ہم کیوں لکھتے ہیں ؟(2)

تحریر

ہم کیوں لکھتے ہیں ؟ (2)

از، ڈیوڈ ڈیورکن

ترجمہ: نجم الدین احمد

(اس مضمون کا حصہ اول یہاں کلک کرنے پر میسر ہے۔)

لیکن یہ مضمون حقیقتاً میرے اپنے متعلق ہے۔ صرف میں ہی ایک ایسا مصنف ہوں جسے میں گہرائی تک جانتا ہوں۔ یہ سب میرے ہی بارے میں ہے۔ ہاں، صرف اور صرف میرے بارے میں۔ اگر آپ سماجیات (سوشیالوجی) جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی اور جگہ تلاش کرنا پڑے گی۔ پھر میں نے اِس کا عنوان ’’میں کیوں لکھتا ہوں؟‘‘ کیوں نہیں رکھا۔ اِس لیے کہ بدمعاش آروَیل نے اِس عنوان کو پہلے ہی، جب میں صرف تین برس کا بچہ تھا، جھپٹ لیا تھا۔
بہر حال زیادہ سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ شاید آروَیل اِس بارے میں ٹھیک ہی تھا کہ کیا چیز لوگوں کو لکھنا شروع کرنے پر راغب کرتی ہے۔ جب کہ میرا موضوع ہے کہ لوگ لکھنا کیوں جاری رکھتے ہیں۔ میں زیادہ گہرے یا کم از کم زیادہ دیرپا محرک کو، جس کی تہہ میں لفظوں کو ایک لڑی میں پرونے کی تمنّا بسی ہوتی ہے، دریافت کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔
جب میں کم و بیش بارہ برس کا تھا تو میں نے لکڑی کے کام کا کورس کیا تھا۔ میں نے کھانے کی ایک منقّش ٹرے بنائی جس کی لکڑی میں لہریے بنے ہوئے تھے۔ میں نے اُس کو ریگ مال سے رگڑا اور اُس پر نقش و نگار بنائے اور بڑھئی کے دوسرے جادوانہ کام بھی سر انجام دیے۔ اب نہ تو وہ سب کچھ مجھے یاد ہے اور نہ ہی میں اُس ٹرے کی نقل تیار کر سکتا ہوں۔ میں اُسے گھر لے گیا۔ میری ماں نے اُسے تحفے کی مانند فخر سے نمایاں جگہ پر رکھا۔ چوں کہ میں اُس کا سب سے چھوٹا بچہ اور اکلوتا بیٹا تھا لہٰذا ٹرے کے ساتھ اُس کا برتاؤ ٹرے کے معیار کے بارے میں کچھ بیان نہیں کرتا تھا۔ میں نے اُسے بہت عرصے سے نہیں دیکھا۔ بس ذہن میں اُس کی دُھندلی سی یاد باقی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ مجھے اُسے تخلیق کرنے سے حاصل ہونے والی مسرت اب بھی یاد ہے۔ لکڑی، گلیو، رنگ اور کِیلوں سے آروں، بسولیوں، رَندوں اور ہتھوڑوں کو استعمال میں لاتے ہوئے میں نے ایسی شے تخلیق کی تھی جو یکتا تھی۔ یہ ایسی شے تھی جو اپنے کردار میں اپنے اجزا سے ماورا تھی۔
سالوں قبل ہم جنوبی افریقہ ہی کے ایک دوسرے علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ وہ علاقہ بہت سِیلن زدہ تھا۔ صحن میں دلدلی جگہ کے کچھ حصے تھے جن کی مٹّی حیران کُن طور پر جڑ جانے والی اور سخت تھی۔ میری رائے میں وہ مٹّی اشکال بنانے کے لیے بہترین تھی۔ میں نے اُس سے متعدد بار بھیڑیے کا سر بنایا کہ جسے بنانا مجھے بہت پسند تھا۔ اُس کا ناک گھڑنا آسان تھا جس کے لیے ایک چھوٹا گول سنگریزہ کام دے جاتا تھا۔ لیکن مٹّی سے کان تراشنا واقعی مشکل کام تھا۔ پھر بھی میں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ میں نے مٹّی سے بہت سے مجسمے بنائے جنہیں میں اپنی خواب گاہ میں اکٹھّا کرتا چلا گیا۔ (جب میں اُن چیزوں کو گھر کے اندر لاتا تو ماں کی نظریں مجھے آج بھی یاد ہیں جنہیں میں اُس وقت نہیں سمجھ سکتا تھا، لیکن آج اُنھیں یاد کرتے ہوئے میں سمجھ چکا ہوں)۔ اُن اشکال کی بھی اپنی ایک خاصیّت تھی۔ وہ تھی اُن کا ٹھوس پن اور حقیقی پن جو اُنھیں اُن مبہم اشیاء سے، جو بعد کے زمانے میں میرے تخیّل میں آئیں اور جنہیں میں نے ٹھوس شکل دینے کی کوشش کی، جدا اور بلند کرتی تھی۔
