ہم کیوں لکھتے ہیں؟(1)

ہم کیوں لکھتے ہیں؟(1)

ہم کیوں لکھتے ہیں؟(1)

از، ڈیوڈ ڈیورکن

ترجمہ: نجم الدین احمد

اس مضمون کا حصہ دوئم یہاں کلک کرنے پر میسر ہے۔

’’ڈیوڈ ڈیورکن (David Devorkin)امریکی نژاد ناول نگار ہیں۔ ان کے مشہور ناول Dawn Crescent، The Green God اور Pit Planet ہیں۔ وہ ادب کے ساتھ دیگر موضوعات پر بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’Home with Solar Energy‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ میری واحد غیرافسانوی کتاب ہے جو شاید آخری ہو۔ اپنے مضامین میں وہ عموماً اپنے نظریاتی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک اور مضمون Why I am not Jew بھی بہت دلچسپ ہے۔‘‘ (ادارہ’’ایک روزن‘‘)

نوٹ: اِس سارے مضمون میں مَیں دراصل کتابیں تصنیف کرنے کے متعلق بات کر رہا ہوں۔ میں اِس میں جو کچھ کہوں گا اُس کا اغلب اطلاق مضامین اور مختصر کہانیوں پر بھی ہو گا، لیکن درحقیقت کُتب یعنی ناول ہی میرا اصل موضوع ہیں کہ جن کا مجھے تجربہ زیادہ ہے۔ وقت کا مصرف، زندگی کے بڑے حصے کا استعمال کتاب کے تحریر کرنے میں کہانی یا مضمون کے لکھنے سے زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ دونوں حقیقتاً بنیادی طور پر مختلف تجربات ہیں۔

ہم کیوں لکھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جسے ادیب بسا اوقات ایک دوسرے کے ساتھ زبانی وتحریری مباحثوں میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ اِس کا قدرے کورا جواب تو یہ ہے کہ روزگار کے لیے اِس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ لیکن اِس کا اطلاق صرف اُن چند ایک ادیبوں پر ہوتا ہے جو بطور مصنف اپنی روزی کمانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پھر سبھی کیوں لکھتے ہیں؟ اِس کے بھی ایک ہی جیسے مختصر جواب دیے جاتے ہیں: ’’میں لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ یا ’’اِس کی وجہ یہ ہے کہ میں بنیادی طور پر مصنف ہوں۔‘‘

جارج آروَیل (George Orwell) نے اِس سے بہت ملتی جلتی بات اپنے ۱۹۴۶ء کے مضمون ’’مَیں کیوں لکھتا ہوں؟‘‘ میں کہی ہے:
’’بہت ہی بچپن سے، شاید پانچ یا چھ برس کی عمر ہی سے میں جان گیا تھا کہ میں بڑا ہو کر ادیب بنوں گا۔ سترہ اور چوبیس برس کی عمر کے عرصے کے درمیان میں نے اِس خیال سے چھٹکارا پانے کی کوشش یہ جانتے ہوئے بھی کی کہ میں اپنی اصل فطرت پر ظلم کر رہا ہوں اور جلد یا بہ دیر مجھے اِس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کتابیں ہی تصنیف کرنا ہوں گی۔‘‘

بہ الفاظِ دیگر آروَیل کا نظریہ تھا: ’’لکھاری لکھتا ہے۔‘‘ اِس سے اُس کی مراد ہے کہ ادیب تحریروں کے بارے میں گفتگو کرنے یا لکھنے کے بارے میں خیالی پلاؤ پکانے یا اپنے آپ سے مستقبل کے کسی نامعلوم لمحے میں کچھ لکھنے کا تہیہ کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے عملاً الفاظ قرطاس پر بکھیرتے ہیں۔

ہنری جیمز (Henry James) نے کچھ ایسی ہی بات کہی ہے: ’’ذہین شخص کے لیے مناسب کام صرف ناول لکھنا ہے۔‘‘ (میں نے یہ بات بہت عرصہ پہلے ایچ جی کی سوانح عمری میں پڑھی تھی لیکن یہ ڈھونڈنے پر بھی مجھے دوبارہ نہیں ملی۔ لہٰذا امکان غالب ہے کہ میں اِس قول کو غلط طور پر یاد کر رہا ہوں گا۔ تصحیح کا خیر مقدم کروں گا)۔

لہٰذا لکھاری لکھتے ہیں کیوں کہ وہ لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں یا اِس لیے لکھتے ہیں کہ اُن کے لیے کوئی اور کام مناسب نہیں ہوتا۔ اِس بات سے ہمیں زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی جیسے کہا جائے کہ کرسی اِس لیے کرسی ہے کیوں کہ یہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔ یہ بیان درست تو ہے لیکن مفید ہر گز نہیں۔

