کرفیو

رفاقت حیات

کرفیو

افسانہ از، رفاقت حیات

جب فاروق کے والد کا تبادلہ چھوٹے شہر سے بڑے شہر ہونے لگا، تو جہاں اس کا دل بڑے شہر میں میسر آنے والی نت نئی رنگا رنگ تفریحات کے خیال سے سرشار تھا، وہیں اس کا دل بڑے شہر پر طاری ہو نے والی ایک عجیب و غریب کیفیت یا حالت دیکھنے کے لیے بھی مچل رہا تھا، جس کے بارے میں اس نے طرح طرح کی باتیں سن رکھی تھیں کہ جب وہ عجیب و غریب کیفیت یا حالت بڑے شہر کی گلیوں، محلوں، بازاروں اور سڑکوں پر طاری ہوتی، تو یکا یک چہار جانب سناٹا چھا جاتا، جیسے بڑے شہر پر کسی دیو کا سایہ پھر گیا ہو۔

چاروں طرف ہُو کے عالم میں صرف اُڑن طشتری جیسی برق رفتار گاڑیاں شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں بے آواز فراٹے بھرا کرتیں اور طویل فاصلے چند ساعتوں میں طے کرتیں۔ بڑے شہر پر طاری ہونے والی اُس عجیب و غریب کیفیت یا حالت کے دوران، خلائی مخلوق جیسا لباس پہنے اجنبی لوگ تمام علاقوں کے چوراہوں اور گلی کوچوں بازاروں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے۔ مقامی لوگ جن کی زبان بالکل نہ سمجھتے اور انہیں اپنا مدعا سمجھانے کے لیے وہ اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے۔

فاروق نے چھوٹے شہر میں گزرنے والی اپنی زندگی میں ایسی چیزوں کا تصور تک نہیں کیا تھا، اسی لیے اپنے والد کے تبادلے کی خبر سنتے ہی اس کی نیند اچاٹ ہو گئی اور وہ رات دن بڑے شہر کی طلسماتی اور سحر انگیز فضا کے متعلق سوچنے اور اسے اپنے طریقے سے محسوس کرنے لگا۔

فاروق کو پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی جادوئی دنیا سے تعلق رکھنے والی کہانیاں پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا۔ اس کی ذہنی دنیا میں علی بابا، عمرو عیار، سند باد جہازی اور حاتم طائی جیسے کردار، جیتے جاگتے سانس لیتے انسانوں کی طرح تھے۔ وہ اکثر انہیں اپنے تخیل میں چلتے پھرتے دیکھا کرتا اور راتوں کو سوتے ہوئے خوابوں میں اُن کے ساتھ مختلف مہمات سر کرتا پھرتا۔ پھر نہ جانے کب کسی دوست نے اسے ایک جاسوسی ناول پڑھنے کو دیا اوراس کی ذہنی دنیا کہانیوں کی ایک نئی جہت سے آشنا ہوئی۔ یہاں اس کی ملاقات ایک نئے کردار عمران سے ہوئی اور وہ اس کردار کا ایسا اسیر ہوا کہ طلسماتی دنیا سے نکل کر، اُس کی انگلی تھام کر، اس کے ساتھ ہو لیا۔

اب وہ خود کو عمران کی سیکرٹ سروس کا با قاعدہ رکن خیال کرنے لگا۔ اب وہ جاسوسی کی نت نئی مہمات میں عمران کا ہم رکاب رہنے لگا۔ اب اکثر جب وہ گھر سے نکلتا، تو اسے گلی سے گزرتے ہوئے راہ گیر، دشمن ملک کی سیکرٹ سروس کے ایجنٹ محسوس ہوتے اور وہ خود کو عمران سمجھتے ہوئے ان کا تعاقب کرتا۔ کچھ دور جا کر اسے اپنا یہ تعاقب لا حاصل محسوس ہوتا اور اسے وہ کام یاد آ جاتا جس سے اس کی والدہ نے اسے بازار بھیجا ہوتا۔

یہ شاید اس کے تخیل میں آباد، سنسنی خیز ی سے معمور دنیا کے اثرات ہی تھے، جن کی بدولت اس نے بڑے شہر پر اچانک طاری ہونے والی اُس کیفیت یا حالت کے بارے میں سنا تو اسے وہ بہت حد تک اپنے ذہن میں آباد دنیا کے مماثل محسوس کر لیا۔ وہ جلد از جلد بڑے شہر پہنچ کر اس صورتِ حال کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا۔ اس خواہش کے ساتھ اس کے دل کے کسی گوشے میں اُس تنہائی کا خوف بھی دُبکا ہوا تھا، وہاں پہنچ کر اس کا جس سے سابقہ پڑنے والا تھا۔ اسے جتنے دوست اور ہم جولی یہاں پر میسر تھے معلوم نہیں بڑے شہر میں بھی میسر آئیں گے کہ نہیں۔

چھوٹے شہر سے بڑے شہر تک کا سفر فاروق کی زندگی کا ایک کبھی نہ بھلانے والا سفر تھا۔ وہ اپنے والد، والدہ اور دو چھوٹے بھائیوں کی معیت میں، ایک کار میں سوار، جسے اس کے والد چلا رہے تھے،بڑے شہر کی جانب رواں تھا۔ گرد و پیش کے دل چسپ مناظر کے ساتھ ساتھ آسمان پر اڑتے ہوئے بادل بھی پیچھے کی طرف دوڑتے ہوئے گزر رہے تھے۔ اونچی نیچی ڈھلانوں سے گزرتی، گھومتی اور بَل کھاتی سڑک کسی سیاہ اژدہے جیسی معلوم ہوتی تھی۔

راستے میں آس پاس چھوٹی بڑی پہاڑیاں دیکھ کر فاروق کے ذہن میں غار کا خیال آیا۔ اُس غار کا خیال، جس کے باہر کھڑا ہو کر علی بابا کہا کرتا تھا، ’’کُھل جا سِم سِم‘‘۔ اور وہ غار اپنا دہانہ کھول دیا کرتا تھا۔

فاروق نے سوچا کہ وہ غار بھی کسی ایسے ہی علاقے میں واقع ہو گا۔ یہ سوچتے سوچتے فاروق کی نظر دائیں جانب پڑی۔ کار ایک ڈھلان کی بلندی سے گزر رہی تھی اور اس بلندی سے دائیں طرف، بہت دور اسے نیلے پانی سے بھری ہوئی ایک پیالہ نما گول جگہ دکھائی دی۔ کافی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے وہ اسے نظر بھر کر نہیں دیکھ سکا۔ اسے گمان گزرا کہ نیلے پانی سے بھری اس پیالہ نما جگہ کا منظر اس کی نظروں کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے الف لیلیٰ کے کرداروں کو صحراؤں میں سفر کے دوران نخلستان یا پانی کے ذخیرے دکھائی دیتے تھے۔ مگر کچھ دیر بعد جب کار اگلی ڈھلان کی چڑھائی چڑھ کر اس کی بلندی تک پہنچی تو اس نے فوراً دائیں جانب نگاہ کی۔ نیلے پانی سے بھری پیالہ نما جگہ کو دو بارہ دیکھتے ہی اس نے شور مچا دیا۔ اس کے شور مچانے پر اس کے والد نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تو اس نے ان سے کچھ دیر کے لیے گاڑی روکنے کی درخواست کر دی۔ اس کے والد نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سڑک پر بائیں جانب آہستگی سے گاڑی روک دی۔


مزید و متعلقہ:  خانے اور خوف  افسانہ از، منزہ احتشام گوندل

مائرہ کا گیت  از، نصیر احمد


فاروق نے کار کا دروازہ کھولتے ہی سڑک پر دائیں طرف دوڑ لگا دی۔ اسے جاتا دیکھ کر اس کے دونوں چھوٹے بھائی بھی مچلنے لگے۔ اس کی والدہ نے انہیں ڈانٹ کر کار سے نیچے اترنے سے روکا۔ ابھی فاروق بہ مشکل سڑک کے درمیان پہنچا ہو گا کہ اس کے والد کی غضب ناک آواز نے اسے بھی آگے بڑھنے سے روک لیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے والد اسے واپس آنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ سڑک بالکل خالی تھی۔ اس لیے وہ سر جھکائے فوراً ہی والد کے قریب پہنچ گیا۔

اس کے والد نے خفگی سے پوچھ، ’’تم نے کار کیوں رکوائی؟ اور یہ تم بھاگ کر کہاں جا رہے تھے؟‘‘

فاروق نے پریشانی سے پلٹتے اور نیلے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ ابو، وہ نیلا پانی…‘‘ وہ جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکا اور ہکلا کر چپ ہو گیا۔

اس کے والد نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دائیں طرف بہت دور دکھائی دینے والی پیالہ نما جگہ کی جانب دیکھا تو مسکرانے لگے۔’’ تم کار میں بیٹھو، پھر تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کیا ہے؟‘‘

فاروق مُنھ بسورتے ہوئے کار میں اگلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا اور بار بار بے تابی سے گردن موڑ موڑ کر پیالے میں بند نیلے پانی کی جانب دیکھنے لگا۔ اس کی والدہ اس کی سرزنش کرنے لگیں، تو اس نے فرماں برداری سے والدہ کی ڈانٹ سن کر اپنا سر جھکا لیا۔ اس کے والد نے گاڑی اسٹارٹ کی اور چند ہی لمحوں میں گاڑی اُس ڈھلان سے نیچے اتر گئی۔ فاروق بے تابی سے اپنے والد کے گویا ہونے کا منتظر تھا۔

اس کے والد کھنکار کر اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اس سے گویا ہوئے۔ ’’تم جس منظر کو دیکھ کر بے چین ہو رہے تھے، وہ در اصل ایک مصنوعی جھیل تھی۔‘‘

’’مصنوعی جھیل‘‘

اس کے والد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’ہاں، پانی کی مصنوعی جھیل۔ کئی برس پہلے جب بڑے شہر میں پانی کے سب کنویں خشک ہو گئے، تو بڑے شہر کے اس وقت کے پارسی میئر نے سوچا کہ بڑے شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے پانی کا مستقل بند و بست ہونا چاہیے۔ سو اس نے بیرونِ ملک سے انجینئر بلائے۔ انہوں نے یہ مصنوعی جھیل بنوائی، جسے دریا سے نکالی جانے والی نہر کے ذریعے سیراب کیا گیا۔‘‘

فاروق اپنے والد کی معلومات سے مرعوب تو ہوا مگر اسے ان باتوں سے زیادہ دل چسپی اُس جھیل کو قریب سے دیکھنے سے تھی۔ جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا تو انہوں نے اسے بتایا کہ وہ جھیل کی طرف جانے والے سبھی رستوں کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ انہوں نے فاروق سے وعدہ کیا کہ کچھ عرصے بعد وہ ان سب کو جھیل کی سیر کروانے لے جائیں گے۔

اِس کے بعد فاروق سارے رستے نیلے پانی کی اُس پیالہ نما جھیل کا تصور ہی باندھتا رہا۔ تصور باندھتے باندھتے اچانک اس کی آنکھ لگ گئی اور اس نے خواب میں خود کو نیلے پانی کے کنارے کنارے چلتے دیکھا۔ نیلا پانی جو بے آواز چھپاکوں کے ساتھ کناروں سے ٹکرا رہا تھا۔ پانی میں چند کشتیاں تیر رہی تھیں، جن کے ملاح اپنے بدن کی پوری قوت سے چپو چلانے میں مصروف تھے۔ جھیل کے کنارے وہ جس مقام پر کھڑا تھا، ایک کشتی دھیرے دھیرے وہاں آ کر ٹھہر گئی۔ ملاح نے اجنبی زبان میں اس سے کچھ کہا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ ملاح کا بڑھتا ہاتھ دیکھ کر ٹھٹھک کے رہ گیا۔ وہ پیچھے ہٹنے لگا مگر ملاح نے آگے بڑھ کر اس کی مرضی کے خلاف اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کے ہاتھ کی گرفت مضبوط تھی۔ فاروق پیچھے ہٹنا چاہتا تھا لیکن ملاح نے اسے زور سے کشتی کی طرف کھینچا۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے کشتی کی طرف اپنا پاؤں بڑھایا۔ جیسے ہی اس کا پاؤں کشتی پر پڑنے لگا، کشتی وہاں سے غائب ہو گئی اور فاروق پانی میں گرنے لگا۔

پانی میں گرنے کے خوف سے اس نے خفیف سی چینخ ماری اور جُھرجُھری لیتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ بیداری پر اس نے دیکھا کہ ایک اجنبی گلی کے دونوں طرف بنے ہوئے مکانوں کے اوپر آسمان گہرا سُرمئی ہو رہا تھا۔ شام ڈھل چکی تھی۔ کار میں اس کے سوا کوئی موجود نہیں تھا اور کار ایک مکان کے سامنے کھڑی تھی، جس کا آہنی پھاٹک پورے کا پورا کا کھلا ہوا تھا۔

فاروق آنکھیں مسلتا ہوا کار سے نیچے اترنے ہی والا تھا کہ اس کا چھوٹا بھائی دوڑتا ہوا آہنی پھاٹک سے بر آمد ہوا اور اسے کار سے اترتے دیکھ کر خوشی سے چلایا۔’’ بھیا،ہم بڑے شہر میں اپنے نئے گھر پہنچ گئے‘‘۔ چھوٹے بھائی کی بات سن کر وہ بادلِ نخواستہ مسکرایا اور اس کے ساتھ نئے گھر کے پھاٹک کی طرف چل دیا۔

اگلے دو تین روز وہ اپنے بھائیوں اور والدہ کے ساتھ نئے گھر میں سامان، ترتیب اور سلیقے سے رکھنے میں مصروف رہا۔ اِس کام نے اس کے جسم پر ایسی تھکن طاری کی کہ وہ خواہش کے با وجود گھر سے باہر قدم بھی نہ نکال سکا۔ اس کے والد نے بھی اسے تاکید کی تھی کہ نئے شہر میں گھر سے باہر زیادہ نہ نکلے، اگر مجبوراً نکلنا ہی پڑے تو زیادہ دور تک نہ جائے۔ اسی لیے دوسرے روز اس کی والدہ نے اس سے اشیائے صرف کی فہرست بنوانے کے بعد جب اسے روپے دے کر سامان لانے کے لیے باہر بھیجا تو انہوں نے بھی اس کے والد کی تاکید کو دُہرایا، جسے سنتے ہوئے اس نے فرماں برداری سے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔

