سیاسی عصبیت اور قانون

ایک روزن لکھاری
خورشید ندیم، صاحبِ مضمون

سیاسی عصبیت اور قانون

(خورشید ندیم)

قریب تھا کہ یثرب کا اقتدار عبداللہ ابن ابی کو منتقل ہو جا تا۔ وہ یہ خلعتِ فاخرہ پہننے کے لیے تیارتھا کہ اہلِ یثرب کے دلوں میں ایمان کے چراغ روشن ہو گئے۔ کوئی گھر ایسانہ تھا جہاں اسلام کی شمع نہ جل اٹھی ہو۔جنہوں نے عقبہ کے مقام پر دو مرتبہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی بیعت کی، ان کی محنت سے اہلِ یثرب کی اکثریت مسلمان ہو چکی تھی۔

یثرب کا ہر گھر انہ منتظر تھا کہ کب رسالت کا یہ ماہتاب اُن کے افق پر طلوع ہو اور اس خطے کا اقتدار آپ کومنتقل کر دیا جائے۔ یثرب مدینہ النبی بننے کے لیے تیار تھا۔ رسالت مآب ﷺ نے یہاں قدم رکھا تو پہلے ہی دن آپ کا اقتدار قائم ہوگیا۔

اس تبدیلی نے عبداللہ ابن ابی کی آرزووں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ بات اس کے دل میں گرہ بن گئی۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد، عوامی دباؤ پر، بظاہر ایمان لے آیا مگر اس کا دل رسالت مآب ﷺ کے خلاف بغض کا گھر بن گیا۔ تاریخ نے اسے رئیس المنافقین کے نام سے یاد رکھا ہے۔

آپﷺ کی ذات اور آپ کے اہلِ بیت اس کا خصوصی ہدف تھے۔ اس نے ام المومنین سیدہ عائشہؓ کی چادرِ عصمت کی طرف بھی اپنا ناپاک ہاتھ بڑھایا۔ اس شخص کو مگر مدینہ میں سیاسی عصبیت حاصل تھی۔ اس کے خلاف قدم اٹھانا آسان نہ تھا۔

جب سیدہؓ پر تہمت لگی تو اس پر ایک مجلس منعقد ہوئی۔ سیدہ نے اس کی روداد بیان کی جسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

”لوگو! کون ہے جو اُس شخص کی حرکتوں سے میری عزت بچائے، جس نے میرے اہلِ بیت پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کر دی۔”

اس پر ایک بحث چھڑ گئی۔ صحیح بخاری کے مطابق:

”مسجد میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ قریب تھا کہ اوس اور خزرج آپس میں لڑ پڑتے، مگر رسول اللہ نے ان کو ٹھنڈا کیا اور منبر سے اتر آئے۔‘‘

حضرت عمر ؓ نے بھی اجازت چاہی کہ اسے قتل کر دیں مگر آپ نے منع کر دیا۔

یہ عبداللہ بن ابی کی سیاسی حیثیت کا اظہار تھا۔ یہ واضح ہو گیا کہ اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانا اِس وقت ممکن نہیں ہے۔ رسول اللہ نے جان لیا کہ جب تک اس کی عصبیت باقی ہے، اس کے خلاف اقدام نہیں کیا جا سکتا۔

اقدام کے لیے لازم ہے کہ اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اس کی عصبیت ختم ہو جائے۔ پھر وہ وقت آگیا۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر وہ اپنے صاحبِ ایمان بیٹے کے ہاتھوں ذلیل ہوا۔ اس موقع پر آپ ﷺنے اپنے طرزِ عمل کی حکمت واضح فرمائی:

”عمر، کیا خیال ہے، جب تم اس کے قتل کی اجازت مانگ رہے تھے، اس وقت اگر تم اس کو قتل کرد یتے تو اس پر بہت سی ناکیں پھڑکنے لگتیں، لیکن اگر آج میں اس کے قتل کا حکم دوں تو اسے قتل تک کیا جا سکتا ہے۔‘‘

(ابن کثیر)

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اس سے جو شرعی مسئلہ اخذ کیا ہے، وہ انہی کے الفاظ میں پڑھیے:

”محض قانوناً کسی شخص کے مستحق قتل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم تر فتنے کا موجب نہ بن جائے۔ حالات سے آنکھیں بند کر کے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اس مقصد کے خلاف بالکل الٹا نتیجہ پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد کے پیچھے کوئی قابلِ لحاظ سیاسی قوت مو جود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور سیاسی تدبر کے ساتھ اس کی اصل سیاسی قوت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔‘‘

(تفہیم القرآن، جلد پنجم،صفحہ 514,515 )۔

کیا مو لانا مودودی کے علم میں وہ روایت نہیں تھی کہ ”قدیم اقوام پراسی لیے عذاب آئے کہ ان کے بڑے جرم کرتے تھے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا۔‘‘؟ یقیناً تھی لیکن وہ صرف مذہبی سکالر نہیں تھے، ان کی نظر سماجی علوم اور ان عوامل پر بھی تھی جو سماجی تشکیل میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔

مجتہدانہ بصیرت رکھنے والا عالم دین محض آیات اور روایات کے نقل کر نے پر کفایت نہیں کرتا، متن اور سماج کے سیاق و سباق میں ان کو سمجھتا بھی ہے۔ ہم کسی نتیجہ فکر سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر دلیل کے ساتھ۔ تاہم دین کی آفاقیت کا تقاضا ہے کہ ایک عالم لازماً غور وفکر کے اس عمل سے گزرے۔

خود رسالت مآب ﷺ نے ابن ابی کے معاملے میں اس اصول کو استعمال فرمایا۔ یہ تو ایک منافق اور مفسد کا قصہ ہے جس نے رسالت مآب ﷺ اور آپ کے اہلِ بیت کونشانہ بنایا۔ ظاہر ہے کوئی جرم اس سے سنگین تر نہیں ہو سکتا۔ اگر یہاں سماجی مصالح کو پیش نظر رکھا جانا ضروری تھا تو اس سے کمتر معاملات میں بدرجہ اتم لازم ہے۔

ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، یہاں کوئی پیغمبر ہے نہ ابن ابی۔ اس میں سماجی حکمتوں کو نظر انداز کرنا دین فہمی کا قابلِ تحسین اظہار ہے نہ سماج شناسی کا۔

اب ایک نظر پاکستان کی تاریخ پر ڈالتے ہیں۔ جی ایم سید پاکستان کے خلاف ہوگئے۔ انہوں نے کتاب لکھی”اب پاکستان کو ٹوٹ جانا چاہیے۔‘‘ اس پر ریاست نے انہیں سزا نہیں دی، گل دستے بھجوائے۔ وجہ کیا تھی؟ یہی سیاسی عصبیت۔

الطاف حسین صاحب کے جرائم سے آگاہی کے باجود، ہر فوجی اور سول حکومت نے انہیں اقتدار کا حصہ بنائے رکھا۔ کیوں؟ انہیں سندھ کے شہری علاقے میں عصبیت حاصل ہو گئی تھی۔ ان کے خلاف اقدام ریاست کے لیے سنگین نتائج پیدا کر سکتا تھا۔

دوسری طرف پہلے ریاست نے شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاسی عصبیت کو نظر انداز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ بھٹوصاحب کو پھانسی لگا دیا گیا۔ اس کے بعد سندھ میں اضطراب پیدا ہوا جو آج تک باقی ہے۔

پیپلز پارٹی کی تمام تر نا اہلیوں کے باوجود اگر سندھ کے عوام اسے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں تو یہ ریاست اور وفاق کے خلاف اس ناراضی کا اظہار ہے جو کم ہو نے کو نہیں آ رہی۔ مشرف صاحب نے اکبر بگٹی کے معاملے میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا۔ بلوچستان پر لگا یہ زخم ابھی تک رس رہا ہے۔ یہ صرف سیاسی حل ہے جس نے کسی حد تک مرہم کا کام کیا۔

کبھی کسی نے سوچا کہ عمران خان کو کئی عدالتیں اشتہاری قرار دے چکیں۔ اس کے باوجود قانون ان کے خلاف کیوں حرکت میں نہیں آتا؟ بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان کہاں ہیں۔ وہ سب کو دکھائی دیتے ہیں لیکن پولیس کو نظرنہیں آتے کہ وہ ان سے عدالت کے سمن پر دستخط کرائے۔ وہ عدالت کو ہمیشہ یہ جواب دیتی ہے کہ ملزم گھر نہیں ملا۔

عدالت کے فیصلے پر عمل در آمد انتظامیہ کا کام ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ انتظامیہ کیوں اقدام نہیں کرتی؟ شہبازشریف کے حکم کے تابع پولیس عمران خان کو گرفتار کیوں نہیں کرتی؟ اس کی وجہ وہ سیاسی عصبیت ہے جو عمران خان کو حاصل ہے۔ ان کے خلاف اقدام کبھی عدالت کا حکم یا قانون کی بالادستی نہیں سمجھا جائے گا۔ اسے حکومت کی جانب دارانہ اور انتقامی کاروائی قرار دیا جا ئے گا۔ اسی لیے پنجاب پولیس انہیں گرفتار نہیں کرتی۔

آج یہی معاملہ نوازشریف کا ہے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے راہنما ہیں۔ انہیں سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ ان کے خلاف قانون کو متحرک کیا جائے گا تواس کی ایک قیمت ہے جو ریاست کو چکانا ہوگی۔ کیا ریاست اس کی متحمل ہو سکتی ہے؟ پھر معاملات بھی اگر پوری طرح شفاف نہ ہوں اور ان کے پس منظر میں سازش صاف جھانکتی دکھائی دے رہی ہو تو نتائج کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

افسوس کہ اہلِ سیاست کی طرف سے تاریخ فہمی اور سماج شناسی کا کوئی مظہر سامنے آ رہا ہے اور نہ اہلِ دانش کی طرف سے۔ نوازشریف کے خاتمے کا صرف ایک راستہ ہے: ان کی سیاسی عصبیت کا خاتمہ۔ یہ انتخابی عمل سے ہوگا۔ دوسرا ہر طریقہ ملک کو فساد کی طرف لے جائے گا۔