فرد کو اہمیت دینی چاہیے نہ کہ اس کے علم کو۔اُسے دیکھنا چاہیے کہ کیا فرد کی زندگی ایک نغمہ،ایک رقص،ایک ہنسی ہے؟یا کا وہ محض ایک جھوٹا اثر پیدا کرنے والا اور آپ کی توقعات پر پورا اترنے والا ایک کاروباری آدمی ہے۔کہیں اجزی اس کا کاروباری حربہ تو نہیں؟ایک سچے آدمی کو منکسر المزاج بننے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ نہ انا پرست ہے اور نہ عاجز۔کیونکہ ذرا مقداری فرق کے ساتھ یہ دونوں تصویر کے ایک ہی دو رخ ہیں۔صرف ایک انا پرست ہی عاجز بن سکتا ہے۔میں نہ ہی سادہ ہوں،نہ ہی عاجز اور نہ ہی انا پرست میں جو ہوں بس وہی ہوں۔میرا مقصد آپ کو ممکن حد تک غیر سنجیدہ رکھنا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر طرح کی میڈیٹیشن آپ کو سنجیدگی کی طرف لے جائے گی اور یہ سنجیدگی روحانی بیماری پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرے گی۔اس مرحلے پر بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔جب تک میڈیٹیشن آپ کے لیے زیادہ مسرت ،زیادہ ہنسی اور زیادہ شوخی نہیں لاتی اس سے بچیں۔یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔جنریشن گیپ افسوس ناک ہے۔۔۔۔ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے میرے پاس ایک حکمت عملی ہے۔پورے تعلیمی نظام کو بنیاد سے ہی بدلنے کی ضرورت ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے لوگوں کو زندگی کے لیے نہیں بلکہ روزگار کے لیے تیار کرتے ہیں۔پچیس برسوں تک ہم انہیں صرف روزگار حاصل کرنے کا گر سکھاتے ہیں۔ہم لوگوں کو موت کے لیے تیار نہیں کرتے۔اور زندگی صرف 60یا70سال پر مشتمل ہے۔ابدیت میں داخل ہونے کے لیے موت کا ہی ایک دروازہ ہے۔اس کے لیے شاندار تربیت کی ضرورت ہے۔میرت نزدیک تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ روزگار کے لیے 15سال کی تعلیم اور 42برس کی عمر میں موت کی تیاری کے لیے پھر دوبارہ دس برس کی تعلیم۔ایک حصہ بچوں کو زندگی کے لیے تیار کرے گا۔اور دوسرا حصہ ان افراد کے لیے ہو گا جو اپنی بھر پور زندگی گزار چکے ہیں اور زندگی سے ماورا کچھ زیادہ جاننے کی متمنی ہیں۔اس طرح جنریشن گیپ کا وجود ختم ہو جائے گا۔پھر بڑی عمر والے لوگ زیادہ خاموش،زیادہ پرسکون،زیادہ دانا بن جائیں گے۔ان کی نصیحت اب سننے کے قابل ہو جائے گی۔ان کے قدموں میں بیٹھنے سے زیادہ پر لطف اور سود مندکوئی اور نہ ہو گی۔بوڑھوں کا احترام واپس لوٹ آئے گا۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطلب ہے کہ نوجوان زندگی کی تعلیم حاصل کریں گے اور ادھیڑ عمر لوگ موت کی۔ ادھیڑ عمرلوگ میڈیٹیشن،گیت،رقص اور ہنسی سیکھیں گے،وہ اپنی موت کو ایک جشن بنا دیں گے۔یہ لوگ مصوری کریں گے،گیت گائیں گے،شاعری کریں گے ہر طرح کے تخلیقی کام کریں گے روز گار وہ کافی کما چکے ہیں اب یہ کام ان کے بچے کر رہے ہیں ۔جغرافیہ،تاریخ اور اس طرح کے احمقانہ مضامین ان کے بچے پڑھ رہے ہیں۔یہ جاننا ان کے بچوں کا دردِ سر ہے کہ ٹمبکٹو کہاں واقع ہے۔میرا اپنے جغرافیہ کہ استاد سے ہمیشہ یہ جھگڑا رہا ہے کہ مجھے یہ جاننے کی کیا ضرورت ہے کہ ٹمبکٹو کہاں واقع ہے۔وہ کہتے”تم بھی عجیب شخص ہو،آج تک کسی نے ایسا سوال نہیں کیا۔”تاریخ کے استاد ان افراد کے بارے میں پڑھاتا تھا جو دنیا کے برے ترین افراد تھے۔تاریخ کے استاد سے مجھے کبھی بودھی دھر مایاز رتشت یا بال شیمٹو یا لین چائی کے متعلق پتہ نہیں چلا،اور یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے انسانیت میں ارتقاء ہوا۔مگر مجھے تیمور لنگ کے متعلق بتایا گیا۔اس کے احترام کی وجہ سے اسے ایک ٹانگ والا تیمور نہیں کہا جاتا۔وہ دوسروں کے لیے اس قدر کوفت کا باعث ہوا کہ کچھ لوگوں کا ہی اس سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اس کا بیٹا اور پوتا اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ساری تاریخ قاتلوں اور مجرموں سے بھری پڑی ہے۔