اس نے اندازہ لگایا تھا کہ گھر سے باہر نکلتے ہی بڑے شہر پر طاری ہونے والی اس عجیب و غریب کیفیت یا حالت کے کچھ آثار اس پر ہوِیدا ہونے لگیں گے۔ مگر گلی میں چلتے ہوئے جب ایک راہ گیر اس کے قریب سے گزرا تو فاروق نے اپنی نظروں سے اس کا چہرہ ٹٹولنے کی کوشش کی۔ اسے راہ گیر کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ یا پریشانی کے آثار دکھائی نہیں دیے۔ و ہ کچھ اور آگے بڑھا تو سب گلیوں کو ملانے والی درمیانی گلی میں اسے ایک دکان دکھائی دے گئی۔ وہ اس دُکان سے گزر کر آگے جانا چاہتا تھا مگر والدین کی جانب سے کی جانے والی تاکید نے اس کے قدم روک لیے۔ وہ اس دُکان پر گیا اور اس نے جیب سے فہرست نکال کر دکان دار کے ہاتھوں میں تھما دی۔ دکان دار فہرست دیکھ دیکھ کر اطمینان سے سامان نکالنے لگا۔ اس کا اطمینان دیکھ کر فاروق بے چینی سی محسوس کرنے لگا۔

دکان دار نے سامان تھیلیوں میں بھر کر اس کی طرف بڑھایا تو اس کی جلدی سے جیب سے روپے نکال کر اس کے حوالے کر دیے اور سامان سے بھری تھیلیاں اٹھائے گھر کی طرف چل دیا۔ چلتے ہوئے وہ اس دبدھا میں تھا کہ کہیں بڑے شہر کے بارے میں اس نے چھوٹے شہر میں رہتے ہوئے جو کچھ سنا تھا، کہیں وہ سب کچھ کسی دروغ پر مبنی تو نہیں تھا۔ کیوں کہ قلیل سے وقت میں اس کے محدود مشاہدے نے اس کی ذہنی دنیا میں قائم ہونے والے تصور کو کسی حد مجروح کر دیا تھا۔

اگلے روز جب اس نے اپنی والدہ سے سودا سلف منگوانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دو ٹوک جواب دے دیا کہ آج کچھ بھی نہیں منگوانا۔ ان کا جواب سن کر وہ بہت دیر تک پیچ و تاب کھاتا رہا اور باہر جانے کا کوئی بہانہ سوچتا رہا۔ سہ پہر کے وقت اس کے دونوں چھوٹے بھائی آپس میں لڑ لڑ کر سو گئے۔ اس کی والدہ نے اسے بھی سونے کا حکم دیا۔ وہ اپنے پلنگ پر لیٹ تو گیا مگر دیر تک کروٹیں بدلنے کے با وجود وہ اپنے آپ کو سونے پر مائل نہ کر سکا۔ قرب و جوار کی کسی مسجد سے عصر کی اذان بلند ہوئی تو وہ پلنگ سے اتر کر والدہ کے کمرے کی چلا گیا۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اس نے دروازے پر دستک دی، جسے سنتے ہی اسے والدہ کی آواز سنائی دی۔’’ کون ہے؟‘‘ فاروق جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ اس کی والدہ بدن پر چادر اوڑھے ہوئے بیڈ پر دراز تھیں اور ان کے چہرے پر پھیلی سوگواری سے صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ غنودگی کے عالم سے ابھی ابھی نکلی ہیں۔ انہوں نے جماہی لیتے ہوئے اس سے پوچھا، ’’کیا ہوا فاروق؟‘‘

اس نے بے ساختگی سے کہہ دیا، ’’امی، مجھے ایک کتاب خریدنی ہے، اس کے لیے پیسے چاہییں۔‘‘

یہ سنتے ہی والدہ کی پیشانی پر لکیریں سکڑنے لگیں۔ ’’ابھی تمہارا اسکول میں داخلہ ہی نہیں ہوا۔ پھر تمہیں کیسی کتاب خریدنی ہے؟‘‘

’’کہانیوں کی کتاب؟‘‘

’’تمہارے پاس وہ تو پہلے ہی بہت سی ہیں۔ کیا کرو گے، اور لے کر؟‘‘

’’امی، وہ سب میں بہت پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔ مجھے نئی کہانیاں پڑھنی ہیں۔‘‘

’’تمہیں کیا پتا یہاں کتابوں کی دکان کہاں پر ہے۔ تم کہاں سے جا کر کتاب خریدو گے؟‘‘

’’میں نے معلوم کر لیا ہے۔ بازار ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ آپ مجھے بس پیسے دے دیں۔‘‘ اس نے اتنے اعتماد کے ساتھ پہلے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ وہ خود بھی جی ہی جی میں اپنی اس ہمت پر حیران رہ گیا۔

’’مگر تمہارے ابو نے منع کیا تھا کہ تم باہر نہیں جاؤ گے۔‘‘ والدہ نے اسے یاد دلایا۔

’’امی، میں دیر نہیں کروں گا۔ کتاب لے کر جلدی آجاؤں گا۔ بتائیں، پیسے کہاں رکھے ہیں؟‘‘ اس نے اصرار کرتے ہوئے ایک ایک بار پھر مطالبہ کیا۔

’’ اچھا، اچھا۔ باورچی خانے میں برتنوں والے دراز میں جو کیتلی رکھی ہے، اس میں ہیں پیسے۔ تم جا کر نکال لو۔ اور سنو جلدی واپس آنا۔ تمہارے ابو کے آنے کا وقت بھی ہونے والا ہے۔‘‘ اس کی والدہ کو اس کے آگے ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔

’’جی اچھا۔ میں جلدی آجاؤں گا‘‘۔ سر ہلاتے اور اپنی کامیابی پر زیرِ لب مسکراتے ہوئے وہ کمرے سے نکل کر باورچی خانے کی طرف چلا گیا۔

جب وہ گھر سے نکلا تو باورچی خانے میں برتنوں والے دراز میں رکھی کیتلی سے نکالے ہوئے پچاس روپے اس کی جیب میں تھے۔ اسے بڑے شہر آئے ہوئے چند روز گزر گئے تھے، مگر اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ آج ہی یہاں پہنچا ہے۔ اس احساس کی وجہ گھر کی چار دیواری سے باہر وہ آزادی تھی، جو اسے آج پہلی بار میسر آئی تھی… وہ اکیلا بڑے شہر کے ایئر پورٹ کے قریب واقع اس آبادی کے بازار کی جانب گامزن تھا۔ اکیلائی کا یہ تجربہ اس کے لیے بالکل نیا تھا… وہ سب گلیوں کو ملانے والی درمیانی گلی میں واقع دُکان تک پہنچا تو وہ دُکان اسے حسب معمول کھلی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے فاروق کی رفتار بہت کم تھی۔

وہاں دو خواتین کھڑی سودا سلف خرید رہی تھیں۔ ان میں سے ایک برقعہ اوڑھے ہوئے تھی اور اپنی آنکھوں کی جنبشوں اور اپنے بدن کی حرکات و سکنات سے درمیانی عمر کی لگ رہی تھی۔ اور دوسری، جو چہرے سے بزرگ دکھائی دیتی تھی، مگر اب بھی چاق و چو بند نظر آ رہی تھی۔ اس نے میلا کچیلا سا اور دُھل دُھل کر اپنا اصل پیلا رنگ کھو کر، سفیدی مائل ہوتا ہوا لباس پہن رکھا تھا۔ مختصر سا مٹیالے رنگ کا دو پٹہ اُس کے سر پر پھیلے سُرمئی اور سفید سے، کھچڑی گھنگھریالے بالوں کو چھپانے میں بری طرح نا کام تھا۔ وہ بوڑھی خاتون سانولی اور گہری رنگت کی حامل تھی اور اس کا چہرہ جھریوں اور گہری لکیروں سے پُر تھا۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے اجنبی سے لہجے میں دُکان دار سے کہہ رہی تھی، ’’مجھے لسٹ میں لکھا سارا سامان دینا۔ ایک ایک چیز۔ اور ہاں، کوئی چیز چھوڑ مت دینا۔ سمجھے۔ شہر کے حالات پہلے کبھی اتنے غیر یقینی نہیں تھے، جتنے اب ہو گئے ہیں۔ ہیلمٹ والی مخلوق کو گلیوں میں دیکھ کر میرا تو دل دہل کے رہ جاتا ہے۔ ان کی سیٹیاں سن کر میری سٹی گم ہو جاتی ہے۔ اور… اور لاؤڈ اسپیکر پر ان کا اعلان سن کر یقین مانو، میرا کلیجہ حلق کو آ جاتا ہے۔‘‘

فاروق نے دُکان کے قریب سے گزرتے ہوئے اس خاتون کی یہ باتیں سنیں تو اس کے دل میں معدوم ہوتی امید پھر سے بیدار ہونے لگی۔ اس کے دل میں اس بزرگ خاتون سے، بڑے شہر پر طاری ہونے والی اس کیفیت یا حالت کے بارے میں استفسار کرنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اُ س کے اور اس خاتون کے درمیان حائل اجنیبت اس کے پیروں کی زنجیر بن گئی۔ وہ بار بار دُکان پر کھڑی اس بزرگ خاتون کی طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ آگے بڑھتے ہی اس کے قدموں میں جیسے کوئی رَو دوڑ گئی اور وہ تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ جیسے آگے اور آگے کوئی ان دیکھا منظر اس کا انتظار کر رہا ہو، لمحۂِ موجود میں جس کی کشش اسے اپنی جانب کھینچے جا رہی ہو۔ وہ بائیں مڑنے والی ایک گلی میں مڑ گیا۔ یہ گلی کچھ تنگ سی اور کچھ مختصر سی تھی۔ اس نے دیکھا کہ یہ آگے جا کر دائیں طرف مڑ رہی تھی۔ وہ اپنے تجسس کی جوت میں خوشی خوشی جلتا ہوا، اپنا سر جھکائے ہوئے اس گلی سے گزرا۔

دائیں طرف مُڑنے کے بعد وہ ایک کشادہ سی گلی میں داخل ہوا، جو سیدھی بازار کی طرف جا رہی تھی۔ اس گلی کے آخری سرے پرے پر اسے رونق سی دکھائی دی۔ دُکانوں اور ٹھیلوں کے آس پاس مرد و زن خریداری میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ اس گلی کے دونوں طرف دو بڑی بڑی ورک شاپس بنی ہوئی تھیں، ان کے گیٹ کھلے ہونے کی وجہ سے فاروق یہ دیکھ سکا کہ ایک ورک شاپ میں گاڑیوں کی مرمت کی جارہی تھی جب کہ دوسری میں نیا فرنیچر بنانے کے ساتھ ساتھ پرانے فرنیچر کی مرمت کا کام بھی جاری تھا۔

فاروق ورک شاپس سے آگے بڑھا تو اسے دونوں جانب زمین کے بڑے بڑے چوکور خالی قطعے دکھائی دیے، جن میں جھاڑیاں اور کیکر اگے ہوئے تھے۔ کچھ آگے جا کر دائیں طرف کسی حکیم صاحب کا مطب واقع تھا۔ جب کہ بائیں طرف دُکانوں کا ایک سلسلہ سا تھا۔ ان دُکانوں میں ویڈیو فلمیں اور وی سی آر کرائے پر دستیاب ہوتے تھے۔ سب دُکانوں کے سامنے کے حصوں پرسیاہ اور دیگر گہرے رنگوں کے شیشے لگے تھے۔ ان کے دروازے بھی شیشوں کے بنے ہوئے تھے۔ ان شیشوں پر ہندی اور امریکی فلموں کے بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ اس وقت ایک ویڈیو سینٹر سے ہندی گانا سنائی دے رہا تھا۔ وہ فلموں کے پوسٹر دیکھتا اور گانا سنتا ہوا آگے بڑھا۔

کچھ دیر پیشتر بوڑھی عورت کی باتیں سن کر اس کے دل میں جس امید نے سر اٹھایا تھا، بازار میں گہما گہمی دیکھ کر وہ نا امیدی میں تبدیل ہونے لگی۔ بازار ہر طرح کے لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ شام کے اسکولوں سے چھٹی پانے والے بچوں سے، کالج اور یونیورسٹی سے شام کی کلاسیں لے کر لوٹنے والے لڑکوں اور لڑکیوں سے،دفاتر، فیکٹریوں، اور کام کی دیگر جگہوں سے چھوٹنے والے مرد و زن سے، بھکارنوں سے، مزدوروں سے۔ غرض کہ بھانت بھانت کے لوگوں سے، جو وہاں اپنی اپنی ضروریات کا سامان خریدتے، گھومتے پھر رہے تھے۔ ان کے درمیان ٹہلتے ہوئے فاروق کو کتابوں کی دُکان تلاش کرنے میں زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ کتابوں کی دُکان میں داخل ہوا۔ یہاں ہر طرح کی نصابی، غیر نصابی کتب اور رسائل دستیاب تھے۔ فاروق نے دو پرانے ڈائجسٹ خریدنے کے لیے منتخب کیے، جو بہت ارزاں تھے۔ اسے اطمینان سا ہوا کہ اگلے چند روز کے لیے بوریت سے اس کی جان چھوٹ جائے گی۔ وہ ان کی قیمت ادا کر کے دُکان سے باہر نکلا اور بازار میں چلنے لگا۔

بازار کی مرکزی سڑک، جس کے دائیں اور بائیں طرف بہت سی چھوٹی سڑکیں اور گلیاں نکلتی تھیں۔ کسی چھوٹی گلی یا سڑک سے کچھ اوباش قسم کے لڑکوں کی ٹولی ڈنڈے اور لاٹھیاں اٹھائے ہوئے نکلی اور بازار کی دُکانوں پر پِل پڑی۔ وہ بازار جہاں لوگ اپنی موج میں سست خرامی سے گھوم رہے تھے،اچانک وہاں بھگدڑ سی مچ گئی۔ ایسی ہاہا کار مچی کہ لوگ اپنی خریداری بھول کر، یہاں وہاں بھاگ کر، خود کو ڈنڈوں اور لاٹھیوں کی زد میں آنے سے بچانے لگے۔

دُکانیں بند ہونے لگیں۔ اسی دوران نہ جانے کہاں سے دو موٹر سائیکلیں نمو دار ہوئیں۔ ہر موٹر سائیکل پر دو لڑکے سوار تھے۔ وہ بلند لہجوں میں چیخ چیخ کر دُکان داروں کو دُکانیں بند کرنے کا حکم دے رہے تھے۔

