شوق انصاف

Naseer Ahmed, the writer

شوق انصاف

کہانی از، نصیر احمد

حضرات! آداب، تسلیمات۔ ابھی آپ سے محلات کے، امیروں رئیسوں کے، بادشاہوں کے، شہزادوں، شہزادیوں کے، پیروں فقیروں کے، سادھو سنتوں کے، جنوں پریوں کے، بھوتوں چڑیلوں کے، کوہ قاف کے، کوہ ندا کے، کوہ ظلمات کے عجیب و غریب، تحیر خیز، حیرت انگیز قصے سنے تو اپنی بپتا کہتے شرم آتی ہے۔ کویتا جیسی سندر کتھا کے جادو کے زیر اثر جو مجھ پر بیتی ہے وہ ساری بات تو بہت چھوٹی اور معمولی لگنے لگی ہے۔

جناب والا ہمیں لگتا ہے کہ یہ عقل دشمن، تجربہ شکن داستانیں اور فسانے تو حق و صداقت کی تحقیر کے لیے ہی ترتیب دے جاتے ہیں۔ جناب گستاخی کی بہ صد خلوص معذرت مگر گستاخی تو گنوار کا گہنا ہوتی ہے جس طرح شائستگی اور منافقت تہذیب کا زیور ہوتی ہے۔
جناب ا گرچہ میں پڑھا لکھا ہوں مگر ایک دیہاڑی دار مزدور ہوں۔ جو پڑھا لکھا تھا، مشاہدوں اور تجربوں اور نتیجوں کی تعلیم دیتا تھا۔ مگر اسی اثناء میں شہر اتنا بدل گیا، داستانوں، قصوں، خطبوں اور نعروں کا شہر اس قدر اسیر ہو گیا کہ جو میں نے پڑھا تھا اور جو میں کرتا تھا اس کی شہر میں ضرورت نہیں رہی۔ اور اس کے بعد میرا وہاں کیا کام تھا۔ مجھے وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں شہر میں کی ایک بہت بڑی تجربہ گاہ میں معیاری ادویات تیار کرنے کے کام پر مامور تھا۔ دیس پردیس میں میری مہارت و فطانت کے چرچے تھے۔ مگر شہر میں تعویذ، جاپ، منتر کا وہ شور مچا کہ تجربہ گاہ میں انھوں نے جوتشی جادو گر تعینات کر دیے اور مجھے نکال باہر پھینکا۔

اپنی بے قدری کا دکھ تو ہوا مگر یہ پیٹ نوحوں اور مرثیوں کی فرصت کب دیتا ہے۔ کندھوں پر دکھوں کی گٹھڑی بھاری لگتی تھی مگر ریت کی بوریاں، بجری کے تھیلے اٹھانے، پتھر توڑنے اور ریڑھیاں گھسیٹنے کی مشقت نے تو بار کہسار غم کو توصنم کی کمر کی مانند کر دیا ہے کہ دکھتی ہی نہیں کہ کہاں ہے، کیسی ہے اور کدھر ہے۔

جناب میری داستان میں تو ایک ہی پری ہے، جسے شاعر لوگ صہبا کی پری کہتے ہیں۔ اور صہبا کی یہ پری اصل میں گھٹیا دیسی شراب ہے جسے پی کر میرے جیسے لوگ ماضی کی یادوں سے امروز کو آسان بنانے کی حماقت کرتے رہتے ہیں۔ حماقت اس لیے کہ اکثر کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کبھی کبھار یہ اتنی خراب ملتی ہے کہ چند ہم نفس تو راہی عدم ہو جاتے ہیں یا واصل جہنم ہو جاتے ہیں۔ آپ کو جو مناسب لگے وہی سمجھو۔


مزید دیکھیے:  مذہبیت، قومیت، جمہوریت اور حقوق انسانی کے آپسی روابط  از، نصیر احمد


کوئی درویش ولی، کوئی سادھو سنت مشکل کشائی کو نہیں پہنچتا۔ یہاں سب کے پاس علاج غم محبت اور مداوائے درد الفت کے نسخے وافر ہیں مگر مشقت و مزدوری کی سختیوں سے نجات دلانے کی کوئی ترکیب
نہیں ہے۔

آدمیوں کو جانوروں سے زیادہ مشقت میں مبتلا دیکھ کر کوئی بھی نہیں دکھی ہوتا۔ انسانیت کی اس بے حرمتی کا خاتمہ بننے کا کوئی وسیلہ نہیں بنتا۔ جانوروں کی اس توہین کی بیخ کنی کرنے کا کوئی بھی بیڑا نہیں اٹھاتا۔

