مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ چہارم)

MH Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ چہارم)

از، پروفیسر محمد حسین

قرآن کے مخاطب ایسے لوگ تھے جو اخلاقی اور فکری لحاظ سے انحطاط کا شکار تھے۔

نسلی، علاقائی اور مذہبی اعتبار سے مختلف خانوں میں منقسم تھے۔ اناء پرستی،جہالت اور ہٹ دھرمی ان میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر قبائل کے ما بَین کئی سالوں تک جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔


مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ سوم)  از، پروفیسر محمد حسین چوہان


توہم پرستی اور بت پرستی عام تھی۔ ایسی بد اخلاق اور اجڈ قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے سب سے زیادہ پیغمبر سر زمینِ عرب پر مبعوث ہوئے۔

آپﷺ کی بِعثَت اور وصال کے بعد بھی فتنہ و انتشار کا سلسلہ جاری رہا، مگر سب سے بڑی بات کہ اکثریت توحید کے پرچم تلے اکھٹی ہو گئی۔

جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے۔ خلافت پر جگھڑے کھڑے ہوئے، تلواریں نیام سے باہر نکل آئیں، خلَفائے راشدین کو شہید کیا گیا۔ خوارج کے متشدد فرقے نے اس خانہ جنگی کو ہوا دی، نظری و فکری اختلاف پیدا کیے۔

دائرۂِ اسلام میں داخل ہونے کے با وُجود ثقافتی باقیات ان میں موجود رہیں، قبائلی تعصب ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ خانوادۂِ رسولﷺ کے ساتھ یَک گونہ تعصب قائم رہا۔ فرقۂِ اباضین، جو خوارج کی ہی ایک شاخ تھی نے، قران کو حادث و مخلوق قرار دیا، خدا کو عین صفات قرار دیا، جب کہ باقی مسلمانوں کا عقیدہ تھا کہ خدا قائم بِالذَّات ہے۔ مروَّجہ فرقے ایمان رکھنے کے قائل تھے، مگر عمل کے نہیں۔

پہلا اسلامی باغی فرقہ خارجی تھا جس نے جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کی، جن کا کہنا تھا کہ باغیوں کے ساتھ صلح جائز نہیں۔ ان کے نزدیک حضرت علیؓ کی خلافت جائز تھی اور معاویہ غلطی پر تھے۔ اس بناء پر معاویہ قابلِ گردن زدنی ہیں، کیوں کہ انھوں نے قرآنی حکم کی حکم عدولی کی۔

جب حضرت علیؓ نے معاویہ کی ثالثی قبول کر لی تو ان کے نزدیک حضرت علیؓ نے بھی کفر کیا۔ لہٰذا ان کے خلاف بھی جہاد فرض ہے۔

گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے۔ حضرت علیؓ کی شہادت بھی انھی کے ہاتھوں سے ہوئی اور حضرت عثمانؓ کی بھی۔ یہ عراقی بدوی اَکھڑ مزاج، متشدد اور متعصب تھے۔ قبیلہ پرستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

قبائلی عصبیت اور قرانی  آیات کے ظاہری مفہوم سے فتوے صادر کرتے تھے۔ لا حکم الا اللہ، یعنی اللہ کے بَہ غیر کسی کا حکم قبول نہیں کا ورد کرتے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، حفاظ تھے، تلاوت قرآنِ پاک میں مشغول رہتے، حدیث کے بر عکس قران کی آیات کو دلیلوں کے لیے بیان کرتے۔

اپنے سِوا سب کو کافر سمجھتے۔ جس سے فکری اختلاف ہوتا، حضرت عبداللہؓ، صحابئِ رسولﷺ نے جب خلیفۃُ المسلمیں کی خلافت اور حضرت علیؓ کی ثالثی کو جائز کہا تو ان کو زمین پر لٹا کر ذبح کر دیا، اور ان کی حاملہ بیوی کو قتل کر کے اس کا پیٹ چاک کر دیا۔