فاروق اس صورتِ حال کو فوری طور پر نہیں سمجھ سکا کیوں کہ یہ اس کے لیے بالکل انوکھی صورتِ حال تھی۔ اس نے کھلبلی مچ جانے کے ایسے واقعات کا مطالعہ تو ضرور کیا تھا اور کسی حد تک انہیں اپنی چشمِ تصور میں بھی دیکھا تھا، مگر ایسی صورتِ حال کا کہانیوں میں مطالعہ کرنا اور اسے اپنے تصور میں دیکھنا، بالکل الگ بات تھی، جب کہ اس کا سامنا کرتے ہوئے اسے اپنی آنکھوں کے رُو بہ رُو دیکھنا بالکل الگ بات تھی۔

آٹھ دس لڑکوں کی ٹولی کے غُراتے، چیختے چلاتے ہوئے لہجوں، دکانوں، ٹھیلوں، اور کچھ لوگوں پر پڑتے ہوئے ڈنڈوں کے شور،تیزی سے گزرتی موٹر سائیکلوں کا غُل غپاڑہ اور فائرنگ کی آوازوں نے مل جل کر فاروق کے ذہن پر جو پہلا تاثر قائم کیا، وہ ڈر اور خوف کا تاثر تھا۔ اس کی اپنی زندگی چھِن جانے کا خوف۔ موت سے ہمکنار ہونے کا خوف۔ اسی خوف کے زیرِ اثر وہ بد حواس ہو کر بازار سے بائیں طرف نکلنے والی ایک گلی میں بھاگا۔ یہ وہ گلی ہر گز نہیں تھی، جس میں ٹہلتا ہوا وہ اس جانب آیا تھا۔

دل و دماغ پر اچانک چھا جانے والے خوف کے زیرِ اثر وہ جس گلی میں بھاگا، وہ ا س کے لیے نا مہربان اور اجنبی ثابت ہوئی اور اسے نا آشنا گلیوں کے ایک ایسے سلسلے کی طرف لے گئی، جو اس کے لیے گم راہ کن ثابت ہوا۔ اگر یہ گلیاں اپنے راہ گیروں، خوانچہ فروشوں اور دیگر گزرنے والوں کے وجود سے بھری پری ہوتیں، تو شاید اسے یہ خوف اتنا پریشان نہ کرتا۔ مگر یہاں تو جس طرف دیکھو گہرا اور دبیز سناٹا تھا۔

اس نے محسوس کیا یہاں واقعی کسی دیو کا سایہ پھر گیا ہے، جس نے ان گلیوں سے زندگی کی ہر رمق نوچ ڈالی ہے۔ وہ خود کو ایسا شہزادہ خیال کرنے لگا، جو اپنے آپ کو اس دیو سے بچانے کی خاطر اس بھول بھلیاں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ وہ جو گلی بھی عبور کرتا، وہ اسے مزید بھٹکانے کا سبب بنتی۔ اس طرح وہ بھٹکتے بھٹکتے بہت دور پہنچ گیا۔ اتنی دور پہنچ کر اسے اپنی جان کو لا حق ہو نے والا خوف تو کچھ کم ہو گیا، مگر اب اس کی جگہ نئے خوف نے لے لی تھی۔

سورج مقامِِ  غروب کی طرف رواں تھا اورشام تیزی سے ڈھلتی جا رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ دیر بعد پھیلنے والا اندھیرا ان نا مہربان اور اجنبی گلیوں کو ایک نئے اور مختلف روپ میں ڈھال دے گا۔

گہری تاریکی میں یہ گلیاں کچھ دہشت ناک اور کچھ بھیانک سی محسوس ہونے لگیں گی۔ اسے اپنی والدہ کا اسے بازار جانے سے روکنا شدت سے یاد آیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ یہ احساس درد بن کر اس کے بدن کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا۔ اس کا گلا رندھنے لگا۔ وہ خود پر ضبط کرتا ہوا ٹھہر گیا اور گرد و پیش دیکھنے لگا۔ کچھ دیر وہاں کھڑ ا لمبی سانسیں لیتا رہا۔ اسی دم اس نے ایک فیصلہ کیا اور آگے بڑھنے کے بجائے فوراً اسی مقام کی جانب چلنا شروع کر دیا، جس مقام سے اس کا بھٹکنا شروع ہوا تھا۔

واپسی کے سفر میں زمین کی نشانیوں نے مطلوبہ مقام تک پہنچنے میں اس کی بہت مدد کی۔ گر چِہ خوف کے عالم میں بھاگتے ہوئے اس نے زمین کی کوئی نشانی اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی، مگر وہ شاید اس کے لا شعور میں کہیں خود بہ خود محفوظ ہو گئیں تھیں۔ اسی لیے کوئی نقشِ پا، کوئی گڑھا، کوئی کھمبا، یا دیواروں پر بنی ہوئی کوئی علامت یا کوئی اشتہار اَز بَر نہ ہونے کے با وجود واپسی کے سفر میں اس کی راہنمائی کرتے رہے۔ وہ کم و بیش انہی گلیوں سے گزرا، جن سے وہ ہانپتا کانپتا، دوڑتا ہوا گیا تھا۔

گرد و پیش کی مساجد سے مغرب کی اذان بلند ہو نے لگی تھی، جب وہ نڈھال قدموں سے چلتا ہوا اس گلی میں داخل ہوا، جس میں اس کا گھر واقع تھا۔ اس نے بہ دِقت اپنا ہاتھ اٹھا کر گھنٹی کا بٹن دبایا اور سر جھکا کر لوہے کے پھاٹک کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا اب تک اس کے دل کی دھڑکن معمول پر نہیں آئی تھی اور وہ اپنے گھر کے پھاٹک کے قریب ہونے کے با وجود غیر ارادی طور پر پلٹ پلٹ کر بھی دیکھ رہا تھا، جیسے ہنگامہ آرائی کرنے والے اس کے پیچھے لگے ہوئے ہوں۔

چند لمحوں بعد پھاٹک کھلا اور اسے اپنے چھوٹے بھائی کا چہرہ دکھائی دیا، جو اسے دیکھتے ہی اس سے دیر سے آنے کے بارے میں سوال پر سوال پوچھنے لگا تھا۔ فاروق میں اس کے کسی سوال کا جواب دینے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ ڈائجسٹ ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا۔ پھاٹک بند کرتے ہوئے چھوٹے بھائی نے اسے اطلاع دی کہ ابو دفتر سے گھر آ چکے ہیں، تو وہ یہ اطلاع سن کر چونکا اور ٹھٹھک کر بولا، ’’اچھا‘‘۔ وہ اس وقت اپنے والدین کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔ اس لیے وہ چھوٹے بھائی کی بات کو نظر انداز کرتا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا کہ اسے والدہ کی آواز سنائی دی۔ ’’کون آیا ہے؟‘‘

اس کے چھوٹے بھائی نے فوراً بلند لہجے میں جواب دیا، ’’فاروق بھائی آئے ہیں۔‘‘

’’اسے ہمارے پاس بھیج دو‘‘۔ یہ سنتے ہی اس کے قدم رک گئے۔ وہ کچھ سوچتا ہوا والدین کے کمرے کی طرف چل دیا۔

وہ ڈائجسٹ ہاتھ میں لیے، اپنا سر اور نگاہیں نیچی کیے، کمرے میں داخل ہوا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے والدین نے اس کی اچانک آمد کی وجہ سے چپ سادھ لی ہے۔ جھکی نظروں سے وہ صرف اپنے والد کو بیڈ پر نیم دراز بیٹھے اور چائے پیتے ہوئے دیکھ سکا۔ اس کی والدہ بیڈ کے دائیں طرف رکھی ہوئی ایک کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہوئے بیٹھی تھیں۔ اس نے ان دونوں کے چہروں کی طرف اپنی جھکی جھکی نظروں سے دیکھا تو اسے اپنے والد کے چہرے پر معمول کے سنجیدہ تاثر کے ساتھ فکر مندی کی ہلکی سی پرچھائیں دکھائی دی، جب کہ اس کی والدہ سخت گیری اور خفگی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

’’تم دروازے کے پاس کیوں کھڑے ہو۔ آگے آؤ اور سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھو‘‘۔ اس کی والدہ نے اسے حکم دیتے ہوئے کہا۔

وہ کچھ آگے بڑھا اور بیڈ کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا اور اپنی واپسی میں ہونے والی تاخیر کے متعلق اپنی سی وضاحت دینے لگا، ’’ابو، میں بازار کتابیں لینے گیا تھا کہ وہاں…‘‘۔

اس کے والد نے اس کی بات درمیان سے کاٹتے ہوئے پہلے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا، پھر اس مخاطب ہوئے۔ ’’فاروق، میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اور ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ یہ بڑا شہر چھوٹے شہرسے بہت مختلف ہے۔ یہاں تمہیں بہت سوچ سمجھ کر اور محتاط ہو کر گھر سے نکلنا پڑے گا۔ تمہیں اپنی امی اور میری کہی ہوئی ہر بات پر عمل کرنا ہو گا۔ سمجھے۔‘‘

فاروق نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’جی سمجھ گیا۔‘‘

’’تم ہر دفعہ یہی کہتے ہو۔ مگر سمجھتے پھر بھی نہیں۔ میں نے تمہیں سمجھایا اور روکا تھا، مگر تم رکے پھر بھی نہیں۔‘‘

’’آئندہ ایسا نہیں ہو گا، امی۔‘‘ اس نے وعدہ کرتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو فاروق، آج شہر کے بہت سے علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ فائرنگ ہوئی۔ چھری، چاقو اور ڈنڈوں سے لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ کچھ لوگ ہلاک بھی ہوئے۔ اسی لیے حکومتِ وقت نے شہر کے بہت سے علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔‘‘

کرفیو کا لفظ فاروق کے لیے نیا نہیں تھا۔ وہ چند مرتبہ پہلے بھی یہ لفظ اپنے والد سے سن چکا تھا۔ مگر وہ اس لفظ کے معنی و مفہوم سے مکمل طور پر نا آشنا تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں اس کے الگ ہی معنی طے کر رکھے تھے۔

’’ ابو… یہ کرفیو کا مطلب کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جھجکتے جھجکتے یہ سوال پوچھ لیا۔

’’کرفیو کا مطلب… کرفیو جہاں بھی لگایا جاتا ہے۔ وہ علاقے فوج کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ فوج گلی، محلوں اور بازاروں میں گشت کرنے لگتی ہے۔ عام لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی عایدکر دی جاتی ہے۔ جو شخص بھی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھر سے نکلتا ہے، اسے سزا دی جاتی ہے۔ ملک کے عام شہری کے تمام حقوق عارضی طور پر معطل کر دیے جاتے ہیں‘‘۔

’’مگر فوج کا کام تو سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، ابو۔ ہمارے گلی، محلوں اور بازاروں میں اس کا کیا کام؟‘‘

’’دوسرے ملکوں کی فوجیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہماری فوج نے سرحدوں کے ساتھ ساتھ گلی، محلوں اور بازاروں کی حفاطت کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ بہ ہر حال تم ابھی بہت چھوٹے ہو، یہ باتیں نہیں سمجھو گے۔ تمہیں جو کہا جا رہا ہے تم صرف اسی پر عمل در آمد کرو۔ سمجھے۔‘‘

فاروق اپنے والد کی کچھ باتیں سمجھا اور کچھ نہیں سمجھا، مگر پھر بھی اس نے تائید میں اپنا سر اس طرح ہلایا، جیسے وہ سب کچھ سمجھ گیا ہو۔

’’اچھی طرح سن لو اور سمجھ لو فاروق۔ اب جب تک کرفیو لگا ہوا ہے، تمہارے گھر سے باہر جانے پر مکمل پابندی ہے۔ اب تم جاؤ اور جا کر اچھی طرح اپنے ہاتھ پاؤں اور مُنھ دھوؤ۔ کچھ دیر میں کھانا تیار ہو جائے گا۔ جاؤ۔‘‘ فاروق کے کمرے سے باہر جانے کا انتظار کیے بغیر اس کی والدہ اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں۔’’کرفیو ختم ہوتے ہی سب بچوں کے اسکول میں داخلے کروائیں۔ گھر میں رہ رہ کر یہ سارا پڑھا لکھا بھول گئے ہیں۔ چھوٹے دونوں تو دن بھر لڑتے رہتے ہیں۔ ان کی شکایتیں اور آپس کی لڑائیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔‘‘

فاروق کمرے سے باہے جانے ہی والا تھا کہ اس کے والد اس سے مخاطب ہوئے، ’’فاروق!‘‘

’’جی ابو!‘‘ اس نے رکتے ہوئے جواب دیا۔

’’بیٹا تم اپنے چھوٹے بھائیوں کو چند گھنٹے بیٹھ کر پڑھایا کرو۔ تم بڑے ہو اور ان سے زیادہ سمجھ دار بھی ہو۔‘‘

’’یہ خود تو پڑھتا نہیں، انہیں کیا پڑھائے گا۔‘‘

’’پڑھاؤں گا، امی، ضرور پڑھاؤں گا۔‘‘ زیرِ لب مسکراتے ہوئے وہ کمرے سے چلا گیا۔

کمرے سے نکلنے کے بعد اس نے سکھ کا سانس لیا مگر اس کے والد کی کہی ہوئی باتیں اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ وہ انہیں مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے جو کچھ بازار میں دیکھا تھا اور وہاں اس پر جو کچھ بیتا تھا، وہ اب تک اسے بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کون لوگ تھے،جو ڈنڈے ہاتھوں میں اٹھائے زبر دستی دُکانیں بند کروا رہے تھے؟ اور فوج، کیوں گلی محلوں تک چلی آئی تھی؟ جب کہ ان کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا۔ اس کے ذہن میں یہ سب سوال بگولوں کی طرح کی چکر کاٹ رہے تھے۔ اسے واضح طور پر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس صورتِ حال کو اس نے اپنے تئیں جس طرح قیاس کر رکھا تھا، یہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر تھی، اور اس صورتِ حال کا بہت بڑا حصہ اس کے لیے مکمل طور پر ناقابلِ فہم تھا۔ وہ اسی الجھن میں مبتلا جب اپنے کمرے میں داخل ہوا، تو اس کے چہرے پر طاری سنجیدگی کو دیکھ کر اس کے چھوٹے بھائی یہ سمجھے کہ اسے زور کی ڈانٹ پڑی تھی اور اسی لیے اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ انہوں نے بڑے بھائی سے گفتگو سے احتراز کیا۔ وہ بھی ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا اور نا گاہ دُکان سے خرید کر لانے والے رسالوں کی ورق گردانی کرنے لگا۔

