آزادی رائے، ریاست، سلامتی کے ادارے اور فرد: ایک مکالمہ

آزادی رائے

آزادی رائے ، ریاست، سلامتی کے ادارے اور فرد: ایک مکالمہ

از، یاسر چٹھہ

کل جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا daleel.pk پر چھپنے والے مندرجہ ذیل مضمون کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس پر راقم اور ڈاکٹر صاحب کا ایک مکالمہ ہوا جسے محفوظ کرنے کی غرض سے یہاں بھی نقل کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو آپ جانتے ہی ہوں گے، لیکن راقم کو پھر بھی ان کے متعلق کچھ عرض کرنے دیجیے۔ ڈاکٹرعاصم اللہ بخش ملک عزیز میں معدودے چند سنجیدہ اور باوقار مکالمے اور سوچ پر یقین رکھنے والے افراد میں سے ایک ہیں۔ بہرحال ہم کسی سے ہر بات میں سو فیصدی موافقت نہیں بھی رکھی جا سکتی۔ پہلے آپ ان کے آزادی رائے پر مرقوم مضمون کے مندرجات ملاحظہ کیجیے۔ اس کے بعد راقم کو اس مضمون کے جن پاروں سے اختلاف تھا، اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب سے ہونے والا مکالمہ ملاحظہ کیجیے۔

“آزادی رائے بلاشبہ بہت قیمتی شے ہے اور اسی لیے اس کی حفاظت بھی نہایت اہم ہے۔ ان سب معاشروں میں جہاں یہ پنپتی ہے اس کے تحفظ کے لیے بہت سنجیدہ اقدامات لیے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور اہم ترین مرحلہ وہ ہے جو ایک فرد خود پر روا رکھتا ہے تاکہ اس کا حقِ اظہار محفوظ رہے۔ وہ اپنی بات کا وزن طنز و طعن کے بجائے دلیل، بردباری اور سیاق و سباق کے حوالوں سے قائم رکھتا ہے۔ پھر وہ اپنے لہجہ میں جارحانہ تیزی سے دانستہ گریز کرتا ہے تاکہ اس کی آزادی دوسروں کے لیے باعث آزار نہ بن جائے۔

اگلا مرحلہ سماج کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ وہ تلقین اور انضباطی کاروائی سے، جس میں ایڈیٹوریل چیک سب سے اہم ہے، اس مطلوب رویہ سے انحراف کرنے والوں کو اس دائرہ سے باہر نہ نکلنے دیں جس کا ذکر اوپر ہوا تاکہ ہئیت مقتدرہ کو معاشرے میں زباں بندی کا موقع نہ ملنے پائے سوشل میڈیا کے ضمن میں یہ بات اور بھی اہم ہو جاتی ہے کیونکہ کوئی باقاعدہ ایڈیٹوریل چیک موجود نہیں ہوتا۔ اگر مندرجہ بالا دونوں فلٹرز کام نہ کر رہے ہوں تو پھر ریاست حرکت میں آ جاتی ہے۔ ریاست کے حرکت میں آنے کے بالعموم تین مراحل ہوتے ہیں:

1۔ وارننگ
2۔ تفتیشی گرفتاری اور
3۔ پھر باقاعدہ گرفتاری و مقدمہ

ہمارے ہاں ریاستی مداخلت کے پہلے مرحلہ کا کوئی ذکر نہیں کرتا، یا اگرکرتا ہے تو ہیرو بننے کے لیے۔ تیسرے کی بوجوہ نوبت نہیں آتی۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جس کے متعلق ہمارے ہاں زیادہ زور و شور رہتا ہے۔ زور ریاست کا، اور شور متاثرین کا۔ کہا جاتا ہے:

” ریاست نے سچ بولنے والوں کو پکڑ لیا! ”

ریاست کو بالعموم “سچ” سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنا تجسس اسے اس بات کا ہوتا ہے کہ مذکورہ سچ بیان کرنے کی وجہ کیا ہے …. ٹائمنگ کے لحاظ سے بھی اور content کی وجہ سے بھی۔ اور یہ کہ یہ آپ کے ضمیر کی آواز ہے یا کسی اور کا مافی الضمیر ہے جسے لانچ کرنے کی ذمہ داری آپ پر ڈال دی گئی ہے۔ نیز اس سچ کا ڈھنگ اور آہنگ بھی توجہ کا باعث ہوتا ہے۔ اگر آپ سچ میں اپنی سطح پر ہی بات کر رہے ہیں تو بالعموم حکومتیں آپ کو کچھ نہیں کہیں گی، بلکہ اپنی “برداشت” کے ماڈل کے طور پر آپ کو کام کرنے کی آزادی دے دیتی ہیں۔ اپنے نوم چومسکی صاحب کی طرح؛ یا پھر جیسا کہ آنجہانی اردشیرکاؤس جی۔