مگر ہمارے ساتھ کام کرنے والے، گدھے، گھوڑے، بیل ہی ہمارے دکھ سکھ کے شریک ہیں۔ ہم ہی ان کے ساجھے دار اور وہی ہمارے بھانجی دار۔

کوزما کے باپ کا قصہ تو سنا ہی ہو گا، مگر کوزما کے باپ کو آپ کیا جانو۔ وہ بے چارہ ایک کوچوان اور آپ سونے چاندی کی تجوریوں کے مالک۔ مائی باپ کوئی جوڑ ہی نہیں بنتا مگر اس کا قصہ ایک زمانے میں بہت مشہور ہؤا تھا۔ شاید آپ نے بھی سنا ہو۔
شایدآپ نے کوزما کے باپ کی پیٹھ پر کوئی کوڑا جڑا ہی ہو۔ اسے رئیس لوگوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں تھی۔ اس کو شاید بے شمار گالیاں بھی دی ہوں کہ اسے بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا۔ جناب آپ کو کہاں یاد رہا ہو گا۔ پر لوک کے شاندار پہاڑوں اور راج محلوں میں رہنے والے دیوتا آدمی کو کب یاد رکھتے ہیں۔

آپ اصیل برہمن، آپ لکشمی جی کے، درگا جی کے پجاری، شودروں پر جو بیتتی ہے، اس سے آپ کا کیا ناتا۔ آپ اشرف، نجیب الطرفین آپ کا کم ذاتوں، بدذاتوں سے کیا واسطہ۔

کیا بتاؤں جناب میری بے روزگاری مجھے ایک ٹھیکے دار کے دروازے پر لے گئی۔ اب تو میں نحیف و نزار ہو گیا ہوں مگر اس وقت خوش حالی کے اثرات باقی تھے اور میں خوب ہٹا کٹا تھا۔ اور ٹھیکے داروں کو ایسے ہی مزدور درکار ہوتے ہیں۔ اور آپ کو تو پتا ہی ہے کیونکہ ٹھیکے داروں، منشیوں اور ان کے کارندوں سے تو آپ ملتے ہی رہتے ہیں۔ اور ٹھیکیداروں، منشیوں، ہرکاروں اور کارندوں کے بغیر آپ کے لیے بھی سوم رس، آب حیات اور برگ گیاہ سے لطف اندوز ہونا نا ممکن ہے۔

ٹھیکے دار، منشی ہونا بھی بڑی اعلیٰ صفت ہے۔ آج کل تو شہر میں انسانی حقوق کے بھی ٹھیکے دار منشی ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی ٹکرے تھے۔ ہماری اور گدھوں کی تصویریں ایک ساتھ بنائی۔ اس دن گدھے ہم سے بہتر حالت میں تھے، اپنے حسن پر اتراتے رہے اور ہماری بدصورتی پر ہمیں چڑاتے رہے۔ منشی اپنی مشینوں پر کچھ لکھتے رہے، ہمارا حال پوچھتے رہے۔

ہم سے ہمدردی جتاتے رہے اور آپ لوگوں کو برا بھلا کہتے رہے۔ اپنی حذاقت اور طبابت کے بڑے دعوے کیے۔ لیکن پھر کہیں دکھائی نہیں دیے۔ اور ہمارے مرض بڑھتے گئے۔ نہ بار کہسار غم سے نجات ملی اور نہ مشقت و مزدوری سے رہائی ہوئی۔

تو عالی جناب اس ٹھیکے دار نے جس کا میں ملازم ہوں بڑی تگ و دو کے بعد ایک خستہ و شکستہ پل کی مرمت کرنے کاٹھیکہ حاصل کیا۔ ٹھیکوں کے لیے تگ و دو، جدو جہد کا مطلب جس افسر نے ٹھیکہ دینا ہوتا ہے، اس کی منت و سماجت، خوشامد کے لیے ٹھیکے کے طلب گاروں کی آپس میں مقابلہ بازی ہوتی ہے۔ جو جتنا اپنے آپ کو گراتا ہے، وہی ٹھیکہ پاتا ہے۔

جناب والا، لیکن افسر کی منہ مانگی رقم کا انتظام اس سلسلے کا سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جو نذر نیاز اور تحفہ تحائف کے اس پے چیدہ سلسلے میں افسر کے لیے دولت کی سہل و وافر فراہمی کا صراط مستقیم اختیار کرے۔ ٹھیکہ کا جبہ، عمامہ، دستار اور خرقہ اسے ہی عطا کیا جاتا ہے۔ جو بھکشو زیادہ بھینٹ لائے، زیادہ دکھشنا دے، جو چرن چھوئے تو پتا چلے کہ گرو جی کے چرنوں میں لیٹ گیا ہے، گرو جی ٹھیکے کا کیسری صافہ اسی کے سر پر باندھتے ہیں۔

