مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ اول)

Professor M Hussain Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ اول)

عملی و تجربی دنیا میں وہ الٰہیات سے بھی جڑی رہتی ہے، جہاں عقیدہ اور عمل و تجربہ باہم مل کر ایک نظریۂِ علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ سائنسی و تجربی عُلُوم کی تحصیل میں امکانات کی دنیا وسیع ہے۔ ایک نئی آن و شان کا ظہور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ تیقّن کے ساتھ عدم تیقن قائم رہتا ہے۔ تشکیک کے دَر وا رہتے ہیں۔ انسانیت کی بقاء اصلاح اور فائدے کے لیے علم کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔

 از، پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمان اور دیگر اقوام کی فکری ساخت اور بنیاد میں بنیادی فرق نظریۂِ علم کا ہے۔ مسلم فکر میں عقیدہ و ایمان بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ جب کہ باقی مذاہب و اقوام میں عقیدے کو علم کے دائرۂِ کار میں شامل نہیں کیا جاتا۔

ان کے نظامِ فکر میں تجربہ ہی علم کی بنیادی شرط ہے۔ جب تک مشاہدہ تجربی تصدیق کا حامل نہیں بن جاتا، علمی استناد کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ باقی دیگر سماجی عُلُوم کو سائنس کا رتبہ حاصل نہیں جو تصدیقی سائنسی عُلُوم کو حاصل ہے۔

سماجی عُلُوم فطری عُلُوم کا منطقی تسلسل و اظہار ہیں۔ رہا مسئلہ نفسی و ما بعدُ الطّبعیاتی عُلُوم کا تو یہ کسی کی انفرادی سوچ اور عقیدے پر منحصر ہے۔ ان کو مفادِ عامہ اور افادیت پسندی کے لیے عمومیت اور لازمیّت کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔

ساتھ ساتھ افادی علم غیر یقینی بھی ہے۔ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس تبدیلی کی لہروں میں غوطہ زن ہو کر معنی کے نئے جہان تلاش کرنے ہوتے ہیں۔ جس سے انسانی ضروریات و سہولیات کے نئے امکان پیدا ہوتے ہیں۔

جدید تہذیب کی بنیادیں عقیدے کے بر عکس، تجربی و افادی عُلُوم پر قائم ہیں۔ جن کی تصدیق حواس اور عقل و شُعُور بھی کرتے ہیں، جیسے انسان نے فطری جبر اور قدرتی آفات پر قابو پایا ہے اور سماجی مسائل حل کیے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں روحانیت اور مثالیّت پسندی ایک انفرادی سوچ سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔


یہ بھی ملاحظہ کیجیے:

علم اور تشکیک  از، عاکف محمود

کیا علمی نظریات بھی یہودی، عیسائی، ہندو یا مسلمان ہو سکتے ہیں؟  از، اورنگ زیب نیازی

گلیلیو کی شہرت: سائنسی سوانح نگاری کے ساقی نے کچھ ملا بھی دیا ہے! از، یاسر چٹھہ


اس نظریۂِ علم کے تحت روحانی بالیدگی اور انفرادی خودی کی تعمیر و تشکیل سماجی مسائل کے حل کے بَہ غیر ممکن نہیں اور انفرادی خودی، اجتماعی خودی کی ترقی کے بَہ غیر بھی پنپ نہیں سکتی۔

قوتِ ارادی کے چراغ سے سارے ماحول کو روشن نہیں کیا جا سکتا، جب تک سماج کی اجتماعی حرکت میں جوہری قوتیں مسلسل گردش نہ کر رہی ہوں۔ ورنہ تناقصات و تضادات کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔

مثالیت پسندی کے نا قابلِ فہم قضیّوں کو انسانی فکر نے علم و تجربے کی روشنی میں حل کرنے کی کی کام یاب کوششیں کی ہیں، اور عقیدہ و ایمان کو الگ رکھ کر علمی سفر کو تیز تر کیا ہے۔ اگر عقیدے کی عینک سے علم کو پرکھنے کی کوشش کی جاتی تو علم و عقیدہ مسائل کی دلدل میں ہی گُھتم گھتھا ہوتے اور انسانی تہذیب گھٹنوں کے بَل چل رہی ہوتی۔

