عورت ، زبان اور پاکستان میں قومی زبانوں کا مسئلہ

aik Rozan writer's photo
داکٹر علمدار حسین بخاری، صاحب مضمون

عورت ، زبان اور پاکستان میں قومی زبانوں کا مسئلہ

(ڈاکٹر علمدار حسین بخاری)

پاکستان میں عورت اور زبان کے ساتھ ایک جیسا سلوک روارکھا جاتاہے؛ یعنی محبت کا والہانہ زبانی اظہار لیکن عمل یکسر مخاصمانہ۔ شاید اس لئے کہ زبان کی لطیف ترین اور خالص شکل کو مادری زبان کہا جاتا ہے اور ہر مہذب معاشرے میں زبان کی صحت اور لطافت کا اہم ترین معیار
عورت کی زبان سے ادا شدہ الفاظ مانے جاتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ پشتو کو عمومی طور پر ایک کرخت زبان سمجھا جاتا ہے لیکن مین نے کئی پشتون خواتین کی زبانی اس زبان کو سنا۔ اس کے آہنگ اور نغمگی نے دل موہ لیا اور دل نے کہا کاش میں یہ زبان سیکھ پاتا۔

ہیر کے دیس جھنگ کی زبان کو مرد اور پھر عورت کی زبان سے سنیے اور اس کی بے تکلف نفاست اور لطافت کے بکھیرتا ڈھنگ دیکھئے۔ یہی پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی دوسری زبانوں کا معاملہ ہے۔ یہ بحث بہت طویل ہوسکتی ہے لیکن ہم وطن عزیز میں عورت اور پاکستانی زبانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی بات کررہے تھے۔

پاکستان کے آئین اور قانون میں عورت کے حقوق اور ان کے تحفظ کیلئے کیا کچھ موجود نہیں۔ تحفظ حقوق نسواں کےلئے کتنے بل اور ایکٹ منظور ہوچکے۔ زمینی وسماجی حقیقت کیا ہے؟ کس کو نہیں پتہ ؟

پاکستانی قومی زبانوں کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے لیکن حکومتی عمل کیا ہے؟ قومی زبان اردو کو آئینی تحفظ دیئے تو عرصہ ہوا زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکا اور اب عدالت عظمیٰ کے حتمی فیصلے کے باوجود اسے قومی اور سرکاری معاملات مین کس مقام پر رکھا جارہا ہے؟

مجاہداعظم ضیاءالحق کی بوئی ہوئی وطنیت کش فصلوں میں سے ایک فصل انگریزی کو سکولوں تک ذریعۂ تعلیم بنانا بھی تھا کیونکہ اس وقت اردو کی جگہ مقامی قومی زبانوں کو پرائمری اور سیکنڈری سطحوں ہر ذریعۂ تعلیم بنانے کی مہم زوروں پرتھی۔ ضیاءالحق نے ایک قانون گھڑ کر پرائیویٹ سیکٹر میں انگریزی سکولوں کی اجازت دی اور 1985 میں بیکن ہائوس سکول کا اجرا ہوا اور پھر۔۔۔

نیا منظرنامہ آپ کے سامنے ہے۔ اب تو سرکاری سکولوں کی اسی ماڈل پر فخریہ کایا کلپ کی جارہی ہے۔ ادھر عدالت عظمیٰ اردو کے حق میں فیصلہ صادر کرکے خود اپنے ہی جج صاحبان کو اردو میں فیصلے لکھنے کا پابند نہیں بنا سکی۔ مراعات یافتہ حکومتی طبقے تو عدالتی فیصلوں کو ایک طرف رکھ دینے کے عادی ہیں ہی۔ توہین عدالت کب کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟ کیا نہال ہاشمی وغیرہ کی طرح محض بد کلامی کرکے توہین عدالت کا ارتکاب ہوتا ہے ؟ عملی طور پر کچھ بھی کرتے رہو عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑائیے بس زبان کو قابو میں رکھو تو عدالت مطمئن؟

پاکستان مین تعلیم و تدریس اور سرکاری امور میں پاکستانی زبانوں کو ان کا حق دلانے کی تحریکوں نےپچھلے دنوں کچھ زور پکڑا تو مذکورہ مقتدر طبقوں کے بےمغز ایجنٹوں نے ایک نام نہاد لسانی بل سینیٹ میں پیش کردیا تاکہ مختلف لسانی گروہوں میں تفریق اور تفرقہ کو ہوادی جائے۔ اپنے اس مقصد میں وہ کس قدر کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اہل دانش کو کچھ سوال ذہن میں رکھنے ہونگے۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: اردو کے دیئے کی مدھم پڑتی ہوئی لو، از رضا علی عابدی

مزید دیکھئے: بھارت میں اردو کی صورت حال، از ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