ایک چیز قانون بھی ہوتی ہے، مگر کشف و کرامات کی اس مستی میں وہ کہیں کھو جاتی ہے بَل کہ اس عالم بے خبری میں اسے جان بوجھ کر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن قانون کی کتاب میں کچھ سیانے جن کی مسند پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں اصول اور طریقے وضع کر گئے ہیں جس میں ٹھیکہ اسی کو ملنا چاہئے جو اس کا حق دار ہے۔ کام جانتا ہے، اور کام جاننے کا ثبوت بھی اس کے پاس ہے مگر مست کب بند قبا باندھتے ہیں۔

جناب عالی تو ٹھیکہ ہمارے ٹھیکے دار کو مل گیا۔ خرقہ ملنے کے بعد تو درویش کرامتیں تو دکھاتے ہیں اور پیسے بچانے سے بڑا معجزہ کیا ہوتا ہے۔ تو ٹھیکے دار میں سامان تعمیر میں ملاوٹوں کی معجزہ بازی شروع کر دی۔ جھونپڑے گرانے والے مزدوروں کو پل بنانے کے کام پر لگا دیا۔ جس نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا

وہ پل کے سانچے ڈھالنے کے کام پر جت گیا۔ اور ٹھیکے دار سستے سودوں کی برکتوں سے مستفید ہونے لگا۔ جناب میں زندگی بچانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ انسانی جان کو پیسے سے اتنا ارزاں دیکھا تو بے قرار بے چین ہو گیا۔ دغابازی، دھوکہ دہی کے ہاتھوں پہلے رسوا ہو چکا تھا، اب دوسری بار اتنا سب کچھ سہنے کی ہمت اپنے نزار بدن میں نہیں پائی تو کام پر اچھے سنسکاروں کے لیے ہڑکنے، بلبلانے لگا۔ آپ حیران مت ہوں جناب کبھی اچھا دل و دماغ میں اس قدر رچ بس جاتا ہے کہ لاکھ برے ٹکرتے رہیں، اچھے کی یاد ذہن سے نہیں اترتی۔

آپ نے وہ غریب پشتینی رئیس شاید دیکھے ہوں جو بیتی ہوئی دولت کی زندگی موجودہ غربت میں گذارنے کی سعی کرتے رہتے ہوں۔ اس ذہنیت کا شہدے شکستے بڑی ہی بے ہودہ مثالوں کے ذریعے مذاق اڑاتے ہیں مگر شہدوں شکستوں سے اس کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ کیا جناب آپ بھی اشارہ پا کر قہقہے لگانے لگے۔ لیکن جناب یہ سچ ہے، جاگیر تو چلی جاتی ہے، مگر جاگیر سے سیکھی ہوئی عادتیں نہیں جاتی۔ نو دولتیے اتنی باریکیاں کہاں سمجھتے ہیں، دولت سے اطمینان کا رشتہ دو چار نسلوں کے بعد ہی بنتا ہے۔ دولت سے اطمینان کا رشتہ اس وقت بھی بنتا ہے جب دولت پوری سچائی سے اپنی معاشرتی ذمہ داری نبھانے کا نتیجہ ہو۔ دولت سے اطمینان کا رشتہ اس وقت بھی بنتا ہے، جب دولت کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ بھی فرق نہ پڑتا ہو۔

جناب بس یہی بات تھی، جس نے مجھے اس بے ایمانی اور بددیانتی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دلائی۔ کبھی ضمیر کی شورش بھی دل و دماغ پر وہ یورش کر دیتی ہے کہ بے قراری، بے چینی سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ کبھی اپنا تصور جہاں بھی آدمی کو کہنی مارتا رہتا ہے کہ آدمی جسے حسن روزگار جانتا ہے اس کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر جگا لیتا ہے۔

پھر عالی جناب میرے آگے پیچھے بھی کوئی نہیں۔ کبھی اپنے فیصلوں، کبھی دوسروں کے فیصلوں اور کبھی حادثات و حالات کے باعث جن کو میری فکر ہونا تھی، وہ لوگ زندگی میں ہی نہیں رہے۔ میرے سنگی ساتھی مزدوروں کی خاموشی کے پیچھے جو مجبوریاں تھی، وہ مجھے نہیں تھی۔ اس لیے کرانتی کار، خدائی فوجدار بننے میں مجھے سہولت رہی۔

