تلاش گم شدہ

اعظم کمال

تلاش گم شدہ

افسانہ از، اعظم کمال

تین کردار

فلاسفی آف ریلیجینز میں ماسٹرز کیے ہوئے ایک جواں سالہ لڑکا، جو ابھی ابھی یونی ورسٹی سے فارغ ہوا ہے:

1- نہی

2- ماں (نہی کی ماں جس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے۔)

3- باپ (جو کہ نہی کی پیدائش سے پہلے کہیں گم ہو گیا تھا۔)

چار اپریل 2010:

نہی روزگار کی تلاش میں ایک منڈی میں جاتا ہے، وہاں اس کی ملاقات ایک بھیڑ کے ریوڑ کے مالک سے ہوتی ہے۔

مالک نہی کو بتاتا ہے کہ اس کو ایک فُل ٹائم چرواہے کی ضرورت ہے، لیکن چُوں کہ نہی کی تعلیم اس پیشہ سے متعلقہ نہیں اس لیے نہی کو ملازمت سے پہلے کچھ عرصہ اس کے ساتھ اپرنٹس شپ کرنا ہو گی۔

مالک کو لگا کہ نہی میں اس کام کو کرنے کا ٹَیمپرامنٹ ہے یا نہیں، اور پھر اس کے بعد ہی تنخواہ وغیرہ کے معاملات طے کرے گا۔

نہی نے ہزاروں دلیلیں دیں کہ یونی ورسٹی اور حکومت کے مطابق اُس کی ماسٹرز ڈگری جان وروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کرتی ہے اور منڈی کے اشتہار میں بھی اسی ڈگری کے حامل نو جوانوں کو مدعُو کیا گیا تھا۔

لیکن مالک اس بات سے ٹَس سے مَس نہ ہوا۔ تنگ آ کر نہی نے روزگار دفتر جانے کا سوچا کہ وہاں سے کسی اور جاب کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرے گا، اور اس مالک کی شکایت بھی کرے گا۔

وہ سائیکل پر سوار ہو کر روزگار دفتر پہنچتا ہے۔ اس دن روزگار کھڑکی کے باہر اتنا زیادہ رش نہیں تھا، اس لیے جلد ہی اس کی باری آ گئی۔

اُس نے چِٹ لی اور کھڑکی کے سامنے آ گیا۔ کھڑکی پہ کھڑے مدد گار کی شکل کی بہت زیادہ مماثلت بھیڑوں کا مالک کی طرح ہی تھی۔

اک آدھ بار تو نہی کے ذہن میں آیا شاید وہ مالک ہی ہے لیکن اُس نے اس بے کار خیال کو جَھٹک دیا اور اُس نے مالک کے خلاف اپنی شکایت درج کرا دی۔

شکایت کے بعد مدد گار نے اُس کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں زیادہ پریشان نہ ہو، لیکن شکایات کی زیادتی کی بناء پر دو چار سالوں میں اُس کی شکایت پر فیصلہ کر دیا جائے گا۔


یہ بھی دیکھیے:

کھیل جاری ہے …   کہانی از، عثمان غنی رعدؔ

کشتی پر اچھلتی ہوئی مچھلیاں  افسانہ از، محسن خان

تفسیریںکہانی از، نصیر احمد


لیکن چوں کہ ریاست کی اولین ترجیح اپنے شہریوں کو ایک با معنی روزگار دینا تھا، اس لیے اس کے ہاتھ میں ایک نوکری کا اشتہار دے دیا اور نہی کو خبر دار کیا کہ آج اُس نوکری کی درخواست دینے کی آخری تاریخ ہے اور نہی کو وقت ضائع کرنے کے بَہ جائے فوراً اس نوکری کی درخواست دے دینی چاہیے۔

نہی اشتہار پر پتا پڑھ کر فوراً اپنی سائیکل دوڑاتا ہے اور کچھ ہی منٹوں میں منڈی پہنچ جاتا ہے اور پھر اُسی بھیڑوں کے ریوڑ کے مالک سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

نہی کو معلوم پڑتا ہے کہ یہ جاب اُسی مالک__ جسے کچھ گھنٹے پہلے وہ مل چکا تھا__ کے ریوڑ کی نِگَہ بانی کی ہے مگر نہی انکار کے با وُجود اس مالک کے سامنے اپنی گذارش رکھتا ہے۔

