گدھے کا خواب!

گدھے کا خواب!

از، خالد کرّار

دہلی کے لال قلعہ پر اترنے کے بعد پہلے تو چہرے اور جسم سے گرد جھاڑی اور قریب کےایک نل کے قریب سے ، جہاں ایک گائے پہلے سے پانی پی رہی تھی، سے پیاس بجھانے کی کوشش کی ہی تھی کہ قریب بیٹھی ایک خاتون لٹھ لے کر ہمارے پیچھےلگ گئیں۔ انہیں شکوہ تھا کہ ان کی گائے کے پانی کو ایک گدھے نے بھرشٹ کردیا۔پس عزیزو! اب آگے آگے ہم تھے اور پیچھے وہ نیک بخت خاتون اور ان کا لٹھ۔ اس افتاد پر سنبھلنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ٹریفک پولیس کا اہلکار ڈنڈا لے کر پیچھے دوڑا ۔یہاں تک کہ ایک آٹو رکشا کو ہاتھ دیا اور اسے پتہ بتا کر خود کو پچھلی سیٹ پر ٹھونسا، لیکن یہ کم بخت دُم یہاں بھی ہمارے آڑے آئی،آخر ہم نے اسے رکشا سے باہر کھلی ہوا میں اٹھکلیاں لینے کے لیے چھوڑ دیا۔ آٹو ڈرائیور نے پہلے ہمیں استہزائیہ انداز میں دیکھا اور بعد ازاں کندھے اُچکا کر رکشا بھگانے لگا۔

لال قلعہ سے پانچ ریس کورس روڈ تک جاتے ہوئے راستے میں دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔زیادہ آدمی اور کہیں کہیں گدھے بھی۔معروف جگہوں میں انڈیا گیٹ اور کناٹ پلیس وغیرہ کی تاریخی عمارات بھی شامل ہیں ۔ آٹو والاپورے سفر کے دوران اپنے عقبی شیشے میں مسلسل ہمیں گھورتا رہا۔ بالآخر ہم پانچ ریس کورس روڈ پر اترے اور وہ خط جو ہمیں وزیر اعظم کے دفتر سے موصول ہوا تھا کان میں ٹھونس لیا تاکہ دور سے نظر آئے اور ہم شامت ِاعمال سے بچے رہیںگدھا اور شامت ِ اعمال ویسے بھی لازم و ملزوم ہیں لہذا احتیاط ضروری ہے ۔ پہلے گیٹ پر ہماری تلاشی ہوئی اور محافظوں نے کارڈ سمیت ہمیں داخل دفتر کر لیا اور ہماری خوب خبر لینی شروع کر دی۔یہاں ہم سے اس طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

کہاں سے آئے ہو؟

بارہ بنکی سے!

کیوں آئے ہو؟

وزیر اعظم سے ملاقات ہے!

کیوں ملاقات کرنی ہے؟ انہوں نے بلایا ہے یا تمہاری خواہش ہے؟

دونوں کی خواہش ہے

عمر، پیشہ، تعلیم اور سیاسی رجحانات کے متعلق ٹٹول ٹٹول کر ہم سے سوالات کئے گئے اور دعوت نامے کو کئی طرح کی مشینوں میں ڈال کر اس کی تصدیق کی کی گئی کہ واقعی اصلی ہے۔ اس کے بعد ہمیں مزید آگے جانے کی اجازت دی گئی تاہم سیکورٹی اہلکار ہمیں دیر تک مشکوک نظروں سے گھورتے رہے۔

دوسرے گیٹ پر خالص سیاہ لباس میں ملبوس محافظوں سے پالا پڑا۔ایک نے ہم سے لباس اتارنے کو کہا

‘‘ہم نے جواباً عرض کیا کہ لباس ہے کہاں جو اتاریں، ہم تو سرتاپا فطرت ہیں

اس پردوبارہ ہمیں ایک مشین میں ڈالا گیا جس نے ہمارے پیٹ، ہڈیوں اور جسم کے جلی وخفیہ اعضا کی تصویریں اتاریں۔ہمیں سڑک کنارے بیٹھنے کے ہدایت کی گئی اور مسلسل کئی گھنٹوں کی کوفت کے بعد سوال کرنے پر ہمیں حقارت سے یہ جواب دیا گیا کہ تمہارے جسم کی تمام رپورٹیں ماہرین کو بھیجی گئی ہیں، اس کے آنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جا سکے گا۔ شام ڈھلے رپورٹیں آئیں اور ہمیں درباری آداب سے آگاہ کرنے کے لیے ایک طویل لیکچرر سننا پڑا اور سیکورٹی کے تیسرے مرحلے کی طرف روانہ ہونے کی ہدایت کی گئی۔

یہاں، تیسرے مقام پر، خالص زعفرانی رنگ کا لباس زیب تن کئے لمبے بالوں اور جٹہ دھاری قسم کے اہلکاروں سے ہمارا واسطہ پڑا جن سے جان چھڑانے میں دانتوں پسینہ آیا تاہم اسے، پسینے کو،وسیع ترمفاد میں نظر انداز کرتے ہوئے ہم مزید آگے بڑھے۔ اب ہمیں ایک سجے سجائے مہمان خانے میں بٹھا دیا گیا۔ سامنے دیوار پر گہرے زعفرانی رنگ کی ایک پینٹنگ نصب تھی جس کے آگے دو کرسیاں تھیں۔تھوڑی دیر بعد وزیر اعظم تشریف لائے۔ انہوں نے ہمیں رک کر قدرے سخت نظروں سے دیکھا اور سامنے والی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے بولے

