جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن

Atifaleem aikrozan
محمد عاطف علیم

 جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن

افسانہ از، محمد عاطف علیم  

بے موسم کی بارش رات بھر سے ایک تار برس رہی تھی، اور وہ دیر سے کھڑکی میں نصب آسمان کی وسعتوں میں دور کہیں بادلوں کے گرداب میں پھنسے ایک پرندے کی نا ہموار پرواز پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی۔

جوزف چائے کی ٹرے لے کر آیا تو اس کا انہماک ٹوٹا۔

“شاید کوئی کبوتر ہے بے چارہ۔ اپنی چھتری سے اُڑا ہو گا کہ بارش میں پھنس گیا،” اس نے عورت کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے رائے زنی کی۔

جوزف نے رات کی بچی ہوئی روٹی کو بھگو کر گھی میں تل دیا تھا، جس کے بعد وہ رات کے بچے سالن اور چائے کے ساتھ ایک لذیذ ناشتہ کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔

“بڑے سگھڑ ہو گئے ہو، خیر سے،” عورت نے روٹی کا ٹکڑا اس کے سامنے لہراتے ہوئے ہنس کر کہا۔

“ہونا پڑتا ہے بھاگاں،” اس نے ایک طرح کی فلسفیانہ شان سے آہ بھرتے ہوئے کہا، “جب سر پر آ جائے تو سب کچھ ہونا پڑتا ہے۔”

“البتہ تمہیں میری طرح چائے بنانی نہیں آئی۔”

“مجھے پتا ہے، پھیکی ہے،” اس نے نوالے کو اپنے جیسے رنگ والی چائے میں ڈبوتے ہوئے کہا، “پَتی بس اتنی ہی تھی۔ دودھ کا ڈبہ بھی خالی ہو گیا ہے۔”

“آج نہ جاؤ، موسم خراب ہے،” بھاگاں نے بوجھل خاموشی کی طوالت میں کچھ کہنے کو بات چلائی۔

جوزف نے نوالہ چباتے ہوئے بے خیال نگاہوں سے دور چکراتے ہوئے کبوتر کو دیکھا۔ پھر اس نے دن کا پہلا سیگریٹ سلگا کر ایک طمانیت بھرا، گہرا کَش لیا۔

“جانا تو پڑے گا۔” جوزف نے گھی میں سنی ہوئی انگلیاں گُدّی کے بالوں میں رگڑتے ہوئے جواب دیا، “چھتری لے لوں گا۔”

“تیز تیز نہ چلنا، بھیگے ہوئے موسم میں تمھاری سانس جلدی پھول جاتی ہے۔ اور ماسک دروازے کے ہینڈل کے ساتھ لٹک رہا ہے، اسے پہن لینا۔ کہیں جیب میں نہ ڈالے رکھنا، اور ہاں سب سے دور دور رہنا، اپنے پھیپھڑوں کا ناس تم نے پہلے ہی مارا ہوا ہے۔”

“اچھا ڈاکٹر صاحبہ، ہَور حکم؟” جوزف نے ہنس کر کہا۔

“آج کتنی تاریخ ہے؟” بھاگاں نے مَنتر پڑھنے کی طرح منمناتے ہوئے حساب لگایا۔

“آج ہمارے چھیمے کو گئے تین سال اور سات مہینے پورے ہو گئے ہیں۔”

جوزف نے چھوٹی میز پر رکھی چھیمے کی مسکراتی ہوئی تصویر کو نظر بھر کر دیکھا۔ عین اسی لمحے بادلوں میں بجلی کا کوندا لپکا اور چھیمے کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

چھیما جس کا شناختی کارڈ میں نام سلیم شہزاد لکھا گیا تھا، ان کی واحد اولاد تھا جو زندگی کے پہلے پانچ برس پورے کرنے میں کام یاب ہوا تھا۔

اس سے پہلے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہوئیں لیکن بھاگاں کی اندرونی خرابی کے باعث تینوں بچے پیدائشی لاغر تھے اور اسی لاغری کے بَہ وجوہ سال سال، چھ چھ مہینے نکال پائے تھے۔

چھیما ان کی پکی عمر کی اولاد اور ان کی آخری امید تھا کیوں کہ ڈاکٹر نے اس کے بعد انہیں منع کر دیا تھا۔

جب چھیما پیدا ہوا تو جوزف کارپوریشن میں پکی پنشن والی نوکری کرتا تھا اور بھاگاں گھر گھر جھاڑو پونچھا کرتی تھی۔ دونوں کماتے تھے۔ خرچے نہ ہونے کے برابر تھے۔ سو اچھی گزر ہو رہی تھی۔

بس ایک ہوائیں تھیں جو ان سے دشمنی پر اتری ہوئی تھیں؛ وہ کہ اوپر تلے کی تین موتوں سے دہلے ہوئے تھے۔ ان پر لازم تھا کہ وہ اسے سانس سانس گِن گِن کر پروان چڑھائیں۔

اگر وہ چھیمے کی ٹمٹماتی لَو کو دونوں ہاتھوں کی آڑ نہ دیتے تو اس کے بعد ان کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

انھیں چھیمے کی خاطر پہلی قربانی اچھی کمائی کی دینا پڑی۔ بھاگاں کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی اور جوزف نے بھی کارپوریشن کی نوکری چھوڑ دی جس کے دوران اسے چوبیس گھنٹے بلاوے کا منتظر رہنا پڑتا تھا۔

جوزف کو نوکری کی محتاجی یوں بھی نہ تھی کہ وہ موٹر وائنڈنگ اور بجلی کی گھریلو چیزوں کی مرمت کا کام جانتا تھا۔ ضروری تھا کہ ٹِھیّا گھر کے قریب ہی ہوتا کہ وہ جب چاہے گھر کا چکر لگا سکے۔

بہت تلاش کرنے پر انھیں پکّی ٹھٹھی میں دو کمروں کا ایک پرانا مکان مل گیا جس کی بیٹھک گلی میں کھلتی تھی۔ وہ دونوں یہاں اٹھ آئے۔

جوزف نے بیٹھک کو اپنا ٹِھیّا بنا لیا اور ان کی زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلنے لگی۔ چھیما انچ انچ بڑھتا رہا اور وہ دونوں لمحہ لمحہ جوان ہوتے گئے۔

چھیما ایک طرح سے ان دونوں کا افسر تھا کہ لا شعور میں بیٹھے خوف کے باعث وہ اس سے دب کر رہنے پر مجبور تھے۔ وہ اسے سمجھانے کی کوشش تو کر سکتے تھے، لیکن اس پر حکم نہ چلا سکتے تھے۔

چھیمے کو اپنی بَر تر حیثیت کا خوب علم تھا لہٰذا اس نے اس فیصلے کے اختیار کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا تھا کہ کون سی بات ماننی ہے اور کون سی نہیں ماننی۔