مالک پوری دل جمعی سے سن کر اسے انکار کر دیتا ہے۔

نہی مایوس ہو کر واپس مڑ رہا ہوتا ہے تو اُس کی ایک یونی ورسٹی کلاس فیلو کے کزن اَمر سے ملاقات ہوتی ہے۔

اَمر کا تعلق ایک دوسرے صوبے سے تھا۔ سلام دعا کے بعد اَمر نے نہی سے پوچھا، کیا تمھیں اپنے گُم شدہ باپ کی کوئی خبر ملی؟

“نہیں یار! ابھی تو روزگار کی تلاش میں ہوں ایک بار settle ہو جاؤں تو پھر سوچوں گا،” نہی نے جواب دیا۔

“اچھا اگر تم interested ہو تو میرے پاس اس دفتر کا ایڈریس ہے جہاں پر گم شدہ لوگوں کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تمھیں اس دفتر کے اندر رسائی حاصل ہو جائے تو یقیناً تمھیں تمھارے باپ کا کوئی اتا پتا مل جائے گا۔” اَمر نے ہم دردی میں نہی سے کہا۔

نہی جو جاب نہ ملنے کی وجہ سے مایوس تھا، گویا چونک گیا، “کیوں نہیں، تم فوراً بتاؤ۔ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ 25 سالوں کے بعد اپنے باپ کے بارے میں کوئی اتے پتے کی بات سنی ہے۔ جلدی بتاؤ!”

نہی پتا لے کر گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور ماں کی اُس خوشی، جو اس کو یہ خبر کو سن کر ہو گئی، کو دل ہی دل میں سوچ کر فاتحانہ قہقہہ لگاتا ہے۔

لیکن جب وہ گھر پہنچتا ہے تو رات کے بارہ بج رہے ہوتے ہیں اور اُس کی ماں برآمدے میں گہری نیند سو رہی ہوتی ہے۔ وہ کچن میں جاتا ہے، اُبلے ہوئے چاول کو گرم کر کے رات کا کھانا کھاتا ہے اور سو جاتا ہے۔

پانچ اپریل کو 2010 شام کے 06:00 بجے:

دن گیارہ بجے اٹھ کر وہ ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کو بتاتا ہے کہ وہ جاب ڈھونڈنے میں نا کام رہا ہے۔ اس کی ماں اس کی ہمت باندھتی ہے:

“فکر نہ کرہ بیٹا ابھی گھر کا چولھا چل رہا ہے۔ تم بس اپنی کوشش جاری رکھو…!”

پھر وہ اپنی ماں کو اَمر کے ساتھ ملاقات کا بتاتا ہے۔ اس کی ماں اچانک اپنے شوہر کا ذکر سن کر پریشان ہو جاتی ہے اور نہی سے کہتی ہے:

“اچانک 25 سال بعد تمھیں اپنے باپ کا خیال کیسے آ گیا؟ اُنھوں نے گھر آنا ہوتا تو آ چکے ہوتے۔ جانے دو اس خیال کو۔ چلو آج مجھے بازار کی سیر کروا لو۔”

نہیں ماں میں ایک بار تو کوشش ضرور کروں گا، کون سا میری جاب ہو گئی ہے۔ جب تک روزگار دفتر سے میری شکایت کا اِزالہ ہو گا، میں واپس آ جاؤں گا۔

ماں روزگار دفتر کا سن کر گھر آ جاتی ہے۔ “تم روزگار دفتر کیوں گئے تھے، تمھیں معلوم ہے کہ حکومت شکایت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتی۔ تم روزگار دفتر میں شکایت درج کرواتے وقت کیا سوچ رہے تھے؟”

“ماں ہر بات پر پریشان نہ ہو جایا کرو۔”

“اچھا بتاؤ اَبا کا حلیہ کیسا تھا؟”

ماں بڑبڑاتے ہوئے،”تم کیوں نہیں پیچھا چھوڑ رہے اُن کا۔ نہ تم نے اُنھیں دیکھا؟ پھر کیوں اتنے باولے ہوئے جا رہے ہو اور برسوں ہوئے ہیں اُن کو گھر سے گئے ہوئے۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ اُن کی ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دو ہونٹ اور 5 فٹ 8 انچ قد تھا۔ مگر چھوڑو رہنے دو کیوں اپنے آپ کو ایک ‘سایے’ کے لیے ہلکان کرتے ہو!”