دنیا بھر میں آزادی اظہار کے چیمپئن معاشروں سمیت اس سے کوئی استثناء نہیں۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی ہو، rendition program ہو یا پھر ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک، 9/11 کے بعد دنیا سچ میں بدل گئی ہے۔ اب معاملہ Habeas Corpus یعنی “حبس بے جا” کا نہیں بلکہ “حفظ ما تقدم” کا ہے۔ بھارت نے بیک جنبش قلم اپنے ملک میں سرگرم 33000 میں سے 20000 این جی اوز کو بند کردیا اور ان کے حسابات منجمد کر کے تحقیقات شروع کر دیں۔ ان کے ملک کے اندر یا باہر کوئی چوں بھی سنائی دی آپ کو ؟ یہ اس لیے کہ دنیا میں اب نقض امن اصل مسئلہ ہے، انسانی حقوق اس کے بعد۔

ان معاملات کو ہینڈل کرنے کے لیے امریکہ، یورپ سمیت پاکستان میں ایسے قوانین سامنے آ چکے ہیں جن کا آج سے 15 سال قبل تصور بھی محال تھا، بالخصوص مغرب کے ہاں روا انسانی حقوق کے معیارات دیکھتے ہوئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت عدل کا معیار یہ نہیں کہ سکہ بند روایات کیا ہیں، بلکہ بات یہاں تک سمٹ آئی ہے کہ “سب” سے ایک جیسا “سلوک” ہو رہا ہے یا نہیں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آزادی اظہار کی حفاظت کے لیے ڈٹ جائیں اور اس کی کنجی اس میں مضمر ہے کہ ہم تمام چیک اینڈ بیلنس سب سے پہلی سطح پر رکھیں؛ یعنی انفرادی ذمہ داری کی سطح پر۔ اپنی گفتگو کو تہذیب کے دائرے میں رکھیں۔ مقصد اپنی بات کا ابلاغ ہو دوسرے کے سینے پر مونگ دلنا نہیں۔ اپنی بات کو ون لائنرز یا تضحیک سے مرصع کرنے کے بجائے ریفرنس اور آرگومنٹ سے مزین کریں اور خود کو حق و باطل، روشن خیالی و دقیا نوسی وغیرہ کے فیصلے جاری فرمانے سے حتی الامکان باز رکھیں۔بات کریں، بات سنیں اور بات کرنے دیں …. پھر دیکھتے ہیں کون آزادی رائے کو یرغمال بناتا ہے۔”

راقم: ڈاکٹر صاحب، مجھے قوی امکان ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کرسکتے ہیں:

1۔ کیا کسی سے ہینڈل ہوجانے کا الزام، فیصلہ اور سزا جدید ریاست نے کسی خاص ادارے کو نہیں دی ہوئی؟

2۔ کیا ہم میں سے کچھ لوگوں کی جانب سے خاص حلقوں کی لیکس کی بناء پر اس طرح رائے قائم کرلینا، اور اسے اشاعت کرتے جانا قرین انصاف ہے؟
3۔ کیا ہر جرم، (بھلے وہ کچھ خاص ریاستی اداروں کی نظر میں “اچانک” جرم کے زمرے میں داخل ہوگیا ہو، کہ وہ مقررہ جرم “ادارہ جاتی انا” کے احساس کو مجروح کرنے کی پاداش میں استوار ہوا ہو) کسی اور ادارے کو درمیان ڈال لینے کی اجازت نہیں مانگتا؟

عاصم اللہ بخش: یاسر بھائی آپ کی رائے ہے، اور مجھے اس کا احترام ہے۔

راقم: میرے تو سوال ہیں شاید! دیکھیے ان سوالوں کے جواب ایک اصول کو وضع کرسکتے ہیں۔ کل کلاں کوئی ایسا بندہ اغواء/ غائب کرنے والا اور آسکتا ہے جس کی جرم کی استواری کی تعریف پہلے سے بھی زیادہ شدت اور سرعت کے ساتھ قوانین اور عدالتوں سے ماورا ہو جائے تو پھر جو کیفیت پھیلے گی وہ انارکی کہلائے گی۔ محترم قانون کے انتظام سے بالا بالا الزام، فیصلہ اور سزا کا ارتکاز گنے چنے ہاتھوں میں قید کردینے سے مقتل قائم ہو جائیں گے۔ ایسا کرکے ریاستی ادارے کیا خود کو ممتاز قادری کی سنت پر نہیں ڈال رہے؟