فاروق نے رات کھانا سب کے ساتھ مل کر کھایا۔ اس دوران اس کے والد نے انہیں یقین دلایا کہ حالات معمول پر آتے ہی وہ ان تینوں کو فوراً کسی اچھے اسکول میں داخل کروا دیں گے۔ ان کی حالات معمول پر آنے کی بات فاروق نہیں سمجھ سکا۔ اسے یہ جاننے کی کرید ہوئی کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ حالات اپنے معمول سے ہٹ گئے۔ اس نے اپنے والد سے اس بارے میں چند سوالات کیے، جن کے اسے تسلی بخش جوابات نہیں مل سکے۔ اس کے ذہن میں پہلے سے موجود خلجان میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔

کھانے کے کچھ دیر بعد والدہ کی جانب سے سونے کا حکم صادر ہوا۔ اس کے دونوں بھائی ایک پلنگ پر لیٹ گئے، جب کہ فاروق الگ پلنگ پر جا لیٹا۔ اس کی والدہ انہیں تاکید کرنے کے بعد کمرے کی بتی بجھا کر چلی گئیں۔ فاروق بستر پر لیٹا کروٹیں ہی بدلتا رہا۔ اس کے ذہن میں شام کو بازار میں پیش آنے والا واقعہ، اپنی تمام جزئیات کے ساتھ گھومنے لگا۔ اس نے اُس خوف کی ہلکی سی آنچ کو بھی محسوس کیا،جو اس وقت اچانک اس کے سارے وجود پر محیط ہو گئی تھی اور جس نے اسے جان بچانے کی خاطر بازار سے بھاگنے پر اکسایا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اس کے قدم کس طرح اس کے وجود کا بوجھ اٹھائے اسے موت کے خطرے سے بچانے کی خاطر خود بہ خود حرکت میں آ گئے تھے۔ ایک خیال، جسے وہ لا شعوری طور پر شام سے دبائے جارہا تھا، اس وقت خود ہی اپنا سر اٹھانے لگا تھا، وہ یہ کہ اسے وہاں سے بھاگنا نہیں چاہیے تھا۔ اسے وہیں کہیں چھپ کر سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے تھا۔ شاید اس طرح وہ اُن ڈنڈہ بردار لوگوں اور فائرنگ کرنے والوں کے بارے میں زیادہ جان لیتا،جن کے بارے میں جاننے کا وہ شدت سے متمنی تھا۔

کمرے میں تاریکی تھی مگر اس کی آنکھیں اس تاریکی سے اتنی مانوس ہوچکی تھیں کہ اب کمرے کی ہر چیز دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے چھوٹے بھائی کچھ دیر پہلے گہری نیند سو چکے تھے، مگر اس کے ذہن میں جاری کشمکش اسے نیند سے دور لیے جارہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران سیریز کی کہانیوں میں پوری سیکریٹ سروس دشمن ممالک کے خفیہ ایجنٹوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ مگر ہماری فوج ہمارے ہی خلاف سڑکوں پر نکل آئی تھی اور اس نے لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ ایسا کیوں ہو رہا تھا؟ وہ اس عقدے کا حل ڈھونڈتے ڈھونڈتے نیند کے خمار میں کھونے لگا۔ پہلے کچھ دیر وہ جماہیاں لیتا رہا، پھر اس کی آنکھیں خود بہ خود مندتی چلی گئیں۔

اگلے روز وہ اپنے والدین اورچھوٹے بھائیوں سے چھپ چھپ کر چھت کا چکر لگاتا رہا۔ ہر باروہ دبے پاؤں چھت پر جا کر اپنی گلی کے سامنے واقع ساری گلیوں کو ملانے والی گلی کی طرف کچھ دیر دیکھتا اور مایوس ہو کر واپس چلا جاتا۔ وہ ساری گلیوں کو ملانے والی گلی میں جو منظر دیکھنا چاہتا تھا، وہ اسے آدھا دن گزرنے کے با وجود دکھائی نہیں دیا۔ دو پہر کے کھانے کے بعد جب اس کے والدین اور چھوٹے بھائی قیلولے کے لیے اپنے بستروں پر دراز ہوئے، تو اسے چھت پر جانے کا ایک اور موقع مل گیا۔ تیز دھوپ میں وہ چھت پر کھڑا گلی کی طرف دیکھتا رہا۔

اچانک اسے ساری گلیوں کو ملانے والی گلی کی طرف سے مائیکرو فون پر سنائی دیتی مبہم سی ایک آواز اور اس کے ساتھ ساتھ ایک گھڑ گھڑاہٹ بھی سنائی دینے لگی۔ جسے سن کر فاروق سمجھ گیا، کہ اس کی خواہش پوری ہونے والی تھی۔ مائیکرو فون پر سنائی دیتی آواز دھیرے دھیرے ایک اعلان یا تنبیہ کی صورت اختیار کر نے لگی، جس میں شہریوں کو اپنے گھروں میں بند رہنے کا حکم دیا جا رہا تھا اور اس حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں سخت سزا کی دھمکی دی جا رہی تھی۔ یہ آواز جوں جوں قریب آتی گئی، اس کا سخت اور دو ٹوک قسم کالب و لہجہ واضح ہوتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سنائی دینے والی گھڑ گھڑاہٹ بھی نزدیک سے نزدیک تر آتی گئی۔

قریب آتی درشت لہجے کی آواز اور گھڑگھڑاہٹ سن کر فاروق کے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑنے لگی۔ وہ صبح سے جو منظر دیکھنے کا بے چینی سے منتظر تھا، اب وہ اس کے سامنے رُو نُما ہونے والا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اپنی جگہ سے نہ ہٹنے کا پختہ عزم کر لیا۔

اگلے ہی لمحے ساری گلیوں کو ملانے والی گلی میں ہلکے سبز رنگ کا ٹرک نمو دار ہوا، جس کی اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا ڈرائیور اسے آہستگی سے چلا رہا تھا۔ جب کہ اس کے پچھلے حصے میں دو فوجی کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک مائیکرو فون ہاتھ میں لیے بار بار ایک ہی اعلان دُہرا تھا، جب کہ دوسرا اپنے ہاتھوں میں رائفل پکڑے چوکس کھڑا گرد و پیش کا جائزہ لے رہا تھا۔

آس پاس کی تمام چھتیں ویران پڑی تھیں۔ تمام گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند تھے۔ وہاں فاروق اور ان کے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔

اچانک الرٹ کھڑے رائفل بردار کی تیز نظر فاروق پر پڑی۔ اس نے گھور کر اسے دیکھا اور اسے چھت سے جانے کا اشارہ کیا۔ فاروق اس کے اشارے پر ٹَس سے مَس نہ ہوا تو مائیکرو فون بردار درشت لہجے میں اس سے مخاطب ہوا، “چھت سے نیچے چلے جائیں، ورنہ گولی مار دی جائے گی‘‘۔ مائیکرو فون والے نے جیسے ہی یہ جملے ادا کیے، رائفل بردار نے اپنی رائفل کا رخ فاروق کی طرف کر دیا اور رائفل کے ٹریگر پر اپنی انگلی مضبوطی سے جما دی۔

ان کا جارحانہ رویہ دیکھ کر فاروق فوراً سراسیمگی سے چھت کی دیوار کے نیچے بیٹھ گیا اور بیٹھے بیٹھے اپنے پیروں پر حرکت کرتا ہوا دیوار سے پرے ہٹنے لگا اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتا جا کر زینے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیااور کان لگا کر مائیکرو فون سے سنائی دینے والی آواز اور ٹرک کی گھڑ گھڑاہٹ سنتا رہا، جو اب دھیرے دھیرے دور جاتی ہوئی لگ رہی تھی۔

ٹرک کی گھڑگھڑاہٹ تو کچھ ہی دیر میں معدوم ہو گئی جب کہ مائیکرو فون سے سنائی دینے والی درشت آواز کچھ وقت تک سنائی دیتی رہی۔ جب وہ بھی سنائی دینا بند ہو گئی تو فاروق سیڑھیوں سے اٹھا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا دیوار کے پاس گیا اور جھانک کر گلی میں دیکھنے لگا۔ ٹرک وہاں سے جا چکا تھا مگر اس کا دکھائی نہ دینے والا ہیولا وہیں گلی میں کھڑا تھر تھرا رہا تھا اور مائیکرو فون سے نکلتی سخت اور کٹھور آواز اب مکانوں کے در و دیوار سے اپنا سر ٹکرا رہی تھی۔ اگلے چند لمحوں میں بعض گھروں کی کچھ کھڑکیاں کھلیں اور ان میں سے متجسس اور سراسیمہ آنکھیں جھانک جھانک کر باہر کی ٹوہ لینے لگیں۔ کچھ دیر پہلے ان بند کھڑکیوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا، جیسے یہ برسوں سے کھلی ہی نہ ہوں۔ یہ سارا منظر دیکھ کر فاروق دل برداشتہ سا ہو کر دیوار سے پیچھے ہٹ گیا اور آہستہ آہستہ چلتا زینے کی طرف بڑھنے لگا۔

سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے کم سن دماغ پر عجب طرح کے اور بھانت بھانت کے خیالات نے یورش کر دی۔ وہ ان کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لیے تو تیار تھا مگر خیالوں کی اس گتھی کو سلجھانا قطعی طور پر اس کے بس سے باہر تھا۔

وہ کمرے میں پہنچ کر اپنے پلنگ پر لیٹ گیا اور کروٹ لے کر اپنے چہرے کو تکیے میں دبا دیا۔ قریب ہی ایک اور پلنگ پر اس کے دونوں چھوٹے بھائی آڑے ترچھے گہری نیند سو رہے تھے۔ ان کے والدین نے انہیں دو پہر کے کھانے کے بعد قیلولے کی عادت ڈال دی تھی۔ آج فاروق کے لیے دن کے اس پہر قیلولہ کرنا نا ممکن ہو گیا تھا۔ وہ تکیے میں اپنا چہرہ دبائے دھیمے دھیمے سانس لیتا سوچ رہا تھا کہ وہ چھوٹے شہر میں رہتے ہوئے بڑے شہر کی جو عجیب و غریب کیفیت یا حالت دیکھنے کے لیے مچلا کرتا تھا، اب وہ کسی حد تک اس کے رُو بہ رُو آ چکی تھی، اور اتنی رُو بہ رُو کہ کچھ دیر پہلے وہ چھت پر اس سے آنکھیں بھی ملا چکا تھا۔

اسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ بڑے شہر پر اچانک جس دیو کا سایہ پھر جاتا تھا، وہ دیو، ہمالہ یا ہندو کش کے دامن میں نہیں بَل کہ اسی بڑے شہر کے بیچوں بیچ رہتا تھا۔ اڑن طشتری جیسی گاڑیوں پر مشتری کی مخلوق نہیں بَل کہ ہمارے دیس کے محافظ سفر کرتے تھے۔ خلائی مخلوق جیسے لباس میں اجنبی زبان بولنے والوں کا تعلق، کسی دوسرے سیارے سے نہیں بَل کہ اسی ملک کے بالائی علاقوں سے تھا۔

فاروق کو یہ احساس شدت سے مایوس کر رہا تھا کہ اس نے اپنی دیوارِ خیال پر جو تصویریں بنائی ہوئی تھیں، بڑے شہر کی حقیقت کے سامنے وہ سراسر بودی اور مضحکہ خیز نکلیں، اور صرف یہی نہیں بَل کہ اس حقیقت نے اس کے دل و دماغ پر خوف اور دہشت کا دبیز غلاف چڑھانے بھی کوشش کی تھی۔ وہ خوف اور دہشت کے اس غلاف کو نوچ کر پھینکنا چاہتا تھا، کیوں کہ اسے دل پر دھاک بٹھانے والے یہ دونوں جذبے پسند نہیں تھے۔ چند روز بیش تر بازار میں اور آج دو پہر چھت پر پیش آنے والے واقعے نے اس کے ذہن میں بسی ہوئی فینتاسی کو چکنا چور کر دیا تھا۔ اس کی فینتاسی کی کرچیاں اس کے خیال و احساس کی دنیا کو لہو لہان کر رہی تھیں کیوں کہ حقیقت بہت ثقیل اور سنگلاخ تھی۔ اسے اس حقیقت کے آگے اپنا سر نِگوں کر دینا چاہیے تھا، اسے تسلیم کر لینا چاہیے تھا، مگر یہ کیا؟

فاروق نے لمبی سانس لیتے ہوئے کروٹ بدلی اور سوچنے لگا۔ مگر یہ کیا؟ اس کے مزاج کی خود سَری اسے اس حقیقت کے سامنے سر جھکانے سے روک رہی تھی۔ اسے کسی آشفتہ سری پر اکسا رہی تھی۔ مگر وہ آشفتہ سری آخر تھی کیا؟ اور اس کے لیے اسے کیا کرنا تھا۔ وہ سوچتا ہی رہ گیا اور اسے اپنے ذہن پر چھائی دھند اور گرد و غبار میں سے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے سکا۔

فاروق کے گھر والوں نے اگلے دو روز شدید بے زاری اور کوفت کے ساتھ گزارے، کیوں کہ گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عاید تھی۔ ان سب کے لیے ایسی پابندی سے گزرنے کا یہ پہلا تجربہ تھا اور یہ ان پر زبر دستی مسلط کیا گیا تھا۔ اس لیے اس چھوٹے سے کنبے نے بے زاری اور کوفت سے بھرے ہوئے یہ گزارنے کے لیے راشن بھی جمع نہیں کیا تھا۔

عام دنوں میں اس کے والد سارا دن اپنے دفتر میں گزارنے کے عادی تھے، مگر اب سارا دن گھر پر گزارتے ہوئے انہیں وقت رکا رکا سا محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ اکثر کھانے کے دوران بڑبڑاتے ہوئے کسی کانے دجال کو برا بھلا کہتے رہتے، جو ملک کے کسی وزیرِ اعظم کو پھانسی پر لٹکا کر خود اس ملک کا حاکم بن بیٹھا تھا۔ ان کی یہ باتیں اکثر فاروق کی سمجھ میں نہ آتیں، مگر وہ ان باتوں میں عجیب سی دل چسپی ضرور محسوس کیا کرتا۔