اگر اسلامی نظام فکر کا بَہ غور مطالعہ کیا جائے تو اس کی فکری ساخت موجودہ نظامِ فکر سے مختلف واقع ہو ئی ہے۔ اس میں نظریۂِ علم کے حوالے سے جامعیت نظر آتی ہے۔ ہم اسلامی فکر کو اس کی تنگ دامانی کا طعنہ نہیں دے سکتے کہ سائنسی و تجربی عُلُوم کے حصول کی اس میں ترغیبات نہیں ہیں۔ مگر عقیدہ و ایمان اس کی بنیادی شرائط ہیں۔

الٰہیات اور غیب پر ایمان لانا لازمی ہے۔ اس کے بِہ غیر انائے مطلق سے انفرادی خودی اپنا حقِّ تخلیق ادا نہیں کر سکتی۔ حقیقتِ مطلقہ سے ربط قائم رکھتے ہوئے بَہ طورِ نائب وہ اپنا عملی فریضہ سر انجام دیتی ہے۔

عملی و تجربی دنیا میں وہ الٰہیات سے بھی جڑی رہتی ہے، جہاں عقیدہ اور عمل و تجربہ باہم مل کر ایک نظریۂِ علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ سائنسی و تجربی عُلُوم کی تحصیل میں امکانات کی دنیا وسیع ہے۔ ایک نئی آن و شان کا ظہور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ تیقّن کے ساتھ عدم تیقن قائم رہتا ہے۔ تشکیک کے دَر وا رہتے ہیں۔ انسانیت کی بقاء اصلاح اور فائدے کے لیے علم کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔

اسلام کی اساسی فکر میں فائدہ مند علم کو بہترین علم قرار دیا گیا ہے۔ علمِ  کائنات کے ساتھ ساتھ علمِ نفس پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ جب کہ جدید تہذیب میں علمِ نفس کو اضافی قرار دیا گیا ہے جو معاشی و سائنسی علم کے زیرِ اثر پروان چڑھتا ہے۔

اس بناء پر جدید فکر میں تجربی و افادی عُلُوم ہی انسانی بقاء و سالمیت کے لیے کافی ہیں۔ انسانی احتیاج و ضروریات کی تشفی کے بَہ غیر انسانی نفس کی تسکین بھی نہیں ہو سکتی۔

عقیدے کی پختگی اور مصمم ارادے تخلیقی عمل کو سست اور شک و شبے میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ تخلیقی عمل کو مکمل انفرادی آزادی اور اجتماعی تعاون درکار ہوتا ہے۔ اس کے بَہ غیر فرد کا کوئی بھی تجربہ بَہ طریقِ احسن پایۂِ تکمیل تک پہنچ نہیں سکتا۔

الٰہیاتی فکر مییں ذاتی تجربے کو الُوہی رضا کا پابند ہونا پڑتا ہے، جب کہ جدید تہذیب کے فرزند کو علم بَہ راہِ علم تک محدود رہ کر اپنی منزل کے سفر کو مختصر کرنا ہوتا ہے تا کِہ نتائج جلدی حاصل ہو سکیں۔

عیسائیت اور دیگر مذاہب میں بھی تخلیقیت اور انفرادی آزادی کی راہ میں بھی الٰہیّت آڑے آتی رہی، اور اسلام کی عمل و تجربی فکر بھی اس متصوفانہ اسلوب سے دامن بچا نہیں سکی۔

اسلامی نظریۂِ علم کے دائرۂِ کار میں  وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ علمُ الابدان اور علم الاَدیان دونوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

مادی و نفسی دونوں مسائل کو بیان کرتا ہے۔ الٰہیات اس کی سرشت میں ہے۔ روحانیت کو مادیت پر تفوق حاصل ہے۔

طبیعی عُلُوم تغیر پذیر اور غیر یقینی ہیں جب کہ الٰہیات نا قابلِ گرفت ہونے کے با وجود عقیدہ و ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔

اس بناء پرمادی عُلُوم کی تحصیل کو الُوہیت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ جس میں کنفیوژن، اور بعض اوقات تحصیلِ علم میں تعطل و سست رفتاری پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ علمی کاوشوں کو دوسری جانب سے سندِ جواز حاصل کرنی پڑتی ہے۔