“ماں، تمھیں تو بابا کل کی طرح یاد ہیں۔ واہ، کیا نشانی بتائی ہے۔ میں نے سامان باندھ لیا ہے۔ آج کی ٹرین سے روانہ ہو رہا ہوں۔ دو چار ہفتے میں واپس لوٹ آؤں گا۔

پانچ اپریل 2010 شام سلام سے 6:00 بجے:

نہی قریب والے قصبے پہنچ کر جنوبی صوبہ__ جہاں ریگستان میں ریاست کا ریکارڈ رُوم تھا__ کو جانے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔

رات 10 بجے ٹرین پہنچتی ہے اور وہ ٹرین پر سوار ہو جاتا ہے، اگر چِہ ٹرین پر بہت ساری سیٹیں خالی تھیں، لیکن ٹرین ماسٹر نے سیٹ نہ ہونے کا بہانہ کر کے اُس کو کھڑا کر دیا۔

نہی نے احتجاج ضرور کیا، لیکن اُس کو معلوم تھا کہ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سوہ کھڑا ہو گیا، کئی گھنٹے گذر جانے کے بعد ٹرین کنڈکٹر نے اُس کو ایک خالی سیٹ پر بٹھا دیا اور اس کے عوض اس سے کچھ نقدی وصول کی۔

گیارہ اپریل 2010 دن 2:00 بجے:

کئی دنوں کے سفر کے بعد دوپہر کے وقت ٹرین ریگستان کے بیچ و بیچ ایک ویران سٹیشن پر رکتی ہے اور ٹرین ماسٹر نہی کو اُترنے کا کہتا ہے۔

نہی اپنا سامان سنبھال کر اُترتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد ٹرین روانہ ہو جاتی ہے اور نہی سٹیشن کے مغرب کی سمت روانہ ہو جاتا ہے۔

کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہ ایک کثیر منزلہ عمارت کے سامنے پہنچ جاتا ہے۔ وہ عمارت کے سایے کے نیچے اپنا سامان رکھتا ہے اور مرکزی دروازے کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ وہ ساری بلڈنگ کا چکر لگاتا ہے، لیکن اُسے کوئی دروازہ نظر نہیں آتا۔ وہ نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے۔

وہ کئی گھنٹے سوتا رہتا ہے جب اُس کی آنکھ کھلتی ہے تو رات ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ اپنے سامان سے کچھ کھانا نکال کر کھاتا ہے اور پھر سو جاتا ہے۔

بارہ اپریل 2010 کو صبح 9:00 بجے:

اگلے دن زور دار گھنٹی کی آواز سے اُس کی آنکھ کھلتی ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھتا ہے۔ جہاں پر وہ سویا ہوا تھا اُس کے عَقّب میں ایک بہت بڑا دروازہ تھا اور اُس کے سامنے ایک بہت لمبی لائن میں دور دور تک بہت سارے لوگ کھڑے تھے۔

مرکزی دروازے کے پاس ایک گارڈ کھڑا تھا۔ نہی نے اُسے اپنا مسئلہ بتایا۔ گارڈ نے قدرے ہم دردانہ لہجے میں اُسے جواب دیا کہ یہ سارے لوگ کئی ہفتوں سے لائن میں کھڑے ہیں اور وہ بھی کسی نہ کسی فائل کی تلاش میں وہاں آئے ہیں۔ اگر نہی کو اندر تک رسائی چاہیے، تو اُسے بھی لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا ہو گا۔

چُوں کہ اُس کی باری بہت دور ہے اس لیے اس نے نہی کو مشورہ دیا کہ وہ اُس کے کام میں اُس کی مدد کرے۔ اس طرح سے اُس کے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ نہی اُس کی بات مان لیتا ہے اور اپنی باری رجسٹر کروا لیتا ہے۔

ریکارڈ کے مطابق اُس کی باری کا نمبر 5944 تھا۔ گارڈ کے مطابق ایک وقت میں صرف ایک درخواست گذار عمارت میں جا سکتا ہے اور جب تک وہ عمارت سے واپس نہیں پلٹتا عمارت مکمل طور پر بند رہتی ہے۔

گارڈ نے نہی کو اگلے دن صبح 8:00 بجے آنے کا کہہ کر دروازہ بند کر دیا۔

تیرہ اپریل 2010:

نہی صبح 8:00 بجے دروازے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ پورے 8:00 بجے دروازہ کھلتا ہے اور گارڈ اُس کو بتاتا ہے کہ اُس کی قابلیت کی بناء پر اُسے ریاست کے حق میں پمفلٹ لکھنے ہوں گے اور ان پمفلٹوں میں ریاست کے عظیم کارنامے بتانے ہوں گے۔