فاروق کی والدہ کی تشویش بڑھنے لگی کیوں کہ گھر میں چائے بنانے کے لیے اور پینے کے لیے دودھ ختم ہو چکا تھا۔ سبزی ترکاری تو دو دن پہلے ہی کھپ چکی تھی۔ وہ دو روز سے دالیں اور فرج میں رکھے ہوئے گوشت کی مدد سے کھانا بنا رہی تھیں، لیکن اب وہ چیزیں بھی اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ اسی لیے انہیں فکر لا حق ہونے لگی تھی کہ اگر یہ کرفیو کچھ اور دن تک کسی وقفے کے بغیر یوں ہی چلتا رہا تو گھر میں فاقوں کی نوبت بھی آ سکتی تھی۔ فاروق نے مشاہدہ کیا کہ اس کی والدہ اس کے والد سے کچھ خائف رہنے لگی تھیں۔ والدہ کے خیال میں ان کے والد کو اپنا تبادلہ بڑے شہر ہونے سے رکوانے کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لانی چاہییں تھیں۔

گزرنے والے یہ دو دن فاروق پر بھی بہت بھاری گزرے تھے۔ اسے گھر میں بند ہو کر رہنا سخت دشوار لگ رہا تھا۔ اس نے کتابوں کی دُکان سے خریدے ہوئے دونوں ڈائجسٹ چاٹ ڈالے تھے۔ اسے نِک ویلیٹ کی چوریوں اور چارلس سوبھراج کی شعبدہ بازیوں پر مشتمل کہانیاں پسند آئیں تھیں۔ ان دو دنوں میں کہانیاں پڑھنے کے علاوہ گلی سے سنائی دینے والی آوازوں کو کان لگا کر سننا بھی اس کا محبوب مشغلہ رہا تھا۔ اس دوران اسے جب بھی ٹرک کی گھڑ گھڑاہٹ اور مائیکرو فون والی درشت آواز سنائی دی، وہ خود کو چھت پر جانے سے نہیں روک سکا، مگر ہر بار چھت پر جا کر اسے مایوسی ہوئی، کیوں کہ ہر بار اسے ٹرک کی گھڑ گھڑاہٹ اور مائیکروفون کی آواز گرد و پیش کی گلیوں سے آتی سنائی تو دی مگر وہ ٹرک اسے پھر نظر نہیں آیا۔

دوسری دو پہر جب اس کے گھر کے سب لوگ قیلولہ کرنے کے لیے بستروں پر دراز ہوئے تو فاروق کو گھر سے باہر جانے کا خیال آیا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو بستر پر سویا چھوڑ کر دبے پاؤں کمرے سے نکلا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کے دو راستے تھے۔ ایک تو مرکزی پھاٹک تھا جو سیدھا سامنے والی گلی میں کھلتا تھا، دوسرا عقبی دروازہ تھا جو پیچھے کی گندی گلی میں کھلتا تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ سامنے والی گلی سے نکلتے ہوئے اسے کوئی محلے دار دیکھ سکتا تھا، اسی لیے اس نے عقبی گلی والے راستے کو ترجیح دی۔

وہ دھیرے دھیرے چلتا عقبی دروازے تک پہنچا اور احتیاط کے ساتھ اس کی کنڈی کھولنے لگا۔ کنڈی کھول کر اس نے گلی میں جھانکا تو وہاں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔ فاروق کو اندازہ ہوا کہ یہ گندی گلی آگے جا کر ساری گلیوں کو ملانے والی گلی سے مل جاتی تھی۔

ابھی فاروق وہاں کھڑا جھانک ہی رہا تھا کہ اچانک کسی گاڑی کے گزرنے کا شور سا سنائی دیا۔ اس نے دیکھا ایک جیپ فراٹے بھرتی ساری گلیوں کو ملانے والی سے گزری۔ اس جیپ کا رنگ بھی ہلکا سبز تھا، اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص نے بھی اسی رنگ کا چست لباس پہن رکھا تھا اور سر پر ٹوپی لگا رہی تھی۔ اس کی ذرا سی جھلک میں فاروق کو بس اتنا ہی دکھائی دے سکا۔ جیپ کے گزر جانے کے وہ کچھ دیر تک عقبی دروازے سے لگا ہوا سوچتا رہا کہ وہ باہر جائے کہ نہ جائے۔ اس نے باہر جانے کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے دروازہ بند کر دیا اور آہستگی سے قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

اس روز رات کے کھانے کے دوران اس کی والدہ نے اس کے والد کو آگاہ کیا کہ گھر میں موجود سامان کی مدد سے صرف ایک دن اور گزارا جا سکتا تھا۔

یہ سنتے ہی والد کی پیشانی کی لکیر گہری ہو گئی مگر انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی والدہ کو تسلی دی کہ کل یا پرسوں تک کرفیو میں کچھ نرمی ہونے کی امید تھی۔ ہو سکتا تھا کہ ایک یا دو گھنٹوں کے لیے کرفیو میں نرمی کر دی جائے۔ یہ جواب سن کر اس کی والدہ مطمئن نہ ہوئیں بَل کہ کہنے لگیں، کہ اگر ایسا نہ ہوا…تو؟ ان کی اس ’’تو‘‘ کا والد صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ سر جھکائے چپ چاپ کھانے میں مصروف رہے۔ ان کے چہرے پر فاروق نے ایک ایسی کیفیت دیکھی، جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

وہ اس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے سکتا تھا بَل کہ صرف اسے محسوس کر سکتا تھا۔ اسی لیے اسے محسوس کرتے ہوئے اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔ اس کی بھوک اچانک غائب ہو گئی۔ وہ بے دلی سے نوالے چبانے لگا۔ اسے رہ رہ کر یہ خیال تنگ کرنے لگا کہ گھر میں صرف ایک دن کے کھانے کا سامان باقی بچا تھا، جو کل تک ختم ہو جائے گا۔ پرسوں وہ لوگ کیا کریں گے؟ انہیں بڑے شہر منتقل ہوئے چند ہی روز ہوئے تھے۔ ابھی اہلِ محلہ انہیں جانتے پہچانتے نہیں تھے۔ اس لیے کسی سے مدد مانگنا بھی نا ممکن تھا۔ اگر کسی سے مدد مانگ بھی لی جاتی تو یہ ضروری نہیں تھا کہ امداد مل بھی جاتی۔

کچھ دیر بعد جب اس کے والد ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے دستر خوان سے اٹھے تو اسے ان کے چہرے پر گہری پرچھائیں دکھائی دی۔ وہ سر جھکائے چلتے ہوئے لاؤنج میں گئے اور ٹی وی آن کر کے اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ نو بجے کا خبر نامہ شروع ہونے میں کچھ ہی دیر تھی۔ فاروق بھی دستر خوان سے اٹھ کر ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں خبر نامہ شروع ہو گیا۔ دونوں باپ بیٹے تجسس سے خبریں سننے لگے۔

فاروق یہ آس لگائے بیٹھا تھا کہ اس خبر نامے میں، بڑے شہر کے جن علاقوں میں کرفیو لگایا تھا، وہاں سے کرفیو اٹھانے یا ختم کرنے کی خبر بھی نشر کی جائے گی۔ وہ یہی آس لے کر شروع سے آخر تک سارا خبر نامہ سنتا اور دیکھتا رہا، مگر اسے ایسی کوئی خبر سنائی اور دکھائی نہیں دی۔ خبریں ختم ہونے پر وہ اپنے والد سے مخاطب ہوا، ’’ابو، ان خبروں میں تو کرفیو ہٹانے کی کوئی خبر تھی ہی نہیں۔‘‘ اس نے یہ بات کہتے ہوئے اپنے والد کی طرف دیکھا تو وہ اسے پریشانی کے عالم میں اپنی شہادت کی انگلی کا ناخن چباتے ہوئے دکھائی دیے۔ اس نے اپنے والد کو اس سے پہلے کبھی انگلی کا ناخن چباتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ اپنی کہی ہوئی بات بھول گیا۔ ایک بار پھر اسے اپنے دل کے کٹنے کا احساس ہوا۔ اس نے چاہا کہ وہ اسی لمحے اپنے والد کے سینے سے لگ جائے اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دے۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکا۔ کچھ دیر بعد اس کے والد نے اٹھ کر ٹی وی بند کردیا اور اسے اپنے کمرے میں جا کر سونے کا حکم دیتے وہ اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔ اسے بھی نہ چاہنے کے با وجود وہاں سے اٹھ کر جانا ہی پڑا۔

اس کے چھوٹے بھائی اپنے بستر پر اودھم مچا کر کچھ دیر پہلے سو چکے تھے۔ وہ دھیرے سے چلتا اپنے تاریک کمرے میں آیا اور اپنے پلنگ کو ٹٹولتا اس پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظروں میں اپنے والد کا اداس چہرہ بسا ہوا تھا۔ وہ ان کے چہرے پر معمول کا خوش باش اور آسودہ تاثر دیکھنے کا تمنائی تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ کی طرح بے فکر اور مطمئن دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے رہ رہ کر یہ احساس ستانے لگا کہ یہ سب محض تمنا کرنے یا چاہنے سے ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ سب ممکن بنانے کے لیے اسے کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ اسے کیا کرنے کی ضرورت تھی؟ اس بارے میں اس کا ذہن اسے کوئی راستہ نہیں سُجھا پا رہا تھا۔

بیٹھے بیٹھے اس نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا اور لمبی سانسیں لینے لگا۔ کچھ دیر بعد اسے اپنے والدین کے کمرے سے ان کی باتوں کی دھیمی دھیمی لیکن مبہم سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کبھی اس کی والدہ کی شکایت بھری آواز نمایاں ہوتی اور کچھ دیر بعد معدوم ہو جاتی۔ پھر اس جواب دیتی اس کے والد کی آواز ابھرتی۔ فاروق اپنے بچپن سے یہ آوازیں سننے کا عادی تھا۔ وہ اکثر سوچا کرتا تھا کہ اس کے والدین گہری نیند سونے کے بجائے رات گئے تک آپس میں یہ کیا کھسر پھسر کرتے رہتے تھے۔ آج اسے ان کی اس کھسر پھسر کا حقیقی مفہوم کسی حد تک سمجھ آ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ وہ یقیناً اپنے کنبے کو در پیش پریشان کن صورتِ حال کے بارے میں تبادلۂِ خیال کر رہے ہوں گے۔ وہ بھی اس کی طرح اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہوں گے… راستہ؟…

سوچتے سوچتے فاروق پلنگ پر دراز ہو گیا۔ اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا اور اس کے پپوٹے بھاری ہونے لگے تھے۔ دفعتاً اسے گلی کی جانب سے گھڑ گھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ یہ گھڑ گھڑاہٹ اب اس کے لیے اجنبی نہیں رہی تھی۔ وہ گزشتہ پانچ چھ دنوں میں اس سے بہت مانوس ہو چکا تھا، مگر آج اسے سنتے ہی نجانے کیوں اس کے وجود کے ہر حصے میں ایک سنسنی سی دوڑنے لگی۔ اسے اپنے خون کی گردش تیز ہوتی محسوس ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی سانسوں کی رفتار بھی تیز تر ہونے لگی۔ چند لمحے قبل اس کے سر میں ہونے والا درد بھی غائب ہو گیا اور اس کے پپوٹوں سے بوجھل پن بھی ختم ہو گیا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اسی لمحے ایک پتھر ہاتھ میں اٹھائے دوڑتا ہوا اپنی چھت پر جائے اور جس سَمِت سے گھڑ گھڑاہٹ کی یہ آواز سنائی دے رہی تھی، وہ پوری قوت سے پتھر اسی جانب پھینک دے۔

لیکن وہ اپنے پلنگ پر بے حس و حرکت لیٹا رہا۔ حتیٰ کہ سنائی دینے والی گھڑ گھڑاہٹ دھیرے دھیرے معدوم ہو گئی اور پلنگ پر لیٹے لیٹے فاروق کے وجود میں پیدا ہونے والی سنسنی بھی ختم ہونے لگی۔ اس کے دل کی دھڑکن اپنے معمول پر آنے لگی اور اس کے پپوٹے ایک بار پھر نیند سے بوجھل ہونے لگے۔

اس کنبے کے لیے یہ صبح گزشتہ تمام صبحوں سے مختلف تھی۔ اگر چِہ اس صبح بھی آس پاس کے مکانوں اور گلیوں پر پچھلے چند دنوں جیسا سکوت چھایا تھا اور پچھلے چند دنوں کی طرح آج کی صبح کا آغاز بھی چڑیوں اور لالڑیوں کی اداس چہچہاہٹ سے ہوا تھا۔ فاروق کی والدہ حسبِ معمول سب سے پہلے نیند سے جاگیں اور غسل خانے سے وضو کر کے باہر نکلیں۔ انہوں نے گھر کے صحن میں مُصلّیٰ بچھا کر فجر کی نماز کی ادا کی۔ نماز کے بعد انہوں نے مصلے پر بیٹھے بیٹھے اپنے رب سے دعائیں مانگیں۔ امن و آشتی کی دعائیں اور کشادہ رزق عطا کرنے کی دعائیں۔

مُصلّیٰ سمیٹنے کے بعد یہ دیکھ کر کہ گھر کے سب لوگ ابھی تک گہری نیند سو رہے تھے، وہ دو بارہ کچھ دیر کے لیے اپنے بستر پر دراز ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد جب فاروق کے والد جاگے، تو وہ بھی اٹھ کر باورچی خانے چلی گئیں۔

فاروق اور اس کے بھائیوں کو بیدار ہونے پر ان کی والدہ نے انہیں جو چائے پینے کے لیے دی وہ دودھ کے بغیر تھی۔ فاروق گزشتہ چند دنوں سے اس چائے کا عادی ہوتا جا رہا تھا، اس لیے اس نے بے چون و چرا سلیمانی چائے کا کپ اٹھا لیا اور سڑپے لینے لگا۔ جب کہ اس کے چھوٹے بھائیوں کو گزشتہ دنوں کی طرح آج بھی یہ چائے پینے میں تامل تھا۔ وہ دونوں اپنی ناک بھوں چڑھاتے ہوئے سلیمانی چائے پینے لگے۔ منجھلے نے تو صرف دو گھونٹ لے کر ہی اپنی پیالی چھوڑ دیا اور اس کی پیروی کرتے ہوئے چھوٹے نے بھی یہی کیا۔ ان کی اس حرکت پر ان کی والدہ کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ چپ رہیں۔ انہوں نے باورچی خانے جا کر خشک دودھ کا ڈبا اٹھایا اور اس کی تہہ میں چپکے ہوئے خشک دودھ کو چھری سے کھرونچنے لگیں۔ ا