ایک اچھی زندگی کا شب و روزتماشائی تھا، اس لیے مجھے اس کے ضیاع کا صدمہ بھی شدید تھا۔ پھر تعلیم ایسی پائی تھی جو ناتے بنانے، سلسلے جوڑنے۔ زاویے دیکھنے، دروازے کھولنے اور چیزوں کو جانچنے،
پرکھنے اور چھاننے کے متعلق تھی جس کے لیے اپنی حسیات کو مسلسل بروئے کار لانا پڑتا ہے۔

جناب، حالات بدل گئے تھے مگر بدلے ہوئے حالات نے تجربہ گاہ میں جو سیکھا تھا اس کی بقا کے لیے ہمیں پہلے سے اور پکا اور پختہ کر دیا۔ سچ ہے، سہولت کی قدر سہولت کے چھن جانے کے بعد ہی آتی ہے

جناب اتنا سب کچھ میں اس لیے کہہ رہا ہوں جو ڈگر ہم نے چھوڑ دی ہے وہی چشمہ بقا کی طرف لے جاتی تھی۔ علم کی رسوائی میں کسی کا فائدہ نہیں بَل کہ سب کا زیاں ہے۔ جب بیوقوفی کا رواج پڑ جائے تو کوئی
ہشیاری اور چالاکی کام نہیںآتی اور آخر میں سب بیوقوفی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

جناب تدریس کے لیے معذرت مگر پیشہ ہی ایسا تھا کہ جز رسی، باریک بینی اور دیدہ ریزی ایک ایسا معمول تھا کہ ہر وقت نہ صرف تجربے دہراتے رہتے بَل کہ انھیں بہتر سے بہتر بنانے کی جستجو کرتے رہتے۔

جناب، اس تدریسی گریز کے لیے معذرت، اب میں بات سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔

جناب جب سارے تعمیراتی سامان میں خرابیاں اور خامیاں دیکھی اور یہ پتا چلاکہ یہ دھوکہ دہی ٹھیکے دار کی رضا مندی سے کی جا رہی ہے تو ہمت باندھی اور اس کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ ہر چند کہ اس کو ناقص پل کے عواقب و نتائج سے آگاہ کیا۔ قیمتی جانوں کے زیاں کی طرف توجہ دلائی۔ ایمان داری، دیانت داری کے گن گائے۔ تھانے کچہری کے ذکر سے ڈرایا، دھمکایا۔ عاقبت و آخرت کے انعام و کرم کا تذکرہ بھی چھیڑا اور عذاب آتش کے اندیشوں کی بات بھی کی مگر اس نے میرا فسانہ توجہ سے نہ سنا۔

دو چار دن بعد ٹھیکے دار کی طرف ایک اور پھیرا کیا۔ اس بار وہ مہربان تھا۔ میری ساری بات توجہ سے سن لی ورنہ ایک دیہاڑی دار مزدور اور آوارہ کتے کو دھتکارنا، پھٹکارنا کون سا مشکل ہے؟ ایک سر جھکاتا ہوا اور دوسرا دم دباتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ بس شرط ہے دونوں پاگل نہ ہوں۔

ٹھیکے دار نے بتایا کہ نقص و خرابی شہر کا وہ دستور ہے جس کی شہری بصد خلوص پیروی کرتے ہیں۔ باقی سب بے معنی اور لا حاصل ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ایمان داری، دیانت داری جیسے پنچھی کب کے پچھم کی اور سدھار گئے۔ اور یہاں کم از کم ہمارے جیتے جی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ پل کے صارفین کی جانوں کی بابت اس کا کہنا یہ تھا کہ موت و حیات کا فیصلہ تو بارگاہ باری میں ہوتا ہے لیکن اگر ہماری دولت کے واضح امکانات معدوم ہو گئے تو ہمارے بارے میں فیصلہ جلد ہو جائے گا۔ اور دوسرے کی جان چاہے کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو اپنی جان سے تو قیمتی نہیں ہوتی۔ اور تھوڑے سے ہیر پھیر سے جانیں کب جاتی ہیں ورنہ اس ہینکی پھینکی سے لدے ہوئے شہر میں تو شاید تیرے سوا کوئی سانس نہ لے رہا ہوتا۔

شاید سانس لینے اور جینے تھوڑا سا فرق ہوتا ہے جو کود پھاند اور مان مریادا سے متعلق ہے۔