ان کی شدید خواہش تھی کہ چھیما کچھ پڑھ لکھ جائے۔ انھوں نے اسے سکول میں داخل کرایا بھی، لیکن چھیمے کا اَتھرا پن ماسٹر کی مار نہ سہہ سکا۔

وہ اسے سمجھاتے ہی رہ گئے لیکن وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی گلیوں کا رزق بن گیا۔

ادھر چھیمے نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، ادھر جوزف کی نئی ڈیوٹی شروع ہو گئی۔ اسے اپنا کام چھوڑ چھوڑ چھیمے کی ٹَوہ لگانی پڑتی تھی اور اس پر نظریں جمائے سایہ بن کر پیچھے پیچھے چلنا پڑتا تھا۔

بس ایک ہی دھڑکا تھا کہ چھیما منشیات یا جوئے کے دھندے میں نہ پڑ جائے جو پکی ٹھٹھی میں بہت نارمل بات تھی۔ ایک روز جب اسے بھاگاں نے چائے کا مگ تھماتے ہوئے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ اس کے واحد نشے کا بتایا تو اس کے سینے سے بوجھ ہٹ گیا۔

چھیمے کو پیسے اور آوارگی سے مطلب نہیں تھا۔ اس کا واحد خبط روزی تھی جس کے عشق نے تاریک راہوں کا راہی ہونے سے بچا لیا تھا۔

اگلے روز چھیمے نے باپ کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جب روزی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور دبے لفظوں میں روزی نہ ملنے کے نتائج سے بھی آگاہ کیا تو جوزف کا قہقہہ گلی کی نکڑ تک سنا گیا۔

چھیما حیران سا دیکھ رہا تھا کہ ایک طرف باپ ہنس ہنس کر دُہرا ہو رہا ہے اور دوسری طرف ماں بھی لَجائی لَجائی سی مسکرا رہی ہے۔

باپ کے ازلی خوف سے رہائی پائے جوزف نے ہنستے ہنستے اسے بھینچ لیا اور آنکھیں پونچھتے ہوئے بولا:

“جَھلیا، تو عین اپنے ابے پر ہی گیا ہے۔ یہ جو تمھاری ماں بیٹھی ہے نا بھاگاں، یہ بھی کسی زمانے میں میری روزی ہوا کرتی تھی۔ میں نے بھی اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھ کر اسے ایسے ہی مانگا تھا جیسے بچے پاپڑ لے کر دینے کی ضد کرتے ہیں۔”

چھیمے نے اپنے تئیں ایک کٹھن مرحلے کو یوں آسانی سے سَر ہوتے دیکھا تو ہونق سا اِنھیں تکنے لگا۔ تب ماں کو اس پر لاڈ آیا تو اس نے جھپٹ کر اسے گود میں بھر لیا۔ جوزف نے طمانیت بھرے لمحے میں جشن کا رنگ بھرنے کے لیے سگریٹ سلگایا اور آنکھیں موند کر ایک گہرا کش لیا:

“ٹھیک ہے، روزی کہیں نہیں گئی پر اسے لانے کے لیے کمائی تو کرنا پڑے گی۔ آج سے آوارگی چھوڑ اور اڈے پر بیٹھنا شروع کر دے۔”

چھیما باپ کے کام کو پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ اس میں بندھ کر بیٹھنا پڑتا تھا جب کہ وہ جب تک روز دس گلیاں ناپ نہ لیتا اسے چین نہ پڑتا تھا اور یہ کام صرف کارپویشن کی نوکری میں ہی ہو سکتا تھا۔

باپ کی چیخ پکار بے کار گئی۔ اس نے نوکری کے لیے درخواست دے دی جو منظور بھی ہو گئی۔

اب اس کے ہاتھ میں لمبی ڈانگ تھی اور علاقے بھر کے گٹر تھے جنہیں چالو رکھنا اس کی ذمے داری تھی۔

اس دوران اس کی منگنی بھی ہو گئی۔ روزی بھی بہانے بہانے گھر کا چکر بھی لگانے لگی، لیکن جب وہ کام سے لگا تو اس پر کھلا کہ اس سے سخت بے وقوفی سر زَد ہو گئی ہے کہ گٹر میں اترنے سے باپ کے کام کی پابندی سو درجے بہتر اور عزت والی تھی۔

باپ کی ناراضی ایک طرف، خود روزی کو بھی اس کا یہ رُوپ پسند نہ آیا تھا۔ اس نے فیصلہ تو کرنا ہی تھا، لیکن تھوڑی تاخیر کر گیا اور یہی تاخیر ماں کا کلیجہ پھاڑنے کا باعث بن گئی۔

اسے ایک روز اپنے ایک ساتھی کے ساتھ برسوں سے بند گٹر میں اترنا تھا۔ وہ دونوں اس میں اترے بھی، لیکن زندہ باہر نہ نکل سکے۔

ٹی وی چینلوں پر چلنے والی خبروں اور سرکاری فائلوں میں درج رپورٹ کے مطابق گٹر میں برسوں سے بند قاتل گیس نے لمحہ بھر میں ہی ان کے زندہ رہنے کا حق سلب کر لیا تھا۔

چند روز کے رونے پیٹنے کے بعد زندگی معمول پر آ گئی۔ روزی کے بارے میں بھی کچھ اور سوچا جانے لگا اور جوزف نے بھی کام میں خود کو کھپا لیا۔

لیکن بھاگاں مہینوں طویل بیماری کے  بعد جب بستر سے اتری تو پتا چلا کہ وہ کبھی اپنے قدموں پر نہیں چل سکے گی۔

اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نے اس کا جسمانی توازن بھی بگاڑ دیا تھا۔ وہ بَہ ظاہر اپنے کام سے لگی چلتی پھرتی رہتی لیکن کسی بھی لمحے اس کا سر چکراتا اور وہ کھڑے کھڑے شہتیر جیسی ڈھے جاتی۔

کئی بار تو  وہ اس بری طرح سے گری کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ اب جوزف کو تا عُمر سایہ سا بن کر اس کے ساتھ جڑے رہنا تھا۔ سو اس نے موٹر وائنڈنگ کے ساتھ ساتھ گھر گرہستی میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔

رات بھر سے ایک تار برستی بارش کا دم ٹوٹنے لگا تھا۔

کھڑکی سے لگی بھاگاں نے اب کے غور سے دیکھا تو بادلوں میں چکراتا کبوتر سرمئی سفیدی میں تحلیل ہو چکا تھا۔

اب کی بار بجلی کا کوندا لپکا تو بادلوں کی گرج نے انھیں پاؤں کے تلووں تک لرزا دیا۔ بھاگاں نے سینے پر کراس بنایا اور اپنے گرد کھیس کس کر لپیٹ لیا۔