یہ تمام تجربات بچپن میں سبھی بچوں میں مشترک ہوتے ہیں۔ ہمہ قسم کے بچوں میں فنون سے دِلچسپی اور تخلیق کی تمنّا ہوتی ہے۔ ہم میں سے اکثر میں یہ خواہش مختلف وجوہات کے باعث مر جاتی ہے یا کچلی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم میں سے کچھ میں اِسی وجہ سے باقی ساری زندگی کے لیے بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اِس بات کو یاد رکھیے گا۔
اُوپر میں نے کہا تھا کہ خیالاتکی بہت زیادہ تعداد میں وارد ہوتے ہیں اور اکثر لکھاریوں کے سامنے مسئلہ ہوتا ہے کہ کس خیال کو چُن کر اُس پر وقت صرف کیا جائے۔ وہ خیالات کیا شکل اختیار کرتے ہیں، کیا تفصیلات رکھتے ہیں، دماغ میں اُن کا احساس کس طرح جاگزیں ہوتا ہے، یقینی طور پر یہ امور ایک سے دوسرے مصنف میں مختلف طرح سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
میرے معاملے میں خیالات اکثر مکّار چالیں ہوتی ہیں۔ میں انہیں یہی کہتا ہوں۔ کیا ہو اگر سُورج غائب ہو جائے؟ (یہ خیال میرے ناول Cenrtal Heat کا موضوع بنا)۔ دُنیا میں کیا ہوجائے گا اگر سطح زمین کے بڑے حصے کے نیچے بڑی بڑی کانیں بن جائیں اور آبادی کی اکثریت زیرِ زمین بسنے لگے؟ (میرا ناولPit Planet)۔ فرض کیجیے کہ آپ لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ آپ کا رابطہ کسی قدیم ترین مہا کاروباری رُوح سے ہے جو عرصہ دراز کہکشاں میں رہتی رہی ہے اور آپ نے اُن فرسودہ کاروباری طریقوں سے بھری ہوئی ایک کتاب لکھی جن کو فرض کر لیا گیا کہ اُسی رُوح نے آپ کو بتایا ہے اور سادہ لوح عوام کی کثیر تعداد نے اُس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لے کر آپ کو دولت مند بنا دیا (میرا ناول Business Secrets from the Stars)۔
اِس مرحلے پر یہ چالیں میرے ذہن میں چالوں کے دوسرے گروہ کے ساتھ دھکّم پیل کرتی ہیں۔ میں اُن میں سے کچھ کو دیگر کی نسبت زیادہ پسند کرتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اُن میں کچھ باقیوں سے زیادہ ہونہار ہیں۔ لیکن وہ اُس وقت تک غیر واضح خیالات ہوتے ہیں۔ اُن میں سے ایک میں بھی کسی قسم کی ساخت یا کرداری وصف یا ٹھوس پن نہیں ہوتا۔
اگلا مرحلہ تب آتا ہے جب میں کسی خاص چال پر غور و خوض کے لیے کچھ وقت صرف کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں۔ اُس مرحلے پر میں پلاٹ کے متعلق سوچنا شروع کرتا ہوں۔ سُورج کیوں کر غائب ہو جاتا ہے اور نتیجتاً کچھ مخصوص افراد پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟ ہمارے ناول کا مرکزی کردار اپنے آپ کو کس طرح کانوں میں پاتا ہے اور وہاں اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ مفروضاتی کہکشائی کاروباری صلاح کی بہت بکنے والی کتاب کے مصنف پر کیا احمقانہ اور مضحکہ خیز مہمّات کی وارداتیں ہوتی ہیں۔
