حسین بن منصور حلاج :’اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں‘

حسین بن منصور حلاج :’اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں‘

از، انوار الحق

حسین بن منصور تاریخ میں منصور حلاج کے نام سے مشہور ہیں۔آپ 858ء میں فارس کے شہر بیضا کے ایک گاؤں طور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا مجوسی تھے۔ آپ کے والد نے اسلام قبول کیا اور سادگی سے زندگی بسرکی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے دھنیا تھے۔ اسی نسبت سے حسین بن منصور کو منصور حلّاج بھی کہا جاتا ہے۔ حسین بن منصور نے بصرہ اور کوفہ کے درمیان واقع شہر واسط میں پرورش پائی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر سے پہلے ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ وہ کم عمری میں ہی قرآن مجید کی صورتوں کے باطنی مفہوم تلاش کرنے میں مگن رہتے تھے۔ ہمیشہ عبادت و ریاضت میں مگن رہتے اور معرفت و توحید کی باتیں کرتے ابتداء میں رہنمائی کے لیے وہ تستر کے مقام پر شیخ سہیل بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے آپ کو سہل التستری کے مدرسہ تصوف سے وابستہ کر لیا۔ یہاں آپ نے دو سال قیام کیا۔ یہاں سے آپ بغداد چلے گئے۔ آپ نے پہلا سفر اٹھارہ برس کی عمر میں کیا۔ اس کے بعد آپ بصرہ چلے گئے اور عمرو بن عثمان مکی کے سلسلہ طریقت سے وابستہ ہو گئے۔آپ اٹھارہ ماہ عمرو بن عثمان مکی کی صحبت میں رہے بعد میں آپ نے یعقوب اقطع کی بیٹی سے شادی کر لی۔یہاں سے آپ بغداد روانہ ہوئے اور حضرت جنید بغدادیؒ کی صحبت اختیار کر لی۔ لیکن آپ شوقِ آرزؤ حق میں ہر وقت بے چین اور بے قرار رہتے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے حسین بن منصور کی بے چینی اور بے قراری کو محسوس کیا اور انہیں صبر کی تلقین کی ۔کچھ عرصہ تک آپ نے حضرت جنید بغدادیؒ کی صحبت میں صبر اختیار کیے رکھا لیکن بلا آخر وہ مکہ روانہ ہوئے وہاںآپ نے ایک سال تک قیام کیا ایک سال بعد وہ صوفیاء کی ایک جماعت کے ساتھ بغداد واپس آئے اور حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور ان سے تصوف کے ایک مسئلے کے بارے میں دریافت کیا۔لیکن انہوں نے اس کا جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیارکی۔جب حسین بن منصور کو حصرت جنید بغدادیؒ سے اپنے سوالات کا جواب نہ ملاتو وہ مایوس ہو کر مرشد کی اجازت کے بغیر تستر چلے گئے وہاں آپ نے ایک سال تک قیام کیا۔اس دوران انہیں خاصی شہرت نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے حاسد پیدا ہو گئے۔ عمر و بن عثمان نے آپ کے خلاف بہت سے خطوط لکھے اور آپ کا تعلق فرقہ قراطمہ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ لہذا حسین بن منصور نے تنگ آکر صوفیانہ لباس اتار کر دنیاوی زندگی میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی ۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے دل میں جو سوالات تھے کوئی بھی ان کے جوابات دینے کو تیار نہ تھا۔ لیکن اہل دنیا کی صحبت میں بھی انہیں سکون نہ ملا ۔ لہٰذا اہل دنیا کو چھوڑ کر دوبارہ صوفیانہ زندگی اختیار کر لی اور پانچ برس تک خراسان،ماورا، النہر اور سیستان کے سفر کیے اور کچھ عرصہ بعداہوازچلے گئے۔ان علاقوں میں انہوں نے لوگوں کو اپنے وعظ و خطاب سے متاثر کیا جس بناء پر لوگوں نے انہیں ’’حلاج الاسرار‘‘کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔آپ نے ہندوستان اور چین کا سفر بھی کیا اور لوگوں کو راہ حق کی دعوت دی۔ جب آپ واپس آئے تو مختلف خطوں اور ملکوں کے لوگوں نے اپنے خطوط میں آپ کو مختلف القاب سے پکارا۔ مثلاََ اہل ہند انہیں ’’ابوالمغیث‘‘،’’اہل خراسان‘‘،’’ابومیر‘‘،’’اہل فارس‘‘،’’ابوعبداللہ‘‘،’’اہل خوزستان ‘‘،’’حلاج الاسرار‘‘،’’اہل بصرہ‘‘،’’مخبر‘‘اور اہل بغداد’’مصطلم‘‘کے القابات سے پکارا کرتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد آپ نے دوبارہ مکہ کا سفر کیا اور دو سال تک مجاور حرم کی حیثیت سے وہاں مقیم رہے۔آپ حرم کعبہ کی طرف منہ کر کے مکمل خاموشی میں روزہ کی حالت میں کھڑے ہو کر ریاضت و مجاہدہ کے کٹھن مراحل طے کرتے رہے۔ لوگ ہر روز ایک روٹی اور پانی کابرتن ان کے پاس لا کر رکھ دیتے۔آپ روٹی کے کناروں سے افطار کرتے اور باقی روٹی پانی کے برتن کے اوپر رکھ دیتے۔ جب آپ وہاں سے واپس آئے تو آپ کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ اہل طریقت کے صوفیاء کے مطابق اللہ تعالی کے اسرار کو لوگوں کے سامنے منکشف کرنا ممنوع ہے لیکن حسین بن منصور نے اپنی کتب، رسائل اور تعلیمات کے ذریعے اسرارِ الہی لوگوں پر ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ آپ کے مخالفین پیدا ہو گئے۔
آپ کے عقائد اور تعلیمات سے لوگ بڑی تعداد میں آپ سے متاثر ہونے لگے۔ عباسی خلیفہ المقتدر کے زمانہء حکومت میں حسین بن منصور کو گرفتار کر لیا گیا۔اکثر فقہاء اور صوفیاء نے آپ پر قرامطہ سے تعلق اور بے دینی کا الزام لگایا اور کئی سال تک جیل میں قید رکھا۔921ء حکومت وقت نے آپ پر’’انا الحق‘‘کہہ کر خدائی کا دعویٰ کرنے اور اسلامی عبادات کا مفہوم تبدیل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا اور آپ کو ایک ہزار کوڑوں کے ساتھ موت کی سزا دی گئی۔ اس سزا پر تین روز تک عمل درآمد کیا گیا۔ پہلے روز آپ کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے دوسرے روز آپ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور تیسرے روز آپ کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا۔
حسین بن منصور حلاج نے تصوف اور اپنے مخصوص عقائد کے بارے میں کئی کتب اور رسائل تحریر کیے۔ الطواسین کو آپ کی سب سے اہم کتاب سمجھا جاتا ہے۔1913ء میں ایک معروف فرانسیسی عالم میسی گنان نے اس کتاب کو تالیف کیا۔حسین بن منصور کے دینی عقائد کے مطابق خدا اپنے فضل سے مومن کے دل میں بھی جاگزین ہوتا ہے اور انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے تاکہ عشقِ الٰہی دنیا میں ظاہر ہو ۔حسین بن منصور کی تعلیمات کے مطابق آدم نے خدا سے ظہور نہیں کیا بلکہ وہ عدم سے پیدا کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق وحدتِ حق عارف کی خودی کو مجبور نہیں کرتی بلکہ اسے مزید کامل کر دیتی ہے۔آپ شوقِ الہی کو “عشق”قرار دیتے ہیں یہ عشق انسان کو خدا کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔
حسین بن منصور کے سب سے متنازعہ عقائد میں ان کا “انا الحق”کا دعوی تھا۔ ان کے یہ الفاظ ان کی کتاب الطواسین میں موجود ہیں۔
’’میں یہ کہتا ہوں
اگر میں اپنے قول اور ان پر تعلیم سے منکر ہوتا تو
حلقۂ عزت سے خارج ہو چکا ہوتا
اور میں نے کہا
اگر تم حق ناشنا س ہو تب اس کی نشانیاں
پہچانو، میں اس کی نشانی(تجلی) ہوں
اناالحق
اور یہ اس لیے کہ میں نے حق سے منہ نہ موڑا
مجھے ہلاک کر دو
تختہ دار پر لٹکا دو
میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دو
میں اپنے دعویٰ سے نہ منکر ہوں گا‘‘