اپنی چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا جوزف بھی اس گَھن گرج سے سوچ میں پڑ گیا تھا۔جب تک وہ سیگریٹ کا آخری کَش لے کر فیصلہ کن انداز میں کھڑا ہوتا کھانسی کے ایک مختصر سے دورے نے اسے دُہرا کر دیا۔

“میں تو کہتی ہوں رک جاؤ۔ اس موسم میں چھتری بھی کام نہیں آتی۔”

“تمھیں پتا ہے سرکاری لوگوں کا۔ اگر بلایا ہے تو جانا ہی پڑے گا، ورنہ پھر بھوک تو ہے ای۔”

بھاگاں بھی جانتی تھی کہ جوزف کو جانا ہی ہو گا سو اس نے نیم رضا مندی میں کندھے اچکا دِیے۔ پھر بھی وہ فکر مندی کا اظہار کیے بَغیر نہ رہ سکی۔

“اور تمہاری کھانسی؟”

“ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میری بے بے نہ بنا کرو۔”

جوزف کو اپنی قدیمی کھانسی کی جانب ہلکا سا اشارہ بھی گوارا نہیں تھا کیوں کہ اس کا الزام وہ اپنے سوائے کسی اور کے سر نہیں دَھر سکتا تھا۔ اس نے دورے سے سنبھل کر جھنجھلاہٹ کے عالم میں آنکھیں پونچھیں اور چھتری ٹانگ کے ساتھ ٹکا کر سر پر صافہ لپیٹنے لگا۔

“ماسک!” بھاگاں نے اسے تنبیہ کی۔

جوزف نے اس بے کار کی فکر مندی سے جھنجھلا کر دروازے کے ہینڈل سے لٹکا کالے کپڑے کا ماسک نوچ کر مُنھ پر باندھ لیا۔

“کپڑے تو بدل لو، لوگ کیا کہیں گے۔” بھاگاں تھی کہ بے بے بنے بَغیر رہ نہ سکتی تھی۔

جوزف نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور جیب سے موبائل نکال کر کل رات کو بھیجا گیا میسِج پھر سے اٹک اٹک کر پڑھنے لگا:

“ایکسپو کی طرف جانا پڑے گا۔ وہیں کہیں سنٹر ہے۔”

جوزف نے خود کو مخاطب کر کے کہا، “وہاں تو چِنگ چی بھی نہیں جاتی، چار پانچ میل پیدل چلنا پڑے گا۔”

“وبا کے دنوں میں چنگ چی کہاں۔ سب کچھ تو بند پڑا ہے۔”

جوزف نے اس کی طرف پُر خیال نظروں سے دیکھا، “اور سنو، میرے جاتے ہی کام کاج میں نہ لگ جانا کہیں گر گرا گئی تو کوئی تمھیں اٹھانے والا بھی نہیں ہو گا۔”

وہ میلوں پیدل چل کر وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ بارش کے باوُجود لوگوں کی بھیٹر لگی ہوئی تھی۔ چھوٹی سی جگہ تھی اور بندے پر بندہ چڑھا ہوا تھا۔

احتیاط کا عالَم یہ تھا کہ چند ہی لوگ ہوں گے جنھوں نے چہرے ڈھانپ رکھے ہوں۔ اسے بھی لگا کہ وبا ایک افواہ ہی ہو گی جو عورتیں بھی اور مرد بھی بے فکرے کھڑے بھوک اور بے روزگاری سے جڑا اپنا رونا رو رہے تھے اور لاک ڈاؤن پر حکومت کو کوس رہے تھے۔

بھاگاں کی گھورتی آنکھوں کا تصور کر کے وہ اپنے چہرے کو نقاب سے آزاد کرنے سے باز رہا اور چُپ چاپ لائن میں لگ گیا۔ اس عمر میں انتظار کی مشقت اس کی ہمت سے سَوا تھی، سو وہ کبھی بیٹھتا اور کبھی کھڑا ہوتا رہا۔

وہاں پہنچ کر وہ پریشان ہو گیا کہ بارش کے باوجود وہاں میلہ سا لگا تھا۔ چھوٹی سی جگہ تھی اور بندے پر بندہ چڑھا ہوا تھا۔ احتیاط کا عالم یہ تھا کہ چند ہی لوگ ہوں گے جنھوں نے چہرے ڈھانپ رکھے ہوں۔ اسے بھی لگا کہ وبا ایک افواہ ہی ہو گی جو عورتیں بھی اور مرد بھی بے فکرے کھڑے بھوک اور بے روزگاری سے جڑا اپنا رونا رو رہے تھے اور لاک ڈاؤن پر حکومت کو کوس رہے تھے۔

وہاں امداد لینے والوں کے ہجوم کے علاوہ چند اونگھتے ہوئے پولیس والے اور بہت سے جلے تلووں والے ٹی وی رپورٹر بھی تھے جو اپنا اپنا ویڈیو پیکج بنانے کے لیے تاڑی لگائے بیٹھے تھے کہ کس کے مُنھ میں مائیک ٹھونسا جائے تو اس سے کام کی بات نکلوائی جا سکتی ہے۔ وہ خاص طور پر امدادی لفافہ لے کر نکلنے والوں کی طرف لپکتے تھے تا کہ اس کی جانب سے شکرانے کے اظہار کو پھیلا کر مقتدر لوگوں سے داد سمیٹی جا سکے۔

وہ بھاگاں کی گھورتی آنکھوں کا تصور کر کے اپنے چہرے کو نقاب سے آزاد کرنے سے باز رہا اور چپ چاپ لائن میں لگ گیا۔ قطار شیطان کی آنت جیسی تھی اور اس عمر میں انتظار کی مشقت اس کی ہمت سے سَوا تھی، سو وہ کبھی بیٹھتا اور کبھی کھڑا ہوتا رہا۔

انتظار کی کوفت کو بہلانے کی واحد صورت یہ تھی کہ وہ اپنے گرد جمع لوگوں کو اپنی دید اور شنید کا مِحوَر بنا لے۔ اس نے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ وہاں موجود سب لوگ ٹین کے بنے ہوئے تھے، کہیں سے ٹوٹے ہوئے اور کہیں سے پچکے ہوئے۔

یہ سب وہ تھے جن کی پہلے سے شکستہ کمروں کو وبا نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے پاؤں کیچڑ میں لت پت تھے اور آنکھوں میں آس تھی کہ سرکاری لوگ ان کی طرف دم بہ دم بڑھتی بھوک کو کچھ دے دلا کر چند روز کے لیے ٹال دیں گے۔

اس نے دیکھا کہ مردوں نے اپنے حالات کی گھمبیرتا کو بڑھا کر دکھانے کے لیے اپنے حلیوں کو خستہ تر اور اپنے چہروں پر چھائی مسکینی کو فزُوں تر کر رکھا تھا جب کہ عورتیں خاص اسی مقصد کے لیے گھر سے نیم برہنہ اور لاغر بچوں کو اٹھا کر لائی تھیں کہ انھیں دکھا کر حکومتی اہل کاروں میں ممتا کو کچھ زیادہ جگایا جا سکے۔