اِس مرحلے پر اگر مجھے اندازہ ہو جائے کہ مجھے کچھ مل رہا ہے تو میں خاکہ نما پلاٹ تحریر کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ یہ خاکے طویل، مفصّل اور منظر نگاری کے بیان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جس کا مقصد ہوتا ہے کہ زیادہ تر تفصیلات کو ختم کر لوں تاکہ بعد میں پلاٹ کے بڑے مسائل سے دوچار ہوئے بغیر ناول لکھنا شروع کر سکوں۔ منظر نگاری کی تفصیلات کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن خاکہ لکھتے ہوئے وہ تیزی سے میرے ذہن میں اُترتی رہتی ہیں لہٰذا میں اُنھیں بھی خاکے میں شامل کر لیتا ہوں تاکہ بعد میں اصل چیز لکھتے ہوئے اُنھیں استعمال کر سکوں۔ خاکہ لکھنے کے دوران ہی کسی لمحے میں اُس خیال یا چال کو خیال یا چال سمجھنے کی بجائے ناول کے طور پر لینا شروع کر دیتا ہوں۔ اب یہ اپنا ایک امتیازی وصف، فطرت اور اپنے اندر ٹھوس پن بالکل ویسے ہی اختیار کر چکا ہوتا ہے جیسے کہ کھانے کی ٹرے نے اختیار کی تھی۔ موجودہ صورت میں یہ ایک حقیقی چیز حتیٰ کہ شخصیت بن چکا ہے جب کہ وجود میں آنے سے قبل یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ گو یہ ابھی تک خاکہ ہی ہے لیکن میرے ذہن میں پہلے ہی ناول بن چکا ہے۔ اُسی لمحے سے میں نے ایک ذمّہ داری کو قبول کر لیا ہے۔
یہ کلیشے ہے کہ مصنف اپنی تصنیفات کو اپنی اولاد جانتے ہیں لیکن یہ کلیشے بہت حد تک جائز ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لکھاری واقعی اِسی انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ بے شک، میری کتابیں میرے بچوں کی ہمسر نہیں ہیں۔ با ایں ہمہ چوں کہ ہر کتاب مجھے ایک جدا شخصیت معلوم ہوتی ہے یا کم ازکم اُس پر کچھ نہ کچھ بنیادی زندگی اورشخصیت کا رنگ چڑھا ہوتا ہے اور چوں کہ ہر کتاب معروضی اور غیر واضح اعتراف کے مفہوم میں میری اولاد ہے لہٰذا میں اُن کی حفاظت اور پرورش کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
بالکل انسانی بچے کے معاملے ہی کی طرح کہ پدرانہ کردار حمل (چال/ خیال کی آمد) یا کوکھ میں افزائش (پلاٹ کی دریافت اور خاکہ لکھنا) یا سکول میں پہلے دِن (مسوّدے کی تکمیل) یا پھرہائی سکول کی تعلیم (پبلشر کا مسوّدہ قبول کرنا) کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔
پدرانہ کردار؟ مجھے پدرانہ ذمّہ داری کہنا چاہیے۔ جب ایک مرتبہ خیال چال سے ناول کے تصور میں ڈھل جائے، ناول کا اوّلین نقش بن جائے تو مجھ پر اپنے اُس ذہنی بچے کی حفاظت، رہنمائی اور پرورش کی پدرانہ ذمّہ داری عاید ہو جاتی ہے تاوقتیکہ وہ دُنیا میں اپنے قدم خود داخل کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اُسے کوکھ سے بلوغت تک لانے اور مکمل وجود بنانے تک یعنی محض فرد کی بجائے ایک مکمل ناول بنانے تک میری ضرورت ہے۔ خیال کو عدم سے وجود کی حقیقت دینا نہایت اہم اور اخلاقی ذمّہ داری ہے۔
