متبادل بیانیہ ، دانش ور کے نام ایک خط

مصنف کا نام
اورنگ زیب نیازی، صاحب مضمون

متبادل بیانیہ، دانش ور کے نام ایک خط

از، اورنگ زیب نیازی

مزاج گرامی بہ خیر! حضور صرف میں کیا ایک زمانہ آپ کے حسن اسلوب کا قتیل ہے۔ پنجابی ،ہندی،انگریزی کا تڑکا۔ استعارہ در استعارہ۔ اور تحریر کا ایسا فطری بہاؤ کہ میں ترا حسن ترے حسن بیاں تک دیکھوں۔ وہ شام بھلائے نہیں بھولتی جب پہلی مرتبہ آپ سے شرف تعارف نصیب ہوا: جنوری کا مہینا ہے،شام کہر آلود ہے، شہر سارا دھند کی لپیٹ میں ہے۔ خلاف معمول آج ٹی ہاؤس میں رش بہت کم ہے۔ بالائی منزل پر ہم چار پانچ دوست،بڑی میز پر آپ کے سامنے ایک حلقہ بنائے بیٹھے ہیں،گولڈ لیف اور چائے کا دور پہ دور چل رہا ہے۔ دیواروں پر برقی قمقے اور سردی میں پناہ ڈھونڈتی ملگجی روشنی۔

گرم چائے سے اٹھتی بھاپ اور سگریٹ کا دھواں۔ ایک رومان پرور فضا ہے۔ مظفر بلوچ کا شعر یاد آتا ہے:احباب مل کے بیٹھیں کہیں روز شام کو/چائے کے ساتھ ساتھ ذرا گفتگو بھی ہو۔ ہم سب سامع ہیں، گفتگو آپ کرتے ہیں۔گفتگو کیا ہے، علم کا ایک دریا ہے جو بہتا جاتا ہے۔

بات مارکیز کے ناول’تنہائی کے سوسال‘ سے شروع ہو کر جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تک پہنچتی ہے۔ واپس پلٹ کر ہندوستان کی نوآبادیاتی صورت حال، تقسیم، فسادات، منٹو کے افسانے، افغانستان پر روس کے حملے اور گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش تک جا نکلتی ہے۔ ایک دوست اپنی معصومیت میں کہہ دیتا ہے کہ روس کی پیش قدمی روکنے میں جنرل ضیاء کا کردار اہم تھا۔ اس آمر کا نام سن کر آپ کی آنکھوں سے شعلے نکلتے ہیں، مُنھ سے جھاگ بہنے کو آتی ہے، آپ کی آواز بلند ہونے لگتی ہے۔ ہم سہم جاتے ہیں۔ کھڑکی کی درزوں سے آتی سردی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ خاموشی کا طویل وقفہ محفل کی برخاستگی کا اعلان کرتا ہے۔

مجھ پر آپ کی شخصیت کا خوش کن انکشاف ہوتا ہے۔ ایک خوش گوار تصور کے ساتھ میں گھر پہنچتے ہی فیس بک کھولتا ہوں اور آپ کے بلاگ پر پہنچ جاتا ہوں۔ میں کلیت میں پڑھنے کا عادی ہوں، اس لیے وال پر موجود آخری کالموں یعنی پہلے لکھے گئے کالموں سے آغاز کرتا ہوں۔ جمہوریت،شخصی آزادی اور آزادیء اظہار رائے آپ کی تحریر کا محور ہے۔ مذہبی جنونیت اور شدت پسندی کے بیانیے کا مضبوط دلائل سے استرداد آپ کی دانش اور وسعت مطالعہ کا قائل کرتا جاتا ہے۔ سانحہ اے پی ایس اور سانحہ گلشن اقبال پر آپ کے نوحے اور خواجہ سراؤں کے حق میں آپ کی دل فگار سسکیاں آنکھیں اشک بار کر دیتی ہیں۔

یقین مانیے سانسیں رکنے لگتی ہیں۔ کمپیوٹر آن چھوڑ کر مجھے کچھ دیر کے لیے کھلی فضا میں جانا پڑتا ہے۔تین سگریٹ مسلسل پینے کے بعد طبیعت اور حوصلہ بحال ہوتا ہے تو واپس آکر دوبارہ پڑھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ ارے حضور یہ کیا؟ میری یوٹوپیائی دنیا بکھرنے لگی ہے۔ جس آمر کے نام پر آپ کے منھ سے جھاگ بہتی ہے،اس کے حقیقی جانشینوں، کالعدم مذہبی تنظیموں کے سر پرستوں اور درندہ صفت طالبان کے امیرالمومنین کو اپنا استاد محترم کہنے والوں کے مربّیوں کی قصیدہ خوانی میں آپ نے صفحے کے صفحے سیاہ کر ڈالے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟شاہ تو شاہ،شاہ کے وفا دار کی مدح سرائی میں آپ نے زمین آسمان کے وہ قلابے ملائے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ الفاظ کا ایسا چناؤ کہ پڑھ کر روباہ کو پسینے آئیں۔