ان کی ذاتی نیکو کاری کا یہ عالم کہ ان کے ایک شخص نے اپنا ہاتھ اس لیے کاٹ دیا کہ اس نے غلطی سے کسی کے درخت سے کھجور  اتار لی تھی۔

جبریہ عقیدہ رکھتے تھے۔ سر کے بال منڈھوا رکھے ہوتے۔ پیشانیوں پر سجدوں کے نشان پڑے ہوتے۔ لیکن انسانی جان کی حرمت کی انہیں پروا تک نہ ہوتی۔

ان کی عورتیں بھی لڑاکا تھیں۔ ایک جنگ جُو عورت یہ اشعار پڑھتی تھیں کہ میرے سَر کے بوجھ کی وجہ سے میری گردن تھک گئی ہے، ہے کوئی جو میرا یہ بوجھ  اتار دے۔

عربوں کے اکھڑ پن کا یہ نمائندہ گروہ تھا جس کی وجہ سے ان کا پھیلایا ہوا فتنہ ایران، بغداد اور شمالی افریقہ تک پھیلا۔

اسلام میں حرف پرستی اور ناقص فہمِ قرآن رکھنے والی یہ پہلا فسادیوں کا فرقہ تھا، جس نے تشدد کا رستہ اختیار کیا۔

چھوٹی سی بات پر کفر کے فتوے لگاتے اور تلواریں نیام سے باہر نکال لیتے۔ حضرت علیؓ نے ان کا قلع قمع کر دیا تھا،مگر ان کے متشددانہ افکار و اثرات آج تک بعض مذہبی فرقوں میں موجود ہیں۔

آپﷺ نے ان کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ یہ قرآن پڑھیں گے، مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔

یہ تاریخ اسلام کی پہلی دہشت گرد تنظیم ہے جس نے اسلام کو کم زور کیا اور ایک غلط رجحان کی داغ بیل ڈالی۔ اسلام آنے کے با وجود قبائلی عصبیت و بدویت مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس جہالت و تعصب میں بھی اپنی روشن تعلیمات سے روشنیاں بکھیرتا رہا۔

اسی طرح چار مسالک شافعی، حنبلی، مالکی اور حنفی نے قران و حدیث کی تفسیر و تعبیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مگر ان مسالک میں بھی بعض اوقات اختلافات کی آگ بھڑک اٹھی۔

 470 ہجری میں  نظامیہ اور شافعیہ کے طلباء میں اختلافات کی چنگاری بھڑک اٹھی جسے بغداد میں ان کے  بیس افراد ہلاک ہو گئے۔ عباسیہ دور میں سب سے بڑے فتنہ کا ظہور ہوا۔ جس میں ایک طرف عقلیت پسند معتزلہ تھے اور دوسری طرف سنی العقیدہ مسلمان تھے۔

دوسری صدی ہجری میں ان کا ظہور ہوا۔ واصل بن عطا جو ایرانی النسل تھے اور خواجہ حسن بصریؒ کے شاگرد اپنے اختلاف کی وجہ سے ان سے الگ ہو گئے، اور انھوں نے ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈال دی۔

ان کے نظریات کو اتنی پذیرائی ملی کہ مامون کے دور میں معتزلہ ایک سرکاری مذہب بن گیا تھا۔ جن کے عقیدے کے پانچ اصول تھے۔ عدل سے مراد ان کے نزدیک عقیدۂِ تقدیر سے انکار ہے۔ ان کے نزدیک خدا شر کا خالق نہیں ہے۔ اگر اللہ کو شر کا خالق مانیں تو گُنہ گاروں کو سزا دینا ظلم ہو گا جو خلاف عدل ہے۔ جب کہ رب العزت عادل ہے ظالم نہیں۔