پدریّت کا یہ متوازی عمل زیادہ دُور تک جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کہ والد کی یہ خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی کہ اُس کا بچہ خوشیوں بھری زندگی بسر کرے اور دوسرے لوگ اُسے پسند اور اُس سے محبت کریں جیسے اُس کا والد اُسے پسند اور اُس سے محبت کرتا ہے۔ بالکل ویسے ہی ایک مصنف کی بھی تمنّا ہوتی ہے کہ اُس کی کتاب دُنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور دوسرے لوگ اُسے پسند اور اُس سے محبت کریں۔ بلا شک و شبہ اِس بات میں انانیّت بھری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری تصانیف اور مجھ پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائیں۔ لیکن میں یہ بھی محسوس کرتا اور جانتا ہوں کہ یہ کس قدر عجیب بات ہو گی کہ کتابیں محبت ملنے پر خوش اور اگر دُنیا نظر انداز کردے تو محبت نہ ملنے پر ناخوش ہوتی ہیں۔
اچھے والدین بقیہ بچوں کو چھوڑ کر ایک ہی سے محبت نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ اکثر اِس پر مجبور ہوتے ہیں۔ اِسی طرح اچھا مصنف بھی اپنی تمام تصانیف سے مساوی محبت کی خواہش لیے ہوتا ہے لیکن اکثر ایک ہی اُس کی دِل پسند ٹھہرتی ہے (میں اُمید کرتا ہوں کہ کم ازکم بچوں کی طرح بقیہ کتابیں تو یہ نہیں جانتیں کہ وہ چہیتی نہیں ہیں)۔ میری اپنا ناول Business Secrets from the Stars چہیتا ہے۔ یہ پُرمزاح، روشن، سحر زدہ کر دینے والا اور میرا سب سے چہیتا بچہ ہے جو دُنیا سے سراہے جانے اور محبت کیے جانے کا حق رکھتا ہے۔ اُس کے لیے دُنیا کی نظر اندازی نے مجھے بے حد دُکھ دیا ہے۔ بسا اوقات میرا دِل چاہتا ہے کہ راہ گِیروں کو پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالوں اور اُن پر چیخوں چِلّاؤں: ’’لعنتیو! تم نے کبھی اِس سے زیادہ عظیم کتاب نہیں پڑھی ہو گی۔ تمہیں نظر نہیں آتا کہ اِسے نہ پڑھ کر تم اِسے کتنی تکلیف پہنچا رہے ہو؟‘‘ (پریشان مت ہوں۔ میں اپنے اِن سارے جذبات کو اپنے اندر سختی سے قید رکھتاہوں)۔
اُس بات کی طرف واپس چلتے ہیں جس کے بارے میں مَیں نے آپ سے کہا تھا کہ اِسے یاد رکھیے گا یعنی وجودی اشیاء کی اپنی فطرت اور شخصیت کے ساتھ تخلیق کرنے، خیال کو طبعی وجود کی صورت میں بیرونی حقیقت دینے کی تمنّا۔
خیال یا سوچ کو بیرونی حقیقت یا طبعی زندگی دینے کا یہ عمل بہت طاقتور ہوتا ہے۔ بے شمار لوگ آپ بِیتیاں لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے واقعات اور احساسات کو کیسے برتا۔ وہ اُن واقعات اور احساسات کو اپنے دماغوں میں گڑبڑ کر سکتے ہیں لیکن اُنھیں کاغذ پر منتقل کرتے ہوے، بیرونی حقیقت دیتے ہوئے کسی نہ کسی طور سے اُن پر بیرونی دُنیا سے نظر ڈالتے ہیں۔ وہ پیچیدہ اور درد بھرے خیالات کو آسان بنا کر نپٹ سکتے ہیں۔ فکشن نگاروں نے اپنے فن کے لیے ہمیشہ اپنی زندگیوں کو مواد کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ معاملات یا تجربات یا جذبات کا تجزیہ کرنے اور اُن کے ساتھ نبھا کرنے کا طریقہ ہے کہ حِسّی سطح پر اُن پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔
مصنف جن چیزوں سے نپٹ رہا ہوتا ہے، اُن کا منفی انداز میں المیّہ یا طربیّہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ نسبتاً کوئی مختصر چیز بھی ہو سکتی ہے جو بجائے خود مسلسل برہمی کا باعث ہو۔ جب میرا کیریئر نچلی سطح کو چھو رہا ہوتا ہے تو میں ہمیشہ بددِلی اور نااُمیدی کے رحجان کے باعث برہم ہوتا رہا ہوں۔ میں کسی دوسرے مصنف کی کامیابی پر اپنے اندر کی کمینگی اور حسد سے حقیقتاً نفرت کرتا ہوں (میرا اندازہ ہے کہ یہ بہرحال کوئی معمولی بات نہیں ہے، یاہے؟) میں اپنے آپ کو لعن طعن کرتے ہوئے اُن سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔ لہٰذا میں نے اُنھیں اپنی کتاب Business Secrets from the Stars میں ڈال دیا۔ یہ ناول ایک عیّار چال کے طور پر شروع ہوا۔ اِسے محض ایک مزاحیہ ناول بنانے کا ارادہ تھا۔ لیکن جب میں نے کتاب لکھی تو کہانی کے مرکزی کردار میلکم اَرسکائن نے اُن تمام چیزوں کو مبالغہ آمیز حد تک بڑھا کر اپنا لیا جنہیں میں اپنے لیے دِلی طور پر ناپسند کرتا ہوں۔
میں نے اِسے یوں لکھنے کا ارادہ نہیں کیا تھا لیکن جب مجھے ادراک ہوا کہ کیا ہو رہا ہے تو میں نے دانستہ اُسے اُن اوصاف سے نوازنا شروع کر دیا اور انہیں مبالغے کی حد تک بڑھاتے چڑھاتے ہوئے قابلِ نفرین کی بجائے پُرمزاح بنا دیا۔ اِس ناول کے لکھنے سے مجھے افاقہ ہوا۔ میں اِس بات کا بھی اضافہ کروں گا کہ یہ نہایت ہی عمدہ ناول ہے اور دُنیا کے ہر فرد کو اِس کا ایک نسخہ رکھنا چاہیے۔ میرے کردار کے اُن تاریک پہلوؤں کی حماقت نے مجھے اشتعال دلانے یا اُن پر شرمندگی محسوس کرانے کی بجائے قہقہے لگانے پر مجبور کیا۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا کہ اِس سے میں اُن خامیوں سے پاک ہو گیا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ پہلے کی نسبت اُن کا مجھ پر اختیار بہت کم ہو گیا ہے۔ میں میلکم اَرسکائن نہیں بننا چاہتا۔
کچھ عرصے کے بعد میں نے عقبی صحن کی مٹّی سے بھیڑیوں کے سر بنانا بند کر کے کہانیاں لکھنی شروع کر دیں۔ ’’شروع کر دیں‘‘ بالکل ٹھیک الفاظ ہیں کیوں کہ میں نے کبھی کسی کہانی کو ختم نہیں کیا۔ بعد میں مَیں نے کہکشائی میدان کے مہمّاتی سائنس فکشن ناول لکھنے شروع کیے۔ اگرچہ بعض اوقات مطلوبہ کتابوں سے ایک مکمل صفحے کی منظر نگاری کی مثالیں یا خیالات کو شامل کرنے کے بعد بھی اُن کی حد عام طور پر ایک دو صفحات ہوتی تھی۔ یہ سب کچھ میں ہاتھ سے لکھتا تھا۔ اُس زمانے میں جنوبی افریقہ کے سکولوں میں خط پختہ کرانے کی سخت اور مکمل کلاسوں کے باوجود میں نہایت بدخط تھا۔ لہٰذا چند روز قبل کی لکھی ہوئی عظیم مہمّوں کو پڑھ لینا میرے اپنے لیے بھی کارِدارد تھا۔ یہ ذخیرہ اندوزی کا کام تھا۔ میں تیزی یا آسانی سے کبھی نہیں لکھ سکا۔ اِس سب کے باوجود، میں اپنی ایک ہی نشست میں لکھے ہوئے ایک یا دو صفحات کو دیکھنے کا عادی تھا۔ اُن کا وجود میرے لیے باعثِ خوشی تھا۔ وہ میرے لیے تحریر شدہ کاغذوں سے زیادہ حیثیت رکھتے تھے کیوں کہ میں نے اُنھیں تخلیق کیا تھا۔
اُس کے بعد امریکا میں ہائی سکول کی تعلیم کے دوران مَیں نے ایک سفری(پورٹیبل) ٹائپ رائٹر حاصل کر لیا اور نامکمل کہانیاں اور ناول اُس پر ٹائپ کرنے شروع کر دیے۔ آخر کار میں کہانیوں کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔ میں مکمل کی ہوئی تخلیقات سے محبت کرتا تھا۔ حتیٰ کہ میں سکول کے لیے ٹائپ کیے گئے کاغذوں سے بھی اُتنی ہی محبت کرتا تھا جتنی مجھے اُنھیں لکھنے اور خود سکول سے نفرت تھی۔ کاغذوں کا وہ مختصر ڈھیر ہرحال میں میرے لیے اپنے اندر ایک حیثیت رکھتا تھا کہ میں نے اُنھیں شکل عطا کی تھی اور وجود میں لایا تھا۔
