لپک جھپک

Naseer Ahmed
نصیر احمد

لپک جھپک

از، نصیر احمد 

سیاست، مشکل کام ہے، ہر طرح کے جوش وُحوش سے پیارے بھائیو کہتے ہوئے لپک جھپک، لپٹ جھپٹ کرنی پڑتی ہے۔ شادی بھی شاید کچھ اسی طرح ہی ہوتی ہے۔ ایک اور مشکل کام۔ بس ذرا لپٹ جھپٹ کے معاملے میں کچھ ذاتی اور کچھ معاشرتی احتیاطیں رکھنی پڑتی ہیں۔

لپک جھپک تو شادی میں زیادہ کرنی پڑ جاتی ہے۔ یہ کہنا پروین کا ہے، اس سلسلے میں انھوں نے ایک مکالمہ سنایا تھا۔

پروین کے شوہر: ذرا دیکھنا، پپی بھیا آئے ہیں۔

پروین: دیکھو جی، میرا مُنھ مت کھلواؤ، کتے ہوں گے تمھارے بھائی، میں کیوں کسی کتے کو بھائی بناؤں۔

پروین کے شوہر: ایک تو تم بھی، یہ پپی بھیا ہیں، عاصمہ باجی کے ہَزبینڈ!

پروین: ارے کہیں سن تو نہیں لیا (ایک تو ان کم بختوں نے ایک دوسرے کے نام کتوں کے ناموں پر رکھے ہیں!)

اور پھر لپک جھپک شروع

پروین: (بات چیت بھی کرتی جاتی ہیں اور دل ہی دل میں تبصرے کرتی جاتی ہیں) آپ سے تو پہلے ملاقات ہی نہیں ہوئی، عاصمہ باجی کی تو بات ہی اور ہے (اب اس انگریز کی بچی کی تعریفیں کرنی پڑیں گی) وہ تو سمجھیں، سونا ہیں سونا۔ (یہ تو واقعی کتے جیسا لگتا ہے، راتب کا پوچھ لوں، ورنہ یہ ان کتوں کی میرے اشرف المخلوقات رشتے داروں سے مقابلہ بازی کرنے لگیں گے۔)

کھانا میں نے تقریباً تیار کر لیا ہے، اب آپ عجلت کی معذرت نہ کیجیے گا۔ (ہونہہ، کتا ہے، کب راتب سے انکار کرتا ہے۔)

باجی آپ کی بہت تعریفیں کرتی ہیں، خصوصی طور پہ آپ کے ادبی ذوق کی؟ (بس باجی ہیں، ورنہ شکل سے لگتا تو نہیں۔)

ایک نظم تو مجھے بھی یاد ہو گئی ہے ‘وہ گردشوں میں گردشیں اور پیچ و خم میں پیچ و خم، تیری زلف کے سلسلے والی (جیسی خاندانی سازشیں کرتے ہیں، ویسی ہی نظمیں لکھتے ہیں۔)

پپی بھیا: واہ واہ، ما شاء اللہ، آپ تو بڑی سخن شناس نکلیں!

پروین: ارے نہیں، آپ کی نظم واقعی اچھی تھی (او ہو، یہ تو لپک جھپک تو زیادہ ہو گئی، یہ کم بخت کہیں لپٹ جھپٹ کے چکر میں نہ پڑ جائے) یہ اور بات ہے وہ مرزا صاحب کہتے ہیں، چھوڑیں رہنے دیں (اس کو تو مرچیں لگ جائیں گی)

پپی بھیا: رک کیوں گئیں کہہ دیں، میں جانتا ہوں، وہ جاہلِ مطلق کہتا ہے کہ میں معاملات بندی ایسے کرتا ہوں جیسے کتا رضائی ادھیڑ رہا ہو۔

بَکتا رہتا ہے، خود میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنے لکھے کو شعر کہہ سکے، شاعرانہ تأثرات کہتا ہے، اور تأثرات بھی کیسے، فلسفے کے ادق مضامین جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے، اور یہ سر کٹے، پا بریدہ تأثرات دکھا کر سرکس والوں کی طرح چیختا پھرتا ہے، دو دھڑ والا بچہ دیکھو، مردے کھانے والی بلا دیکھو، بہو سے جھگڑتا ریچھ دیکھو