س کے بعد وہ دودھ لا کر انہوں نے منجھلے اور چھوٹے بیٹے کی پیالیوں میں ڈال کر اسے چمچ سے چائے میں حل کر دیا۔ چائے کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر وہ دونوں خوش ہو گئے۔ ان کی خوشی دیکھ کر فاروق اور اس کی والدہ مسکرانے لگیں۔ ماں بیٹا جانتے تھے کہ ان کے ہونٹوں پر آئی یہ مسکراہٹ عارضی تھی۔

حسبِ معمول سب لوگ دو پہر کے کھانے کے بعد قیلولے کے لیے اپنے کمروں میں بستروں پر دراز ہو گئے۔ فاروق اپنے چھوٹے بھائیوں کو بار بار سونے کی تنبیہ کرنے لگا، مگر وہ دونوں اس کی تنبیہ کو خاطر میں لائے بغیر ایک دوسرے سے باتوں میں مگن تھے۔ منجھلا باتیں کرتے ہوئے چھوٹے کے سر پر ایک چپت لگاتا، جب کہ چھوٹا تِلملا کر اس کے چٹکی لے لیتا۔ اتنے میں انہیں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ سمجھ گئے کہ ان کی والدہ آ رہی تھیں۔ فاروق سمیت تینوں آہٹ سنتے ہی اپنے بستروں پر سیدھے لیٹ گئے اور اپنی آنکھیں بھینچ کر سوتے بن گئے۔ ان کی والدہ انہیں خوب سمجھتیں تھیں، اسی لیے اندر آتے ہی انہوں نے ان کے ناٹک کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ وہ کمرے میں کھڑی ہو کر انہیں آخری وارننگ دینے لگیں اور اس کے چند لمحوں بعد وہ کمرے سے چلی گئیں۔ ہمیشہ کی طرح ان کی وارننگ کا دونوں چھوٹوں پر فوری اثر ہوا۔ چند منٹ گزرتے ہی وہ سو گئے، مگر فاروق نہیں سویا۔ کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں اور والدین کے کمرے سے سنائی دینے والی باتوں کے تھمنے کا انتظار کرنے لگا۔

فاروق گزشتہ روز سے ایک عجیب سی غلام گردشِ خیال میں بھٹک رہا تھا۔ اس غلام گردش میں کمرے ہی کمرے ہی تھے، راہ داریاں ہی راہ داریاں تھیں۔ وہ بار بار ان کے در و دیوار سے اپنا پٹخ رہا تھا۔ ایک کمرے سے دوسرے اور ایک راہ داری سے دوسری میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ وہ اپنے گھر والوں سمیت جس صورتِ حال کے زندان میں قید تھا، اس سے نکلنے کے راستے کا کوئی نقشہ اس کے پاس نہیں تھا۔ کیوں کہ یہ صورتِ حال باہر سے ان پر مسلط کی گئی تھی۔ جن بازاروں میں انسانوں کی ضروریہ کا سامان بکتا تھا، وہ بند پڑے تھے۔ ہسپتال، اسکول، دفاتر سب بند تھے۔ گلیوں میں چلنے اور گھر سے نکلنے پر پابندی عاید تھی۔ اور اس پابندی کو مسلط ہوئے آج تقریباً چھ دن ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ سے اس کا خاندان ایک المیے سے دو چار تھا۔ اس کے والدین کے چہروں سے بے فکری اور اطمینان کافور ہو چکا تھا۔ وہ گھبرائے اور بولائے بولائے سے رہنے لگے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اداسیوں کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ فاروق ان کی اداسی ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس صورتِ احوال پر چپ سادھے رہنا نا ممکن ہو چکا تھا۔

فاروق دیوار کی طرف کروٹ لیے کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ اس کے والدین کے کمرے سے آوازیں آنی بھی بند ہو گئی تھیں۔ یہ بھانپتے ہوئے وہ بستر سے اٹھا اور اپنے سلیپر پہن کر دبے پاؤں چلتا کمرے سے باہر چلا گیا۔ اس نے اپنے سلیپر بر آمدے میں رکھے ہوئے جوتوں کے اسٹینڈ پر رکھ دیے اور وہاں جوگرز شوز اٹھا لیے۔ زینے کی سب سے نچلی سیڑھی پر بیٹھ کر اس نے موزے پہننے کے بعد جوتے پہنے۔ یہ جوتے پہن کر چلتے ہوئے بے آواز رہتے تھے۔ اور انہیں پہن کر چلتے ہوئے وہ خود کو سبک رو محسوس کرتا تھا۔ وہ بے آواز قدموں سے چلتا ہوا باورچی خانے گیا اور وہاں درازوں میں رکھے ہوئے برتن ٹٹولنے لگا۔

کیتلی میں اسے دوسو روپے کے دو نوٹ مل گئے۔ اس نے مسکراتے ہوئے وہ نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیے اور باورچی خانے سے نکل گیا۔ عقبی گلی کی طرف کھلنے والے دروازے کی دہلیز پر کھڑا وہ کچھ تک باہر جھانکتا رہا، پھر دروازہ باہر سے بند کر کے وہ گلی کے خالی پن میں اتر گیا۔

تین بجے کا عمل تھا۔ عام حالات میں بھی اس وقت ان گلیوں پر سناٹا طاری ہوتا تھا مگر اب سناٹے کے ساتھ خوف کی ایک پرچھائیں بھی موجود تھی، جو فاروق کے دل و دماغ پر تھر تھرا رہی تھی۔ وہ اُس پرچھائیں کی تھر تھراہٹ کو نظر انداز کرتا عقبی گلی میں قدم آگے بڑھانے لگا۔ جس مقام پر یہ عقبی راستہ ساری گلیوں کو ملا دینے والی گلی سے جا ملتا تھا، وہاں پہنچ کر وہ ٹھہر گیا اور دیوار کی اوٹ سے آگے کا منظر دیکھنے لگا۔ یہ وہی جگہ تھی، جہاں سے گھڑ گھڑاتا ہوا ٹرک گزرتا تھا، مگر اس وقت یہ گلی مکمل طور پر خالی تھی۔ صرف ایک خارش زدہ کتا اپنا پاؤں اٹھائے ایک مکان کی دیوار سے لگا پیشاب کر رہا تھا۔ وہ اس کتے کو نظر انداز کرتا آگے بڑھا۔

آگے بڑھ کر جب وہ اس مقام تک پہنچا، جہاں سے بازار کی طرف راستہ جاتا تھا اوراُس روز جہاں اسے، دور سے ہی بازار کی رونق دکھائی دے گئی تھی، اُسے لگا آج وہاں واقعی کسی دیو کا سایہ پھر گیا تھا۔ وہ اس راستے کے بیچوں بیچ کھڑا ہو کر کسی مخبوط شخص کی طرح بازار کی جانب دیکھنے لگا۔ نہ تو گاڑیوں کی ورک شاپ کھلی تھی اور نہ ہی فرنیچر کی ورک شاپ۔ ان سے تھوڑی دور واقع ویڈیو سینٹرز بھی بند پڑے تھے۔ اس سے آگے کا منظر بھی پوری طرح ویران تھا۔

ایسی ویرانی اور ایسے سکوت کا مشاہدہ اس نے زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ اس نے معاً دائیں جانب گلی میں ایک دوسرے سے لگ کر کھڑے ہوئے مکانات کی طرف ایک حیرانی سے دیکھا اورسوچنے لگا، ’’ہر مکان میں جیتے جاگتے لوگ رہتے ہیں مگر اِس پہر ان پر چھائی خاموشی محسوس کر کے کون کہہ سکتا ہے کہ ان میں زندہ لوگ بستے ہیں۔‘‘ اسے لگا کہ یہ سارے مکان کسی آسیب کے زیرِ اثر ہیں اور ان کے باسی کب کے انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کہ اسے بازار کی سَمِت سے ’’زنن‘‘ کی عجیب سی آواز سنائی دی۔ اس نے فوراً سامنے دیکھا تو بازار کی سڑک سے کوئی چیز زناٹے سے گزری۔ اس کے تخیل نے اسے سجھایا کہ وہ اڑن طشتری جیسی کوئی چیز تھی، مگر اسی لمحے اس کے تجربے نے اسے بتایا کہ وہ کوئی جیپ یا گاڑی تھی۔ اس نے اپنے تخیل کی شرارت کو رد کرکے اپنے تجربے کی بات مان لی۔

اس دوران فاروق یہ اہم ترین چیز فراموش کیے رہا کہ وہ ایک نسبتاً کشادہ راستے کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔ یہ اسے تب یاد آیا جب دوسری مرتبہ’’زنن‘‘ کی آواز سنائی دینے کے اگلے ہی ثانیے ہلکے ہرے رنگ کی جیپ بازار والی سڑک پر نمو دار ہوئی اور بالکل اچانک اس نے اپنا رخ فاروق کی جانب کر لیا۔ اب جس راستے پر وہ کھڑا تھا، اس کے ایک سرے پر جیپ تھی اور دوسرے سرے پر وہ موجود تھا۔ تُرنت اس کے تن بدن میں ایک بجلی سی بھر گئی مگر اس بجلی نے اس کے ہوش و حواس یک سر غائب کردیے۔ وہ دائیں گلی میں بھاگنے کے بجائے پیچھے کی طرف بھاگا۔ جیپ کے قریب آنے کے ساتھ اس کے پہیوں اور انجن کی آواز بھی اس کے نزدیک تر آنے لگی۔ وہ راستہ اسے ایک نئی گلی میں لے گیا۔ اُس گلی میں بھی اس نے سَمِت کے انتخاب میں سنگین غلطی کر دی۔ اب وہ ایک ایسی سَمِت دوڑ نے لگا،جس کے دوسرے سِرے کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

کچھ آگے جا کر اس نے دوڑتے ہوئے گردن موڑ کر ذرا ساپلٹ کر دیکھا تو اسے وہ جیپ اپنی سَمِت آتی دکھائی دی۔ وہ حواس باختہ ہو کر بھاگنے لگا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ اسے اپنے دل کی دھڑکن کانوں میں گونجتی، شور مچاتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا جسم سر تا پا پسینے سے بھیگ گیا تھا اور اس کی قمیض اس کے بدن سے چپک گئی تھی، جس کی وجہ اسے گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ اِس سَمِت کے جس سِرے کی جانب وہ دوڑ رہا تھا وہ سرا اسے تھوڑے فاصلے پر واقع ایک سڑک تک لے گیا۔

یہ سڑک اس وقت سنسان تھی۔ وہ سڑک کے جس کنارے پر موجود تھا، وہاں ایک بڑی سی مسجد بنی ہوئی تھی۔ دن کے اس پہر مسجد کے گیٹ پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ سڑک کے اُس پار اسے محکمہ ریل کے ملازمین کے لیے بنایا گیا پیلے رنگ کا ایک پرانا سا کواٹر دکھائی دیا۔ اُس کواٹر کے ساتھ ایک چھوٹی سی پھلواری تھی اور اس پھلواری کے ساتھ اسے چھوٹے چھوٹے زرد و سفید پتھروں سے اٹا اور معمولی سی اونچائی کی طرف جاتا ایک راستہ دکھائی دیا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر سڑک عبور کر کے اس راستے کی طرف بھاگا۔ ایک دو پتھروں سے اس کے پاؤں کو ٹھوکر لگی مگر وہ اس ٹھوکر کو خاطر میں نہیں لایا اور دوڑتا چلا گیا۔

معمولی سی چڑھائی چڑھنے کے بعداسے اپنے عقب میں جیپ کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ جیپ میں سے کوئی شخص اس پر چلایا۔’’ اوئے رک جا، نہیں تو…‘‘۔ یہ آواز سن کر اس کا دل دہل گیا، مگر اس نے اپنے آپ کو پلٹ کر دیکھنے سے روکا اور اپنا قدم پوری قوت سے آگے بڑھایا۔ نجانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ اگر اس نے اس لمحے مڑ کر دیکھا تو وہ اسی دم پتھر کا بت جائے گا۔

اس کی توقع کے یک سَر بر خلاف اب اس کے سامنے ایک کشادہ منظر تھا۔ اس کشاد ہ منظر میں ریلوے کی تین لائنیں، پلیٹ فارم، ریلوے لائن کا کانٹا تبدیل کرنے والا ساؤتھ کیبن تو شامل تھا ہی، اس کے علاوہ ایک دو رویہ کشادہ شاہراہ بھی تھی، جو اس چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے عقب سے گزر رہی تھی۔ اسے شاہراہ پر گاڑیاں رواں دواں دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ وہ برق رفتاری سے چھلانگیں لگاتا، پٹڑیاں عبور کرتا سامنے والے پلیٹ فارم تک پہنچا اور اسی رفتار سے دوڑتا ہوا ساؤتھ کیبن کے عقب سے نکل کر شاہراہ پر آ گیا۔

اس نے شاہراہ کے کنارے ریلوے اسٹیشن کی مختصر دیوار کے ساتھ نیم اور سفیدے کے بلند قامت درختوں کا گھنا سایہ دیکھا تو اس کا دل کچھ دیر سستانے کو چاہا، مگر سستانے کے خیال کے ساتھ ایک سنگین خدشہ بھی جڑا ہوا تھا، جسے نظر انداز کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ جیپ اڑن طشتری کی طرح چشمِ زدن میں درختوں کے گھنے سائے میں اس کے سامنے آ کر کھڑی نہ ہو جائے، اور کہیں اس میں سوار شخص غیر انسانی لہجے میں چیخ کر اس سے مخاطب نہ ہو جائے۔ ’’اوئے رک جا، نہیں تو…‘‘ اس خدشے کے پیشِ نظر اسے اپنا سستانے کا خیال ملتوی کرنا پڑا اور وہ درختوں کے سائے کو نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔

وہ جوں جوں قدم بڑھاتا گیا، شاہراہ کے اُ س پار کھلی ہوئی دُکانیں دیکھ کر اس کی حیرت دو چند ہوتی چلی گئی۔ یہ بات اس کے لیے مکمل طور پر نا قابلِ فہم تھی کہ ریلوے لائن کے اُس طرف والے علاقے کے لیے الگ قانون کیوں تھا اور ریلوے لائن کے اِس طرف واقع شاہراہ کے لیے الگ قانون کیوں تھا؟ اُس طرف بازار بند کیوں تھے؟ اور سڑکوں اور گلیوں میں سناٹا کیوں تھا؟ اور اِس طرف نہ صرف ٹریفک چل رہا تھا بَل کہ دُکانیں بھی کھلی ہوئی تھیں۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے اس نے شاہراہ عبور کی اور کھلی ہوئی دُکانوں کی طرف چلا گیا۔