تاریخِ اسلام کے ہر دور میں عقل و عقیدے کی آپس میں محاذ آرائی دیکھنے کو ملی۔ اس انتشار کا بڑا سبب فکرِ اسلامی میں تضاد کے بر عکس اس کی تعبیر تھی۔ علماء،حکماء اور صوفیاء کے ما بین نظری اختلافات نے افادی سائنسی علم کی ترقی کے عمل کو روک دیا۔

علم کی سرپرستی و ترقی کے لیے معاون قوتوں، یعنی اربابِ بست و کشاد کو نہ ہی ترجیحی بنیادوں پر ترغیب دی گئی  اور نہ ہی آزاد علمی رجحانات کے فروغ کے لیے ماحول سازگار بنیا یا گیا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ فطرت کی تسخیر کرنے کے بر عکس باطن پرستی کی طرف رجحان میں اضافہ ہوا۔

ایجادات و انکشافات کرنا تو دور کی بات، کسی بھی نئی ایجاد کو قبول کرنے میں ان کو کئی عشرے لگ گئے۔ یہ حال تمام مکاتب فکر کا ہے۔ یہ علم و اخلاق کا باہمی تعلق ڈھو نڈھتے رہے۔ ان کو اس چیز کا احساس نہیں ہوا کہ ہر نئی اختراع و ایجاد فی نَفسہٖ مسلمان ہوتی ہے، یعنی انسانی احتیاج و ضروت کو پورا کرتی ہے۔

اشیاء کے تصرف میں علم اخلاق و نفس فیصلہ کرتے ہیں۔ ایجاد و اختراع میں محنت، تحقیق اور ترغیب کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اور ریاست کی آشیر باد شامل ہوتی ہے۔ مگر مسلم دینی مکاتبِ فکر نے اس معاملہ میں حوصلہ شکنی کا مظاہرہ کیا۔

عُلُوم کی تحصیل و فرضیت کو بھول گئے کہ بَہ قول حدیثِ نبویؐ، حکمت اور دانائی مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے بھی وہ ملے حاصل کر لو۔

علم کے حصول و فرضیت اور ترغیب پر کئی احادیث اور قرآنی احکامات ہیں۔

ارشاد نبویؐ ہے، علم حاصل کرو، کیوں کہ جو شخص راہِ حق میں علم حاصل کرتا ہے، وہ ایک کارِ تقویٰ انجام دیتا ہے۔ جو شخص اس کا ذکر کرتا ہے، وہ خدا کی حمد و ثنا کرتا ہے، جو شخص اس کی جستجو کرتا ہے، وہ خدا کی عبادت کرتا ہے، جو شخص علم کو دوسروں تک پہنچاتا ہے، وہ خیرات تقسیم کرتا ہے۔ جو شخص ایسے لوگوں کو، جو علم کے اہل ہیں، علم بخشتا ہے وہ ایک عمل صالِح کرتا ہے۔

علم جس کے پاس ہو اس کو اس امر کی استعداد عطا کرتا ہے کہ ممنوعہ اور غیر ممنوعہ چیزوں میں امتیاز کر سکے۔ وہ ہمارے لیے آسمان کی شمعِ راہ ہے۔ وہ صحرا میں ہمارا رَہبر، خَلوت میں ہمارا انیس اور بے یاری کے عالم میں ہمارا یار ہے۔ وہ خوشی میں ہمیں راہِ راست پر رکھتا ہے۔ اور غم میں ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔ وہ دوستوں کی بزم میں ہماری زینت ہے اور عرصہ رزم میں حربۂِ دفاع۔

علم کی مدد سے خدا کا بندہ نیکی کی بلندیوں کو پا لیتا  ہے، شرف کے مدارج حاصل کرتا ہے، اس دنیا میں بادشاہوں کا ہم صحبت بنتا ہے اور دوسری دنیا میں سعادتِ ابدی سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

عالم کی رُوشنائی شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا گیا:

صانعِ حقیقی کے کاموں پر ایک گھنٹے کا تأمل ستر سالوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ علم و حکمت کا سبق سننے میں ہزار شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھنے، یا ہزار راتیں قائم الصلوٰۃ رہنے سے زیادہ ثواب ہے۔ سائنس کی باتوں کا سننا اور سائنس کے سبقوں کا دل نشین کرنا مذہبی ریاضتوں سے بہتر ہے۔ جو شخص علم کو زندگی بخشتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔

اس سے زیادہ جامِع علم کی تعریف و ترغیب کیا ہو سکتی ہے۔ اس میں کسی مخصوص شعبۂِ علم کا حصول مراد نہیں ہے، بل کہ غیر مشروط طور پر تمام عُلُوم و فنون کو حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے۔

اس میں وسعت و کشادہ دامنی بھی ہے اور بَہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو طبعی و سائنسی عُلُوم کی تحصیل سرِ فہرست آتی ہے، کیوں کہ دینی عُلُوم تو مسلمانوں کی جماعت میں پہلے سے موجود تھے۔

انھوں نے دیگر کلچرز اور اقوام سے ہی کچھ حاصل کرنا تھا۔ جس میں جد و جہد اور کاوش سے کام لینا تھا۔

قرونِ وسطیٰ تک مسلم حکم رانوں نے دوسری اقوام سے کسبِ فیض کیا۔ علم و تجربہ کو تحصیل علم کے لیے ضروری قرار دیا۔

افلاطون کے نظریہ کے بر عکس ارسطو کے تَتبَّع میں تجربہ و مشاہدہ کو اپنایا گیا۔ مسلم سائنس دانوں نے علم کی دنیا میں ایک نئی تہذیب کی بناء ڈالی۔

آٹھویں صدی تا بارہویں صدی تک سائنسی و معاشرتی عُلُوم میں ان کا ڈنکا بجتا رہا۔ سپین، بغداد اور وسطِ ایشیاء میں جو تہذیبی و معنوی کلچر کی بنیادیں پڑیں اس میں دوسری اقوام سے حاصل کیے گئے علمی نظریات کا بڑا عمل دخل ہے۔

یونانی عُلُوم و نظریات کی تحصیل و فروغ میں مسلمانوں کا بڑا کردار ہے۔

پروفیسر جرمانوس کے مطابق:

عربوں کی یہ تہذیب انتخابی، یعنی خذ ما صفا ودع ما کدر کے اصول پر مبنی تھی۔

انھوں نے ہر اس چیز کو منتخب کیا اور اپنایا، جو قرونِ وسطیٰ میں ایک حد تک حریت پسندانہ رجحان کی حامل تھی۔ دوسری اقوام سے عُلُوم و فنون علمی و سائنسی نظریات، نظم و نسق کے اصول، قواعد و ضوابط کی تحصیل کا یہ سلسلہ شد و مد کے ساتھ جاری و ساری رہا۔

جنگی اصولوں میں جاسوسی کے ذریعے دوسروں کی معلومات اور جنگی حربے حاصل کیے گئے۔ طبعی و سائنسی عُلُوم میں یونان، ایران، شام اور ہندوستان سے کسبِ فیض کیا۔

آپ ﷺ کے وصال 632 کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور 1258 تک ایک شان دار علمی و سائنسی تہذیب سپین سے لے کر چین و ہندوستان کیی سرحدوں تک قائم ہو گئی۔ شمالی عرب کے ساحلِ سمندر سے لے کر ہندوستان، انڈونیشیا، سنگاپور کے ذریعے چین تک مسلمانوں کے تجارتی بیڑوں نے پانیوں پر قبضہ جما رکھا تھا۔

تجارت اور دولت کی فراوانی نے وہ آسودگی بخشی جِسے عُلُوم و فنون کی تحصیل و ترقی ممکن ہوئی۔

چوں کہ سائنسی عُلُوم کی ترقی میں حکومتوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ حکومتوں کی پشت پناہی کے بَہ غیر تجربی عُلُوم کی تحصیل نا ممکن ہو جاتی ہے۔ صرف خانقاہی تصوف ہی فروغ پا سکتا ہے۔

اگر چِہ اسلامی تعلیمات پر گزشتہ ادیان اور کلچرز کے اثرات موجود تھے۔ توحیدی تعلیمات ایک جیسی تھیں۔ یونانی فلسفہ کے افکار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر عرب خارجی زندگی، یعنی فطرت کو پسند کرتے تھے۔