جوزف نے اندازہ لگایا کہ گو امداد کے سب مستحق تھے، لیکن ان میں وہ نہیں تھے جو اپنا بھرم کھلنے سے ڈرتے ہیں۔

جوزف خود ایسے کئی لوگوں کو جانتا تھا جو وبا کے بعد اپنی ملازمتوں یا چھوٹے موٹے کاموں سے محروم ہوئے تھے اور اپنے گھروں میں یوں چھپ گئے تھے کہ کسی کو ان کے حال کی خبر نہ ہو پائے۔

ٹین سے بنے لوگوں میں سے جب کوئی اندر سے ہو آتا تو وہ خدا ترسی کی  ایک فاتحانہ چمک لیے قطاروں میں لگے لوگوں کو دیکھتا اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بَغیر تیز قدموں وہاں سے چل پڑتا۔

کچھ لوگ تھے جو برافروختہ لوٹتے جب انہیں پتا چلتا کہ ان کا امدادی سنٹر در اصل کوئی اور تھا اور اب انھیں التواء شدہ امید کے ساتھ کہیں اور جا کر آس اور انتظار کا کھیل کھیلنا ہو گا۔

جب تک اس کی باری آتی سائے دراز ہو چکے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے اس کے ہاتھوں پر محلول ملا گیا اور پھر ایک میز کے گرد جمع چند ماسک پہنے اہل کاروں میں سے ایک نے رجسٹر کے ایک خانے پر بال پوائنٹ کی نوک رکھی:

“نام؟”

“جوزف جی… جوزف اقبال مسیح۔”

“ولدیت؟”

“بوٹا مسیح”

“ہوں! شناختی کارڈ؟”

جوزف نے جیب سے شناختی کارڈ نکال کر میز پر رکھ دیا۔

 اہل کار نے شناختی کارڈ لے کر الٹ پلٹ دیکھا اور رجسٹر پر کچھ درج کر کے بائیو میٹرک مشین اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے ہدایت کے مطابق مشین کی ننھی سی سکرین پر دایاں انگوٹھا رکھ کر دبایا اور پھر انگشتِ شہادت کے ساتھ یہی عمل کیا۔

اہل کار مطمئن نہ ہوا تو اس نے دوبارہ اسے انگوٹھا رکھنے کا کہا۔ اس بار اس نے دیر تک سکرین پر انگوٹھے کو چپکائے  رکھا۔ اہل کار کے عدم اطمینان پر یہی عمل تیسری بار بھی دہرایا گیا  مگر نتیجہ وہی پہلے جیسا۔

کمپیوٹر سکرین پر نظریں جمائے اہل کار نے بے یقینی کے عالَم میں سر کو کھجایا اور پھر اٹھ کر ایک اور کمرے میں چلا گیا۔ واپس آیا تو اس نے ایک بار پھر اسے وہی عمل دہرانے کا کہا۔ اس بار اس نے دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں کو باری باری سکرین پر دیر تک دبائے رکھا۔

 جوزف کا دل انجانے خدشے  سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا:

“سر جی، کوئی مسئلہ ہے کیا؟”

“بزرگوارم!” اہل کار نے سپاٹ لہجے میں کہا، “آپ کو امداد نہیں مل سکتی۔”

جوزف نے بے یقینی سے اسے دیکھا تو اس نے وضاحت کی کہ اس کی انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں، جب تک مشین اس کے ہونے کی تصدیق نہ کر دے اس وقت تک اسے زندہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔

وہ ہونق سا کچھ دیر اپنے ہاتھوں کو اور اہل کاروں کے چہروں کو دیکھتا رہا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے عین سامنے اس کے ہونے سے انکار کر دیا جائے گا۔

اس نے بے یقینی کی ابتدائی کیفیت سے سنبھلنے کے بعد التجا تک کر کے دیکھ لی، جو مُنھ میں آیا کہا، لیکن سب بے کار۔ البتہ اسے یہ تسلی ضرور تھما دی گئی کہ اس کے اور اس جیسے دو چار اور کیسوں کو اوپر بھیج دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا حل بھی  نکال لیا جائے۔

وہ چھتری بغل میں دبائے بوجھل قدموں  نکلا تو ایک کیمرہ پارٹی اس کی جانب لپکی۔ وہ کہ تب تک اپنی جھنجھلاہٹ اور طیش کو منت سماجت کے بوجھ تلے دبائے ہوئے تھا، اچانک پھٹ پڑا۔

اور پھر ترنت ہی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ ایک مجہول وضع کے اور طیش سے کپکپاتے ہوئے بڈھے کو کلپتے دیکھ کر کئی روز تک چچ چچ کرتے اور آنسو والا ایموجی بناتے رہے۔

“میں اٹھہتر سال سے اس دنیا میں ہوں۔ ان تمام برسوں میں مجھے ہنسایا گیا، رلایا گیا اور ٹھوکروں میں رکھا گیا لیکن کبھی کسی نے میرے ہونے سے انکار نہیں کیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ میری انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں لہٰذا میرا وجود بھی مٹ چکا ہے؟”

“جوزف! وے جوزفا!”

جوزف دیر سے چپ چاپ زمین پر لکیریں کھینچے جا رہا تھا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا اور کچھ کہے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔ بھاگاں بستر سے اٹھ کر چھڑی ٹیکتی اس کے پاس آ بیٹھی تھی۔

“پریشان کیوں ہوتے ہو، خداوند تو ہے نا۔”

“خداوند؟ کون خداوند؟”

“تم نے پھر منکروں جیسی باتیں شروع کر دیں۔ تمھاری انھی باتوں کی وجہ سے…”

وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے بڑبڑایا:

“میں خود کو ایویں ای زندہ سمجھتا رہا اب تک، لعنت ہے میری بے وقوفی پر۔”

“اچھا زیادہ نہ سوچو، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔”

“کیا ہو جائے گا اور کون کرے گا؟… تمہارا خداوند؟”

“جوزفا! نہ کیا کر پہلے ہی ہم پکڑ میں آئے ہوئے ہیں… اچھا چھوڑ یہ بتا اب کیا کرنا ہے؟”

“اچھا بھلا کام چل رہا تھا،” جوزف خود سے مخاطب ہوا۔ “جانے کہاں سے یہ منحوس وبا آ گئی۔ اخے بند کر دو، سب کچھ بند کر دو اور جب بند کر کے گھر میں بیٹھ گئے تو بولے، تمھارے ہاتھ کی لکیریں گھس گئی ہیں۔ مشین نے تمہیں زندوں میں شمار کرنے سے معذرت کر لی ہے۔