آپ نے اس شخص کو جمہوریت کی خاطر ڈٹ جانے والا ’مرد آہن‘قرار دے ڈالا جس کی حقیقت تھڑے پر بیٹھنے والا اخبار بین بھی جانتا ہے۔ آپ کیسے بھول گئے کہ ۷۷ء کے آمر کا پروردہ ۹۹ء کے آمر کے آگے جمہوریت کی ڈھال کیسے بن گیا۔مانتا ہوں کہ گھر کا چولھا جلانے کے لیے ہم سب کو کچھ نہ کچھ ان چاہا بھی کرنا پرتا ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ ہر انسان کی ایک قیمت ہوتی ہے مگر ایسا بھی کیا کہ آپ ایک معمولی سرکاری اعزاز پر بک گئے۔ فلسفہ،تاریخ،نفسیات اور انگریزی کی اتنی گراں باری اور اتنی تھوڑی قیمت؟اس سرکاری اعزاز کی حقیقت کون نہیں جانتا۔ ہر اس شخص کو مل چکا ہے جو اس کے اہل نہیں تھا۔ آپ کے شہر لاہور میں پپو ڈھولچی سینے پر یہ تمغہ سجائے گلیوں میں ڈھول بجاتا پھرتا ہے۔ ایک مختصر حکایت یاد آتی ہے:کسی رئیس نے اپنے محل کے دروازے پر لکھوایا:’’جس کے پاس علم اور حکمت ہے،اس کے لیے یہ دروازہ ہمیشہ کھلا ہے‘‘۔ ایک درویش کا گزر ہوا۔ وہ اس کے نیچے لکھتا گیا:’’جس کے پاس علم اور حکمت ہے اسے رئیسوں کے دروازے پر آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘

کچھ آگے بڑھتا ہوں تو میرے خوابوں کی کرچیاں مزید بکھر کر آنکھوں میں چبھنے لگتی ہیں۔بلوچستان کے موجودہ حالات پر آپ نے بہت اچھا کالم لکھا ہے۔ مگر اس بلوچ نوجوان کی حوصلہ افزائی آپ کا فرض تھا جس نے مضبوط دلائل کے ساتھ آپ سے علمی اختلاف کیا تھا۔ بات خوشی کی تھی بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں علم کی روشنی بھی پھیل رہی ہے۔ لیکن آپ اور ٓپ کے حواری آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے ہر شخص پر چشم زدن میں جاہل،مولوی،قدامت پرست اور طالبان کا لیبل چپکا دیتے ہیں۔

آپ نے اس کے اختلاف کی سزا گالی سے دی۔ یہ کہہ کر اسے ان فرینڈ بھی کر دیا کہ’’ تجھے کیا پتا دانش وری کیا ہے۔حرامزادے تو جا کے پہلے اپنے باپ کا پتا کر۔‘‘ اگر آپ کے نزدیک دانش وری اور آزادی اظہار کا یہی مفہوم ہے تو آپ اور آپ کے ہمنواؤں کو مبارک۔ ہمارے لیے احترام آدمیت والی ہمارے بزرگوں کی قدامت پسند تہذیب ہی بہتر۔ذرا اور آگے چلتا ہوں۔ کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ آپ نے حد ہی کر دی۔ آپ نے اپنے جیسے کسی دوست کی پوسٹ شیئر کی ہے۔جس نے قرآن کی ایک آیت کو حالیہ امریکی انتخابات کے نتائج پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ سب آوازوں میں بری آواز گدھے کی ہے۔آپ کے دوست ’صوت‘ کا ترجمہ ’ووٹ‘ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہیلری اس لیے ہار گئی کیوں کہ اس کا انتخابی نشان گدھا تھا اور قرآن نے گدھے کو ووٹ دینے کی ممانعت کی ہے۔ آپ کہں گے یہ آپ کے الفاظ نہیں ہیں۔بے شک نہیں ہیں لیکن شیئر کرنے کا مطلب صاف ہے کہ یہ بات آپ کو پسند ہے اور آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کمنٹس میں آپ ہی کے کسی دوست کا کہنا ہے یہ آیت اللہ نے۔ پی کر لکھی ہے(نعوذبااللہ)۔ آپ اس پر مسکراہٹ کا نشان ثبت کرتے ہیں۔ مطلب آپ متفق ہیں۔ آپ اپنے عقائد اور نظریات میں آزاد ہیں۔مجھے کوئی حق نہیں کہ میں آپ کے نظریات پر نکتہ چینی کروں،مگر حضور آپ اتنے بڑے اور کھلے فورم پر جس خدا کا ٹھٹھا کر رہے ہیں،کروڑوں لوگ اس پر دل و جان سے فدا ہیں۔ یوں سر عام کسی کی دل آزاری کر کے آپ’انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے‘ کے اپنے ہی نعرے کی توہین کر رہے ہیں۔

