مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ سوم)

MH Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ سوم)

 از، پروفیسر محمد حسین چوہان

پُر امن اور خوش حال معاشرے کی بنیادی صفت لوگوں کی بلند اخلاقی ہے۔ بلند اخلاقی سماجی نظم کو نہ صرف درست سمت میں قائم رکھتی ہے، بَل کہ اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد و یقین کی فضا بھی پیدا کرتی ہے۔

عوام اور حکام کے ما بین عزت و اخوت کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ شہری ریاست کے لیے ہر طرح کی قُربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

جہاں حکام قانون کے تابع ہوں اور عوام قانون کا خوشی سے احترام کرتے ہوں یہیں سے قوم کے اجتماعی اخلاق کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں اور ان کے درمیان قومی وحدت پیدا ہوتی ہے۔

فرد کی اخلاقی ذمے داری، قانون کا احترام اور عدل و انصاف کی پاس داری کرنی بھی ہے۔

اخلاقی قوت، باہمی تعاون اور انصاف کے بین بین کام کر رہی ہوتی ہے۔ جہاں عدم توازن ہو گا وہاں اخلاقی بگاڑ کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ بلند اخلاقی، قوت ارادی اور بہترین اجتماعی نظم سے بھی پیدا ہوتی ہے، اور آپ نے بَہ حیثیت ایک فرد جھوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی اور نو سر بازی سے بھی بچنا ہے۔ رشوت اور کمیشن خوری کے خلاف بھی سینہ سپر ہونا ہے۔ تعصب و جہالت سے بھی نبرد آزما ہونا ہے۔

اخلاقیات کسی بھی غیر موزوں اور نقصان دِہ اَمر کی اجازت نہیں دیتا۔ اخلاق کا تعلق صرف جنس سے نہیں، بل کہ یہ سماجی اصلاح کا فلسفہ ہے۔

جس قوم میں اخلاقی برتری قائم ہو، وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی اور اس کی سب سے بڑی صفت انصاف ہے۔ اخلاق عملی و منطقی دلیلوں کا رہینِ منت ہوتا ہے اور اصول اور قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔


اس  مضمون کی دیگر اقساط کے لنک

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسط اوّل)

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ دوم)


اخلاق ذاتی اغراض سے بلند ہو کر سوچنے اور عمل کرنے کا نام ہے۔ جو قوم بد عنوان حکم رانوں کا بَہ خوشی انتخاب کرتی ہے، اور اپنی عمومی زندگی میں تعصب و جانب داری سے فیصلے کرتی ہے وہاں کے سماج کی ہیئت اجتماعی بد نُما و بھونڈی ہو جاتی ہے۔

مسلمانوں کی حکم رانی اور عروج کی پہلی پانچ صدیوں میں اخلاقی پہلو غالب رہا، اگر چِہ وہ اتنا آج کی طرح کا ترقی یافتہ دور نہیں تھا۔ مگر انھوں نے اس قبائلی و زرعی عہد میں حسنِ اخلاق کی بہترین مثالیں قائم کیں۔ کیوں کہ اخلاق بھی علم کی ایک لطیف شاخ ہے اور جہاں حسنِ اخلاق ہو وہاں صحراؤں میں بھی پھول اگ آتے ہیں۔

نبی اکرمﷺ کی ذاتی زندگی بھی حسنِ اخلاق کا ایک بہترین نمونہ تھی، جس نے نسلی تعصب، علاقائی بُتّوں اور سماجی تفریق کی نفی کر دی تھی۔ انسان کو مرکزیت بخشی تھی۔

علم و تقویٰ کا ایک جامع تصور دے کر انسانی فضیلت کا معیار متعیّن کیا تھا۔ ایک بہترین انسان کی اتنی جامع تعریف نہیں ہو سکتی۔

برائی کے خاتمے کے تین درجے، یعنی ہاتھ، زبان اور دل سے برا جاننا اخلاقِ عملی کا بہترین نمونہ ہے، جس سے ایک متعصب و جاہل معاشرے میں قانون و اصول اور رواداری کا حامل نظم قائم ہوا اور اس کے اثرات کئی صدیوں تک قائم رہے۔