خیر جناب محترم، تھانے کچہری کے بارے میں اس نے یہ بتایا کہ تھانے کچہری کے بارے میں اس نے یہ بتایا کہ تھانے کچہری میں انصاف کا کام نہیں کیا جاتا۔ بَل کہ انصاف کی بناوٹ اور دکھاوا کیا جاتا ہے۔ اور بناوٹوں کے نیچے وہی کچھ چل رہا ہوتا ہے جو اس پل کی مرمت کے دوران چل رہا ہے۔ تم اپنی صحت نہیں دیکھتے۔ جہاں محبت اور شراب جعلی ملتی ہے وہاں پل بھی معیاری نہیں بنتے۔

عاقبت و آخرت کا اس نے بتایا کہ نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، چندہ خیرات دیتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں۔ مالک کو جانے کیا بات اچھی لگ جائے، وہ بخش دے۔ بخشش تو رحمت خداوندی کے بحر بے کراں کی لہروں کا فیصلہ ہے کہ کس کو بھگوتی ہیں، کس کوزہر ملتا ہے اور کس کو صدف۔ کون شکم ماہی میں ڈیرا جماتا ہے اور کون لعل و گوہر سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ بخشش کا اعمال سے کیا واسطہ۔ سب مالک کی مرضی ہے۔

ظلم و ستم کا یہ صوفیانہ جواز سن کر اور یہ جوگیانہ جنتر سمجھ کر میں تو ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی یہ حقیقت سوز اور ایمان افروز باتیں سن کر کافی دیر تک تو حیرانی ہی نہیں گئی۔ بالآخر میں نے فیصلہ کر لیا کہ جو بھی ہو اس پل کو لوگوں کی منظور شدہ کتاب کے مطابق ہونا چاہیے۔

تو جناب عالی، ملاوٹوں، بناوٹوں، جعل سازیوں کے سارے ثبوت لے کر اس افسر کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ اس نے وہ تاخیر کرائی کہ دیہاڑیاں ضائع ہونے لگی۔

خورد و نوش کا بند و بست بھی روزانہ ایک کٹھن سوال بن کر بار بار سامنے آ جاتا مگر کشف و کرامات کی بہتات نے شہر میں بہت سارے لنگر جاری کر دیے تھے۔ اور بھوک نے لنگر خانوں کے سارے رستے سمجھا دیے، پتے بتا دیے۔ افسروں کی بارگاہ میں رسائی کے لیے جو وضع قطع درکار ہوتی ہے میرے امکانات سے باہر تھی مگر وہی بھکاریوں کا طرز عمل کہ التجا پر اتنا اصرار کرو کہ مہربانی مجبوری بن جائے۔ ایک دن افسر سے بھینٹ ہو ہی گئی۔ پہلے تو وہ کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا مگر وہ لب و لہجہ کام آگیا جو اچھے لباس کے سنگ ہو تو کلید کام یابی بن جاتا ہے مگر میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ نا مرادی، ناکامی کا تاثر فزوں کردیتا ہے۔ مگر اس سمے افسر کو میرا انداز بھا گیا۔ ویسے بھی حاکمی چنچل بد مست پون ہے، جدھر مرضی کرے رخ کر لے۔ شاید وہ تنہائی محسوس کر رہا ہے اور تنہائی تو ہم زبان ہی دور کرتے ہیں۔

اس نے پوری توجہ سے داستان سنی۔ سارے ثبوت دیکھے اور معاملات درست کرنے کا وعدہ کیا۔ میں خوشی خوشی اپنے ٹھکانے پر چلا گیا۔ چند دن گزر گئے تو بہتری کے آثار نہ نظر آئے تو پھر افسر کے دفتر کے باہر پہنچ گیا۔ اس بار ملاقات نہ ہو سکی بَل کہ ایک چپراسی نے ملاقات نہ ہونے کی وجہ بھی بتا دی۔ یہ محرم راز قسم کا چپراسی ہے، اسے جو بھی دفتر میں ہوتا ہے، سب پتا ہوتا ہے۔
چپراسی نے بتایا کہ اس روز افسر نے ٹھیکے دار کو بلوایا۔ اسے خوب ڈانٹا ڈپٹا کہ آگا پیچھا دیکھ کر مزدور بھرتی کیا کرو۔ یہ فلسفی قسم کے لوگ تو ہوتے ہی کام چور ہیں۔ ان سے کام کرواؤ گئے تو گھاٹا ہی اٹھاؤ گے۔ یہ لوگ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے معاملے سلجھانے لگتے ہیں  ورنہ روپوں کی جس گٹھڑی کے بوجھ تلے میری ذمہ داری سسکتی ہے، وہاں سے شاید مجھے اپنی ذمہ داری آزاد کر کے شاید اس کی مرہم پٹی بھی کرنی پڑ جائے۔