پروین: ہاہاہا، بہو سے جھگڑتا ریچھ (یہ تو جلاپے میں ہوش ہی کھو بیٹھا ہے) کیا بات ہے، درست فرماتے ہیں، مرزا صاحب واقعی کافی الٹی سیدھی باتیں لکھتے رہتے ہیں (اب اس کتے کی دل داری کے لیے اپنے نابغۂِ روزگار بھائی کی مخالفت کرنی پڑے گی، مگر لپک جھپک بھی تو ضروری ہے، اور مرزا صاحب کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ پھر اس شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند کا دھیان لپٹ جھپٹ سے ہٹا رہے)۔

پپی بھیا: یہ نہیں ہوتی شاعری

پروین: درست فرمایا (مگر وہ کب خود کو شاعر کہتے ہیں) شاعری اصل میں … (اب کیا کہوں، کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا۔)

پپی بھیا: فرمائیے، فرمائیے، میں ہَمہ تن گوش ہوں۔

پروین: میرا کہنے کا مطلب ہے (گوش پر ایک دو تھپڑ ہی رسید نہ کر دوں، بڑا عرصہ ہوا ہے، مرصع و مسجع قسم کی چیاؤں چیاؤں نہیں سنی، لیکن لپک جھپک خراب ہو جائے گی، اور گھر گرہستی اجڑ جائے گی۔)

پپی بھیا: جی رک کیوں گئیں لیکن جواب تلخ نہ زیبد لب لعل شکر خارا

پروین: (اوہ اچھا تو لپٹ جھپٹ، کرتی ہوں تمھارا بندوبست) شاعری اصل میں ایسی شیرینی ہے جو سگانِ کم سواد کو نہیں پچتی۔ (تھوڑا ڈیسنٹ تو کر دیا ہے کہ بعد میں مقدمہ ہو تو کم از کم یہ تو باولے نہ ہوں)

پپی بھیا: واہ واہ، ایک عالمی صداقت کا نور آپ کی گفتگو میں چمک سا اٹھا ہے۔

پروین: (شکر ہے ،یہ ہنسنے لگے، اتنے بھی گاؤدی نہیں ہیں، اب تو پپی جی، گلیوں کا کوئی آوارہ بے کار کتا آپ کو ڈالے جادو کی جپھی جی، لیکن یہ تو واقعی کتا نکلا، بے عزتی پر بڑا خوش ہوا۔ اب میں بوٹ پالش کی عالمی صداقتوں سے آپ کا چہرہ چمکاتی ہوں، اب تو سیاں اپنے ساتھ ہیں،) شکریہ میں کیا، میری کیا مجال، کھانا دھرتے، چائے رکھتے، کبھی کبھی مرزا بھائی کی کوئی بات پلے پڑ جائے تو یاد رکھ لیتی ہوں۔ شعر کی ان سی تفہیم تو بہت کم ہی سننے کو ملتی ہے (گڈ بائی، لپک جھپک)

پپی بھیا: مرزا بھائی…

پروین: تو اور کیا، بھیا کے اتنے اچھے دوست ہیں، ہمارے بھائی ہی تو ہیں۔ ان کا اتنا احترام کرتے ہیں جیسے یہ کوئی بادشاہ ہوں۔ ہمارے ہاں ہی تو بس آتے ہیں۔ ورنہ وہ کہاں کسی کے آتے جاتے ہیں؟ (اس کی تو بجلی ہی فیوز ہو گئی ہے۔)

پروین کے شوہر: یس پپی، ہی از اے فائن فیلا (ویل ڈن سیاں، پپی دم لپیٹو)

پپی بھیا: مگر بھائی… (دیر ہو گئی پپی، اب مواخات ممکن نہیں رہی، بر آسمانم می رود)

پروین کے شوہر: وٹ پپی

پروین: (وے، وٹ، وے)

پپی بھیا: کچھ نہیں بھائی، اجازت چاہوں گا، کچھ کام ہے۔

پروین: ارے نہیں پپی بھیا، میں کم بخت کن بحثوں میں الجھ گئی، ابھی کھانا تیار کرتی ہوں (پپی تو گیا)

پپی بھیا: نہیں بھابی، کچھ عجلت میں ہوں، معذرت!

جیسے آپ کی مرضی (کیوں، اب شکر خارا، کیا کرائتہ چرائتہ ہو گیا ہے)

(پپی بھیا چلے جاتے ہیں)

پروین کے شوہر: تم بڑا مسکرا رہی ہو

پروین: مسکرانے دیں، پیلوپونیشین جنگوں میں ایک چھوٹی سی فتح۔ نو لپک جھپک فار اے وائل۔