آئیے کوشش کریں کہ ہم بات کو کچھ آگے بڑھا سکیں۔

کراہت آمیز کائی کے گولے جیسے جعلی صدر جارج ڈبلیو بُش نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں کہا کہ صدارت ذخیرہ اندوزی ہے۔ یہ سِینت سِینت کر رکھنے کا کام ہے۔ خوب، جارجی، صدارت لکھارت سے موازنہ کرنے کی چیز نہیں ہے۔

مُووِیز (فلموں) کے مطابق مصنف کے لیے سب سے مشکل کام موضوع کی تلاش ہے۔ ایسی فلموں میں کچھ غیر اغلب واقعات، بالخصوص اگر وہ کامیڈی ہوں تو بالعموم جنسی لذّت بھری محبت کی شمولیت، ایک عمدہ خیال مصنف کے ذہن میں زبردستی اُتارنے کا باعث بنتے ہیں۔ وہ جوش سے بھرا ہوا اپنے ٹائپ رائٹر کے سامنے (حقیقی دُنیا کے برعکس، جب کہ کچھ مصنّفین نے ترقی کرتے ہوئے کمپیوٹر کے ذریعے لکھنے کے عمل کو دکھایا ہے) بیٹھ جاتا ہے اور تیزی سے ایک کتاب پیش کر دیتا ہے۔ جو اُس سے بھی زیادہ تیزی سے چھپتی ہے اور جلد ہی سب سے زیادہ بکنے والی (Best-Seller) بن جاتی ہے جو مصنف کے کردار کو، اُس کے حیرت انگیز اور نا ممکن مہمّات کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

اکثر مصنّفین کے لیے حقیقی دُنیا میں لذّت آمیز جنسی دِلچسپیاں نایاب ہیں، لیکن خیالات مشترک ہیں۔ ہم اپنے ذہنوں پر مسلسل یلغار کرنے والے خیالات کے بٹوے میں سے اُس ایک کا انتخاب کر کے کہ جسے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مختصر وقت کا اُس پر اصراف مفید ہو گا، ایک بہترین کتاب میں بدل دیتے ہیں۔ آہ! یہ ذخیرہ اندوزی ہے! یہ بہت زیادہ وقت صَرف کرنے والا کام بھی ہے۔ فلمیں زیادہ حقیقت پسند ہوں اگر وہ وقت کا پہیہ الٹا چلا کر، بجائے اُس کے جو وہ دکھاتی ہیں، مصنف کو اُس کے دو اصل کام کرتے دکھائیں۔ مصنف کو موضوع کی تلاش میں پسینہ بہاتے اور مارے مارے پھرتے اور پھر اُسے تمام نشیب و فراز کے ساتھ منتخبہ کتاب تخلیق کرتے دکھائیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اُسے آغاز میں موضوع ڈُھونڈتے اور پھر فلم کے بقیہ سارے حصے میں ٹائپ کرتے ہوئے دکھائیں۔ شاید ایسی فلم کا انجام یہ ہو کہ وہ جس پبلشر کو بھی مسوّدہ بھجوائے، وہ اُسے چھاپنے سے انکار کر دے جس کے نتیجے میں مصنف افسردگی سے کہے کہ شاید اگلی بار خوش قسمتی اُس کے دَر پر دستک دے دے۔ ’’مصنف ہونا واقعی کرسی ہونے کے مترادف ہے۔‘‘ وہ گِریہ کرتے ہوئے کہے۔ ’’ہر کوئی تم پر بیٹھ جاتا ہے۔‘‘ کوئی بھی ایسی فلم نہیں دیکھنا چاہے گا، لیکن یہ کم از کم حقیقت کے تو بہت قریب ہو گی۔

اوہ، یاد کیجیے کہ مصنف یہ سارا کام ذخیرہ اندوزی کا کر رہا ہے جب کہ وہ باقاعدہ ملازمت بھی کر رہا ہے اور اکثر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ معقول خاوند اور باپ بننے کی سعی بھی کر رہے ہیں۔ فلموں میں مصنف عشرت کدے میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اُس کے بینک میں بے شمار دولت رکھی ہے۔ حقیقی دُنیا میں وہ محض ایک بیچارہ قسم کا آدمی ہے جو ایک ایسے مکان میں رہتا ہے جسے خاصی مرمت کی ضرورت ہے۔ وہ مکان کی قسطوں اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کے لیے پریشان رہتا ہے۔

اِس نا خوش گوار اور غیر فلمی تصنیفاتی زندگی پر کوئی بھی بہت حیرت زدہ ہوسکتا ہے کہ پھر کوئی مصنف کیوں لکھتا ہے؟