اس طرح کی تاریخ غلط قسم کے افراد ہی کو جنم دے گی ۔ یہ تمام تاریخ جلا دینے کے قابل ہے۔ تاکہ ان کے نام بھی باقی نہ رہیں اور ان کی جگہ وہ خوبصورت نام لے لیں ۔ جنہوں نے ہمارے لیے زندگی کے اسرار کو کھولا ہے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انسانیت کو اعتماد ، وقار اور عزت دی ہیں تعلیم کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کے بعد جوان لوگ اپنے بڑوں کی تعظیم کریں گے ۔ رسماً نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ واقعی قابلِ احترام ہوں گے وہ اسے جانتے ہیں جو ذہین سے ماورا ہے اور نوجوان صرف اس سے با خبر ہیں جو ذہین میں سما سکتا ہیں ۔
جوان ابھی زندگی کے معمولی معاملات میں پھنسا ہوا ہے جبکہ اس سے بڑے افراد ستاروں سے آگے جہانوں میں پہنچ چکے ہیں ان کا احترام صرف شائستگی کا تقاضہ نہ ہوگا بلکہ آپ ان کا احترام کرنے پر دل کے ہاتھوں مجبور ہوں گے آپ ان کی تعظیم محض دوسروں کی سکھائی ہوئی رسمی اخلاقیات کی وجہ سے نہیں کریں گے۔
اسی طرح یونیورسٹی میں مَیں پروفیسروں کے کلاس میں آنے پر کبھی کھڑا نہیں ہوا ۔ ہندستان میں آپ کو احتراماً کھڑا ہونا پڑتا ہے شروع میں پروفیسر اکژ پوچھا کرتے تھے “تم کیوں کھڑے نہیں ہوتے ؟”
میرا جواب ہوتا”میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔۔۔”جزیشن گیپ موجود رہنے کی وجہ یہ ہے کہ احترام کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں۔ جب تک آپ دوبارہ کوئی وجہ پیدا نہیں کرتے کھویا ہوا احترام لوٹ کر نہیں آئے گا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر طرح کی بے ادبی اور بد تہذیبی اس کے جگہ لے لی گی.
میں یہ پسند کروں گا کہ بڑے لوگ صرف عمر ہی میں بڑے نہ ہوں بلکہ فہم و فراست اور دانائی میں بھی بڑے ہوں۔
ایسے معاشرے کو جس میں پختہ عمر کے لوگ بھی نوجوانوں کی سی حرکتیں کریں مہذب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کو تو روشن دما غ ہونا چاہیے، روشنی کا میناربننا چاہیے۔ انہیں نوجوانوں کیلئے ابھی حیاتیاتی غلامی اور جبر سے آزاد نہیں ہوئے۔ قطبی ستارہ بننا چاہیے۔
جب موت کی تعلیم اور روزگار کی تعلیم علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گی اور جب ہر شخص دو مرتبہ یونیورسٹی جائے گا تو اس وقت یہ گیپ ختم ہو جائے گا۔
ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا کوئی ذہن نہیں ہوتا۔وہ محض موجود ہوتا ہے۔اس کی یہاں موجودگی خالص ہوتی ہے جس پر ابھی خیالات کی پر چھائیاں نہیں پڑی ہوتیں۔زرا ایک بچے کی آنکھوں میں جھانکیے،وہ کتنی معصوم اور شفاف ہیں،وہاں چیزیں کتنی واضح ہیں۔یہ واضح پن کہاں سے آیا۔یہ واضح پن عدم سوچ کی وجہ سے آیا۔بچے نے ابھی سوچنا اور خیالات اکٹھے کرنا نہیں سیکھا۔وہ دیکھتا ہے مگر ترتیب نہیں دے سکتا۔اگر وہ درختوں کو دیکھتا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ درخت ہیں،یہ سبز رنگ کے ہیں، یہ خوبصورت ہیں۔وہ محض دیکھتا ہے، ہر شئے واضع، شفاف اور خالص ہوتی ہے، مگر وہ اسے کوئی نام نہیں دے سکتا کیونکہ اس کی آنکھوں میں سادگی ہوتی ہے۔ایک سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان دوبارہ ان آنکھوں کو حاصل کر سکتا ہے۔جہاں تک زندگی میں واضع ہونے کا تعلق ہے وہ دوبارہ بچہ بن جاتا ہے۔ عیسیٰ درست کہتے ہیں،چھوٹے بچوں کی طرح بن جاؤ۔صرف اس صورت میں آپ خدا کی سلطنت میں داخل ہونے کے قابل ہو سکیں گے۔غور کریں وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ نا سمجھ بچے بن جاؤ۔ وہ یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ بچوں کی سی احمقانہ حرکتیں شروع کر دو۔ وہ صرف ایک سادہ بات کر رہے ہیں کہ بچوں جیسے بن جاؤ۔آپ دوبارہ بچے کیسے بن سکتے ہیں؟ اگر آپ اپنی سوچ کے گھڑیال کو تھوڑی دیر بند کر دیں تو چیزیں آپ کے لیے دوبارہ واضع ہو جائیں گی۔ آپ دوبارہ بچے بن جائیں گے۔
