رسومات انسانیت کش: بھارت میں جنسی تناسب میں عدم توازن کیوں؟

(الہان ریحانہ بشیر)

قدرت کا نظام ہے کہ دنیا میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح پیدائش میں ایک توازن بر قرار ہے۔ مگر بد قسمتی سے کئی ممالک میں قدرت کے اس نظام کو توڑنے کی کوششیں اپنی انتہا پر ہیں، جس میں بھارت کا نام بھی شامل ہے۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانے والے بھارت میں اب بھی بیٹی کو سماجی بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور قبل از پیدائش ہی رحم مادر میں قتل کردیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جنسی تناسب کا توازن پوری طرح سے بگڑ چکا ہے جو کہ بھارت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جہاں بیٹیوں کا رحم مادر میں ہی قتل کر دیا جائے وہاں جنسی جرائم میں دن بہ دن اضافہ ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ تحقیق کے مطابق جن دو ممالک میں لڑکیوں کی شرح پیدائش شرمناک ہے اُن میں بھارت اور چین سر فہرست ہے۔

چین کا حال تو یہ ہے کہ 2020ء تک وہاں غیر شادی شدہ مردوں کی تعداد 20 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ مگر چین کی یہ صورتحال وہاں کی One Child Policy پالیسی کی وجہ سے رہی ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ وہاں شرح پیدائش سے متعلق سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ مگر بھارت میں نہ تو ایسی کوئی پالیسی ہے اور نا ہی اس طرح کے قانون کی زنجیروں سے بندھا ہے! تو پھر کون سے وجوہات ہیں کہ یہاں لڑکیوں کی شرح پیدائش میں بہت حد تک کمی آگئی ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ بھارت میں اس کی وجہ موجودہ سماج کے فرسودہ رسوم و رواج ہیں جو بیٹی کی شادی سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں جہیز کو لڑکیوں کے لیے جزولاینفک بنا دیا گیا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت میں مردوں کو ترجیح دینے کا رواج بھی عام ہے۔ بھارت میں بیٹے کو خاندان کا سرمایہ تصور کیا جاتا ہے، پورے افراد خانہ کی کفالت، خاندان کا نام اور نسل آگے بڑھانے اور والدین کی ذمہ داری بنھانے کے لیے بیٹوں کو بہتر سمجھاجاتا ہے۔ مگر بیٹیوں کو سماجی و معاشی بوجھ سمجھ کر دنیا میں آنے سے پہلے ہی اسقاط حمل کے ذریعے قتل کیا جاتا ہے۔ اصل میں اسقاط رحم مادر میں پلنے والی بیٹی کا نہیں بلکہ بھارت میں پرورش پانے والے ایسے فرسودہ رسوم و رواج کا ہونا چائیے جو بیٹیوں کے قتل کے لیے عفریت کا روپ اختیار کرچکے ہیں۔

بھارت میں دیویوں کو خدا کا روپ دیا جاتا ہے۔ جن میں بھگوتی درگا، ماں ویشنو دیوی، ماں چنت پورنی، ماں کالی، ماں سروتی، ماں لکشمی ایسی دیویاں ہیں جن کو بھارت میں پوجا جاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ بھارت میں جو مرتبہ عورت کو دیا جاتا ہے دنیا میں کہیں اور نہیں دیا جاتا ہے۔ مگر جب حقائق پر سے پردہ اُٹھ جاتا ہے تو بھارت کی وہ دیوی جس کو خدائی حاصل تھی ،اُسے رحم مادر میں ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح بھارت عورتوں کو اُونچا مقام دینے میں سر فہرست ہے ٹھیک اُسی طرح رحم مادر میں بیٹیوں کے قتل میں بھی سبقت حاصل کر چکا ہے۔