ٹھیکیدار نے افسر کو یقین دلایا کہ صاحبان علم و تعلیم کا معاشرے نے وہ حل کر دیا ہے کہ اب وہ مجنون صحرا گرد اور فرہاد کوہ کن کی طرح بیاباں در بیاباں، کوہ در کوہ بھٹکتے ہیں۔ یہ دیہاڑی دار مزدور بھی اجاڑ ویرانوں میں ہی گم ہو جائے گا۔ کوئی ناقہ، کوئی محمل، کوئی نخلستان اس کی نجات کے لیے نہیں آئے گا۔

یہ جعلی مسیحاؤں کا دور ہے۔ رہزنوں کے راج کا زمانہ ہے۔ یہاں راہبری مسیحائی کا شوق رکھنے والے خود راہ گم کر بیٹھتے ہیں یا ناقابل علاج امراض میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ کسی کو قافلہ نہیں ملتا تو کسی کو زاد راہ۔ ٹھیکے دار نے افسر کو حوصلہ دلایا کہ دیہاڑی دار کے جنوں بھوتوں کا علاج عالم حاضرات کے ذریعے کرا دیا جائے گا۔

جناب اس ملاقات کے ٹھیک دو دن کے بعد ٹھیکیدار کے کارندوں نے مجھے گھیر لیا۔ میرے ساتھ وہی ہؤا جو کسان رسی تڑائے ہوئے بیلوں کے ساتھ کرتے ہیں یا کمھار کام سے بھاگے ہوئے گدھے کے ساتھ کرتے ہیں۔ میری آشفتہ سری کا مداوا بھی سنگ و خشت کے ساتھ کیا گیا۔

اتنا مارا پیٹا کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ کوئی کسی خیراتی شفا خانے میں بھرتی کرا آیا۔ وہاں دنوں پڑا رہا۔ تیمار داری، بیمار پرسی کے لیے کس نے آنا تھا مگر تیماردار یاد آتے رہے۔ بہر حال، میں زندہ رہا کہ زندگی بڑی ضدی ہو تی ہے، رسوا ہوتی رہتی ہے، مار کھاتی رہتی ہے، مگر موت سے جنگ کرنے سے دست بردار نہیں ہوتی۔

عالی جناب جب میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو میں نے چارہ سازی، چارہ جوئی کی تگ و دو پر اور بھی مستحکم ہو گیا۔ مجھے اذیت دینے والوں نے میرے حوصلوں کا بہت کم تخمینہ لگایا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں یہ فراموش کر بیٹھے تھے کہ میری بے کسی اور میرا لاوارث ہونا ہی میری قوت تھی۔ میرے سارے

رشتے ناطے میرے مقصد سے ہی پیوستہ تھے۔ آدمی زیادہ تر رشتوں کے لیے سمجھوتے کرتے ہیں مگر بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ رشتوں پر سمجھوتا کر لیتے ہوں۔
میں نے جو خواری دیکھنا تھی دیکھ لی تھی، اب لے دے کے جان ہی بچی تھی اور اس کی جو قیمت تھی وہ اپنی معاشرتی ذمہ داری سے وابستہ تھی۔ جب پاس صرف سپنے ہی رہ جائیں تو حقیقتوں کی تلخی کا زہر بھی زعفران جان پڑتا ہے۔

تو جناب والا، اپنے جسم پر لگے نشانات لیے چراغوں کی بہار دکھلانے تھانے پہنچا تو وہاں افسر اور ٹھیکیدار کے پیغامات پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ عالی جناب پھر کیا، ایک چراغ کیا جلا، کئی چراغ جل گئے۔ بس ایسی گھٹا گرجی، ایسی بجلی چمکی، ایسی میگھا امڈی اور برکھا برسی کہ سارے بدن میں جیسے دردو اذیت سے جل تھل سا ہو گیا۔

اپنی یہ درگت سہتے ہوئے کبھی رفتگاں کو پکارا، کبھی ماں باپ کو یاد کیا، کبھی اس شوخ و شنگ کی یاد سے دل بہلایا جو میرے چہرے کو چومتے نہ تھکتی تھی۔ اب اسی چہرے پر سپاہیوں کے ٹھڈے پڑتے تھے، تو اس کے ہونٹوں کا گداز تڑپا دیتا تھا۔