اس سے مترشح ہوا کہ انسان نیکی و برائی کرنے میں اختیار رکھتا ہے۔ توحید سے ان کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن مخلوق ہیں۔ اگر انھیں غیر مخلوق اور قائم بِالذّات مان لیا جائے تو تعدد قدماء لازم آتا ہے جو فلسفۂِ توحید کے بر عکس ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جو جو وعیدیں سنائی ہیں ان میں کوئی رد و بدل نہیں ہو گا۔ گنہ گار کو سزا ملے گی اور نیکو کار کو اجر ملے گا اور گنہ گار کی توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔

گناہِ کبیرہ کا مرتکب شخص ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا۔ گویا نہ وہ مسلمان رہتا ہے اور نہ کافر۔ یہ ایک تیسرے درجہ کا فرد ہوتا ہے۔ امرِ بالمعروف کا یہ مطلب ہے کہ جن اُمُور کے ہم مکلف ہیں ان پر عمل کریں اور دوسروں پر بھی ان کا نفاذ کریں۔ اگر امام نَواہی عنَ المنکر کا مرتکب ہو جائے تو اس کے خلاف جہاد کریں۔

معتزلہ نقل پر عقل کو ترجیح دیتے تھے۔ امام احمدؒ بن حنبل نے معتزلہ عقائد کا بڑی جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا جس کی پاداش میں عباسی خلیفہ نے انھیں کوڑے بھی مروائے، بل کہ عباسیوں نے معتزلہ کی مخالفت کرنے والے کئی عُلَماء کو قتل بھی کروا دیا۔

یہ اس عہد کا بہٹ بڑا فرقہ ورانہ انتشار تھا، مگر معتزلہ سخت صوم وصلوٰۃ کے پابند اور متقی و پرہیز گار مسلمان بھی تھے۔ علم و ادب اور سائنس و فلسفہ پر دست رَس رکھتے تھے۔ بحث و تمحیص اور مناظرے میں ہر مسلک کو شکست دے دیتے تھے۔

یہ بہت سی کتب و رسائل کے خالق تھے۔ عقل و دلیل سے بات کرتے تھے۔ یونانی فلسفہ کا ان کی تعلیمات پر گہرا اثر تھا۔ ان ہی کے افکار کی روشنی میں مسلمانوں نے سائنسی و علمی ترقی کی اور ان کے نظریات کے ماننے والے آج بھی دنیا بھر میں مسلمان موجود ہیں، اگر چِہ بظاہر اس فرقے کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ جب کہ اشاعرہ دین و ایمان پر پختگی سے قائم رہنے کی تعلیم دیتے تھے اور  روایت و نقل کو عقلیت پر فوقیت دیتے تھے۔ معتزلہ کی عقلیت پرستی و سائنسی ذوق کی اشاعرہ نے بڑھ چڑھ کر مخالفت کی۔

امام غزالیؒ نے سائنس و فلسفہ سے برأَت کا اعلان کیا اور ما بعدُ الطبعیات میں پناہ ڈھونڈی۔ حساب و طبعیات کے علم کی تحصیل کو غیر ضروری قرار دیا۔ جب کہ مشہور صوفی بزرگ علیؒ ہجویری نے بَہ مشکل طب، حساب اور نجوم کے حاصل کرنے کی اجازت دی۔

قرونِ اولیٰ میں جو تحصیلِ علم کی فرضیت اور کھوئی ہوئی میراث کا تصور  انھیں قریہ قریہ دیس بَہ دیس بحرِ علم میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کرتا تھا، وہ اڑان و اٹھان مذہبی جمود کی نذر ہو گئی اور متحرک فکر زوال پذیر ہو گئی۔

مذہبی گروہ بندیوں کے ساتھ علمی مکتبِ فکر بھی معرضِ وجود میں آ گئے، جن کا رجحان روایتی تھا۔

ملائیت نے انسانی فکر و نظر کو ایسے جکڑ لیا کہ تخلیقی و تعمیری سوچ کی راہوں پر الحاد و زندیق کے فتوے صادر ہونے لگے۔ اسماعیلی شیعہ گزشتہ عقلی روایت کے امین تھے، مگر دینی تعلیمات ان کے ہاں صرف بَہ راہِ نام رہ گئیں۔