عورت ، زبان اور پاکستان میں قومی زبانوں کا مسئلہ

1۔ کیا واقعی قومی یا مختلف مقامی پاکستانی زبانیں اپنے اپنے تاریخی ثقافتی اور لسانیاتی سیاق و سباق کے باوجود ایک دوسرے کی جگہ لے بھی سکتی ہیں ؟ اس حوالے سے تاریخ کا سبق کیا ہے ؟کیا صدیوں تک فارسی زبان کی ہرسطح پر حکمرانی نے سرائیکی، سندھی، بلوچی، بٹالوی، پشتو، ہندکو، پنجابی، کھوار، شیبا یا دیگر زبانوں کو ختم کرکےفارس کو ان کی جگہ دلائی؟

2۔ یہ سبھی زبانیں ان جانے زمانوں سے دوش بدوش موجود ہیں۔ ان کے بولنے والوں میں کتنے تضادات یا فسادات سامنے آئے؟ اور کس زبان نے کسی دوسری زبان کو اپنے مخصوص علاقے سے یکسر بے دخل کردیا ؟

3۔ اردو کو 1860 کے بعد ایک نوآبادیاتی سکیم کے تحت پنجاب میں مسلمان زبان قرار دے کر نچلی سطحوں پر تعلیم وتدریس اور معدودے جند سرکاری امور میں استعمال کے لئے برتا جانے لگا۔ سوال یہ ہےکہ پاکستان کی قومی زبان بن کر اس کا مرتبہ عملی طور پر کتنا بلند ہوا؟ اور وہ کس مقامی زبان کی جگہ لے چکی ہے؟

4۔ کیا پچھلے ستر برس میں تدریسی سرکاری اور عدالتی امور وغیرہ میں انگریزی کا عمل دخل نوآبادیاتی دور سے کئی گنا زیادہ نہیں ہو گیا ؟

5۔ تو پھر پاکستانی زبانوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کرنے کے اصل مقاصد کیا ہیں ؟

6۔ کیا اردو سمیت پاکستانی قوم کی دیگر زبانوں کے اہل قلم اور دانشوروں کو بعض طبقوں کے کاشت کردہ مصنوعی تعصبات و تضادات سے صرف نظر کرکے باہم مل بیٹھ کر متوسط طبقے کی روایتی اور واقعی وقتی مصلحتوں سے بالا تر ہوکر اور بےحد سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہئے ؟

میرا گمان ہے (آپ شاید اسے بدگمانی ہی کہیں جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں) کہ مقتدر طبقے کو کبھی اہل قلم و دانش کی اس معاملے میں یکسوئی و یک جائی برداشت ہوگی نہیں اور وہ حتی الامکان ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو !

کیا کہتے ہیں اہل قلم اہل علم ودانش بیچ اس مسئلے کے؟ اگرہمارے اس خیال کو پذیرائی ملی تو یہ درویش اور اس کے احباب متعلقہ حلقوں اور اہل قلم وداںش کے قومی اجتماع کی مخلصانہ کوشش ضرور کریں گے۔ وقت اور مقام کا تعین باہمی مشاورت سے ہوسکتا ہے۔

عہد حاضر کی باشعور اور باہمت عورتیں ایک روایت پرست اور جاگیردارانہ اقدار کے غلام تنگ نظر معاشرے کے ہمہ قسم معاشرتی و معاشی دباؤ کے باوجود اپنے حقوق اور شناخت کے لئے جدل آزما ہیں اور ایک بڑی تبدیلی کا آغاز ان کے جلو میں ہے۔

زباں کی بہترین لطافتوں کی بھی انہوں نے ہی ہمیشہ حفاظت اور پرورش کی ہے اب لسانی حقوق اور ہم آہنگی میں بھی وہ یقینی طور پر اپنا بنیادی کردار ادا کریں گی کیونکہ جب میں اہل قلم اور اہل علم وداںش کی بات کرتا ہوں تو میرا یقین ہے کہ گہ عہد حاضر کی اہل علم و قلم خواتین اس قافلے کا ہراول دستہ ہیں۔

توقع ہے کہ مختلف پاکستانی قومی زبانوں کے اہل قلم اہل علم و دانش اور سیاسی کارکن اگر ایک کھلے اور ڈھیلے ڈھالے اتحاد کا مظاہرہ بھی کریں گے تو اس معاملے میں استحصالی مقتدر طبقوں کے بالمقابل بہت بڑی پیش رفت ممکن ہے کیوں کہ ان کے خوانچوں میں سجے سبھی پھل بہت جلدی گل سڑ جانے والے ہیں اور ان کی لوٹ مار کی دکانیں انہی پھلوں کی سازشی تجارت پر چلتی ہیں۔


بشکریہ : مصنف اور گرد و پیش ڈاٹ کام جہاں یہ تحریر ایک روزن سے قبل شائع ہوئی۔