عاصم اللہ بخش: تحفظ پاکستان قانون میں ان کے لیے بہت گنجائش ہے۔ اداروں سے پہلے ہماری انفرادی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ سوال بھی اتنا ہی اہم ہے۔
راقم:
1۔ تحفظ پاکستان کا قانون اس وقت اپنی میعاد کھو چکا ہے۔
2۔ اگر یہ کل کلاں آ بھی جاتا ہے تو اصول قانون کی بنیادی الف ب میں یہ dictum ہے کہ پرانے جرم پر نئے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
3۔ آپ کا سوال اہم ہے۔ اور اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے metrics نہیں متعین ہو پاتے۔ وہ صرف وسیع طبقئہ انسانی کی جانب سے پسند و ناپسندیدگی، قبولیت و عدم قبولیت کے پیمانوں پر تولی جانے کا چلن ہے۔ ریاستی اداروں سے ایسی توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے لیے اخلاق کے metrics اس طور پر متعین کرنا شروع کردیں۔ لیکن خیر ہم دہشت کی قتل گاہوں سے وحشت کی حبس گاہوں کی مراجعت کو دیکھتے جاتے ہیں۔

عاصم اللہ بخش: ایک بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ اس کیس میں “روایتی ادارے” ملوث نہیں۔ جمہوری حکومت کے ادارے ہیں۔ اس لیے اس کے لیے کورٹ اور پارلیمنٹ کا راستہ بلا تردد اختیار کیا جا سکتا ہے۔

راقم: محترم میرے لیے بہت سارے مسئلوں میں سے یہ مسئلہ نہیں کہ قانون و انصاف کے مروجہ اصولوں اور ضوابط سے ماورائیت کس نے برتی؟ ریاست کے کسی بھی ادارے نے جرم کا ارتکاب کیا ہے، تو وہ جرم ہی رہے گا۔ اور بنائے مصدقہ اطلاعات پر وقاص اور سلمان کو خطرہ اور دھمکیاں زیادہ تر “روایتی حلقوں” کی جانب سے رہتی تھیں۔

عاصم اللہ بخش: وارننگ، اورنج ٹریفک لائٹ ہوتی ہے، اسے “گو فاسٹر” نہیں سمجھنا چاہیے…. دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، کہیں بھی۔

راقم: کسی بھی “گمشدگی” اور “جبری” غائب کرنے کی اجازت دینے والے قانون کی عدم موجودگی ہے۔ وہ تو بعد میں سوال بنے گا کہ کسی نے کوئی قانون ہاتھ میں لیا، چیلنج کیا، یا اس کی صریحا خلاف ورزی کی۔ ریاست کے سلامتی کے اداروں کے چند افراد نے اپنی بلند اخلاقی کو اپنے پاؤں تلے روندنے کی عادت اپنا لی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی وارننگ تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ غائب شدگان کوئی جرم کررہے تھے۔ اگر جرم کررہے تھے تو پھر روایتی منصفوں کو بیچ  میں لانے سے اس قدر جھجھک کیوں ہے۔ ظاہر ہے ریاستی اداروں کا مقدمہ مضبوط گواہیوں پر قائم ہوگا۔ وہی پرانی سزائیں دلوانے کے پرانے “توہین” اور دشمن سے فنڈز وغیرہ والے تازیانے ہی سرعام کچھ خاص سوچ والے صاحبان سے برسوانے کی بھلا کیسی ضرورت تھی/ہے؟

مکالمے سے باہر کی عمومی بحث پر پس تحریر:

گوکہ ریاست اور اس سے زیادہ قرب کا احساس رکھنے والے احباب کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ جس رنگ کا کرشمہ ساز کریں۔ پر ایک اور سوال:

اگر تو وہ جو سلمان حیدر، وقاص گورایہ اور باقی افراد کے متعلق کسی بیرونی ملک سے پیسے لے کر ایک بار پھر سے غداری وغیرہ والا معاملہ ہے تو یہ تو کوئی ایسا روحانی معاملہ نہیں کہ جس کے ثبوت نہیں بنتے اور عدالت میں پیش نا ہو سکتے ہوں۔ عدالت میں پیش کریں ثبوت اور سزا دلوائی جائے ان نئے غداری کے کارخانے کی نئی پیش کاری کے مردودوں کو۔ یہ سوشل میڈیا پر اور تاریک کمروں میں افراد معاشرہ کو رکھ کر کیوں غداری کے فیصلے ہو رہے ہیں؟ اور موکلان خود کو منصف بنانے کی عادت پر بضد کیوں ہیں۔

ریاست معصوم رہتی ہے۔ ریاستی باشندوں کی سمجھ بوجھ اور انا، ان بے چاروں کے ضمیر سے کہیں زیادہ بھاری ہوتی ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