اطاعت رسولﷺ کے بر عکس اپنی مَن مانی تشریح و تعبیر پر اکتفا کیا۔ شریعت کے بہت سے احکامات کے منکر ہو گئے۔ مگر فرقہ واریت کے بر عکس امن پسندی کو  فروغ دیا۔ یہ مَعادِ جسمانی کے قائل نہیں، یعنی جنت و دوزخ، پل صراط اور روز محشر صرف کنائے ہیں۔ ان کا حقیقی وجود نہیں۔

اللہ تعالیٰ، حضرت علیؓ، پھر دیگر اماموں میں حلول کر گئے ہیں۔ اس بناء پر یا علی کہنا نعوذ باللہ امام کی موجودگی کو ظاہر کرنا ہے، جب کہ موجودہ امام آغا خان کا طرزِ حیات مکمل طور پر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ ان کو باطنیہ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ قرآن کے ظاہری مفہوم کے بر عکس باطنی مفہوم کے قائل ہیں۔ اس بناء پر ظاہری عبادات کی پابندی ضروری نہیں۔

ایران میں ان کے روحانی بزرگ نے اپنے مریدوں کو شراب سے روزہ افطار کرایا کہ باطنیت کے لیے ظاہری رسوم و قیود لازمی نہیں۔ یہ باقی شیعہ کمیونٹی سے کافی حد تک مختلف ہیں۔

دنیا بھر میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ قرامطہ بھی اسماعیلیوں کا ہی فرقہ تھا جو حمدان کی روحانی پیشوائیت میں ان سے الگ ہو گیا۔

شروع شروع میں ان کی روحانی و خدمتِ خلق پر مبنی تعلیمات نے بہت سے لوگوں کو اپنے حلقۂِ ارادت میں شامل کر لیا۔ بعد میں اپنے ماننے والوں کے لیے ظاہری شریعت کی پابندی ختم کر دی اور لوگوں کو جھانسہ دیا کہ امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے، اس کی تیاری کر لو۔ انھوں نے خانۂِ کعبہ پر بھی حملہ کیا۔ حجرِ اسود اٹھا کر لے گئے۔

حاجیوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہے، عباسیوں کے خلاف بھی حملہ آور ہوئے۔ اور ایران، بغداد اور مکہ مکرمہ میں قتل ریزی و لوٹ مار میں شریک رہے۔ یہ لوگ فتنہ پرور اور جعلی روحانیت و جھوٹ کی تبلیغ کرتے تھے۔

مسلمانوں کو ان سے بہت صدمات اٹھانے پڑے۔ بوہرہ فرقہ امام جعفر صادقؑ کے بعد کسی امام کو نہیں مانتا۔ مگر دوسرے شیعہ مکاتبِ فکر کی طرح خُلَفائے راشدین کی خلافت کو جائز نہیں سمجھتے۔

رافضی، بوہرے، آغا خانی، باطنی کی فکر زردشتی و یونانی فکر و فلسفہ سے زیادہ ہم آہنگ ہے ان کے افکار پر ایقانیت کے بر عکس عقلیت و تغیر کا فلسفہ حاوی ہے۔  فرقہ زیدیہ سنیوں کے زیادہ قریب ہے۔ اثنائے عشری تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ خالص جعفری مواحد اور سُنتِ رسولﷺ کے پابند ہیں۔

وہابیوں کی حرف پرستی کے بر عکس اسلام کی عقلی روح کے قائل ہیں۔ جس کی طرح حضرت علیؓ اور امام جعفر صادق نے ڈالی تھی۔ شیعہ فرقوں کے ذاتی اختلافات اسی طرح ہیں جس طرح سنیوں کے آپس میں ہیں۔