بالآخر میں نے اُس سفری ٹائپ رائٹر کے ذریعے ایک مکمل ناول تخلیق کر لیا۔ وہ سارے جذبات جو میں اُن دیگر چیزوں، کاغذ کے بہت چھوٹے ڈھیر کے لیے رکھتا تھا اور وہ خوشی جو مسوّدے کے جسمانی وجود میں آنے سے متعلق تھی اور وہ حیرانی جو اِس بات پر بھی تھی کہ میں کہانی، کردار، خیالات، کیا کچھ تخلیق کیا ہے، میرے اندر کہیں چھپے ہوئے تھے۔ اب دوبارہ زیادہ طاقت کے ساتھ دیرپا ہو کر لوٹ آئے تھے۔
میں نے اپنے چند ابتدائی ناول مینویل ٹائپ رائٹر پر لکھے اور پھر الیکٹرانک ٹائپ رائٹر استعمال کرنے لگا۔ مسوّدے کا مالک ہونے کی مسرت ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ میں صفحات کو دوبارہ ٹائپ کرنے اور ناول کا بہت بڑا حصہ ٹائپ ہو جانے کے بعد اُس میں بڑی تبدیلیوں کی مصیبت سے اُکتاتا جا رہا تھا۔ میں شدّت سے منتظر تھا کہ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹراِتنے طاقتور اور سستے ہوجائیں کہ ٹائپ رائٹر کی جگہ لے سکیں۔ (میں وضاحت کر دوں کہ بحیثیت ایرو سپیس انجینئر کے کئی سالوں سے میں بڑے اور چھوٹے کمپیوٹر استعمال کر رہا تھا۔ لہٰذا میں جانتا تھا کہ اُن پر کیا کچھ کرنا ممکن ہے)۔ جب بالآخر میں نے ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر لے لیا تو بھی میں مسوّدے کا پرنٹ نکالتارہا۔ لہٰذا کاغذوں کا ڈھیر اب صرف مسوّدہ مکمل ہو جانے، نظر ثانی، کانٹ چھانٹ، چھیڑ چھاڑ اور الفاظ کا استعمال اطمینان کی حد تک پہنچ جانے کے بعد کتاب کے جسمانی وجود کی صورت میں سامنے آتا تھا۔ کاغذی مسوّدے انجام کو پہنچ گئے۔ لیکن اِس میں وہ مختلف نوعیت کا طاقت وَر احساس نہیں تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ احساس ختم ہوتا چلا گیا اور فائل یا فائلیں فلاپی ڈِسک میں جمع ہوتی گئیں۔ ازاں بعد ہارڈ ڈَرائیو نے اُس احساس کی ذمّہ داری اُٹھانا شروع کر دی۔ اِس سے بھی زیادہ یہ کہ اب میں سکرین پر نظر آنے والے صفحات کے لیے وہی احساس رکھتا تھا۔ یہ درست ہے کہ اُس میں اکملیّت نہیں تھی۔ میرا خیال ہے کہ احساس کا یہ حصہ صرف اِس بناء پر نہیں تھا کہ کوئی شے وجود میں نہیں آرہی بلکہ کتاب کی تغیّر پذیری آگے بڑھنے اور اُس کی بہ آسانی شکل پذیری کی وجہ سے تھا۔ یہ ٹائپ کیے ہوئے مسوّدے کے جسمانی وجود میں آ جانے کی طرح کے مستقل مفہوم میں بھی نہیں تھا۔ اب تو چھپی ہوئی کتاب پر ہی اُس احساس سے واسطہ پڑتا تھا۔
