شعرو نغمہ اور معاشروں کی نفسیاتی ترتیب و تشکیل

Naseer Ahmed
نصیر احمد

شعرو نغمہ اور معاشروں کی نفسیاتی ترتیب و تشکیل

از، نصیر احمد

شعرو نغمہ افراد اور گروہوں کی نفسیاتی ترتیب پر گہرا اثر رکھتے ہیں کہ زندگی کے بارے میں کسی نکتہ نظر، کسی عقیدے، کسی نظریے یا کسی فکر کی نہ صرف ترجمانی کرتے ہیں بلکہ اس نکتہ نظر، عقیدے، نظریے اور فکر کو فروغ بھی دیتے ہیں۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے معاشرے شعر و نغمہ میں موجود منفی پیغام کو ترک کر دیتے ہیں تو یہ شعر و نغمہ کبھی ثقافتی یادگاروں کے طور پر موجود رہ جاتے ہیں جن پر ماضی کو سمجھنے کے لیے تحقیق ہوتی ہے، کبھی یہ شعر و نغمہ تفریح کے لیے کام لائے جاتے ہیں، جس میں بیتے دنوں کی جہالت پر کبھی لوگ افسردہ ہو تے ہیں اور کبھی خوش بھی کہ جہالت تفریح کی بہرحال ایک وجہ ہوتی ہے۔ کبھی ان کو مثال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک بہتر صورتحال کو مسترد کرو گے تو وحشیوں کی مانند ہو جاؤ گے۔

کبھی ان کے ساتھ کچھ ایسے فنکارانہ تجربے کیے جاتے ہیں کہ ان میں موجود پیغامات کے خلاف مقدمے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ چند افراد اور گروہ معاشروں میں ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جو ان شعرو نغمہ سے معاشرے کا احیائے نو کا کام لینا چاہتے ہیں اور ان کے ارد گرد گروہی تفاخر استوار کر لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر یورپ میں ایک زمانے میں بحری قزاقی کا بہت عروج تھا۔ اس زمانے میں قزاقوں کی تعریف میں بہت قصیدے لکھے گئے، ان کی بہادری کی بہت تعریفیں کی گئیں، ان کی دھندلی شاموں اور گدلی صبحوں کے بارے میں بہت افسانہ طرازی کی گئی جو قزاق سازی کا ایک اشتہار بھی بن گئی۔

مگر اس سب کے باوجود ان قزاقوں کے اعمال کے نتائج میں لوگوں کے جان و مال کا ضیاع ہوتا تھا، لوگ توہین و تشدد سہتے تھے اور لاقانونیت بھی بڑھتی تھی۔ تجارت کا بھی نقصان ہوتا تھا۔

ان سب نقصانات کے باعث رومانی قصوں سے بات ہٹتی گئی اور قزاقوں کے خلاف حکومتی اقدامات میں اضافہ ہوتا گیا اور آخرکار یورپی طاقتوں نے قزاقی کی روک تھام کر لی اور ان حکومتوں کے زیر نگیں سمندر کچھ پر سکون ہو گئے۔

اب قزاقوں کے یہ گیت موجود ہیں، قومی و ثقافتی ترقی کی نشوو نما کی ایک یادگار کے طور پر اور عجائب خانے کی ایک زینت کے طور پر لیکن ان گیتوں میں موجود پیغامات قزاقی کا اشتہار نہیں بن پاتے کہ قزاقی اب شہریوں کے لیے اتنا پسندیدہ پیشہ نہیں رہا ہے۔ اب ان پیغامات کے ساتھ ان ممالک میں عوامی رویہ یہ ہو گیا ہے کہ کتا بھونک رہا ہے، بھونکنے دو، کاٹ تو نہیں رہا۔

اور جن پیغامات سے معاشرے کا زیاں ہوتا ہے، ان پیغامات کے خلاف معاشرے میں ایک مسلسل گفتگو جاری رہتی ہے، اگر ناٹزیوں کے حق میں جرمنی میں کوئی نظم چھپے گی یا فلم بنے گی تو اس بات کے خلاف احتجاج ہو گا۔ اسی طرح خواتین کی انسانی برابری کے خلاف کسی گیت کو پسندیدہ بنا کر پیش کیا جائے گا، تو اخباروں کے کالم احتجاجی صداؤں سے بھرپور ہوں گے۔

لیکن مسئلہ شعر و نغمہ کے ان پیغامات کے ساتھ ہے جو ابھی تک حال اور مستقبل ترتیب دے رہے ہیں۔ یعنی ابھی تک افراد اور گروہوں کی نفسیاتی ترتیب پر ان پیغامات کا گہرا اثر ہے اور اس اثر کے نتیجے میں معاشرے میں تشدد، دھوکہ دہی، فریب کاری اور لاقانونیت کا اضافہ ہو رہا ہے۔

نوے کی دھائی میں پاکستان میں ایک گلوکار ابرار الحق مقبول ہوئے تھے، اب بھی مقبول ہیں۔ ان کے ایک گیت میں ایک جاٹ کی کچہری میں آمد کا قصیدہ تھا کہ کیسے وہ کچہری طلوع ہوتا ہے، تھانیدار کو پاؤں میں گرا لیتا ہے اور خود تھانیداری کرنے لگتا ہے۔