یہ دُکانیں شاہراہ کو نوے درجے پر کاٹ کر سامنے نکلتی ہوئی ایک سڑک کے کنارے واقع تھیں۔ ان کے قریب ہی چائے اور کھانے کے دو ہوٹل بھی تھے۔ چلتے چلتے اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر روپوں کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے اپنی تسلی کی۔ باورچی خانے کے درازوں میں پڑے برتنوں سے چرائے ہوئے اپنی والدہ کے دو سو روپے اس کے پاس تھے۔ وہ اپنی سمجھ داری کو بروئے کار لاتے ہوئے ان روپوں کی مدد سے بہت سی چیزیں خرید نا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے ذہن ہی ذہن میں روز مرہ استعمال کی اشیا کی ایک فہرست بنائی اور ایک دُکان پر جا کر کھڑا ہو گیا۔

اِس سہ پہر یہ دُکان گاہکوں سے یک سر خالی تھی، اسی لیے دُکان دار اسٹول پر بیٹھا جماہیاں لے رہا تھا۔ فاروق کو دیکھ کر وہ ڈھیلے سے انداز میں اٹھ کر کاؤنٹر تک آیا۔ فاروق اسے باری باری اشیاء کے نام اور مقدار بتانے لگا اور وہ اپنے سست انداز سے وہ چیزیں نکال کر انہیں تول تول کر ایک طرف رکھنے لگا۔ ان اشیا میں چاول، چینی، دالیں، گھی اور چائے کی پتی وغیرہ شامل تھیں۔ جب فاروق اپنے ذہن میں مرتب کردہ فہرست کے مطابق کے اشیاء خرید چکا تو اس نے دُکان دار کو بل بنانے اور اشیا کو کسی تھیلے میں بند کرنے کے لیے کہا۔

فاروق کے ذہن میں یہ بات دور دور تک نہ تھی کہ جب اس کے والدین اور بھائی اسے اس کے بستر پر نہ پائیں گے، تو ان پر کیا گزرے گی؟ ان کے لیے موجودہ صورتِ حال میں اسے تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکلنا بھی نا ممکن ہو گا۔ اس نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ جب اس کی والدہ کو باورچی خانے کے درازوں میں پڑے برتنوں سے دو سو روپے غائب ملیں گے تو ان کی کیا حالت ہو گی؟

انہیں اس کی چوری پر لازماً غصہ آئے گا۔ ان سب باتوں کے بر خلاف اس وقت وہ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ جب وہ اشیائے صَرف کا تھیلا اٹھائے ہوئے گھر پہنچے گا تو وہ لوگ اس کے ہاتھوں میں روز مرہ ضروریات کا سامان دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔ اس کے بھائی فوراً گلے لگ جائیں گے جب کہ اس کے والدین اس کے اس کار نامے پر اس کی پیٹھ تھپکیں گے۔

وہ مطمئن تھا کہ دو سو روپے میں اس کا مطلوبہ سامان آ گیا تھا۔ اس نے روپے دکان دار کے حوالے کر کے سامان کا تھیلا اٹھایا۔ ابھی وہ تھیلا اٹھا کر پلٹا ہی تھا کہ ایک ہلکے ہرے رنگ کی جیپ سڑک پراس سے ذرا فاصلے پر آ کر رک گئی۔ جیپ دیکھتے ہی اس کی سٹی گم ہو گئی۔ جیپ کا اگلا دروازہ کھلا اور ڈرائیونگ سیٹ سے ایک فوجی اتر کر اس کی جانب بڑھا۔ فاروق تھیلا اٹھائے حیرت سے بت بنا اس فوجی کی طرف دیکھتا رہا۔ فوجی کے چہرے سے انسانی جذبہ یک سر غائب تھا۔ فاروق کو محسوس ہوا کہ وہ اسی آن اسے بازو سے پکڑ کر جیپ کی طرف کھینچتا ہوا لے جائے گا۔ مگر… مگر یہ کیا ہوا؟ وہ اس کے پاس سے لا تعلقی سے گزرتا آگے بڑھ گیا۔ فاروق نے طویل سانس لی اور اس کی جان میں جان آئی۔

اس نے پلٹ کر دیکھا تو اسے وہ فوجی دُکان سے کوئی چیز خریدتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ کر غائب ہو گئی۔ وہ شاہ راہ کی جانب چل دیا۔

وہ شاہ راہ عبور کرکے ریلوے اسٹیشن کی مختصر دیوار کے پاس لگے نیم اور سفیدے کے درختوں کے پاس پہنچا تو اسے وہ بات یاد آئی، جسے وہ بہت دیر سے بھولا ہوا تھا اور وہ یہ کہ اسے گھر پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی کیا وہ راستہ جس پر دوڑتے ہوئے وہ خود بخود اس طرف آ نکلا تھا، یا پھر کوئی اور نیا راستہ۔ وہ کچھ دیر تک درختوں کے نیچے کھڑا اسی مخمصے میں گرفتار رہا۔ اس دوران وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول سے چند لمحوں کے لیے یک سر غافل ہو گیا۔ اسے یاد آیا کہ جس راستے سے وہ اتفاقاً اس طرف آ نکلا تھا، اس کے سوا اور کسی راستے کے بارے میں اسے علم ہی نہیں تھا۔ اس لیے اگر اس نے کسی دوسرے راستے سے گھر جانے کی کوشش کی تو بھٹکنے کا شدید احتمال تھا۔ اس لیے اس نے اپنے آپ کو نیا راستہ استعمال کر کے نیا خطرہ مول لینے سے روک دیا اور اسی راہ کی طرف چل دیا، جدھر سے وہ اس جانب آیا تھا۔

دو پہر کی جھلساتی ہوئی تیز دھوپ میں وہ تھیلا اٹھائے کچھ دیر تک پلیٹ فارم پر ٹہل کر ریلوے لائن کے اس طرف گزرنے والی سڑک کا جائز لینے کی کوشش کرتا رہا۔ پسینہ جو بہت دیرسے اس کے بدن کے تمام مساموں سے جاری تھا، تھمنے میں ہی نہ آتا تھا۔ اس لیے اس کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ اس کے جوگر شوز بھی پسینے سے بھیگ گئے تھے مگر وہ اس کے با وجود پلیٹ فارم کے ایک کونے سے دوسرے تک ٹہلتا چلا گیا مگر پرلی طرف بنے ہوئے کواٹروں اور ان کی پھلواریوں کے گرد اُگے ہوئے درختوں کے سبب کسی بھی مقام سے وہ سڑک اسے دکھائی نہیں دے سکی۔ اس کوشش میں نا کامی کے بعد اس نے مجبوراً آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور وہ ساؤتھ کیبن کے قریب، پلیٹ فارم سے نیچے اتر گیا اور ریلوے لائن عبور کرنے لگا۔

آگے بڑھ کر وہ ریلوے کواٹر کی پھلواری کے نزدیک پہنچ کر ٹھہر گیا۔ یہاں سے اسے وہ سڑک اور اس کے پار کا کچھ منظر بھی دکھائی دینے لگا۔ گر چِہ وہ یہاں سے پوری سڑک دیکھنے سے قاصر تھا، مگر اسے یہاں سے جتنی سڑک دکھائی دے رہی تھی، وہ خالی تھی اور اس کے پار کا منظر بھی ویران تھا۔ اسے سڑک کے خالی پن اور ویرانی سے کچھ ڈر سا لگا، مگر وہ اپنے ڈر کو نظر انداز کرتا دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا پھلواری کے قریب سے گزر کر سڑک پر آ گیا۔ دن بھر تیز دھوپ کی تپش سہنے والی یہ سڑک اس وقت تیز حدت کی لہریں اچھال رہی تھی۔

سر سری انداز سے دائیں اور بائیں دیکھنے کے بعد اس نے سڑک پار کرنے کے لیے اپنا پاؤں اس پر دھرا ہی تھا کہ اچانک ایک سیٹی کی آواز اس کی سماعت میں داخل ہوئی۔ اس نے گھبرا کر پہلے بائیں طرف دیکھا اور پھر دائیں طرف۔ کچھ غور کرنے پر اسے دائیں جانب ایک پیڑ کے نیچے ہلکے ہرے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس ایک فوجی کھڑادکھائی دیا۔ اسے دیکھتے ہی فاروق ساکت ہوگیا، جیسے کسی نے اسے پتھر کا بنادیا ہو، کیوں کہ وہ اس سے زیادہ دور نہیں تھا۔

اس فوجی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ فاروق فوری طور پر اس کے حاکمانہ اشارے کی تعمیل نہیں کر سکا۔ وہ تھیلا ہاتھ میں تھامے لا چاری سے اس کی طرف دیکھتا رہا،کیوں کہ اس کے لیے اب فرار ہونا بالکل نا ممکن تھا۔ ایسی کوئی بھی کوشش یقینی طور پر اس کے لیے خطر ناک ہو سکتی تھی۔ اس کے ٹَس سے مَس نہ ہونے پر فوجی کی تیوری چڑھ گئی اور وہ رعب دار لہجے میں اس سے مخاطب ہوا۔’’ کھڑے مُنھ کیا دیکھ رہے ہو؟ ادھر آؤ۔‘‘

فاروق سر جھکائے دھیرے دھیرے چلتا اس کے قریب جانے لگا مگر کچھ فاصلے پر ہی فوجی نے اسے رکنے کا اشارہ کیا، ’’وہیں رک جاؤ‘‘۔ اس بار فاروق نے فوراً اس کے حکم کی تعمیل کر دی اور وہ اس سے چند قدم دور ہی ٹھہر گیا۔’’

کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘ فوجی کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھیلا اٹھا کر اسے دکھا دیا۔ اس کا یہ انداز فوجی کو نا گوار گزرا۔’’ میں نے جو پوچھا ہے، اس کا جواب زبان سے دو۔‘‘

فاروق اپنا حوصلہ مجتمع کر کے بہ دقت گویا ہوا، ’’میں… وہ … گھر کا سامان… لینے گیا تھا۔‘‘ اتنی سی بات کہتے ہوئے اس کی سانسیں پھول گئیں۔ وہ اندر سے بری طرح سہما ہوا تھا۔ کوئی خوف اس کے دل پر زور دار چابک رسید کر رہا تھا اور اس کی دھڑکن کسی مُنھ زور گھوڑے کی طرح بگٹٹ دوڑی جا رہی تھی۔ اس کے ذہن میں آندھیاں بگولے اڑاتی پھر رہی تھیں۔ ایسے میں یکسو ہو کر کسی بات کا جواب دینا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔

’’گھر کا سامان؟… کیا تم نہیں جانتے کہ اس علاقے میں سخت کرفیو لگا ہوا ہے۔‘‘

فوجی کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس نے اثبات میں اپنا سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔

’’یہ جانتے ہوئے بھی تم اپنے گھر سے باہر کیوں نکلے؟ بتاؤ؟‘‘ فوجی کے لہجے میں تندی کا عنصر بڑھتا جا رہا تھا۔ فاروق کے پاس اس کے سوال کا خاموشی کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کی خاموشی کو فوجی نے اس کی ہٹ دھرمی پر محمول کیا۔ اس نے اسے غصیلی نظر وں سے سر تا پا دیکھا اور اس کے لبوں سے ہلکی سی ہونہہ نکلی۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ اسی اثناء میں آگے کہیں سے ایک زور دار سیٹی کی آواز سنائی دی۔ فوجی نے سرعت سے گردن موڑ کر اس جانب دیکھا، جہاں سے سیٹی کی آواز گونجی تھی۔ فاروق نے بھی جب اس سَمِت دیکھا تو اس کی پریشانی دو چند ہو گئی۔

اسی سڑک پر آگے جا کر پڑنے والے ایک چوک پر اسے تین فوجی کھڑے دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک نے اپنا ہاتھ ہلا کر کوئی اشارہ کیا۔ فاروق وہ اشارہ نہیں سمجھ سکا مگر اس کے قریب کھڑا فوجی فوراً اس اشارے کا مطلب سمجھ گیا۔ وہ اس سے مخاطب ہوا، ’’فٹافٹ دوڑ کر ان کے پاس چلے جاؤ۔ تمہارا فیصلہ ہمارے صوبیدار جی کریں گے۔‘‘

فاروق اس کی بات سننے کے با وجود نہ سمجھا تو فوجی دو بارہ بولا، ’’فوراً دوڑ لگا کر ان کے پاس جاؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اسے ہلکا سا دھکا بھی دیا۔

اس مقام سے چوک تک کا فاصلہ طے کرنے کے لیے فاروق کو دوڑ لگانی پڑی۔ گر چِہ ہاتھ میں تھامے سامان سے بھرے ہوئے تھیلے کی وجہ سے اسے تیز دوڑنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ اس کا گرمی کی تمازت سے سرخ ہوتا چہرہ پسینے میں شرابور تھا، پھر بھی وہ جیسے تیسے بھاگتا ہوا چوک میں کھڑے فوجیوں تک پہنچ ہی گیا۔

یہ چوک کشادہ سی جگہ پر بنا ہوا تھا۔ جس سڑک سے فاروق آیا تھا، وہ چوک سے گزر کر ریلوے لائن کے ساتھ سیدھی آگے کی طرف چلی گئی تھی۔ ریلوے لائن کی طرف پٹڑیوں سے پیدل گزرنے والوں کے لیے پختہ راستے کے ساتھ لوہے کا ایک دیو قامت پل بنا ہوا تھا۔ اس پل کے عین مخالف یعنی چوک کے بیچوں بیچ، جہاں وہ اس وقت تین فوجیوں اور دو عام شہریوں کے ساتھ موجود تھا، دو متوازی لیکن مختلف راستے الگ الگ سَمِتوں کی طرف جا رہے تھے۔

اس کا سامنا جس فوجی سے ہوا وہ اپنے ڈیل ڈول اور قامت کی وجہ سے اور اپنے سرخ ٹماٹر جیسے چہرے پر واقع بڑے بڑے گُل مچھوں کی وجہ سے، اسے صوبیدار محسوس ہوا، کیوں کہ اس نے اپنی عقابی آنکھ سے فاروق کا سر تا پا جائزہ لیا تھا۔ فاروق اس کے سامنے کھڑا ہو کر کچھ دیر تک ہانپتا رہا۔