آپ کے اس دعویٰ کی وجہ سے بہت سے علماء اور صوفیاآپ کے خلاف ہو گئے اور آپ پر خدائی کا دعویٰ کرنے اور حلول کا قائل ہونے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے اور آپ کا دعویٰ بعد میں آپ کی سزائے موت کا سبب بھی بنا۔ لیکن مذہبی طبقے کی شدید مخالفت کے ساتھ ہی آپ کی شخصیت اور نعرہ”انا الحق”کی گہرائی اور سچائی کو سمجھنے والوں کو حلقہ بھی بن گیا۔ اس حلقہ میں ابو العباس ابن عطاءؒ ، امام ابوالسعیدؒ ، امام محمد بن حنیفؒ ، شیخ ابو القاسم گر گانیؒ اور شیخ ابو العباس شقائیؒ وغیرہ جیسے بزرگان طریقت اور علما و فقہاء شامل ہیں۔ان کے عہد کے ایک معروف عالم دین امام ابو بکر شبلیؒ نے تو یہاں تک کہ دیا:
’’میں اور حلاج ایک ہی چیز ہیں ۔ میرے جنوں نے مجھے مخلصی دلادی اور اس کی عقل نے اسے ہلاک کر ڈالا۔‘‘
اسی طرح امام محمد بن حنیفؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ’’وہ عالمِ ربانی ہیں‘‘۔ دراصل مقام کشف اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے والے بزرگان طریقت اور عارفوں کے نزدیک حسین بن منصور کا ’’انا الحق‘‘کہنا اس لیے جائز ہے کہ ان کے نزدیک باطن کو ظاہریت پر فوقیت حاصل ہے تصوف کے راستے میں ایک منزل ایسی بھی آتی ہے جہاں پہنچ عارف کی اپنی ہستی فنا ہو جاتی ہے اور اس کے دل و دماغ اور قلب و جگر پر صرف محبوب حقیقی نقش ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر عاشق حقیقی کا دل محبوبِ حقیقی کے نور سے روشن ہو جاتا ہے۔ حسین بن منصور بھی جب اس منزل پر پہنچے تو اس وقت ان کی اپنی ہستی فنا ہو چکی تھی۔ اور ان کی ذات عشق حقیقی کے سمندر میں غرق ہو گئی۔ معرفت کی اس منزل پر پہنچ کر سالک خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ اس مقام پر اس کی ہستی خدا کی وحدانیت میں فنا ہوچکی ہوتی ہے اور اس کا اپنے ارادوں اور قول وفعل پر عمل دخل نہیں رہتا اور وہ اپنی ذات کو خدا کی ذات میں فنا کر کے ابدی اور دائمی زندگی پا لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ حسین بن منصور نے اس منزل پر پہنچ کر ’’انا الحق‘‘کا نعرہ لگا دیا۔آپ اپنی کتاب الطواسین میں لکھتے ہیں۔
’’اللہ نے میرے قلب سے معرفت کا اعلان کرادیا
میں اس سے بہت دور تھا مگر اس نے قربت عطاکی
اس نے مجھے منتخب کیا اور بندۂ خاص بنا دیا‘‘
حسین بن منصور کے مخالفین آپ کے’’انا الحق‘‘کے نعرے کا فرعون کے ’’انا الرب‘‘کے دعویٰ سے تقابل کر کے آپ پر تنقید کرتے ہیں اورآپ پر شرک کا الزام بھی لگاتے ہیں۔فرعون کو اس کے نعرہ’’انا الرب‘‘کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس نے ذات باری تعالی کے شریک بننے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے برعکس حسین بن منصور نے خودی کی تکمیل اور مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعے اپنے نفس کو مغلوب کیا۔ جب تک کوئی سالک اپنے نفس امارہ پر قابو نہیں پا لیتا اس وقت تک وہ اس مقام تک رسائی نہیں حاصل کر سکتا جس مقام پر پہنچ کر حسین بن منصورنے انا الحق کا نعرہ لگایا۔آپ نے یہ منزل نفس کشی کر کے حاصل کی تھی جب کہ فرعون نے تکبر اور خود بینی سے اپنے آپ کو خدا سمجھ کر شرک کا ارتکاب کیا۔اس لیے اسے کافر قرار دیا گیا اور سزا دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم صوفی شاعر “مولانا روم”نے بھی حسین بن منصور کے نعرہ ’’نا الحق‘‘کو جائز قرار دیا اور اس نعرے کو اس لوہے سے تشبیہ دی ہے جسے آگ میں ڈالا جائے تو لوہے کا رنگ آگ کے رنگ میں محو ہو جائے۔ مولانا روم نے فرعون کو سنگ سیاہ سے تشبیہ دے کر اسے نورِ حقیقی کا دشمن قرار دیا اورحسین بن منصور کو عقیق سے تشبیہ دے کر انھیں خدا کا عاشق قرار دیا۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اپنی تصنیف جاوید نامہ میں حسین بن منصور کا تذکرہ ’’فلک مشتری‘‘کے مقام پر کیا ہے۔یہ وہ مقدس مقام ہے جو ’’لسعد الاکبر‘‘کے نام سے بھی جا نا جاتا ہے۔ اگر چہ جاوید نامہ میں اس فلک پر حسین بن منصور کے علاوہ مرزی غالب اور قرۃ العین طاہرہ کی ارواح بھی موجود ہیں۔ لیکن زیادہ تر گفتگو حسین بن منصور کی زبان سے ہی ادا ہوتی ہے۔اقبال نے فلک مشتری پر حسین بن منصور کو ایک ایسی روح قرار دیا ہے جو شوق آرزوئے حق میں پرندوں کی طرح ہمیشہ محو پرواز رہتی ہے۔ اقبال حسین بن منصور کے شوقِ آرزو اور جذبہ عشق سے بہت متاثر تھے اور اسے اپنے فلسفہ خودی سے قریب تر سمجھتے تھے۔اقبال کے مطابق اسلامی تصوف میں وصالی تجربہ کے معنی محدود خودی کا اپنے تشخص کو لامحدود خودی میں محو کردینا نہیں بلکہ لامحدود خودی کا محدود خودی میں سما جانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جاوید نامہ میں حسین بن منصور صوفی ’’حرکیت‘‘ کا نمائندے طور پر سامنے آتے ہیں۔
حسین بن منصور کے عقائد کے مطابق شوقِ الٰہی ہی عشق کا دوسرا نام ہے اور یہ عشق انسان کو خدا کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے مگر عشق میں عاشق کو بے شمار مصیبتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن فنا فی اللہ ہونے والے سالک دنیا کے مصائب اور تکالیف سے نہیں گھبراتے۔ ان کے لیے جسمانی تکلیف کوئی معنی نہیں رکھتیں یہی وجہ ہے کہ جب حسین بن منصور کومقتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو وہ بڑی خوشی اور وجد کے عالم میں مقتل گاہ پہنچے۔ حسین بن منصور کے مطابق عشق اور اذیت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ جب آپ کو مقتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنا فلسفہ عشق پیش کیا۔ اس حوالہ سے تذکرہ اولیاء میں ایک حکایت مذکور ہے۔
’’لوگوں نے حلاج سے پو چھا عشق کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا تم اسے آج ،کل اور پرسوں دیکھ لو گے۔ ایک دن اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے، دوسرے دن اسے مار دیا جائے گا اور تیسرے دن ہوا اس کی خاک اڑاتی پھرے گی۔‘‘
حسین بن منصور کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ جب ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے گئے تو آپ تکلیف سے کراہنے کی بجائے مسکرانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے خود ہی اپنے کٹے ہوئے بازؤں سے اپنی کلائیاں اور چہرہ خون سے آلودہ کر لیا۔ لوگوں نے آپ سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے جواب دیا کہ نماز عشق ادا کرنے کے لیے خون سے ہی وضو کیا جاتا ہے۔آپ کے اسی جذبۂ عشق اور شوقِ الٰہی کی وجہ سے آپ کی شخصیت اور عقائد کا اثر بڑے بڑے بلندپایہ کے صوفیاء کرام پر پڑا مثلاََ مولانا روم نے مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریز میں بار بار اس ’’شہیدِ عشق‘‘کا ذکر کیا ہے۔ مولانا روم نے آپ کو شاخ پر اُگے ہوئے سرخ گلاب سے تشبیہ دی ہے۔ خواجہ فرید الدین عطار بھی آپ کو اپنا روحانی مرشد تصور کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ آپ کا شوق آرزوء حق اور خدا کی محبت میں اپنے آپ کو قربان کر دینے کا جذبۂ بے اختیار تھا۔ آپ کی شخصیت کے ان پہلوؤں نے آپ کو عاشقانِ خدا کے لیے مشعل راہ بنا دیا۔