اس گیت میں قانون کی توہین اور تذلیل کو ایک فضیلت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کو ایک عمدہ بات کے طور پر سنوایا گیا ہے۔ اس گیت کو سن کر ایک نسل جوان ہوئی ہے۔ معاشرے میں لاقانونیت بڑھ گئی ہے۔ قانون پر عمل درآمد کرنے والا تھانے دار تو ایک معجزہ سا ہو گیا ہے، جسے دیکھ کر امید تو توانا ہو جاتی ہے کہ اب بھی ہم میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنا کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں لیکن انصاف کی فراہمی میں بہتری نہیں ہو رہی۔

جاٹ کے قدموں میں گرا ہوا تھانیدار اپنی توہین کی قیمت ان سے لیتا ہے جو اس سے ناتواں ہیں۔ جس کے نتیجے میں پولیس کا ادارہ بے انصافی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اب تو ابرار الحق بھی کبھی بے چین سے اور مضطرب نظر آتے ہیں اور بے انصافی کے خاتمے کے خواہاں ہیں مگر ان کے گیت کا پیغام افراد اور گروہوں کی نفسیاتی ترتیب کا ایک مستحکم حصہ بن گیا ہے۔

ابرار سے ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے صرف مغز پر مشغلہ نے یہ دشا بھی دکھا دی ہے جس کے نتیجے میں ان کے گیت ہماری بے رحمی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس وضاحت کی کوئی اتنی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کبھی کبھی ہمیں بھی اپنے کاغذ ٹھیک رکھنے کی بےکار کوشش اچھی لگتی ہے۔

خیر، اسی طرح ان کا ایک اور گیت جگا ہے جس میں لیجنڈری ڈاکو جگے کی شہامت کے گن گائے ہیں۔ راجندرسنگھ بیدی نے بھی جگے کے بارے میں ایک اچھا افسانہ لکھا ہے کہ پڑھ لیں تو لگتا ہے کہ رہزنی تو اخلاق عالیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ہے، عشق مجاز کی طرح۔

اس طرح کے ڈاکو بیٹے ہر ثقافت میں موجود ہیں۔ وہ کم بخت محمد خان ڈھرنالیا بھی تو ایسا ہی ڈاکو بیٹا تھا جس نے بوقت فجر اپنے ملک صاحب کے تایا کی گدی میں گولی ٹھونک دی تھی اور تایا ایک لمبی سی ایں کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے تھے۔ لیکن کئی ثقافتوں نے ڈاکے کے امکانات کم کردیے ہیں، اس لیے ڈاکوؤں کی ہزار تعریفوں کے باوجود ان معاشروں میں ڈاکے ڈالنے کا جنون بہت کم ہو گیا ہے۔

ہماری بد قسمتی کہ ابرار الحق کے گیت کا یہ ڈاکو ہماری قومی زندگی کا دن بدن ترقی کرتا سچ بھی ہے۔ اس ڈاکو کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ مونچھوں کو تاؤ دیتا ہے تو پنچایت ٹوٹ جاتی ہے۔ ایسے ہمارے ہاں اتنی پنچائتیں ٹوٹی ہیں کہ گنتی ہی یاد نہیں رہتی۔ اور پنچائیتوں کے بار بار ٹوٹنے کا نتیجہ یہ ہے کہ تشدد،استحصال اور لاقانونیت کا ایک اوقیانوس سا بن گیا ہے جس کو وفور معاصی سے تنک آب کرنے کی سعی کی جاتی ہے لیکن کچھ بات نہیں بنتی۔

اسی طرح ان کا ایک اور گیت ہے جس میں کسی مزاجوں والی کے اقوام متحدہ سے رابطوں پر اعتراض ہے۔ گیت ہیں کہ جمہوریت کی روک تھام کے منشور۔ جن لوگوں کی نفسیاتی ترتیب کا یہ گیت حصہ بن چکے ہیں، انھوں نے جمہوری رویوں کے فروغ کے لیے کہاں کوئی کاوش کرنی ہے۔

ہمارا خیال ہے ان گیتوں میں اور شعر و نغمہ کی دیگر مقبول انصاف سے ان پیغامات کے خلاف ایک رد عمل کی ضرورت ہے۔ یہ بنیادی طور پر جمہوریت اور شہریت کے خلاف پیغامات ہیں۔ ہمیں ان گیتوں کی موجودی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کی جمہوریت اور شہریت دشمنی کے خلاف ایک رد عمل کی موجودی پر اصرار ہے کہ کوئی تو کہتا رہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟

جاٹ کے پاؤں میں گرے ہوئے تھانیدار کو کوئی تو یہ بتانے والا موجود رہے کہ تمھاری آئین اور قانونی ذمہ داری کی یہ منزل نہیں ہے۔ اس ردعمل کی مسلسل موجودی ہی افراد اور گروہوں کی نفیسیاتی ترتیب کے لیے کوئی بہتر راہیں اجاگر کر سکتی ہے۔ باقی ساری وقت کی بات ہے کہ ان گیتوں میں موجود پیغامات کی پیروی ختم ہوتی ہے یا نہیں لیکن جو کہا جا سکتا ہے، وہ کہا جائے اور جو کیا جا سکتا ہے، کیا جائے۔