’’سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اٹین شن۔‘‘ فاروق کو محسوس ہوا کہ اس شخص کی آواز اسے سنائی نہیں دی بَل کہ برقِ سیاہ فلک بن کر اس پر ٹوٹی ہے۔ اس کا پورا بدن حتی کہ وہ بازو بھی، جس کے ہاتھ سے اس نے کئی کلو سامان کا تھیلا اٹھا رکھا تھا، لا شعوری طور پر خود بخود اٹین شن ہو گئے۔

صوبیدار نے اس سے کچھ فاصلے پر رہ کر ایک تیز نظر اس کے تھیلے پر ڈالی۔’’ اس میں کیا ہے؟‘‘ اس بار اس کی آواز کسی زمینی تازیانے کی طرح فاروق کی سماعت میں داخل ہوئی۔

اس نے منمنائی سی آواز میں جواب دیا، ’’گھر… کا سامان۔‘‘

’’سامان؟ گھر کا؟… کرفیو میں سامان لینے گیا؟‘‘

اس بار فاروق نے جواب دینے کے بجائے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ اس سے قبل کہ صوبیدار اپنی آواز کا ایک اور سنگین پتھر اسے دے مارتا، کہ سامنے والے ایک رستے سے ہلکے ہرے رنگ کی ایک جیپ سبک رفتاری سے چلتی، چوک میں ان کے قریب ہی آ کر رک گئی۔ جیپ کے رکتے ہی تمام فوجیوں نے فوراً شہریوں سے اپنی توجہ ہٹا کر، اسی دم  الرٹ کھڑے ہو کرجیپ کی اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے افسر کو سیلوٹ مارا۔ ا

افسر نے جیپ میں بیٹھے بیٹھے اپنی زیرک نظروں سے شہریوں کو غور سے دیکھا، پھر اس کی نگاہ فاروق پر دوتین ثانیے ٹھہر کر، صوبیدار کی طرف مڑ گئی۔ اس کی گردن کے ہلکے سے خم ہونے کا اشارہ پاتے ہی صوبیدار الرٹ حالت میں چلتا ہوا جیپ تک پہنچ گیا۔ صوبیدار اور افسر کو آپس میں خفیف لہجے میں باتیں کرتے دیکھ کر فاروق کو کچھ تشویش سی ہوئی۔ اسے لگا کہ یہ وہی لوگ نہ ہوں، جو آتے ہوئے اس کے تعاقب میں لگے تھے۔

ان کی حفیف ساز باز تین چار لمحے جاری رہی۔ اس کے بعد صوبیدار تُرنت اپنی جگہ پر واپس آ گیا اور جیپ بھی سبک روی سے اس سَمِت آگے بڑھ گئی، جس سَمِت سے فاروق کو پکڑا گیا تھا۔

یہ کارِ روائی آناً فاناً ہوئی اور اس کے فوراً بعد صوبیدار اور دوسرے دو فوجی شہریوں کے ساتھ اپنے معاملات میں مشغول ہو گئے۔ صوبیدار ایک بارپھر فاروق پر اپنا صدائی کوڑا برسانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ بارہ برس کا فاروق اب اپنے حواس پر کچھ کچھ قابو پا چکا تھا مگر آسمان سے برستی ہوئی دھوپ اور کولتار کی سڑک پر اس دھوپ سے پیدا ہونے والی حدت نے اسے تھوڑا تھوڑا سا بولا دیا تھا۔ وہ سامان سے بھرا چند کلو وزنی تھیلا کبھی دائیں ہاتھ میں پکڑتا کبھی بائیں ہاتھ میں۔ اب یہ وزن اس کے لیے سوہانِ وجود بن چکا تھا، وہ نہ تو اس سے چھُٹکارہ پا سکتا تھا اور اب نہ ہی اسے پھینک سکتا تھا۔

’’بالکے! اپنا تھیلا ایک طرف رکھ کر مرغے بن جاؤ۔ تم نے قانون کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔‘‘ صوبیدار نے دو ٹوک انداز میں اپنا صدائی کوڑا اس پر برسایا۔ فاروق اس کا یہ حکم فوراً سمجھ گیا، کیوں کہ اپنے پرائمری اسکول کے ابتدائی برسوں میں وہ اپنے استادوں کی جانب سے کئی بار ایسے ہی احکامات کی بے چوں و چرا تعمیل کر چکا تھا۔ اس نے چوک میں کھڑے کھڑے دیکھ لیا تھا کہ دوسرے فوجیوں نے دیگر دو شہریوں، جن میں سے ایک اپنے سفید بالوں کی وجہ سے عمر رسیدہ لگ رہا تھا جب کہ دوسرا اپنے چھریرے بدن کی وجہ سے درمیانی عمر کا معلوم ہوتا تھا، ان کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا تھا اور وہ دونوں اس سے ذرا فاصلے پر ٹانگوں کے بل جھکے ہوئے اور اپنے کانوں کو ہاتھوں سے پکڑے ہوئے، مرغے بنے ہوئے تھے۔ ان کی یہ درگت دیکھ کر فاروق زیرِ لب مسکرائے بنا نہیں رہ سکا کیوں کہ دونوں کی کمر یں زیادہ اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔

’’تم نے سنا نہیں۔ مر غے بن جاؤ مرغے۔‘‘ اس بار صدائی کوڑے کی آواز کی غضب ناکی کچھ سوا ہی تھی۔ اس لیے فاروق نے فوراً اپنا تھیلا ایک طرف رکھ کر، پھر اپنی ٹانگیں کھول کر مرغے کا آسن جمانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اسے اپنی پوزیشن ایڈجسٹ کرنے میں دو تین لمحے لگے مگر اس کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ وہ ان دونوں سے بہتر انداز میں کرفیو میں گھر سے باہر نکلنے کی سزا کاٹ رہا تھا۔

مرغے کے آسن میں فاروق کا دائرۂِ چشم بہت محدود ہو گیا تھا۔ کھڑے ہو کر اسے اپنے گرد و پیش کا سارا منظر اپنی جزئیات سمیت دکھائی دے رہا تھا مگر اب اس دشوار گزار آسن میں منظر کی جزئیات تو کجا، منظر کا ہی بہت تھوڑا سا حصہ اسے اپنی چھوٹی سی آنکھوں سے دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اب صرف کولتار کی سیاہی مائل سڑک اور اس پر چلتے ہوئے فوجیوں کے بھاری بھر کم بوٹ ہی دیکھ پا رہی تھیں۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا، فاروق کے پاؤں شَل ہوتے گئے۔ اس کی کمر میں درد کی ٹِیسیں اٹھنے لگیں اور اس کا حلق سوکھ کر کانٹا ہونے لگا کیوں کہ اس نے گھر سے نکلنے کے بعد سے اب تک پانی نہیں پیا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کے حواس گم ہونے لگے اور اس دوران فوجیوں کے بوٹ اس کے آس پاس ٹہلتے رہے۔

کولتار سے اٹھتی حدت اس کے جسم کے ساتھ اس کی روح تک کو پگھلانے لگی۔ اس کے بدن کے تمام مساموں سے پسینہ اتنے زوروں سے جاری تھا کہ اسے لگنے لگا کہ اس کا وجود اسی دم پانی میں تحلیل ہو کر کولتار میں چھپے پتھروں کی حدت سے آبی بخارات بن کر فضا میں شامل ہو جائے گا۔

دفعتاً فاروق کو کسی گاڑی کے آنے کی آواز سنائی دی، جس کی رفتار چوک میں پہنچ کر کچھ کم ہو گئی اور اس کے بعد وہ کسی دوسری سَمِت کو نکل گئی۔ یہ وہی جیپ تھی، جو علاقے میں مسلسل پیٹرولنگ کر رہی تھی۔ جیپ کے جانے کے بعد اسے حکم دیتی ایک مختلف قسم کی آواز سنائی دی، جو دوسرے دو فوجیوں میں سے کسی کی تھی۔

’’تم دو کھڑے ہو جاؤ۔ تمہارے لیے اتنی سزا ہی کافی ہے۔ اب تم جس طرف آئے تھے، اسی طرف واپس چلے جاؤ۔ جب کرفیو ختم ہو جائے تب آنا۔ سمجھے!‘‘

ان کی آواز کے بجائے فاروق کو ان کے تیزی سے دور جاتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ اب اِس چوک میں ان تین فوجیوں کے ساتھ اکیلا رہ گیا تھا۔ اس کا حلق پیاس کے مارے چٹخی ہوئی زمین کی طرح تڑخ گیا تھا۔ مرغے کے آسن میں کھڑے کھڑے اسے نجانے کتنے لمحوں کی صدیاں بیت گئی تھیں۔ اس کے بدن کا ریشہ ریشہ اس آزار کی گراں باری سے تڑپ رہا تھا بَل کہ سلگ رہا تھا۔ اس کا وجود اس اذیت اور ہزیمت کی وجہ سے عدم کا نشان بن چکا تھا۔

’’اب اسے بھی چھوڑ دیتے ہیں صوبیدار جی۔‘‘

’’ہاں چھوڑ دو، مگر اسے بھیجو گے کس طرف؟‘‘پہلی بار صوبیدار کی آواز اسے انسانی خصوصیات کی حامل محسوس ہوئی۔

’’مجھے یہ یہیں کا لگتا ہے۔ اپنے گھر چلا جائے گا۔‘‘

’’ اچھا چھوڑ دے۔‘‘ یہ کہہ کر صوبیدار اس کے قریب سے گزر کر ایک جانب چلا گیا۔

’’ چل اٹھ بالکے، اور یہاں سے تیز دوڑ لگا کر غائب ہو جا۔ چلا اٹھ۔‘‘ فوجی نے تحکمانہ انداز میں کہا۔

فاروق کیسے دوڑ سکتا تھا، اور وہ بھی اتنا تیز کہ ان عقابی نگاہیں رکھنے والوں کے سامنے سے چشمِ زدن میں غائب ہو جاتا۔ وہ تو کئی صدیوں سے بھاری، لا تعداد لمحوں سے، ایک غیر انسانی آسن میں جکڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے پکڑے اپنے کان فوراً چھوڑ دیے، لیکن جب وہ سیدھا کھڑا ہونے لگا تو اس کی کمر نے فوری طور پر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ درد کی بے شمار لہریں تھیں، جو اس کی ریڑھ کی ہڈی میں اذیت کا طلاطم بپا کیے ہوئے تھیں۔

’’سنا نہیں کیا! دوڑ لگا اور غائب ہو جا،‘‘ فوجی کی آواز میں غصہ تھا۔

فاروق نے جھک کر بہ دِقت سڑک پر پڑا ہوا اپنا تھیلا اٹھایا اور سامنے یعنی بند بازار کی طرف جانے والے راستے کی طرف تیزی سے چلنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا باعثِ صد آزار ہو رہا تھا، مگر جیسے تیسے وہ آگے بڑھنے لگا۔

’’دوڑ لگا، دوڑ!‘‘ پیچھے سے فوجی چیخا۔

فاروق نے دوڑنے کی کوشش کی، مگر اس کی کمر اور اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ دینے سے قاصر تھیں۔ وہ بس اپنے دونوں پیروں کو تیز تیز حرکت دینے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا، اور اس کے دونوں پیر چل بھی رہے تھے، لیکن بہت کم رفتار سے۔ اسے اِس آزار سے، جو اس نے کچھ دیر پہلے کاٹا، ملنے والی رہائی عزیز تھی۔ وہ غیر انسانی آسن والی سزا دو بارہ بھگتنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سو اس سے جتنا تیز بن پا رہا تھا، وہ چل رہا تھا۔ ایسے میں اسے گرمی کی حدت اور راستے کی سَمِت کا بھی کچھ خیال نہیں رہا تھا۔ اس کے ماؤف ذہن اور شدید نفرت اور غصے سے بھرے ہوئے اس کے دل کی حالت، نقطۂِ جوش پر کھولتے پانی جیسی ہو رہی تھی۔ مگر وہ جولائی کی اس سہ پہر، اس سڑک پر اپنے ٹھوس وجود کے ساتھ موجود تھا۔ کاش وہ کوئی ٹھوس وجود نہ ہوتا، بَل کہ مائع ہوتا۔ کم از کم اس طرح وہ فوری طور پر ان خبیثوں کی نگاہ سے اوجھل تو ہو جاتا۔

’’دوڑ… نہیں تو…‘‘ یہ تازیانہ ایک بار پھر ہوا کے دوش پر لہراتا اس کی سماعت سے ٹکرایا۔ اب فاروق میں اسے سہنے کی تاب ہر گز نہ رہی تھی۔ بازار کی سڑک پراسے دائیں طرف جو پہلی گلی دکھائی دی، وہ اسی میں مڑ گیا اور مڑنے کے بعد تکلیف سے لنگڑاتا ہوا وہ اسی گلی میں آگے ہی آگے چلتا چلا گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے بدن کا جھکاؤ بائیں طرف بڑھتا جا رہا تھا، کیوں کہ اس نے سامان والا تھیلا بائیں ہاتھ میں ہی پکڑا ہوا تھا۔

اس نے چلتے چلتے سامان کا تھیلا دوسرے ہاتھ میں منتقل کرنا چاہا، تو اس کا بایا ہاتھ اٹھنے کے بجائے مزید جھک گیا۔ فاروق کی ٹانگیں توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور وہ پختہ گلی کے بیچوں بیچ بائیں جانب ڈھیتا چلا گیا اور اگلے ہی لمحے اس کا وجود، دن بھر دھوپ سے جھلستی ہوئی اِس کنکریٹ گلی کی سطح پر گرا پڑا تھا اور اس کے سامان کا تھیلا بھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر یوں نیچے گرا، کہ گرتے ہی پھٹ گیا اور اس کے پھٹنے سے اس میں موجود تھیلیوں میں رکھی ہوئی چیزیں یعنی آٹا، دالیں، چاول اور چینی وغیرہ، گلی میں پڑے ہوئے فاروق کے جسم کے گرد پھیلی ہوئی تھیں۔

اس کے بعد کچھ دیر کے لیے، نجانے کتنی دیر کے لیے اس کے حواس کا تعلق اپنے گرد و پیش کی آزاروں بھری دنیا سے کٹ گیا اور اس کا وجود کچھ وقت کے لیے ہی سہی اسے پہنچنے والی اذیت اور ہزیمت فراموش کرنے میں کامیاب ہوا، جس کی وجہ سے اس کا آئندہ کا عالمِ خیال و احساس پوری طرح تہہ و بالا ہونے والا تھا۔