“کوئی پوچھے، بہن کے دینو، بندہ تمھارے سامنے کھڑا ہے، اٹھہتر سال سے تمہاری ماں کے خصیے کھجا رہا ہے، اپنے حصے کے عذاب بھگت رہا ہے اور تم کہتے ہو کہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرو۔ لاؤ اپنی ماں کو میں پیش کرتا ہوں ثبوت اپنے زندہ ہونے کا۔”

بھاگاں کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس نے جوزف کے ہاتھ کی پشت پر ابھری ہوئی رگوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ہوا کی زد میں آئے پتے کی طرح چکراتے ہوئی اپنی چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ بہت دیر بعد اس کی آواز ابھری:

“بھاگاں، کیا تم زندہ ہو؟”

بھاگاں جو سیرُو کا سہارا لیتے ہوئے اپنی چارپائی پر دراز ہو چکی تھی یون ہی تکیے میں مُنھ دیے اسے بھگوتی رہی۔

بہت دیر بعد جوزف اپنی چارپائی سے اٹھا اور بھاگاں کے ساتھ لیٹ  گیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ بھینچے دیر تک اس کی بند آنکھوں پر انگلیاں پھیرتا رہا۔ بھاگاں  اسی کروٹ پڑے دھیرج سے بولی:

“تُو تَو ایک بار مرا ہے، جوزف! میرا اجڑا ہوا شہر جانے کب کب اجڑا اور جانے کب کب آباد ہوا۔”

“میں جانتا ہوں کہ تو چھیمے کے ساتھ ہی مر گئی تھی۔”

“نہیں جوزف، میں چھیمے کے ساتھ نہیں مری تھی۔ میں تو اس وقت مری تھی جب تم چھیمے کی موت کے پیسے کھرے کر کے لائے تھے اور پھر تم نے ان پیسوں سے اس گھر کو خریدا تھا۔”

جوزف کچھ کہے بغیر اس کے بالوں کو سہلاتا رہا۔

“یہ تمہارے لیے گھر ہو گا، میرے لیے تو یہ قبر ہے جس میں میں چھیمے کے ساتھ رہتی ہوں۔ جو پہلے سے قبر میں ہو اسے کیا فرق پڑتا ہے جینے اور مرنے سے؟”

“ٹھیک ہے بھاگاں، میں بھی تمھارے ساتھ اسی قبر میں دفن ہو جاؤں گا۔”

اچانک بھاگاں جیسے جاگ گئی ہو۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے مسکرا دی۔

“نہیں جوزف، تو نہیں مرے گا۔ تم نے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔”

جوزف نے کچھ کہنے کے لیے مُنھ کھولا کہ اچانک دروازے کے باہر ایک موٹر سائیکل رکی اور پھر دروازہ دھڑ دھڑایا جانے لگا۔ اس  نے سرہانے سے سر اٹھا کر تعجب سے دروازے کو دیکھا۔ کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا تھا۔ شام ڈھلے کون ان سے ملنے آ سکتا تھا؟ پوری پکی ٹھٹھی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس سے ملنے کو بے قرار رہتا ہو اور پھر یہ آواز بھی ان سنی سی تھی۔

جوزف نے بیوی کی طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ پھر بیوی کے اشارہ کرنے پر وہ اٹھا اور ذرا سا دروازہ کھول دیا۔ باہر موٹر سائیکل پر ایک نوجوان بیٹھا بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ جوزف نے باہر نکل کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے پچھلی سیٹ کی طرف اشارہ کر دیا۔

“لیکن کہاں، اور تم کون ہو؟”

“سوال جواب کا وقت نہیں ہے۔ سخت ایمرجنسی ہے۔ ہم ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں اور صرف تم ہی ہماری مدد کر سکتے ہو۔”

“خیر تو ہے نا؟”

“پتا نہیں۔ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔”

جوزف کو خاموش دیکھ کر نوجوان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے:

“چاچا جوزف! میرا اعتبار کرو تھوڑی دیر بعد میں تمھیں واپس چھوڑ جاؤں گا۔”

جوزف کچھ دیر اس نوجوان کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر بھاگاں کو بتانے کے بعد اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔

موٹر سائیکل تیز ہوا کے ساتھ ساتھ اڑتی ہاؤسنگ سوسائٹی کے پیچھے ایک گندے نالے کے کنارے رک گئی۔ وہاں ایک ہجوم جمع تھا اور سب کے چہرے فق تھے اور سب گنگ تھے۔

جوزف کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی۔ پہلا خیال جو اس کے دماغ میں آیا یہ تھا کہ کسی کو قتل کر کے گندے نالے میں پھینک دیا گیا ہے اور یہاں موجود لوگ مقتول کے لواحقین ہیں جو لاش کو نالے سے نکالنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن اسے کیوں بلایا گیا ہے؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب تھا۔

تب ایک سفید چمکیلی داڑھی والا شخص اس کی طرف بڑھا۔ جوزف نے تعجب سے دیکھا کہ وہ حاجی تھا، ایک دولت مند تاجر جو ہاؤسنگ سوسائٹی کے سب سے قیمتی مکان میں رہتا تھا۔ اس کی نیکی، دین داری اور سخاوت مقامی آبادی میں ضرب المثل کے طور پر مشہور تھی۔

جب وبا کی مصیبت شروع ہوئی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں بند ہونا پڑا تو وہی تھا جس نے اسلامی جماعت کی فلاحی تنظیم کے بینر تلے غریب خاندانوں کو راشن کی تقسیم شروع کی تھی۔

جوزف بھی ایک روز جا کر چپ چاپ امداد لینے والوں کی قطار میں جا بیٹھا۔ وہاں راشن کے تھیلوں سے بھرا ایک ٹرک کھڑا تھا اور لاؤڈ سپیکر سے نشر ہوتی نعتوں سے گدرائے ہوئے ماحول میں حاجی کے کارندے سامان تقسیم کرنے میں حاجی کی مدد کر رہے تھے۔

جب بہت دیر بعد جوزف کی باری آئی تو کسی نے حاجی کے کان میں کچھ کہا جس پر حاجی کے چہرے سے چپکی مربیانہ مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اس کی بَہ جائے ماتھے پر سلوٹیں ابھر آئیں۔

“تمہارا نام جوزف مسیح ہے؟”

“جی حاجی صاب، پکی ٹھٹھی میں رہتا ہوں۔”

“ہوں! دیکھو یہ امداد مسلمانوں کے لیے ہے۔ تمھارا ذمے دار چرچ ہے، اس سے مانگو۔”

حاجی یہ کہہ کر اگلے مستحق کی طرف متوجہ ہو گیا اور جوزف اپنی دھوتی سنبھالتا وہاں سے چل دیا۔

آج وہی حاجی شام کے جھٹپٹے میں اس کے سامنے خشک پتے کی طرح لرزیدہ کھڑا تھا۔

وہ اسے دیکھتے ہی اس پر جھپٹا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کے شکنجے میں کس لیا۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے اور آنکھوں میں ویرانی تھی۔ اس نے بَہ مشکل الفاظ جوڑ جوڑ اور لہجے میں التجا بھرتے ہوئے کہا:

“جوزف، میرے بھائی، میرے دو بچے، ایک پوتا اور ایک نواسا کھیلتے ہوئے…”

الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں بھیگ گئے تو کسی اور رندھے گلے والے نے اس کی بات کو مکمل کیا:

“وہ دونوں بچے افطاری کے وقت کھیل رہے تھے کہ ان کے پاؤں پھسلے اور وہ نالے میں جا گرے۔”

“جوزف چاچا، صرف تم ہی انھیں نکال کر لا سکتے ہو۔” کسی اور نے اس سے التجا کی۔

جوزف نے ایک نظر نالے کی طرف دیکھا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر سے بہت پہلے جب وہاں کھیت ہوا کرتے تھے تو ان کی آبیاری کے لیے اس نالے کو ایک قریبی نہر سے نکالا گیا تھا۔

جب پراپرٹی ڈیلروں نے کھیت نگل لیے تو کیچڑ اور تعفن سے بھرا یہ نالہ بھی اپنے جواز سے محروم ہو کر گندے پانی کے نکاس کا ذریعہ بن گیا تھا۔

بہت مدت سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اس نالے کو پاٹ کر سڑک بنا دی جائے کیوں کہ اس  کی بد بُو کی وجہ سے پوری سوسائٹی کی صحت سخت خطرات سے دوچار تھی۔

یہ سیدھے کناروں والا تنگ نالہ تھا اور اس قدر گہرا کہ خود رو پودوں اور سرکنڈوں کی بہتات کے باعث اس کی گہرائی میں جھانکنا مشکل تھا۔ لوگ اس نالے کی طرف آنے سے کتراتے تھے کیوں کہ مشہور تھا کہ نالہ زہریلے سانپوں اور طرح طرح کے موذی حشرات کی آماج گاہ ہے جو اکثر باہر نکل کر رینگتے پھرتے تھے۔

جوزف نے قریب ہو کر نالے میں جھانکا اور پھر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ لمحہ لمحہ اترتی رات نے نالے کی گہرائی کو خوف سے بھر دیا تھا۔ اس نے حاجی کو مخاطب کر کے لجاجت سے کہا:

“حاجی صاب، اب میری ہڈیوں میں ست کہاں؟ پکی ٹھٹھی میں آپ کو بہت سے جوان مل جائیں گے۔”

“کوئی حرام خور نالے میں اترنے کو تیار نہیں ہے۔ سب کیچڑ اور سانپوں سے ڈرتے ہیں۔”

“ون ون ٹو ٹو؟”

“وہ گھنٹہ بھر سے پہلے نہیں آ سکیں گے۔ اس وقت تک جانے کیا ہو جائے؟”

“بچوں کی عمریں کتنی ہیں؟”

حاجی کی بَہ جائے کسی اور نے جواب دیا:

“ایک عدنان ہے آٹھ ساڑھے آٹھ سال کا، اور دوسرا اس کا کزن ہے عدیل، وہ دس سال کا ہے۔ دونوں کھیلتے ہوئے جانے کیسے اس طرف آ نکلے تھے۔”

“ہائے میرے بچے… ہائے میرے نورِ عین!”

دور حاجی کی آواز آئی جو پچھاڑ کھا کر زمین پر ڈھے پڑا تھا۔

“اباجی، حوصلہ رکھیں، اللہ نے چاہا تو بچے خیریت سے آ جائیں گے۔”

“مجھے تسلیاں نہ دو لڑکوں کو نکالو،” حاجی نے دھاڑ کر کہا۔ پھر وہ اٹھا اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں جوزف کی طرف بڑھا۔

“دیکھو جوزف بھائی!” اس  نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی لجاجت بھرتے ہوئے کہا، “بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ تمھارا بیٹا ہوتا تو…”

حاجی نے  چونک کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور مجرموں کی طرح سر جھکا دیا۔ جوزف نے کڑے تیوروں اس کی طرف دیکھا۔ اس بار بھی حاجی ہی تھا جس کے بلانے پر چھیما اپنے ساتھی کے ساتھ گٹر صاف کرنے گیا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو احتیاط کے تقاضے پورے کر کے  گٹر کا ڈھکن کھلوا سکتا تھا اور اندر جمع شدہ گیس خارج ہونے تک انتظار کر سکتا تھا، لیکن اسے جانے کیا جلدی تھی کہ اس نے دباؤ ڈال کر انھیں مجبور کر دیا تھا۔

جوزف بے دم سا زمین پر بیٹھ گیا۔ اتنی کڑی آزمائش کب اس پر آئی تھی۔

تب حاجی نے اچانک  ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے جھک کر اس کے پاؤں پر اپنی ٹوپی رکھ دی اور نم آنکھوں سے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

“مجھے معلوم ہے جوزف بھائی کہ بچے اب تک زندہ نہیں ہوں گے۔ چلو جو اللہ کی رضا۔ مجھے ان کی لاشیں ہی مل جائیں تو تسلی تو ہو کہ اپنے ہاتھوں انہیں دفن کیا ہے۔”

جوزف نے گھوم کر دیکھا۔ اس کے گرد دس بارہ آدمی کھڑے تھے اور وہ ان کی التجا بھری نظروں کا مِحوَر تھا۔ اچانک ایک خیال نے اس کی الجھن ختم کر دی اور وہ جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

خداوند نے اسے اپنے زندہ ہونے کو ثابت کرنے کا موقع فراہم کر دیا تھا۔

اس نے ایک سیگریٹ سلگایا اور گہرے کَش لے کر اپنی ہمتوں کو سمیٹنے لگا۔ سیگریٹ کے آخری کش کے بعد معمول کی کھانسی کے بعد جب اس کا دھونکنی سا چلتا ہوا سینہ نارمل ہوا تو اس نے قمیض اتار دی اور شلوار کو رانوں تک چڑھا لیا۔

اس کے کہنے پر ایک لمبا اور موٹا رسا منگوایا گیا جسے اس کی کمر کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ماتھے پر کان کَنوں والی ٹارچ باندھ دی گئی۔ اور وہ  نعرہ ہائے تحسین کے جلو میں کمال سکون کے ساتھ خود رو گھاس کے سرکنڈوں کو تھام کر نیچے اتر گیا۔

کئی فٹ گہری سطح کو محسوس کرنے پر اس نے کمر سے بندھی رسی کھول دی اورٹارچ کی روشنی گھماتے ہوئے یہاں سے وہاں تک نالے کا جائزہ لیا۔

اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں پنجہ لڑانے سے پہلے اپنے حریف کے تیور بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نالہ بھی ایک پہلوان تھا جسے پچھاڑنے وہ اس کی جوہ میں اتر آیا تھا۔ وہ کچھ دیر پانی کی سیاہ کثافت کے کنارے کھڑے سوچا کیا اور پھر سینے پر کراس بناتے ہوئے اس نے پانی میں پاؤں ڈال دیے۔