پہلی کتاب بعد میں آنے والی جملہ کُتب سے مختلف ہوتی ہے اور اِس طرح مختلف نہیں ہوتی جیسے جنسی تلذّز کا پہلا تجربہ بعد کے تجربات سے مختلف ہوتا ہے۔ عام طور پر جب مصنف اپنی پہلی کتاب تصنیف کرتا ہے تو وہ جوان ہوتا ہے اورجوش وخروش، الفاظ اور کرداروں کو سبک دستی سے برتنے کی خوشی، اور اِس یقین سے بھرا ہوتا ہے کہ یہ کتاب دُنیا کو اپنی طرف کھینچ لے گی اور اُس کے لیے شہرت اور خوش بختی لانے کا سبب بنے گی۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ زندگی کے لاتعداد اہم معاملات، انسانی فطرت اور سیاسیات، یا جو کچھ بھی اُس نے اپنی کتاب میں ڈالا ہو، کوبقیہ لوگوں کو سکھاتا پھرتا ہے۔ پہلے ناول میں بہت سا مواد ہوتا ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان مصنف نے اپنی بیس سال سے کچھ اُوپر کی زندگی میں ہر شے کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے اور اِس بناء پر بھی اُس نے اب تک ڈھیلی ڈھالی عبارتوں کو حذف کرنا نہیں سیکھا ہوتا جسے وہ عمدہ اُسلوب خیال کرتا ہے اور جسے ایڈیٹرز فالتو سمجھتے ہیں۔

لہٰذا یہ مکمل طور پر قابلِ فہم ہے کہ جب کوئی اپنا پہلا ناول مکمل کرے گا، اپنی پہلی تحریر لکھے گا، پھر اُس پر نظر ثانی کرے گا، اُسے عمدہ بنائے گا اور پبلشروں یا ایجنٹوں کو بھیجنا شروع کرے گا تو آخر تک وہ جوش و جذبے اور خوش اُمیدی کی آنچ سے دھک رہا ہو گا۔

جب میں نے ۱۹۷۰ء کے وسط میں اپنا پہلا ناول مکمل کیا تو میرا بھی یہی عالم تھا۔ میں نے پبلشروں کی طویل ہوتی فہرست کے انکاروں سے اپنے آپ کو سہار لیا کیوں کہ میرے پاس جوش و جذبے، توانائی اور نوجوانی کی حماقتِ محض تھی۔ یہ سب کو قابلِ جواز ہو گیا جب پاکٹ بُکس(Pocket Books) نے اُسے خرید کر شائع کر دیا۔ کتاب آئی اور اُس نے دُنیا میں کوئی آگ نہ لگائی۔ میرے ایڈیٹر نے مجھے بتایا کہ اُسے ’’خاموشی سے لیا گیا تھا۔‘‘ اِس سے مجھے ایک لمحے کے لیے احساس ہوا کہ یہ اشاعتی صنعت کی ’’نظر انداز شدہ‘‘ کے لیے مہربان انداز میں نرم الفاظ کی اصطلاح تھی۔

اپنی مایوسی اور دُنیا کے غبّی پن پر حیرانی کے باوجود میں نے لکھناختم نہیں کیا۔ میں پہلے ہی اپنا دوسرا ناول خاصا لکھ اور تیسرے کا خاکہ تیار کر چکا تھا۔ (پاکٹ بُکس نے دونوں ناول خرید لیے مگر تیسرا کبھی اشاعت پذیر نہیں ہوا کیوں کہ جب دوسرا ناول چھپا تو اُسے اِس قدر خاموشی سے لیا گیا تھا کہ سُوئی تک کے گرنے کی آواز سُنی جا سکتی تھی)۔ اُسی نوجوانی والی احمقانہ توانائی اور خوش اُمیدی نے مجھے کام جاری رکھنے پر مجبور کیے رکھا۔ لیکن کسی مرحلے پر آ کر حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ مصنّفین کی ایک بہت بڑی اکثریت کی کتابیں بہت زیادہ بکنے والی تو کیا اچھی تعداد میں بکنے والی بھی نہیں بنتیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب بہت سے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اِس کے لیے کون اُنھیں الزام دے سکتا ہے؟
لیکن بہت سے پھر بھی لکھنا ترک نہیں کرتے۔

میں اُن مصنّفین کی بات نہیں کر رہا ہوں جو اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور خود کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ اُن سے بس کارنامہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ میں اُن کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو حقیقت کو قبول کرتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ وہ کبھی کوئی کامیاب کتاب نہیں دے سکتے، لیکن پھر بھی لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ہاں، آپ۔ میں آپ کے اور اپنے آپ کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ ہم لکھنا کیوں جاری رکھتے ہیں؟