اخلاق کی بلندی کی حامل یہ تہذیب اس وقت رُو بہ زوال ہوئی جب اخلاق باختگی حکم رانوں کی رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ خاندانوں کی حکم رانی اور بادشاہت کا آغاز ہوا۔ قبائلی، نسلی اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر سیاست کی جانے لگی۔

حکم ران احتساب سے آزاد ہو گئے۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود ہو گیا۔ طبقاتی تفریق بڑھنے لگی۔ شام و ایران کی فتوحات سے جب زمینیں ان کے ہاتھ لگیں اور خوب صورت عورتیں مالِ غنیمت کے طور پر ان کے حرم میں داخل ہوئیں تو عربوں کی نیت کے ساتھ ان کی کایا بھی پلٹ گئی۔

جاگیر داری کی داغ بیل پڑنے لگی۔ عوام اور حکم رانوں کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی۔ طبقاتی تفریق میں نمایاں اضافہ ہوا۔ معاشی انصاف کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔

غربت، جھوٹ، قتل، ڈاکے، دھوکا دہی، بد امنی کا چلن عام ہوا جو ہمیں وسط ایشیائی ریاستوں اور پاک و ہند میں میں نظر آتا ہے۔ شخصی و خاندانی حکم رانی کا آغاز بنُو اُمیہ کے عہد سے ہو چکا تھا جس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں اور یہ رِیت بعد میں بھی چلتی رہی۔

لیکن اس کے با وُجود اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاس رکھا گیا، اور اس کی جھلک بعد میں آنے والے ادوار میں بھی ملتی رہی۔ مگر بَہ حیثیتِ مجموعی عباسیہ کے زوال کے بعد اخلاقی تنزل اور سیاسی بد نظمی جو عالَمِ اسلام میں دیکھنے میں آئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ایک بھی بہترین جمہوری ماڈل یہ پیش نہیں کر سکے۔ مسلمان قوم مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تعصبات کا شکار ہے۔ علم کی بَہ جائے ہر چیز کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں جس کی بناء پر آج بد عنوانی اور جھوٹ عام ہے۔

عقلی و منطقی سوچ مثل عنقا ہے، نا انصافی سے معاشرے کھوکھلے ہو گئے ہیں۔ توہم پرستی سے سائنسی اندازِ فکر اور طرزِ عمل پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ایک غیر تخلیقی اور غیر اخلاقی قوم کی شناخت ہوئی ہے۔ مسلم اُمّہ کا کوئی بھی عمل اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے  استناد کا درجہ نہیں رکھتا۔ کیوں کہ اخلاق اپنے اندر سائنسی و منطقی اصول رکھتا ہے اور یہ جہالت، تعصب و توہم پرستی کی پوجا کرتے ہیں۔

علمی کلچر اعلیٰ اخلاقی قدروں کے بَہ غیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ مطالعۂِ نفس اور مطالعۂِ کائنات دونوں مل کر ایک  اخلاقی سماج کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ مغربی معاشروں کو ماڈل بنا کر اس لیے پیش کیا جاتا ہے کہ وہاں کے شہری قانون و اصول کے پابند ہیں اور حکام بھی۔

یہی اخلاقی برتری ہے جس نے امن و خوش حالی کو جنم دیا اور سائنسی و مادی ترقی بھی بلند اخلاق کے حامل معاشروں میں ہوتی ہے۔ غربت جہالت اور اخلاق باختگی ہمیشہ ایک ہی جگہ پروان چڑھتے ہیں، جہاں معاشی عدل نہ ہو اور حکم ران اور عوامی طبقے میں وسیع طبقاتی تفریق ہو۔

ترقی یافتہ اقوام میں انقلابی تحریکوں نے اس لیے جنم لیا کہ وہاں نا انصافی و سماجی تفریق حد سے بڑھ گئی تھی اور انسانی اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ تمام انقلابِ دہر کے پیچھے اخلاقی قوت کارِ فرما تھی جب کہ مسلمان اس کو اخلاقی مسئلہ سمجھتے ہی نہیں۔