ٹی ہاؤس والی ملاقات میں آپ نے ہی کہا تھا ۔کوئی مظہر مکمل طور پر سیاہ یا سفید نہیں ہوتا۔ سیاہ اور سفید کے درمیان ایک سرمئی منطقہ ہوتا ہے۔ کسی مذہب یا نظریے یا عقیدے سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے سرمئی منطقے کو کیوں نظر اندا ز کرتے ہیں۔ کچھ کی بنیاد پر کل کو یک سر رد کر دینا کسی بھی منطق کا تقاضا نہیں۔ آپ کہتے ہیں آپ کے نظریات رد عمل کی نفسیات کا شاخسانہ ہیں۔آپ کا رد عمل ایک طرف رد عمل ہے تو دوسری طرف عمل بھی ہے۔ اور آپ کی منطق کے مطابق تو اس کا رد عمل بھی جائز ہے۔آپ کے مذکورہ عمل کا جو ممکنہ رد عمل آسکتا اور اس کے نتیجے میں ہمارا سماج جس شدت پسندی کا شکار ہو گا،اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ آپ گالی اور تضحیک کو اپنا حق سمجھتے ہیں تو دوسرا فریق گولی کا سہارا لینا چاہے تو اسے کون روکے؟آج کل آپ کسی متبادل قومی بیانیے کا بہت پرچار کر رہے ہیں۔ کیا اس کے خدو خال یہی ہوں گے؟فی الحال تو ہمارے ہاں دو ہی بیانیے رائج ہیں۔ ایک مذہبی شدت پسندی کا بیانیہ اور دوسرا آپ کا مذہب بیزار شدت پسندی کا بیانیہ۔کوئی ریاستی بیانیہ تو ہے ہی نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ جہاں ایک بے جوڑ سیاسی ڈھانچے اور چند اشرافیائی،سیاسی خاندانوں کے گٹھ جوڑ کو آپ جیسے لوگ جمہوریت کا نام دیتے ہوں اور اس کی حمایت میں اپنے قلم سکھاتے ہوں،اس ملک میں کوئی قومی بیانیہ نہیں پنپ سکتا۔ قومی متبادل بیانیہ زمینی حقایق کو نظر انداز کر کے تشکیل نہیں پاتا۔ ذرا گوگل پر جائیں۔ ملک کی آبادی اور ان کی کیفیت کے متعلق سروے ملاحظہ کریں۔

اس ملک کی ۴.۹۷ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ جس میں سے ۸۰ فی صد لوگ مذہب پسند ہیں (مذہب پسند ہیں ،شدت پسند نہیں۔ آپ کی نظر میں تو ہر مذہب پسند شدت پسند ٹھہرتا ہے)۔ ۲۰۰۸ء میں ۵۶ فی صد لوگ مذہبی حکومت کے مخالف تھے ۔۲۰۱۶ء تک یہ تعد ۸۰ فی صد سے بھی آگے جا رہی ہے۔ کس قدر خوش آیند بات کہ ملک کی غالب اکثریت مذہب اور ریاستی معاملات کو الگ دیکھنا چاہتی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ یہ اکثریت مذہبی شدت پسندی کی قائل نہیں۔ اگر آپ اکثریت کے خلاف کسی ایسے بیانیے کو رائج کرنے کا سوچیں گے جو یہاں کی تہذیب، ثقافت، روایت، مذہب، معاشرت اور حاوی فکر سے متصادم ہو گا تو یہ کار گر نہیں ہو گا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ بیس کروڑ میں آپ کے ہم نواؤں کی تعداد تین چار ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس ملک میں صرف وہی بیانیہ کار گر ہو سکتا ہے جو امن، محبت، روا داری،برداشت اور دوسروں کے عقائد و نظریات کے احترام اور اعتدال پسندی کا حامل ہو۔

آپ مذہبی شدت پسندی کے بیانیے کو تضحیک اور گالی سے رد کر کے مذہب بیزار شدت پسندی کو رواج دے رہے ہیں۔ ایسے کسی بیانیے کے رواج کا خیال دیوانے کا خواب ہے۔ تاریخ مذہبی شدت پسندوں اور آپ جیسے دانش وروں کا ذکر ایک صفحے پر کرنا پسند کرے گی۔ک یوں کہ تاریخ ظالم ہے، وہ کسی کو معاف نہیں کرتی، چاہے کوئی محسود ہو یا مسعود۔