نہی نے پوچھا کہ ان کارناموں کا مواد کہاں سے ملے گا تو گارڈنے قدرے غصے میں کہا کہ اُس کو یہ کارنامے تخلیق کرنا ہوں گے۔

یوں ہی نہی روز ریاست کی اچِیومنٹس کو لکھتا رہا اور اسے کھانا مل جاتا۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ نہی کو لگنے لگا کہ وہ ایک عظیم ریاست کا شہری ہے۔ ایک ایسی ریاست جس نے ہر شہری کو ہر طرح کی سہولیات میسر کرتی ہے۔

پندرہ اپریل 2021:

آخر کار نہی کی باری آ جاتی ہے۔ وہ پوری اِکسائٹمنٹ کے ساتھ عمارت میں داخل ہو جاتا ہے۔

اُس کو گارڈ ایک کلرک کے پاس لے جاتا ہے جہاں پر کچھ سوالات کے بعد اُسے بتایا جاتا ہے کہ نہی کے باپ کے حلیے کے لوگوں کا ریکارڈ عمارت کی چوتھی منزل پر ریکارڈ روم میں موجود ہے، اس لیے نہی کو چوتھی منزل پر بھیج دیا جاتا ہے۔

پوری عمارت میں مکمل سناٹا ہے۔ نہی کو لگا کہ ایک گارڈ اور ایک کلرک کے علاوہ اس بلڈنگ میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ خیر وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چوتھی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔

چوتھی منزل پر پہنچتے ہی ایک بڑے ہال کا دروازہ کھلتا ہے اور وہ اندر داخل ہو جاتا ہے۔ ہال میں رَیکس میں ہزار ہا فائلز پڑی ہوتی ہیں۔

وہ داہنی طرف سے اپنی تلاش کی شروعات کرتا ہے۔ پہلی فائل ہی کھولتا ہے تو خوشی سے اُس کی چیخ نکل جاتی ہے کہ وہ ساری نشانیاں جو اُس کی ماں نے بتائی تھیں وہ اس فائل میں لکھی ہوئی تھیں۔

نام: A01

شناختی علامت: ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دو ہونٹ۔

قد: تقریباً 5 فٹ8 انچ

گم شدگی: تقریباً 36 سال

وہ فائل لے کر نکلنے والا ہی تھا کہ اُس کے ذہن میں آیا کیوں نہ وہ کچھ اور فائلیں دیکھ لے شاید اُسے کسی محلے دار کا پتا مل جائے۔

وہ دوسری فائل کھولتا ہے اور اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں ہیں کیوں کہ فائل میں درج ذیل معلومات تھیں۔

نام: A001

شناختی علامت:  ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دو ہونٹ۔

قد: تقریباً 5 فٹ 8 انچ

گم شدگی: تقریباً 36 سال

اس کے بعد نہی فائل پر فائل کھولتا جاتا ہے اور سوائے نام کے تمام معلومات ایک جیسی تھیں۔

وہ کئی سال تک فائلیں دیکھتا رہا، لیکن تمام فائلیں ایک جیسی ہی نکلیں۔

بارہ اگست 2041:

آخر کار تمام فائلوں کو چیک کرنے کے بعد اُس کو احساس ہوتا ہے کہ شاید اُس کی ماں نے اُس کے باپ کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں تھیں۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ گھر جا کر دوبارہ صحیح معلومات لے کر دوبارہ اپنے باپ کی تلاش کو واپس آئے گا۔ گارڈ سے اجازت لے کر وہ گاؤں کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔

سترہ اگست 2041:

17 اگست کو وہ اپنے گاؤں پہنچتا ہے، لیکن جہاں پر اُس کا گاؤں آباد تھا وہاں پر اب ایک سرکاری ہسپتال قائم ہے۔

وہ ہسپتال کے سربراہ سے ملاقات کرتا ہے۔ ہسپتال کے سربراہ کے مطابق یہ گاؤں کئی سال پہلے کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ جب نہی نے دریافت کیا کہ اُس کا گاؤں کہاں منتقل کیا گیا ہے، تو اس نے کہا کہ جنوبی صوبے میں ریگستان میں موجود سرکاری دفتر سے اس کے بارے میں معلومات لی جا سکتی ہیں۔

نہی کو اپنے گاؤں کا نام تک یاد نہیں تھا لیکن ایک بار پھر وہ جنوبی صوبے کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔

ختم شد