اس بناء پر انھوں نے باطن پرستی اور تصوف کے بر عکس تجربات و مشاہدات کو علمی حصول  کے لیے اختیار کیا۔

پہلی ڈیڑھ صدی میں  مسلم فکر پر فلسفیانہ افکار کی چھاپ نہیں تھی۔ ایمان، خلوص، عفو و درگذر، اخلاص، خشوع و خضوع جیسی صفات غالب تھیں۔ جس میں عبادت و ریاضت اور اَکلِ حلال و مشقت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

مگر علم کی چنگاری ان کے سینوں میں موجود تھی۔ امیر معاویہ کے پوتے نے یونانی آگ کے گولے کا استعمال دشمن کے جہازوں کو شکست دینے کے لیے کیا۔ اور یہ ترکیب انھوں نے کسی شخص کے ذریعے یونانیوں سے حاصل کی۔

بعد ازاں عراق کے کنووں سے آتشیں مادہ حاصل کر کے آگ کے گولے دشمن کے لشکروں پر پھینکے گئے اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ یعنی اس دور میں ایمان و عقیدے کی پختگی کے ساتھ تجربی عُلُوم کی تحصیل کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

760 بغداد میں عباسی حکومت کی داغ بیل پڑنے کے ساتھ ہی علم و سائنس  اور دیگر عُلُوم میں انقلاب خیز ترقی کا دور شروع ہوا۔ جس میں عقلی و سائنسی عُلُوم کو بہت ترقی نصیب ہوئی۔

مامون فلسفہ و سائنس کے خود بھی بہت بڑے شیدائی تھے۔ ان کے دربار میں بڑے بڑے حکماء موجود رہتے تھے۔ خود بھی عقلیت پرست تھے۔ دوسری طرف معتزلہ کی تحریک نے بھی جلا بخشی۔

معتزلہ کے نظریات جو بَہ راہ راست یونانی فلسفے سے مستعار تھے، علم کی ترقی میں بڑے معاون ثابت ہوئے۔

معتزلہ کی تعلیمات اور عباسیہ خاندان کی کاوشوں سے عقلیت اور تجربیت کو فروغ ملا۔ سپین اور بغداد دو ایسے علمی مراکز تھے جہاں تصنیف و تالیف اور یونانی کتب کے تراجم کیے گئے اور یہ کام سرکار کی سرپرستی میں ہوتا تھا۔ زراعت و صنعت میں وسیع ترقی ہوئی۔

ایران کا بہترین کپڑا یورپ کی خواتین و حضرات بڑے شوق سے زیبِ تن کرتے تھے۔ کپاس اور درختوں کی چھال سے بہترین کاغذ کی تیاری شروع ہوئی۔ اعلیٰ قسم کے مسالے اور خوشبویات کی دنیا بھر میں طلب ہونے لگی۔

سائنس و فلسفہ کی کتب کے تراجم سے یورپ بیدار ہونے لگا۔ طب کی دنیا میں نئی نئی دریافت اور نسخوں نے مردہ جسموں میں جان بخش دی۔

رواداری اور روشن خیالی نے عُلُوم و فنون کی ترقی کے راستے کو آسان کر دیا۔ بَہ قول محمد زکریا ورک، آٹھویں صدی سے تیرہویں تک اسلامی تہذیب نے جن جلیل القدر عالموں کو جنم دیا، ان میں سائنسی عُلُوم میں جابر بن حیان، الکندی، ابن بیطار، ابن الہیشم، میڈیسن میں زکریا رازی، ابن سینا، الزاہراوی، ابن اظہر، ابن ظہر، ریاضی اور علم ہیت میں الخوارزمی، ثابن ابن قرات، عمر خیام، ابو الوفا، نصیر الدین الطوسی؛ فلسفہ میں الفارابی، ابن سینا، الغزالی، ابن رشد، فخر الدین رازی، علم تاریخ میں الطبری، ابن اشیر، ابن خلدون؛ جغرافیہ میں المسعودی، الادریسی، ابن حوقل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