کچھ اپنی عزت کی پامالی کا دکھ بھی تھا، جو رلا دیتا تھا مگر تکلیف سب سے بھاری پڑتی تھی جو چیخنے، دھاڑنے اور ڈکرانے پر مجبور کرتی تھی۔ اس لنگڑے کا قصہ تو سنا ہو گا جسے لڑکیوں نے پیار کہانی خراب کرنے کی سعی کرنے پر اڑیل گدھے کی طرح پیٹا تھا۔ بس وہی حال میرا ہوا۔ جب مزید تکلیف سہنے کی ہمت نہ رہی تو بھولا بسرا اسم اعظم بھی دہرایا، سادھو سنت، درویش ولی، پیر پیمبر سب کے نام کی دہائی دی مگر جب ہم ان سے بے خبر رہے تو وہ میری مدد کو کب پہنچتے۔ سارے رشتے دو طرفہ ہی ہوتے ہیں۔ یک طرفہ سخاوتیں اپنی نا رسائی کے بین کرتے ہوئے دم توڑ جاتی ہیں۔

عالی جناب، مدد کے لیے کوئی بھی نہیں پہنچا، نہ آدمی، نہ خدا اور درد بھی بڑھتا گیا۔ تکلیف اتنی زیادہ ہو گئی کہ تکلیف سے نجات کے سوا ہر چیز غیر اہم ہو گئی۔ میرے لیے میرے مقصد سے زیادہ کوئی بات اہم نہیں تھی مگر آپ تو جانتے ہیں تشدد تو شاندار کو معمولی بنا دیتا ہے۔ عظمت و مرتبت، انسان دوستی، استواری، رشتے ناتے سب حماقت سی لگنے لگے۔ تشد کو سورج بلند پروازی، نازک خیالی، نکتہ طرازی سب واہموں اور مغالطوں کے گہرے بادل ہٹا دیتا ہے۔ اور زندگی حسین لڑکی اپنی سب عمدہ پوشاکیں اتار کے جلادوں کی وردی پہن لیتی ہے۔ اور تشدد کا شکار عزت نفس کی وسعتیں سمیٹ کر منت و سماجت کی تنگ گلیوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔

جناب والا قصہ مختصر، میں نے دردو تکلیف سے نجات پانے کے لیے جنتا کی بہتری اور بھلائی کے مقصد سے بے وفائی اور غداری کر دی۔ جیسا کہ ہوتا ہے کہ انقلاب کے رستے میں پڑھا لکھا آدمی سب سے پہلے گھٹنے ٹیک دیتا ہے، ہمت ہار جاتا ہے۔ اس پل کی خستگی شکستگی سنوارنے کی ٹھانی تھی مگر اپنی خستگی اور شکستگی سنبھالی نہ گئی۔ ہتھیار تو تھے نہیں، اپنے ہاتھ پیر پھینک دیے۔ نیاز مندی اور تسلیم و رضا کے سارے ضابطوں پر مہریں چھاپ کر تھانے سے واپسی ہوئی۔

کچھ چین پڑا تو سوچ آئی کہ یہ ٹوٹی پھوٹی جان لیکر کسی اور شہر سدھار جاؤں۔ مگر بے وفاؤں کے لیے سارے شہر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ بجھتی ہوئی شمع کے شعلوں جیسی ایک لپکتی جھپکتی آرزو بھی دل میں اٹھی کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر کے نہ دیکھ لوں۔ عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹا لوں۔ لیکن پل بہتر

بنانے، لوگوں کی جانیں بچانے اور علم کی بنیادوں پر استوار بہبود کی آرزو مر چکی تھی۔ پھر عدالتوں میں فرشتے کہاں سے آتے۔
مقصد سے جو بے وفائی کی تھی، اس نے زندگی سے مایوس کر دیا تھا۔ اور اس بے وفائی کی تلافی کی ہمت بھی نہیں رہی تھی۔ ساری زندگی کام کرتے گزری تھی، وہ کام جس کے نتائج سامنے آجاتے تھے تو زندگی سے ڈور بھی بندھی رہتی تھی۔ ناتوں کی کمی بھی کام سے ناتا جوڑ کے پوری کر لی تھی۔ کام جو اچھا لگتا تھا نہ رہا تو کام سے وابستہ زندگی کے حصول کے لیے ایک چھوٹے سے قدم کو مقصد بنا کر زندگی کو جواز دے دیا۔

