ٹی ایس ایلیٹ بہ نام جارج آرویل مکتوب: اینیمل فارم کیوں شائع نہیں ہو سکتا

ٹی ایس ایلیٹ بہ نام جارج آرویل

ٹی ایس ایلیٹ بہ نام جارج آرویل مکتوب: اینیمل فارم کیوں شائع نہیں ہو سکتا

انتخاب و ترجمہ از، یاسر چٹھہ
…………………..

13 جولائی 1944

جارج آرویل
10-اے، مورٹیمر کرَیسنٹ
لندن این-ڈبلیو 6

پیارے آرویل،

میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ اینیمل فارم کے متعلق بغیر کسی تاخیر کے کوئی فیصلہ چاہتے تھے: لیکن اس سلسلے میں (یعنی ہماری فیبر اینڈ فیبر اشاعتی کمپنی کے) کم سے کم دو ڈائریکٹروں کی رائے کا موصول ہونا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ اس کام کا ایک ہفتے کے اندر اندر مکمل ہو جانا فی حقیقت امرِ محال ہے۔ تاہم اس کام کے سلسلے میں وقت کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے گو کہ (فیبر اینڈ فیبر کے) چیئرمین سے بھی اُن کی اس (ناویلا سے) متعلق رائے کا پوچھ لینا چاہیے تھا۔ لیکن ایک دوسرے ڈائریکٹر صاحب اور میرا اس ناویلا (novella) کے اہم نکات کے متعلق اتفاق پایا جاتا ہے۔

ہمیں اس بات سے اتقاق ہے کہ یہ ناویلا ایک منفرد اور بلند پایہ تصنیف ہے؛ اس کے علاوہ اس میں اخلاقی تمثیل کی صنف کو بڑی مہارت سے برتا گیا ہے، اور مزید یہ کہ اس کی کہانی کسی بھی قاری کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھتی ہے؛ اور اس ناول میں یہ ایک ایسی خاصیت ہے جس کے تانے بانے گلیور (ٹریولز) سے جا ملتے ہیں۔

لیکن ان سب چیزوں کے با وجود، ہم اس بات پر یقین کرنے سے قاصر ہیں، اور جہاں تک میرا خیال ہے باقی ماندہ ڈائریکٹروں کا بھی قریب قریب یہی خیال ہو گا، کہ موجودہ وقت کی سیاسی صورتِ حال کو اس انداز سے تنقید کا نشانہ بنانے کا یہ کوئی درست اور صائب طریقہ ہے۔

یہ یقیناً کسی بھی ذمے دار اشاعتی ادارے کا، جو محض اپنی مالی منفعت کے علاوہ بھی کسی اور قسم کے آدرشوں کا تھوڑا بہت بھی دعویٰ دار ہو، فرض ہے کہ وہ ایسی کتاب شائع کرے جو وقتِ موجود کی رواں لہر سے مخالف سَمِت میں ہو۔ لیکن بہ ہرحال پھر ایسا تو ہونا ہی چاہیے نا کہ اس فَرم کے متعلقین میں زیادہ نہیں تو کم از کم ایک ذمے دار تو اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اس طرح کی بات اس موقع و محل پر کہنا واقعتًا وقت کی ضرورت ہے۔

اس کتاب کو چھاپنے کے متعلق مجھے تو کوئی ایسا خاص محتاط ہونے اور کچھ ایسا دیکھنے بھالنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اگر کوئی اس چیز کا قائل ہو کہ موجودہ وقت میں ایسی باتیں، جن بنیادوں پر (یہ ناول کھڑا ہے،) کہنے میں کوئی تامل نہیں۔
میرے خیال میں میری اپنی تشفی اس اخلاقی تمثیل سے اس وجہ سے نہیں ہو پا رہی کہ اس کا تاثر سیدھے سیدھے رد کردینے کی نفسیات سے عبارت ہے۔ اس ناویلا کو چاہیے کہ وہ مصنف کے ما فی الضمیر سے ہم دردی کا جذبہ اجاگر کرے؛ اس کے علاوہ مصنف کے لیے قابل اعتراض چیزوں کے خلاف بندہ مصنف سے ہم آہنگی محسوس کرے؛ اور آپ کا سامنے آنے والا نکتۂِ نظر، جو مجھے ٹراٹسکی کے جیسا لگتا ہے، وہ مجھے کوئی زیادہ دل بھاتا محسوس نہیں ہوتا۔ کسی بھی پارٹی کی طرف سے کسی طرح کی مضبوط کشش محسوس کیے بغیر خواہ مخواہ میں آپ کا ووٹ دینے کا فیصلہ بکھیڑوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

یعنی کہ آپ کی رائے ان دونوں پارٹیوں کے بیچوں بیچ منقسم ہو جاتی ہے، ایک وہ جو روس میں پائے جانے والے رجحانات کو خالص اشتمالیت کے نکتۂِ نظر سے تنقیدی نظروں سے دیکھتی ہے، اور دوسری وہ جو بالکل نئے تناظر میں چھوٹے ملکوں کے مستقبل کے بارے متفکر ہے۔ اور باقی سب باتوں کے علاوہ آپ کے کرداروں میں سے سؤر باقی جانوروں کی نسبت زیادہ ذہین ہیں اور اسی واسطے وہ پورے فارم کو چلانے کے لیے سب سے موزوں ہیں۔ اور تو اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان سؤروں کے بغیر فارم کا وجود ہی یک سَر نا ممکن تھا۔ اس لیے کوئی بھی شخص یہ دلیل زبان پر لانے میں حق بجانب محسوس ہوتا ہے کہ ضرورت اس امر کی تھی کہ زیادہ اشتمالیت سامنے لانے کی بجائے سؤروں کو زیادہ سے زیادہ عوامی ہم دردی کا حامل دکھایا جانا چاہیے تھا۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، وجہ یہ ہے کہ جو کوئی بھی آپ کا یہ ناویلا شائع کرے گا، وہ یقیناً اور بہ دیہی طور پر آپ کی مستقبل میں آنے والی تصنیفات کو بھی شائع کرنے کا موقع پائے گا۔ اور مجھے آپ کی اس تصنیف کا بڑا پاس اور لحاظ ہے کیوں کہ یہ بنیادی شخصی پختگی کی حامل تصنیف ہے۔

محترمہ شیلڈن آپ کو متن ایک اعلیحدہ ڈاک کے ذریعے بھیج دیں گی۔

آپ کا مخلص

ٹی ایس ایلیٹ


مزید دیکھیے:  زبان بندی کوئی حل نہیں ہوتا  از، خورشید ندیم


About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

1 Trackback / Pingback

  1. تصویر — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.