حسن بن صباح قلعہ الموت کا تعلق شیعہ فرقہ سے تھا، جس کی وجہ سے گیارہویں اور بارہویں صدی میں بڑے بڑے مسلم اکابرین و عُلَماء و مشائخ کو قتل کیا گیا۔

مصر کے فاطمیوں کا تعلق اسماعیلیوں اور حسن بن صباح سے قائم تھا۔ مگر بہ حیثیت مجموعی سنی و شیعہ کے عقائد و نظریات میں تضاد و تفاوق نے مسلم امہ کو بہت زیادہ نقصان سے ہم کنار کیا۔ جس سے مسلم فکر فروعات کے دائرے میں مقید ہو گئی۔

طبعی دنیا کی تسخیر اور اپنے نظم و نسق کی درستی کی طرف مائل نہیں ہو سکی۔ اپنے حقیقی مسائل پر فرقہ واریت کی چادر بچھ گئی اور ان کے بلندئِ پرواز کے لیے پر کٹ گئے۔ یہ سب کچھ فرقہ واریت کی بَہ دولت ہوا۔

قومی ترقی و اتحاد کے لیے مذہبی عقائد و نظریات سے بالا تر ہو کر سوچنا ہوتا  ہے۔ عقیدہ انسان کا نجی مسئلہ ہے۔ اس کو اس وقت تک نہیں چھیڑنا چاہیے جب تک وہ نَقصِ امن کا موجب نہ بنے۔

اسلام کو بیرونی سازشوں اور حملوں سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا داخلی انتشار و فرقہ وارایت سے پہنچا ہے۔ مگر فرقہ واریت کے پھیلانے میں مغربی ممالک کی ایجنسیوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ جہاں خالص عقلی و جمہوری روح مسلمانوں میں بیدار ہوتی ہوئی نظر آئی وہاں اسلام دشمن طاقتوں نے ہر طرح کی کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، جیسے امام خمینی کا انقلاب۔

اسلامی تعلیمات و عقائد کے بگاڑ میں فرقہ ورانہ ادب اور مَن مانی تشریح و تعبیر کا بڑا اہم کردار ہے۔ اسلام کے ظہور سے پہلے دیگر بڑے مذاہب میں یونانی فلسفہ کے افکار داخل ہو چکے تھے۔ عرب بت پرست، مشرکانہ عقاید رکھتے تھے۔ نسلی و علاقائی تعصب ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اسلام لانے کے بعد بھی بنو ہاشم سے ان کے دلوں میں کینہ نہیں گیا کیوں کہ بنو ہاشم نے ان قبائل کی اجارہ داری اور انانیت پر کاری ضرب لگا دی تھی۔ ایران اور عراق کے لوگوں میں یونانی فلسفہ کے اثرات کے ساتھ مجوسیت، زرتشتیت، مزدکیت اور خیال پرستانہ افکار کی رنگ آمیزی موجود تھی۔

توحید کا خالص نظریہ قائم نہیں تھا۔ باد شاہوں کو ظلِّ الٰہی اور خدا کی صفات سے متصف جانا جا تا تھا۔ شخصیت پرستی عام تھی، عیسائیت و یہودیت کے ماننے والے تھے۔ جس طرح عرب قبائل میں بدویت غالب تھی اس طرح عراق و ایران کے باشندوں میں کثرت آرائی اور توہم پرستی کے ساتھ ساتھ دہریت و نو افلاطونیت اور وحدت الوجودی فلسفہ مذہبی افکار کا حصہ بن چکا تھا۔

اس بنا پر عربوں کے اسلامی نظریۂِ توحید اور ان ممالک کے باشندوں کے نظریات میں ٹکراؤ پیدا ہوا۔ دائرۂِ اسلام میں داخل ہونے کے با وجود فکری انتشار قائم رہا۔ فرقوں کا ظہور ہوتا رہا اور چپقلش قائم رہی۔