یہ نہیں کہ ناتے تھے ہی نہیں مگر وقت اور حالات نے رشتہ دار چھین لیے تھے۔ جو دوست تھے انھوں نے یا تو سمجھوتا کر لیا یا بچا کھچا سنبھال کر پردیس چلے گئے۔ ہمارے پاس جو بھی تھا جادوگروں نے ہتھیا لیا کہ جادو گروں کو میں نے حکیم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ جن سے عشق تھا وہ میرے بغیر ہی اچھی زندگی گذار رہے تھے۔ اب ایک اور بے وفائی کا داغ لے کر ان کے پاس کس منہ سے جاتا۔

جناب والا جب یقین ہو گیا کہ ہمارا نہ ہونا ہمارے ہو نے سے زیادہ بہتر ہے۔ جناب یہ بڑا دشوار لمحہ ہو تا ہے جب آپ جانتے ہوں کہ آپ کی زندگی سے قیمتی کوئی شے نہیں ہے مگر اس بات پر اثبات میں سر ہلانے کے لیے آپ کے پاس کوئی نہ ہو اور آپ اپنا ہی سر نفی میں ہلا دیں۔

زندگی کو جواز دینے کے لیے جو سپنا تراشا تھا وہ تشدد نے چھین لیا۔ تشدد کے با وجود لڑ بھڑنے کے لیے تیار ہو جاتے مگر دور دراز تک کوئی ہم دم، ہم نفس اور غم خوار نہ تھا اور تن تنہا لڑنے کی اور سکت نہیں رہی تھی۔

سارے شہر نے جیسے جھاڑ پھونک، جنتر منتر، تعویذ گنڈے سے جیسے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ میں بھی کشف و کرامات، عالم حاضرات اور جنوں بھوتوں سے ہار گیا تھا۔ مگر سمجھوتا پھر بھی نہیں کر سکا۔ پھر ایک ؂فیصلہ کر لیا۔ ایک دن چپ چاپ پل سے چھلانگ لگا کر زندگی سے نجات حاصل کر لی۔

آپ بوکھلا سے گئے ہیں، لگتا ہے یقین نہیں آیا۔ مجھے بھی نہیں آتا مگر میرے ہاتھ چھو کر دیکھیے، اور میری

آنکھوں میں آپ کو میں وہی ہے جس کی خبر آپ کو میں ابھی دینے لگا ہوں۔

جناب والا آپ کو پتا ہی ہے کہ شہر میں کل ایک شہزادے کی شادی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ سب کے رشتہ داروں کا ایک پورا قافلہ پوری آن بان، شان و شوکت کے ساتھ پل سے گذر رہا تھا کہ پل گر گیا۔ پل اتنی زیادہ تعداد میں گاڑیوں، بگھیوں اور رتھوں کا عادی نہیں ہے۔ بادشاہوں کا بوجھ نہیں سہار سکا اور نیچے پڑے غلاموں پر گر گیا۔ اور آپ سب لوگوں کے سلسلہ دار جاں بحق ہوئے۔ وہ ٹھیکیدار اور افسر بھی اور تھانے کے چند سپاہی بھی مارے گئے۔ میں جانتا ہوں آپ بہت ہی حیران و پریشان ہیں مگر مالک کی رضا کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔ ابھی تو چندمہینے پہلے آپ نے آمدو رفت جاری کرنے کی تقریب میں رسی کاٹی تھی۔ بڑا ہی عجیب اتفاق ہے۔

آپ حیرت اور صدمے کی عجیب کیفیت کا شکار ہیں۔ جناب آپ ہی نے تو شہر میں جادو کا رواج دیا تھا۔

آپ ہی تو کہتے تھے کہ سلیمانی تخت ہو تو شاہراہوں کی کیا ضرورت ہے۔ جادو کا چراغ ہو تو بجلی کسے چاہیے۔ انگوٹھی ہو تو قاعدے ضابطہ بے کار ہے۔

جناب آپ کو یوں آہ و فغاں کرتے دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا ہے مگر جناب جب جادو ٹوٹتا ہے اپنی کرشمہ گری کا شکار جادو گر بھی ہو جاتے ہیں۔ اب آپ سے بنتی ہے، شہر کو سچ لوٹا دیں۔ ان کو اپنے حق بھی واپس مل جائیں گے۔ ورنہ اپنا دل پتھر کر لیں منتروں سے کوئی واپس نہیں آتا اور جو میری طرح ٹونوں ٹوٹکوں کے بغیر آتاہے، وہ سرزنش کرنے کے لیے ہی آتاہے۔ اور جو سرزنش نظر انداز کرتے ہیں ان کو پھر اچانک ہی خبر پہنچتی ہے۔ جناب مولا بھلی کرے۔
(یہ کہہ کر وہ شخص غائب ہو گیا)