‘‘کہیے !کیسے آنا ہوا’’

‘‘مودی جی! ہم آپ کے مداح ہیں’’

‘‘اس وقت سارا بھارت بلکہ سارا ورش ہمارا مداح ہے۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں آگے بولیے۔میں کیا کر سکتا ہوں’’

‘‘آپ وزیرا عظم ہیں ،آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں،اس وقت ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے کروڑ رہا گدھوں کو آپ سے اُمیدیں ہیں آپ کو اُن پر پورا اترنا ہوگا، نہیں تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی’’

‘‘آپ کا نام؟’’

‘‘خر خر شریفی’’

وزیر اعظم نے چبھتی ہوئی نگاہوں سے ہماری طرف دیکھا اور ایک طویل‘‘ ہوں’’ کے بعد گویا ہوئے
‘‘نام بھی اقلیتی ہے۔بدلنا ہوگا۔کہاں سے آئے ہو۔ کیا چاہتے ہو’’

‘‘ہم بارہ بنکی کے رہنے والے ہیں،جھٹ پٹ یونیورسٹی آف پولیٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی،فلسفہ اور معاشیات کے موضوع تحقیق علاوہ ہے۔ چھ کتابوں کے مصنف ہیں۔ نامساعد حالات نے باربرداری پر مجبور کر دیا۔آج کل رامو دھوبی کے ہاں ملازم ہیں۔ آپ سے گدھوں کے حقوق اور ان کی آزاد مملکت کے قیام کے لیے مددچاہیے۔مجوزہ ریاست خرستان کی تحریک کے ہم صدر ہیں’’
وزیرا عظم کچھ دیر سوچتے رہے پھر گویا ہوئے

‘‘خرستان نام مناسب نہیں،نام بدلنا ہوگا۔ تم کو معلو م ہے ہم نے ملک میں نام تبدیلی کی مہم شروع کر دی ہے۔اس کے تحت لال قلعہ کوبھگوا فورٹ، تاج محل کو راج محل کر دیا ہے ۔آپ کو بھی خرستان سے بدل کر گرستان یا ببل پور کرنا ہوگا۔ یہ بتایے میں آپ کی تحریک کے لیے کیا کر سکتا ہوں’’

‘‘آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔آپ انسانی تاریخ کے وہ واحد رہنما ہیں جس نے بڑی بیباکی سے گدھوں کے اوصاف کو تسلیم کیا اور ان سے تحریک حاصل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ آپ نے اس عظیم الشان مخلوق جسے خلق ِ خدا حقارت سے گدھا کہتی ہے کی شان کو دوبا لا کیا ہے اوراس کا نتیجہ آپ دیکھ لیجئے۔آپ اور آپ کی جماعت کو حالیہ انتخاب میں ریکارڈ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔یہ سب اس مظلوم و مقہور مخلوق کی دعائوں اور تعاون کا نتیجہ ہے جو ہزار ہا سال سے انسانی سماج کے جبر اور استحصال کا شکار ہو رہی ہے۔۔آپ آج کے نوجوان گدھوں کے آئیڈیل ہیں جنہوں نے بغیر کسی مصلحت کے آپ کو اپنا قائد تسلیم کیا ہے۔

آپ چاہیں تو گدھوں کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ اس وقت دائیں اور بائیں، اوپر نیچے کوئی بھی نہیں۔سارے سوڈو سیکولر دُم دبا کر بھاگ چکے ہیں، کمیونسٹوں کو سانپ سونگھ چکا ہے ،قوم پرستی کی جو تشریح آپ نے فرمائی ہے اسے قبول کیا جا چکا ہے۔ذرائع ابلاغ پر آپ کی دھاک ہے اور ملک کے طول و ارض میں آپ کا طوطی بولتا ہے۔سپر پاور بٹن آپ کے نظریاتی رفیق ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔کشمیر سے کنیا کماری تک آباد ہزاروں گدھے آپ کی طرف پُر اُمید نظروں سے دیکھ رہے ہیں’’

ٍ‘‘تم کمیونسٹ تو نہیں’’ وزیر اعظم نے گہری نظروں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا‘‘ تمہارے بھاشن کا اسٹائل بالکل ویسا ہی ہے’’
‘‘ جی نہیں! ہم کمیونزم سے متاثر رہے ہیں لیکن خوب بندگی کے باوجود اس میں بھی ہمارا بھلا نہ ہوا ۔نظریاتی طور ہم خرشلسٹ ہیں’’
‘‘خرشلسٹ؟ یہ کیا ہے ’’وزیر اعظم استہزائیہ انداز میں مسکرائے

‘‘یہ گدھوں کے حقوق کے لیے وضع کردہ نظریہ ہے جسے عالمی سطح پر متعارف کروایا جائے گا۔اس کے تحت گدھوں کی آزاد و خود مختار ریاست کا قیام عمل میں لایا جانا ہے جس میں خرشلسٹ نظام ِ حکومت ہوگا’’

وزیر اعظم چند لمحوں ہمیں حیرت اور استہزا سے دیکھتے رہے پھر بولے

‘‘فی الحال تو اترپردیش،گوا،اور منی پور کی راجیوں میں سرکار بنانا میری پہلی کوشش ہے۔اس کے بعد آپ کے مسئلہ پر بھی غور کیا جائے گا۔

(جاری)

مضمون نگار نئی نسل کے شاعر اور فکاہ نگار ہیں اور ریاست جموں وکشمیر( بھارت) سے تعلق رکھتے ہیں