ایک معروف طبی جریدے ’’دی لانسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 6 سال کی عمر کے لڑکوں کی کُل تعداد کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد 7.1 ملین کم بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے تناسب کے اس عدم توازن میں اکثر امیر گھرانے شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق 1980ء سے 2010ء کے درمیان 12 ملین لڑکیوں کو اُن کی جنس کی وجہ سے اسقاط حمل کے ذریعے مار دیا گیا ہے۔ اسی لیے بھارت میں جنس کی بنیاد پر ہی اسقاط حمل کے کیسز میں گذشتہ کئی دہائیوں میں بہت اضافہ ہو اہے۔ جس سے لڑکے اور لڑکیوں کی شرح میں عدم توازن پیدا ہو گیا ہے۔ 1991ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 402 ملین کم تھی جو 2001ء میں مزید کم ہو کر 6.0 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ اور اب 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھی لڑکیوں کی شرح میں بہت فرق ہے۔ دی لانسٹ میں چھپنے والی رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بھارت میں 1990ء میں فی عورت بچے کی پیدائش کی اوسط شرح 3.8 تھی جو کہ2008ء میں گر کر صرف 2.6 رہ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 32ملین زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت اور گوٹماکر انسٹی ٹیوٹ نے تخمینہ لگایا ہے کہ دنیا میں ہر 4 میں سے ایک حمل کا خاتمہ اسقاط حمل پر ہوتا ہے۔ طبی جریدے ’’دی لانسٹ‘‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ہر سال 5 کروڑ 60 لاکھ اسقاط حمل کروائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اسقاط حمل کی تعداد 1990 ء تا 1994ء تک 5 کروڑ فی سال تھی، جو کہ سال2010ء تا 2014ء تک بڑھ کر 5 کروڑ 60 لاکھ فی سال ہو گئی ہے۔ رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل نے کئی دہائیوں سے بھارتی سماج اور ثقافتی تانے بانے کا شیرازہ بکھر کر رکھ دیا ہے۔ امریکی اخبار’’ہفٹنگٹن پوسٹ‘‘ میں شائع ہوئے ایک تحقیقی مضمون سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ 30 سے 40 سالوں میں لاکھوں لڑکیاں بھارتی سماج سے غائب کر دی گئیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 6 سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں گذشتہ ایک عشرے میں 80 لاکھ لڑکیوں کو دنیا میں آنے سے قبل ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں گذشتہ صدی میں 5 کروڑ لڑکیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ UNESCO کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 20 سالوں کے درمیان مختلف طریقوں سے 10 ملین بیٹیوں کو قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش قتل کیا گیا ہے۔ حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ بھارت میں جنس کے تعین کے بعد روزانہ 2000 بیٹیاں پیدا ہونے سے پہلے اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کر دی جاتی ہیں۔

بھارت میں نوے کی دہائی میں الٹرا ساؤنڈ متعارف ہوا ہے۔ اُس سے پہلے چین، تائیوان، جنوبی کوریا کی طرح بھارت میں بھی لڑکیوں کو لڑکوں پر فو قیت دی جاتی تھی۔ حماقت کی بات یہ ہے کہ بھارتی شادی میں جہیز کی ادائیگی سے خود کو آزاد کر نے کے لیے الٹرا ساؤنڈ کے بارے میں اُسی دہائی میں ایک شرمناک اشتہار بازی کی گئی۔ جس کے الفاظ یہ تھے’’آج اسقاط حمل پر پانچ ہزار خرچ کرو اور کل پچاس ہزار کا جہیز دینے سے اپنے آپ کو بچاؤ‘‘۔ اس سے بھارت کے ذہن میں وہ فاسد مادے نمایاں ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں عرب کے مشرکوں کے اذہان میں جمع ہو گے تھے۔ جو اپنی بیٹیوں کو بے دریغ موت کے منہ میں دھکیل دیتے تھے۔ اور آج بھارت اُسی زمانۂ جاہلیت کی روش پر چل کر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بیٹیوں کا خاتمہ کر رہا ہے۔ عرب کے مشرک بھارت سے کہیں بہتر تھے کیوں کہ وہ بچے کو پیدا تو ہونے دیتے تھے مگر بھارت میں پیدا ہونے سے پہلے ہی بیٹی کو موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق 6 تا 8 سال تک کی لڑکیوں کی آبادی میں بہت فرق آیا ہے۔ غیر ملکی اعتبار سے 72 لاکھ کا فرق بتایا جارہا ہے۔ بھارت کی جن ریاستوں میں لڑکیوں کی شرح پیدائش میں کمی وا قع ہوئی ہے اُن میں ہماچل پردیش، دہلی، پنجاب، ہریانہ اور گجرات جیسی اہم اور ترقی یافتہ ریاستیں سر فہرست ہیں۔

بھارت میں لڑکیوں (6 تا 7سال) کی شرح پیدائش میں 1951ء سے 2011ء تک لگاتار کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت میں 1951ء میں فی 1000 لڑکوں کے مقابلے میں 983لڑکیاں تھیں، 1961ء میں 976، 1971ء میں 964، 1981ء میں 962، 1991ء میں945، 2001ء میں 927 اور 2011ء میں 918۔ ادھر مجموعی جنسی شرح بھی کچھ خاص تشفی بخش نہیں ہے۔ 2012ء میں فی 1000مردوں کے مقابلے میں 940 عورتیں تھیں، جبکہ 2013ء میں 941، 2014ء میں 942 اور 2015ء میں 943ہے۔ بھارت میں جنوری 2016ء تک مردوں کی تعداد 668,760,678 ہے جبکہ عورتوں کی تعداد جنوری 2016ء تک 626,283,237ہے۔ اب بھارت ایک طرح سے ڈیموگرافک ٹائم بم (demographic time bomb) پر کھڑا ہے۔ اس طرح سے بھارت میں خواتین کی آبادی کے مقابلے میں 3 کروڑ 70لاکھ مرد زیادہ ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔

بھارت بیٹیوں پر ایک ایسی دو دھاری تلوار چلاتا ہے جس کی ایک دھار اسقاط حمل ہے اور دوسری دھار ہوس ہے۔ بھارت میں ایک طرف بیٹیوں کو رحم مادر میں قتل کیا جاتا ہے تو دوسری طرف عورتوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ جس بھارت میں عورت کو دیوی کا روپ دے کر پوجا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف عورتوں کو اپنی ہوس کا شکار بنایا بھی جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں جنسی تناسب کا عدم توازن ہی عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کرنے کی وجہ ہے۔ یعنی اگر بھارت میں عصمت دری اور جنسی زیادتیوں کو کم کرنا ہے تو اس کا فطری حل جنسی تناسب کو متوازن کرنے میں مضمر ہے۔ جس طرح بھارت نے لڑکیوں کو قبل از پیدائش ہی قتل کرنے میں سبقت حاصل کی ہے ٹھیک اُسی طرح جنسی زیادتیوں میں اس نے دیگر شہروں کو بلکہ دنیا بھر کو مثلاً نیو یارک، لندن، پیرس اور بیجنگ کو بھی پیچھے چھوڑا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کی 86 فی صد وارداتوں میں متاثرہ خواتین کے رشتے دار، پڑوسی، دفاتر میں کام کرنے والے یا پھر اُن کے bosses ملوث ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران بھارت میں خواتین پر تشدد، زیادتی، اغوا اور شوہروں کے ظلم کا نشانہ بنانے کی3 لاکھ 70ہزار سے زائد شکایتیں درج کرائی گئی ہیں۔ جس میں اب 9 فی صد اضافہ بھی ہوا ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سال 2014ء میں بھارت میں زنا بالجبر کی 33707 شکایتیں درج کرائی گئیں۔ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی میں سب سے زیادہ 1813 واقعات درج ہوئے اور ممبئی 607 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔ تحقیق کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والی 14102 (تقریبًا 38 فی صد) خواتین ایسی تھیں جن کی عمر واردات کے وقت 18 سال سے بھی کم تھی۔ دہلی میں خواتین کی تعداد 90 لاکھ 80 ہزار ہے اور اس حساب سے 2015ء میں یہاں عصمت دری کے مقدمات کی شرح 24فی صد رہی۔ مدھیہ پردیش میں 2015ء میں سب سے زیادہ 4335 مقدمات درج ہوئے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مقامی خواتین ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک سے آنے والی سیاح خواتین بھی آئے دن اس درندگی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ سال 2015ء کے آغاز میں ایک امریکی سیاح خاتون کو دھرم شالہ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس کے بعد ایک امریکی فیشن میگزین MORE نے بھارت کو شرمناک لقب (بھارت دنیا کا جنسی دارالحکومت) سے نوازا ہے۔ اسی نوع کا ایک اور واقعہ ہے کہ امریکہ سے بھارت آئی ایک طالبہ نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ’’بھارت سیاحوں کے لیے جنت ہے پر خواتین کے لیے جہنم‘‘ یہ الفاظ اُس نے بھارت کا دورہ کرنے کے بعد لکھے تھے۔

بھارت میں خواتین کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ بھارتی اخبارات میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ تحقیق کے مطابق بھارت میں خواتین سیاحوں کی آمد میں 35 فی صد کمی واقع ہو ئی۔ نیشنل کرائم ریکارڑ بیورو کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاًجنسی زیادتی کے 92 مقدمے درج ہوتے ہیں۔ اصل میں مغرب پرستی نے بھارتی تہذیب کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہے۔ یہاں عورتوں کے حقوق اور جنسی عمل کی عمر مقرر کرنے جیسے پر بحث میں حصہ لینے والوں کی تعداد تو اچھی خاصی ہے۔ مگر رحم مادر میں قتل ہوئے 80 لاکھ بیٹیوں کی فکر نہیں ہے۔ بیٹیوں کا قبل از پیدائش قتل اور عورتوں کے ساتھ زیادتی بھارتی سماج کا ایک حصہ بن چکا ہے۔