میں سنگ تراشوں پر حیران ہوں۔ سائنس فکشن کا ایک قدیمی موضوع مستقبل کے مجسمہ سازی کے فن کو توانائی کے ذخائر یا سٹار ٹریک کی نوعیت کے نقشِ ثانی کے ذریعوں سے برتتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ہاتھوں اور آلات سے تراشنے یا شکل دینے کی بجائے سنگ تراش سکرین پر کام کریں گے جیسے کہ میں فکشن لکھتا ہوں۔ جب وہ مطمئن ہو جائیں گے تو نتیجے میں جسمانی تخلیق کریں گے۔ اگر وہ برقیاتی مقناطیسی طریقہ (Electromagnetic Medium) کی قسم کا کوئی طریقہ استعمال کریں تو ممکن ہے کہ نتیجہ کبھی حقیقی جسمانی شکل اختیار نہ کرے۔ کیا لوگ پھر بھی سنگ تراشی کریں گے؟ کیا پھر بھی کچھ لوگ، کچھ مصنّفین کی طرح جو اَب بھی ٹائپ رائٹر استعمال کرنے یا ہاتھ سے لکھنے پر اصرار کرتے ہیں، پرانے طریقوں کو استعمال کرنے پر زور دیں گے؟ ظاہر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ فن کاروں کے روّیے بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ میں ایسے مصنفوں کو تو جانتا ہوں جو ٹائپ رائٹر یا ہاتھ سے لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن میں چاک سے لکھنے والے کسی مصنف کو نہیں جانتا۔
میں نے جو گفتگو کی ہے کیا وہ لکھنے کے پیچھے موجود محرک کی وضاحت کرتی ہے؟ کیا ہم سارا وقت اور ہمّت کسی خیال کو کتاب میں بدلنے، کسی ذہنی تصور کو بیرونی حقیقت دینے پر مجبور ہونے کی وجہ سے صرف کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر لکھاریوں کا جواب ’نہیں‘ ہے۔
جب ۱۹۶۰ء میں مَیں اِنڈیانا یونیورسٹی میں تھا تو مصوّری میں معروف میرے ایک دوست کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی کسی تخلیق کو کبھی فروخت نہیں کرے گا۔ وہ اُنھیں اپنے گھر میں رکھے گا۔ وہ اپنا فن اپنے تک محدود رکھ رہا تھا۔ چوں کہ ہمارا رابطہ نہیں رہا لہٰذا میں نہیں جانتا کہ وہ فن کی آبیاری کرتا رہا یا نہیں۔ اگر وہ فن سے منسلک رہا ہے تو یقیناًاُس نے کبھی اپنی کوئی تخلیق فروخت کرنے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ میں یہ بات اِس لیے جانتا ہوں کہ میں کسی ایسے مصنف کو نہیں جانتا جو اِس انداز میں سوچتا ہو۔
سالوں قبل میں کبھی کبھار غیر دانشمندانہ روّیہ اپناتے ہوئے اپنی ماں سے شکایتاً کہا کرتا تھا کہ میں بددِل ہو گیا ہوں کیوں کہ بطور مصنف میں اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا اور مجھے اِس کی بجائے باقاعدہ کام اور کُل وقتی ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ وہ کبھی نہیں سمجھ سکی کہ میں لکھنے کو ایک مشغلے کی طور پر کیوں نہیں اپناتا۔ وہ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی تھی جو اپنے فالتو وقت میں تصنیفی کام یا مصوّری یا ایسا ہی کوئی کام کرتے تھے اور اپنے کام سے خوش رہتے تھے۔ اُنھیں اُس کام کو اپنا پیشہ بنانے کی نہ تو اُمید ہوتی ہے اور نہ خواہش۔ ’’میں اُن جیسا نہیں ہوں۔‘‘ میں بھِنچے ہوئے جبڑوں کے ساتھ جواب دیتا۔ ’’لیکن کیوں نہیں ہو؟‘‘ کیوں کہ کرسی کرسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔
تو یقیناًیہ اُسی کا ایک حصہ ہے۔ ذاتی اور جذباتی سطح پر تحریری تخلیق ہی کافی نہیں ہے خواہ وہ عمدہ ہو یا نہ ہو، خواہ کسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کا مقصد کتنی ہی کامیابی سے مکمل کیوں نہ ہو جائے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تسلسل برقرار رکھا جائے۔ دِن کے بیشتر گھنٹے اور زندگی کے بیشتر سال بِلوں کی ادائیگی میں گزرنے کی بجائے بلارُکاوٹ لکھنے میں بسر ہوں۔ کبھی کبھار میں لاٹری کا ٹکٹ خرید لیتا ہوں۔ جب میں جیت جانے کا خواب دیکھتا ہوں تو قدرتی طور پر خواب میں مَیں خود کو تمام قرضوں سے بے باقی، رشتے داروں کی مدد اور بیوی کے ہمراہ بہترین جگہوں کی سیر کرنے کے قابل پاتا ہوں۔ لیکن میں فکرِ معاش سے آزاد ناول نگار کی طرح ہر دِن لکھنے میں گُزارنے کا خواب بھی دیکھتا ہوں۔