جس کا سب سے زیادہ برے اثرات نظریۂِ توحید پر پڑے۔ جس کی بنا پر دو واضح فرقے شیعہ و سنی معرض وجود میں آئے سنیوں نے اسلام کی بنیادی اور سادہ تعلیمات پر سختی سے عمل کیا۔ جب کہ شیعہ مکتبِ فکر کے ہاں افکار و نظریات کا تنوع دیکھنے میں آیا، جو ثقافتی اثرات کا نتیجہ ہے۔

عقائد و نظریات کے اس تنوع کا قُرونِ اولیٰ کے ابتدائی اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو آج ایک مذہب کا رنگ اختیار کر چکا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف فرقوں کے ظہور سے اسلام کے فلسفۂِ توحید کو زک پہنچی۔ اس میں طرح طرح کی آمیزش کی گئی۔

ابتدائی چند صدیوں میں کسی بھی فرقے کے ما بین نظریۂِ توحید پر اختلاف نہیں تھا۔ خدا ذات وصفات میں سب کے نزدیک یکتا تھا، مگر بعد میں باہمی چپقلش و ہٹ دھرمی اور ضد بازی نے اولیاء، شہداء، صوفیاء اور اماموں کو بھی خدائی صفات میں شریک کر لیا۔

خدا کے کاموں میں یہ بزرگ ہستیاں بھی شامل ہو گئیں۔ لوگوں کے عقاید بگڑتے چلے گئے۔ مشرکانہ عقاید کی مَنبر و محراب سے تبلیغ ہونے لگی۔ ایران و ہندوستان اور وسط ایشیا میں صوفی مسلک سے وابستہ اور ان سے عقیدت رکھنے والوں کے عقیدۂِ توحید اور اسلاف کے عقیدۂِ توحید میں واضح فرق پیدا ہو گیا۔

شروع کے سیاسی اختلافات بھلائے جا سکتے تھے، مگر عقیدۂِ توحید پر راسخ مسلمان گروہ سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اہلِ حدیث نے اپنے اسلاف کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھا۔

نظریۂِ توحید پر پہرہ دیا مگر جامد حرف پرستی اور عقلیت دشمنی نے ہر شعبۂِ حیات میں ان کے تخلیقی سوتے خشک کر دیے۔

ایرانیوں کی اسلامی فکر پر تاریخی مذاہب کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے سید امیر علی روحِ اسلام میں رقم طراز ہیں:

سنی مذہب کی افسردہ طبع ایران کی آب و ہوا کے زیرِ اثر ایک رنگیں خیال فلسفے میں تبدیل ہو گئی۔ حضرت علیؓ کی شخصیت نے مانویت کے تخیل کو اکسا دیا۔

حضرت عیسیٰ کی شخصیت کی طرح وہ بھی لوگوں کے تصور میں ایک سماوی جوہر بن گئی۔ انسان کو خدا بنانے کا یہ عمل حضرت علیؓ تک محدود نہیں تھا۔

ان کے جانشینوں کو بھی خدائی کا رتبہ دے دیا گیا۔ چناں چِہ سنی مسلک کی طرح شیعہ مسلک کے بھی دو پہلو ہیں۔

ایک تو وہ سیدھا سادا اور خالص تشیُّع ہے، جو پیغمبرِ اسلام ﷺ کے ابتدائی جانشینوں کا مسلک تھا۔

دوسرا وہ روح پرستانہ تشیُّع ہے جو توہمات کا ایک مجموعہ ہے اور جن لوگوں میں وہ پھیلا ان کے قدیم عقاید کے زیرِ اثر اصلی تشیع کی ایک بگڑہ ہوئی صورت ہے۔

پھر انتہا پسندانہ تشیُّع، روح پرستانہ تشیع سے اتنا ہی مختلف ہے، جتنا انتہا پسندانہ سنی مسلک۔

مسلمانوں کی تاریخ کا غالب حصہ فرقہ پرستی کی نذر ہو گیا اور اس طرح ان کی ہر طرح کی ترقی کا عمل متاثر ہوا اور یہ عمل زوال کا سبب بنتا رہا۔