ہم میں سے کچھ کو عارضی طور پر مثبت حوصلہ افزائی مل جاتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو مسلسل ہارنے لیکن کبھی کبھار جیتنے والے جواری کو قابو میں رکھتی ہے۔ انہیں اِس گمان سے چپکائے رکھتی ہے کہ مستقبل میں بڑا مال لازماً ہاتھ لگے گا۔ یہی امر اُن مصنّفین کی بھی وضاحت کر سکتا ہے جو عام طور پر تو ناکام رہتے ہیں لیکن شاذونادر چھوٹی موٹی کامیابیاں اُنھیں لکھنے پر آمادہ رکھتی ہیں۔
نہیں، انتظار کیجیے۔ اِس سے زیادہ کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ فلموں میں کام کرتے ہیں۔ آپ کا ایک سیکسی اور دِل رُبا حسینہ کے ساتھ اندر جوشیلا تعلق ہے اور یہ تعلق آپ کو آپ کے مطلوبہ موضوع تک رسائی دے دیتا ہے۔ آپ ایک ناول لکھتے ہیں (نشیب و فراز سے بھرپور، نظر ثانی کرتے ہیں اور اُسے مکمل کر لیتے ہیں)۔ اور وہ شائع ہوتا ہے۔ آپ کی قسمت سنور جاتی ہے۔ اُس کے بعد

آپ اور وہ سیکسی دِل رُبا حسینہ ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ پھر آپ لکھنا جاری کیوں رکھتے ہیں؟
شاید بجرے میں کچھ خرابی واقع ہوجائے۔ ’’اوہ، ناک میں دَم آ گیا۔‘‘ آپ کہتے ہیں۔ ’’کشتی کی دوبارہ مرمت مہنگی پڑے گی۔ محبوبہ جینوا میں ولے گھر کی از سرِ نو تزئین و آرائش چاہتی ہے۔ میرے لیے یہی بہتر ہے کہ میں ایک اور فضول، بے ہودہ اور بہت زیادہ بکنے والا ناول لکھوں۔‘‘ کسی وقت کشتی اور مکانات سمیت سبھی درست بھی ہو سکتے ہیں، محبوبہ نے اپنے تمام ضروری پلاسٹک سرجری بھی کروا لی ہے اور اب بھی آپ کے پاس بینک میں بہت سی رقم جمع ہے۔ پھر بھی آپ ناول لکھنا جاری رکھتے ہیں۔ کیوں؟
پھر تو یہ ذخیرہ اندوزی کا کام ہی ہوا۔

لغزش: ناکام اور قابلِ رشک کامیاب مصنفوں کے درمیان میں ایک تیسری قسم بھی ہوتی تھی۔ یہ ’’متوسط‘‘ مصنف تھے۔ ایسے لوگ مستقلاً کتابوں کی جگالی کرتے رہتے تھے جب کہ اُن کی کسی ایک کتاب نے بھی بہت زیادہ رقم کما کر نہیں دی تھی۔ ہر کتاب نے حسبِ پیش گوئی اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ اِس مصنف سے پبلشر نے معقول منافع کمایا تھا اور مصنف نے اچھی زندگی گزاری تھی۔ لہٰذا اُن اوسط درجے والوں نے لکھنا جاری رکھا کیوں کہ کسی دیگر وجہ کے علاوہ یہ اُن کا پیشہ تھا جس سے اُن کے سروں پر چھت قائم تھی۔ افسوس، اِس بھیانک اور مائل بہ پستی زمانے میں پبلشروں نے متوسطوں کی فہرست ہی نکال پھینکی ہے اور اب ویسے محنتی اور عمومی خوش حال پیشہ وَر مصنف، شاید ما سِوائے رومانوی صنف کے، باقی نہیں بچے۔ اِس صنف کے متعلق میں کچھ نہیں جانتا لہٰذا میں اِس پر کم ہی بات کروں گا۔

مضمون کے آغاز میں مَیں نے آروَیل کا حوالہ دیا تھا۔ وہ لکھنے کے لیے چار ابتدائی محرکات کو گِنواتا ہے۔ میں اُس کی فہرست کو دُھرانے کی زحمت نہیں کروں گا کیوں کہ میرا خیال ہے کہ وہ عام طور پر منزل سے بھٹک جاتا ہے۔ تاہم اُس کا بیان کردہ دوسرا محرک ’’جمالیاتی ذوق‘‘ قریب ترین ہے۔ وہ اِس کی تعریف یوں کرتا ہے:

’’بیرونی دُنیا میں حسن کا ادراک یا بہ الفاظِ دیگر الفاظ میں بیان تو الفاظ کا درست انتظام۔ اچھی نثر کی ساخت یا اچھی کہانی کے رِدھم میں مسرت کی ایک آہنگ سے دوسرے پر اثرپذیری۔ کسی قیمتی سمجھے جانے والے تجربے کی شراکت کی خواہش جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

یقیناًیہ اِس کا ایک حصہ ضرور ہے لیکن لکھنے کی اصل ترغیب آروَیل کے بیان کردہ اگلے قدم میں پنہاں ہے۔

(جاری ہے)