اِس پر طرّہ یہ کہ میں اپنے لکھے کو چھپنے کا خواب بھی دیکھتا ہوں۔ میں اپنے ناولوں کو ذخیرہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ دُنیا اُنھیں پڑھے۔
کیوں؟
میرا خیال ہے کہ جواب ہمیں واپس تصنیف کی پدریّت والی بات کی طرف لے جاتا ہے۔ اپنی تصانیف کو نہ چھپوانے، دُنیا کے سامنے نہ لانے، اُنھیں نہ پڑھوانے اور تعریف و توصیف نہ کروانے کی خواہش بچوں کے کبھی گھر چھوڑ کر نہ جانے کی خواہش کے مساوی ہے۔ میں اُن ذہنی مریض لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جن کے متعلق شام کی خبروں میں سُننے کو ملتا ہے کہ بچے کو سالوں تک پنجرے میں قید کیے رکھا۔ میں اُس قسم کے لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو مذاق میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو تیس برس کی عمر تک کسی مرد کے ساتھ باہر گھُومنے نہیں جانے دیں گے یا جو اپنے بیٹے اور ہونے والی بہو کی ساتھ والے گھر میں رہائش رکھنے کی تمنّا رکھتے ہیں۔ وہ وقت کو منجمد کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ والدین کا اپنا کردار مکمل طور پر نبھانا نہیں بلکہ اُسے مسخ کرنا چاہتے ہیں۔
مصنف کے لیے اُس کی فن کارانہ تخلیق کا کام اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اُس کی تخلیق کو دوسرے پڑھ اور سمجھ نہ لیں۔ دوسروں کی تعداد مٹھی بھر (مثلاً یار دوست اور عزیزواقارب) نہ ہو بلکہ بہت زیادہ ہو۔ جب تک ایسا نہ ہو جائے وہ بے چارہ سوائے اِس کے کوئی احساس نہیں رکھتا کہ جو کام اُس نے کیا ہے، اُس میں بنجر پن ہے۔
خیال کو بیرونی حقیقی وجود کا رُوپ دینے کے کام میں ناول مصنف کا تخلیق کے فن کارانہ عمل میں پہلا قدم ہے۔ پیچیدہ عمل کے ساتھ تکمیل کو پہنچے ہوئے خیال کی دوسروں کے ذہنوں تک رسائی نہایت ضروری ہے۔ تحریری شکل میں ناول بجائے خود ایک حیرت انگیز شے ہے لیکن یہ اپنا کردار تبھی مکمل ادا کر سکتا ہے جب یہ مصنف اور قارئین کے ذہنوں کے بیچ مواصلاتی رابطے کا ذریعہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک کتاب تصنیف کر کے مکمل اطمینان حاصل کر لیا جائے کہ کتاب بن گئی ہے۔ تاہم پھر بھی یہ اپنا اصل کام کر سکتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم ماضی بعید اور اُس زمانے کے لوگوں سے تعلق جڑنے پر اطمینان کی ایسی ہی لہر قدیمی دور کے کسی مصنف کی تحریر کردہ کوئی چیز پڑھ کر محسوس کرتے ہیں اور تحریر کو مصنف کی حسبِ خواہش توصیف سے نوازتے ہیں۔ تخلیق کے فن کارانہ عمل کی یہ معجزانہ تکمیل صدیوں کے وقفے کے بعد یا ہزاروں مِیل کے فاصلے پر یا متعدد ثقافتی رُکاوٹوں کے پار بھی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