وہ کبھی اچھا تیراک ہوا کرتا تھا لیکن وہ جوانی کی بات تھی۔ اب تو جانے کتنی مدت سے اس کے تلووں نے پانی کو چھوا بھی نہ تھا۔

نالے میں پانی زیادہ نہیں تھا، مشکل سے گھٹنوں تک آ رہا تھا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں چمکتے ہوئے پانی کو جانچنے والی نگاہوں سے دیکھا۔

پانی کا بہاؤ اتنا ضرور تھا کہ آٹھ دس سال کے بچے کو ٹھہرنے نہ دے۔ خود  اسے درپیش مسئلہ پانی کے بہاؤ کا نہیں کیچڑ کا تھا جو چلتے ہوئے اس کے پاؤں دبا رہا تھا۔

اسے نالے کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، لہٰذا وہ محتاط ہو کر قدم قدم چل رہا تھا۔ جانے آگے دلدل آنی ہے، یا پانی نے گہرا ہونا ہے اور پھر سانپوں کا دھڑکا الگ کہ کسی بھی وقت کوئی سانپ اس کی ٹانگوں سے لپٹ سکتا تھا۔

کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس پُر اسرار نالے میں اترنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا لیکن بائیومیٹرک مشین کو جھٹلانے کی دھن نے اسے وقتی طور پر خوف سے آزاد کر دیا تھا۔

اس نے ایک جگہ رک کر گھپ اندھیرے میں بچوں کو آواز دی، لیکن جواب میں خاموشی نے اس کے خدشے کی تصدیق کر دی۔ پانی کا بہاؤ انھیں کہیں آگے لے گیا تھا یا شاید کہیں وہ کیچڑ میں دب گئے ہوں گے۔

وہ انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد پکارتا آگے بڑھنے لگا کہ یکایک پانی اس کی ٹھوڑی تک آ گیا۔ کوئی گہرا گڑھا تھا جہاں پانی کی گہرائی یک دم زیادہ ہو گئی تھی۔

اسے غوطہ لگا تو اس نے پانی میں ہاتھ پاؤں چلانا شروع کر دیے۔ پیراکی کی مشقت اس کی ہمت سے سَوا تھی کہ اس عمر میں اس کا ماس ہڈیوں پر ڈھیلا پڑ چکا تھا، مگر اسے اپنی خُفتہ قوتوں کو کام میں لانا تھا۔

ذرا آگے پانی کی گہرائی کم ہوئی تو اس نے رک کر سانس کو متوازن کیا اور ایک بار پھر ہانک لگائی:

“چھیمے… او چھیمے!”

وہ چونک گیا۔ اسے گمان گزرا کہ اس نے پہلے بھی بچوں کو اسی نام سے پکارا ہو گا۔

اس پکار کے بعد اس نے حیرت سے محسوس کیا کہ اس کے بازووں اور پنڈلیوں کے گرد گوشت میں سختی آ رہی ہے اور تھکان کی جگہ توانائی نے لینا شروع کر دی ہے۔

اسے برسوں سے ایک ہی قلق کھائے جا رہا تھا کہ کاش وہ چھیمے کے ساتھ گٹر میں اترتا اور اسے باہر دھکیل کر اس کی جگہ خود مر جاتا۔ اب اسے قدرت نے چھیمے کو بچانے کا ایک عجیب سا موقع فراہم کر دیا تھا۔ اس نے اس گھپ اندھیرے میں غیب سے  کسی کو مدد کے لیے پکارنا چاہا تو بے اختیار اس کے مُنھ سے یسوع مسیح کی بَہ جائے بالمیک کا نام نکلا۔

وہ بالمیکی نہیں تھا بل کہ وہ ٹھیک طرح سے مسیحی بھی نہیں تھا، پھر بھی جانے کیسے اس کے مُنھ سے وہ نام نکلا جو کئی پشت پہلے اس کے بزرگوں کی دعاؤں اور مناجات کا مِحوَر ہوا کرتا تھا۔

اچانک اس کے علم میں لائے بغیر ایک خیال اس کے لا شعور میں جھلملایا۔ جو بات وہ نہیں جانتا تھا یہ تھی کہ بَہ ظاہر وہ نالے میں اپنے وجود کو ثابت کرنے اترا تھا لیکن نالے کی گہرائیوں میں پہنچ کر اس کی ڈیوٹی بدل گئی تھی۔ اب اسے جس چیلنج کا سامنا تھا وہ تھااپنے بالمیکی چوہڑے ہونے کو اعتبار بخشنے کا کہ وہ صدیوں کا بیٹا تھا اور اسے صدیوں طویل عزت کی جنگ میں ایک ہیرو کا کردار ادا کرنے کے لیے چن لیا گیا تھا۔

اس بار اس نے ایک گہری سانس لے کر پاؤں پاؤں آگے بڑھتے ہوئے دانستہ چھیمے کا نام پکارا کیوں کہ اس نے محسوس کیا کہ ہر بار جب وہ یہ نام لیتا تو اس کے منھ میں شیرینی گھل جاتی تھی۔

اسے فاصلے کا اندازہ تو نہیں تھا لیکن شاید وہ کافی دور نکل آیا تھا۔ ایک دو بار اسے لگا بھی کہ کوئی سانپ ایسی چیز اس کی پنڈلیوں سے مس ہوتی گزر گئی ہے لیکن وہ اس وقت صدیوں کا بیٹا تھا اور ہر خوف سے آزاد تھا۔

کچھ اور آگے جاکر جب پانی اس کے گھٹنوں سے نیچے تھا، کیچڑ دلدل جیسا نرم ہو گیا تھا اور وہ اسے اپنے وجود کا حصہ بنانے پر آمادہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے زور لگا کر اپنے پاؤں کیچڑ کی گرفت سے چھڑائے اور سرک کر کنارے پر ہو گیا جہاں زمین  قدرے سخت تھی۔

اسے خیال گزرا کہ دونوں بچے یہیں کہیں دلدل میں نہ دھنس گئے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی اس کا دل ڈوب گیا۔ اگر پانی کے زور سے بچے آگے نہ نکل پائے ہوں گے تو وہ اب تک اس دلدل کا رزق بن گئے ہوں گے۔

اس بھیانک امکان نے کچھ دیر کو اسے نالے کی دیوار کے ساتھ چپکائے رکھا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں دور تک غور سے دیکھا لیکن وہاں کیچڑ میں دھنسا کوئی وجود تھا نہ ایسے آثار تھے کہ انہیں کیچڑ نے نگل لیا ہو۔