مغربی درس گاہوں میں ان عالموں کو پڑھایا جاتا تھا۔ علم و فکر میں جتنی آزادی اور حکومتی سر پرستی ہو، وہ اتنا ہی تیزی سے پھلتا پھولتا ہے۔ کوئی بھی انسانی معاشرہ علمی ترقی کے بَہ غیر  آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جمہوری آزادیاں اور صاحبِ بصیرت حکم رانوں کے بَہ غیر علمی معراج حاصل نہیں ہو سکتی۔

مسلمانوں کی اتنی معنی خیز تہذیب و ترقی میں بنیادی کردار علم کا تھا اور وہ علم بلا جھجک انھوں نے غیر اقوام سے مستعار لیا اور اس میں اضافے بھی کیے۔

وہ علم کو انسانیت کی مشترکہ میراث سمجھتے تھے۔ وہ جتنے مُوجد تھے اتنے ہی نقال بھی تھے۔ علم میں نقل و اکتساب بھی با عث خیر ہوتا ہے۔ جس طرح آج چینی قوم کا عُلُوم و فنون کی ایجاد میں حصہ کم ہے، مگر کسبِ فیض میں زیادہ ہے اور اسی کسبِ فیض کے نتیجے میں دنیا کی ایک عظیم طاقت کا دم بھر رہی ہے۔

علم کو مذہب کی سر پرستی سے آزاد کر دینے سے تیزی سے فروغ پاتا ہے، کیوں کہ مذہبی کٹر پسندی نے ہمیشہ اس کی تحصیل میں روڑے اٹکائے ہیں۔ جب کہ فکرِ اسلامی اس کے لیے تنگئِ داماں کا کبھی مظاہرہ نہیں کرتی، مگر اس کی مختلف تعبیریں انسانی عقل کو زنجیریں پہنا دیتی ہیں۔

سقوطِ بغداد تک ایک بہترین تجربی و سائنسی تہذیب کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ دین کی متحرک فکر کی جلوہ نمائیاں ہر شعبۂِ حیات میں موجود تھیں۔ یونانی، ایرانی اور ہندی عُلُوم منظم شکل میں تہذیب کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔

علم و عمل کا باہمی تعلقق قائم ہو چکا تھا۔ تھیوریاں پریکٹس میں ڈھلنے کے لیے بے تاب تھیں۔ سائنسی عُلَمائے فکرِ اسلامی کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس عہد کا ہر سائنس دان بَہ یک وقت فلسفے  اور دین کا عالم بھی ہوتا تھا۔

دینی و فقہی عُلُوم اپنا الگ کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ انتخابی تہذیب، شہد کی مکھی کی طرح ہر پھول سے مٹھاس چوس لیتی تھی۔ عربوں کا کہنا تھا کہ جو اچھی چیز ملے اس کو لے لو اور بری کو ترک کر دو۔

علمی نظریات میں کسی مخصوص دائرۂِ کار کے پابند نہیں تھے۔ ان کے نظامِ فکر میں معنی خیزی و ترقی پسندی بنیادی جوہر کی حیثیت رکھتے تھے۔ سائنسی طرز فکر و طرز عمل نے تکثیری کلچر کو فروغ دیا۔ ایمان و ایقان کے ساتھ عقلیت و تجربیت کی تجسیم مثالی تھی۔ انسان کی بَہ طور انسان شناخت ممکن ہوئی۔

مساوات کے نظریہ نے ہر رنگ و نسل کے درمیان امتیاز مٹا دیے۔ رواداری نے علم کو  پنپنے اور پھیلنے کے مواقع فراہم کیے۔ اسلامی فکر میں اتنی قوت ضرور تھی کہ خلافت کی ملُوکیَّت میں تبدیلی اور باہمی قبائلی انتشار و عصبیت کے با وجود علم کی قندیلیں اصحاب و خانوادۂِ رسولﷺ نے جلائے رکھیں۔

٭٭یہ مضمون پروفیسر محمد حسین چوہان کے اس موضوع پر مضامین کے سلسلے کا پہلا حصہ ہے۔ اس سلسلے کی باقی اقساط روزانہ کی بنیاد پر ہفتہ بھر کے لیے شائع ہوتی رہیں گی۔