جو قوم اپنے سسٹم کو درست نہیں کر سکتی کبھی بھی اخلاق کی حامل نہیں ہو سکتی، اور مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اخلاقی لحاظ سے انھوں نے اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنا چھوڑ دیا ہے۔

اچھائی اور برائی کا تصور جنس و عبادات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ معاشی استِحصال، سماجی برائیاں، طبقاتی تفریق، نسلی و علاقائی تعصبات، ماحولیاتی آلودگی اور محکوم اقوام کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھنا ان کے قومی اخلاق سے نکل چکے ہیں۔

عقلِ فعال جو عقل و اخلاق کی روح ہے، اس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ طبقات اپنے ذاتی فائدے کے لیے باہم دست و گریبان ہیں۔ جن کے خلاف ان کے اسلاف نے میدانِ کار زار سجایا اور انھوں نے ایسے مسائل سے مجرمانہ غفلت برتی اور خاموشی اختیار کی۔ اخلاق اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کی ایک بلند تر فعال عقلی قوت ہے، جسے پس ماندہ اقوام نے کام لینا چھوڑ دیا ہے۔

بل کہ ذاتی مفاد کے لیے برائی کا ساتھ دینا ایک سیاسی اخلاق کا حصہ بن گیا ہے۔ جب کہ کسی قوم کا سیاسی اخلاق اس قوم کے عمومی عوامی اخلاق کا تعین کرتا ہے۔ مقتدر طبقات کا اخلاق عام فرد کا اخلاق نہیں ہو سکتا، اگر ان کا اخلاق عوامی اخلاق کا آیئنہ دار ہو تو سمجھو تفریق مٹ گئی ہے۔

انقلاب و مزاحمتی تحریکوں میں کسی قوم کا اخلاقی فلسفہ و ضمیر کی بیداری ایک بڑی قوت محرّکہ کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے جس میں تعلیمی فلسفہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

سماجی سائنس میں سماجی حرکیات کے پہلووں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جو اخلاقی و ذہنی تربیت کرتی ہے۔ مسلمانوں کے دینی و دُنیَوی نصاب میں تاریخ و سماجی سائنس کا حرکیاتی پہلو سِرے سے موجود نہیں ہے۔ تمام مکاتبِ فکر اور فرقوں کے اندر انقلابی روح نا پید ہو چکی ہے۔ بل کہ تقلید، جمود و اطاعت اور شخصیات کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

صرف کفر و ایمان کی تعلیم سے تبدیلیاں رُو نما نہیں ہوتیں اور نہ اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے۔ اب لازمی ہو گیا ہے کہ مسلم معاشروں میں تعلیمی نصاب کو عوامی امنگوں اور ضرورتوں کے مطابق تشکیل دیا جائے، تا کہ عقلیت و روحانیت کا جدید مادیّت کے ساتھ رشتہ قائم ہو سکے۔

غیر علمی و غیر عقلی اختلاف اگر چِہ غیر اخلاقی نہیں ہوتا مگر اخلاق بگاڑنے میں بھی اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔

جو چیز بد امنی، نفرت و انتشار و تعصب جیسے جذبات کو بَر انگیختہ کرے اس کو اخلاق کے دائرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

فرقہ ورائیت علم و اخلاق کی دشمن ہے۔ امن و ترقی کا خاتمہ کرتی ہے۔ اتحاد و ہم آہنگی کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔ ترقی کے تمام راستے مسدُود ہوجاتے ہیں۔ انسانی ذہن کو بے آب و گیاہ صحرا کی مانند بنا دیتی ہے، جہاں روئیدگی کبھی پیدا نہیں ہوتی۔

سائنسی طرزِ فکر و طرزِ عمل کی جگہ نا معقولیت اور کَج فہمی پیدا کرتی ہے، معاشرتی ترقی اور انسانی امن تباہ کر کے غربت، جہالت اور خوف پیدا کرتی ہے۔ جہاں فرقہ پرستی ہو وہاں انسانوں کا امن و خوشی سے رہنا محال ہو جاتا ہے، جس میں مذہبی، نسلی، علاقائی و لسانی تعصب نمایاں طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