وہ کیچڑ پر نظریں جمائے آگے بڑھا تو اچانک اس کے پاؤں گہرائی میں پڑے اور وہ پانی میں غوطے کھانے لگا۔ یہاں بھی کوئی گڑھا تھا جہاں سے پانی چکرا کر گزر رہا تھا۔ کوشش کر کے وہ  گھمن گھیری سے بچنے کے لیے کنارے کے ساتھ ساتھ تیرنے لگا۔

تیرتے ہوئے اچانک اس کا ماتھا کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ وہ بھنا کر رہ گیا اور اس کے مُنھ سے بے اختیار ماں کی گالی نکلی۔ اس نے غور کیا تو وہ  گئے  زمانوں کے کسی متروک پل کے لکڑی کےتختے تھے جو کیچڑ میں  آڑے ترچھے گڑے ہوئے تھے۔ وہ  ایک تختے کو تھام کر رک گیا کہ ذرا سانس بَہ حال کر لے۔

اچانک اسے لگا کہ کوئی انسانی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ہے۔ یقیناً یہ اس کی اپنی آواز کی بازگشت نہیں تھی۔ اس نے اس بار زیادہ بلند آواز میں پکارا تو اس بار زیادہ واضح جواب سنائی دیا۔ کوئی تھا جو وہیں کہیں تھا۔

اس بار اس نے تیزی سے ہاتھ پاؤں چلانا شروع کر دہے، ساتھ ہی شاوا شاوا کی آوازیں بھی مُنھ سے نکالنے لگا۔ اسے زیادہ دور نہیں جانا پڑا کہ ایک موٹی جڑ پر اس کا ہاتھ پڑا اور وہ اسے تھام کر رک گیا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی سے معلوم کیا کہ یہ کسی بوڑھے برگد کی پھیلی ہوئی جڑیں تھیں جو نالے کی چوڑائی کے آر پار تھیں۔

ان گتھی اور الجھی ہوئی جڑوں نے نالے پر ایک پل سا بنا دیا تھا مگر یہ قابلِ استعمال نہیں تھا کہ شاخیں زمین کی سطح سے کافی نیچے تھیں۔

“میں یہاں ہوں،” اچانک کسی بچے کی دبی دبی آواز سنائی دی۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا، آواز بہت قریب سے آئی تھی۔

جوزف نے جڑوں کے اس الجھے ہوئے سلسلے میں ٹارچ کی روشنی گھمائی تو دیکھا ایک لڑکا جڑوں کے گنجل میں سمٹا ہوا بیٹھا تھا۔ جوزف ایک دم سے پُر جوش ہو گیا۔

اس نے مزید نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ دوسرا لڑکا جو جسامت میں چھوٹا تھا ایک موٹی جڑ کو تھامے لٹک رہا تھا یوں کہ سر باہر اور دھڑ پانی کے اندر تھا۔ جوزف نے اسے ہلایا جلایا مگر کوئی حرکت نہ ہوئی۔ جوزف نے اندازہ لگایا کہ وہ زندہ تھا مگر مارے خوف کے بے ہوش ہو گیا تھا۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ بے ہوشی میں بھی جڑ پر اس کے ہاتھ کی گرفت کم زور نہ ہو پائی تھی ورنہ  وہ بہاؤ کے زور میں کہیں آگے نکل گیا ہوتا۔

جوزف کو دیکھتے ہی جڑوں کے اوپر بیٹھا لڑکا کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگا مگر خوف کےمارے اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ جوزف کو سمجھ آئی کہ پانی کے بہاؤ کے باعث بڑا لڑکا کسی طرح سے جڑ کے اوپر چڑھنے میں کام یاب ہو گیا تھا، جب کہ چھوٹا لڑکا اس کوشش میں دہشت کے مارے کام یاب نہ ہو سکا تھا۔

اس  نے سارا ماجرا سمجھ کر بڑے لڑکے کی ہمت بندھائی اور اسے واپس آنے کا کہہ کر چھوٹے لڑکے کی گرفت بَہ صد مشکل ڈھیلی کی اور اسے اپنی پشت پر جما کر پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت تیرنے لگا۔

برسوں  بعد اپنی موت سے ذرا پہلے اسے یاد کرنا تھا کہ کیسے کہانی نے اس کے نا تواں وجود کو ہیرو بننے کے لیے چن لیا تھا۔ اس روز جو ہوا وہ سب نا ممکن تھا جو جانے کیسے ممکن ہو گیا تھا۔

اسے یاد کرنا تھا کہ جب اس نے ایک ایک کر کے دونوں لڑکے کنارے پر اتار دیے تو انھیں زندہ پا کر وہاں موجود لوگوں خاص طور پر حاجی اور ان لڑکوں کے باپوں کی خوشی کو بیان کے دائرے میں لانا ممکن نہیں تھا۔

وہ پچھاڑیں کھا رہے تھے اور رو رو کر ہنس رہے تھے۔ جوزف کو یہ بھی یاد تھا کہ ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ رات کی تاریکی میں سنسان کنارے پر ایک فراموش کردہ وجود کی طرح پڑا تھا۔ البتہ وہ اپنی مٹھی میں ایک کرارے نوٹ کی چبھن محسوس کر سکتا تھا جو اس کی نیم بے ہوشی کے دوران کسی نے اس کی مٹھی میں ٹھونس دیا تھا۔

یہ تھا جوزف کی زندگی کا ایک دن جس کی نا معلوم طوالت کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی چارپائی پر پڑا تھا اور اس کا ایک بازو اس طرح پھیلا ہوا تھا جیسے اس نے مٹھی میں کوئی کرارا نوٹ دبا رکھا ہو۔

جوزف کو قدرے غیر واضح سا یاد رہا تھا کہ بھاگاں جو اس کی پائنتی لگی بیٹھی تھی سایہ سا اٹھی اور لاٹھی ٹیکتے باورچی خانے میں گئی۔

جب لوٹی تو اس کے ہاتھ میں چائے کا ایک خالی ڈبہ تھا۔ اس نے ڈبا اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھا اور اس کے ساتھ لگ کر بیٹھتے ہوئے رَسان سے کہنے لگی:

“جوزفا، پریشان کیوں ہوتا ہے۔ یہ دیکھو اس ڈبے میں بہت سے پیسے ہیں جو میں نے اپنے اور تمھارے کفن کے لیے جوڑ رکھے تھے۔ اب یہ پیسے ہمیں زندہ رکھنے کے کام آئیں گے۔”

جوزف نے بے خیال نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہے گئی:

“ایسی کئی وبائیں آئیں اور گئیں، ہم کیوں مریں خیری سلا۔ ہم مر گئے تو ہمارے ساتھ چھیما بھی مر جائے گا۔ کیا تو ایسا ہونے دے گا؟”

٭٭٭٭

About محمد عاطف علیم 26 Articles
محمد عاطف علیم شاعر، افسانہ اور ناول نگار ہیں۔ مشک پوری کی ملکہ اور گرد باد ان کے اب تک آنے والے ناول ہیں، جنہیں قارئین اور نقادوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