کچھ ایسا ہی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بھی ممکن ہے۔مگر یہ کوئی صحت مند ذریعہ نہیں ہے بلکہ خطرناک اور پر فریب ہے۔نشہ آور اشیاء کی مانگ صدیوں سے ہے۔حتیٰ کہ وید میں سوما کا ذکر ہے۔انسان نے ہمیشہ ہی الکوحل، ماری جونا، افیون کی طرف کشش محسوس کی ہے۔آخر یہ کوشش کیوں ہے؟ معلمین اخلاق اور مذہبی افراد ہمیشہ اس کے خلاف رہے ہیں اور ہر حکومت نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں۔نشے میں کشش کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ بچپن کے معصوم ذہن کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔کیمیائی اثرات کی وجہ سے ذہن کچھ لمحوں یا گھنٹوں کے لیے ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ نشے کے اثرات کی وجہ سے آپ کی سوچنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔آپ بغیر سوچے حقیقت کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔دنیا دوبارہ رنگین ہو جاتی ہے،چھوٹے کنکر آپ کو پھر ہیرے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔عام گھاس اور پھول آپ کو بے انتہا حسین نظر آتے ہیں۔ہر شے بدل جاتی ہے۔آپ کے اندر سب کچھ بدل جاتا ہے مگر عا رضی طور پر۔اب آپ کے اوپر کوئی ماسک نہیں ہوتا۔اس لیے آپ چیزوں کو بڑے واضع طور پر دیکھتے ہیں۔نشہ آور اشیاء اس لیے ہمیشہ اہم رہی ہیں۔جب تک میڈیٹیشن لاکھوں افرد کی پہنچ میں نہیں ہے اس وقت تک نشے سے نجات ممکن نہیں۔
نشہ آور اشیاء خطرناک ہیں کیونکہ یہ آپکے جسم کا توازن درہم برہم کر دیتی ہیں۔یہ آپ کی فطرت کو تباہ کر دیتی ہیں،یہ آپ کے اندر کی اندر کی کیمسٹری برباد کر دیتی ہیں۔آہستہ آہستہ جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے۔اور آپ کے تجربات کم سے کم ہو تے جاتے ہیں پھر آخر کا ر نشے کی وجہ سے آپ کی معصومیت والی حالت حاصل نہیں کر سکتے۔آپ کو زیادہ سے زیادہ سخت نشے کی ضرورت ہو گی۔اس ظرح بغیر سوچے حقیقت تک پہنچنے کا یہ ذریعہ مفید نہیں ہے۔دماغ کو آسانی سے ایک طرف کیا جا سکتا ہے۔کسی مصنوعی یا کیمیائی چیز پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ذہن سے باہر نکلنے کا ایک فطری امکان موجود ہے۔ہم بغیر ذہن کے پیدا ہوئے تھے اور ہم ابھی بھی بغیر دماغ کے ہیں۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ محض ایک لباس ہے جو ہم نے پہنا ہوا ہے۔آپ با آسانی اسے اتار سکتے ہیں اور اس چھٹکارا پانے کے بعد آپ ایک بالکل مختلف دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔اس طرح مستقبل میں اصل لڑائی نشہ آور اشیاء اور میڈیٹشن کے درمیان ہو گی۔ایک فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ نشہ آور اشیاء آپ کے اندر کچھ کرتی ہیں جبکہ میڈیٹیشن آپ کے اندر کچھ ختم کرتی ہے۔یہ آپ کو ذہن سے باہر آنے میں مدد کرتی ہے۔یہ آپ کو بغیر سوچے حقیقت کی طرف دیکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔آپ کی دنیا بدل جاتی ہے۔ وہی روز مرہ کی اشیاء اور واقعات اب کتنے دلکش اور روشن ہو جاتے ہیں۔ ایک عارف بغیر کسی کوشش کے مستقل طور پر ایسی حالت میں رہتا ہے۔
آپ بغیرذہن کے پیدا ہوئے تھے۔ذہن ایک معاشرتی پیداوار ہے یہ فطری نہیں ہے۔یہ آپ پر اوپر سے مسلط کیا گیا ہے۔اندر سے آپ اب بھی آزاد ہیں۔آپ اس سے باہر آسکتے ہیں مگر کوئی فطرت سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مصنوعی چیز سے آزاد ہونے والے کے لیے صرف ایک فیصلہ درکار ہے۔