پس ماندہ معاشروں کی ایک بڑی شناخت فرقہ ورائیت بھی ہوتی ہے۔ وہ اپنے حقیقی مسائل حل نہیں کرنا چاہتے، یا ان کے حل کا شعور نہیں ہوتا ہے۔

فرقہ ورائیت سے آزاد معاشرے علمی و سائنسی ترقی کی معراج تک پہنچتے ہیں اور ان کے حقیقی سماجی مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔

جب کہ فرقہ ورانہ ماحول میں معاشرتی ترقی کا سفر ایک طرف سست ہو جاتا ہے اور دوسری طرف عوام کا استِحصال کرنے والے طبقات کو مزید لوٹنے کا موقع مل جاتا ہے، کیوں کہ فرقہ بندی انسان کو حقیقی مسائل کی طرف سوچنے ہی نہیں دیتی اور وہاں عقلی و فکری اور سائنسی رجحانات پیدا نہیں ہو سکتے۔

سیاسی انقلابی تحریکوں کو پنپنے کا بھی یہ موقع نییں دیتی، جس سے کسی ملک کی سیاسی معاشیات درست ہو سکے۔ کسی بھی سوسائٹی کے ارتقاء کو روکنے میں فرقہ ورائیت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔

تعصب و فرقہ ورائیت سے جب کوئی قوم بالا تر ہو جاتی ہے تو وہ سائنسی مزاج کی مالک بن جاتی ہے اور ہر طرح کے تعصبات کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے، جہاں انسانیت و آدمیت ہی سب کا مشترکہ مذہب قرار پاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھی دیکھا جائے تو فرقہ پرستی کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ بل کہ قرآنِ مجید انسانوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے: اللہ وہی ہے جس نے تمھیں مٹی کے گارے سے پیدا کیا۔

دوسری جگہ ارشادِ ربّانی ہے کہ وہی ہے جس نے تمھاری، اور کیمیائی حیات کی ابتدا، پیدائشِ مٹی سے کی، یعنی قرآن تمام انسانوں کو تخلیقی لحاظ سے ایک ہی زُمرے میں شامل کرتا ہے، جہاں انسان بلا تفریقِ رنگ، مذہب و نسل کے تخلیقی و فطری لحاظ سے ایک ہی انسانیت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔

قرآن نے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و یگانت کی تعلیم دی ہے اور فرقہ پرستی کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ کیوں کہ فرقہ پرست فتنہ پرور ہوتا ہے۔

اللہ کی رسی یعنی قران کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں فرقہ فرقہ نہ کرو۔

پھر قرآن واضح ہدایت آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے، ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ، جنھوں نے نشانیاں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور بٹ گئے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے، اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں، جو آپ کو نہ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر آپ ایسا کریں گے تو یقیناً ظالموں سے ہو جائیں گے۔

ایک انصاری شخص نے آواز لگائی، اے انصاریو، تو دوسرے نے صدا لگائی، اے مہاجرو۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا، جاہلانہ نعرے کیوں لگا رہے ہو، انھیں ترک کر دو یہ بدبُو دار ہیں۔ سورۃ انفال میں ارشادِ ربانی ہے، تنازعات میں مت پڑو ورنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔

فرقہ ورائیت سے بچنے کے لیے قرآنِ حکیم اور متعدد احادیثِ مبارکہ میں تنبیہ کی گئی ہے، تا کہ امت فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہو جائے کیوں کہ فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔

علمی و مذہبی اختلاف میں دلیل و استدلال سے کام لینے پر زور دیا گیا ہے اور پھر صبر و خاموشی اختیار کرنے کا کہا گیا ہے، بَہ جائے اس کے فتوے صادر کر کے کسی کو گردن زدنی و زندیق قرار دینا اور انتشار پیدا کرنا۔

(جاری ہے …)