خانے اور خوف

خانے اور خوف
painting by Dustin Yellin

خانے اور خوف

افسانہ از، منزہ احتشام گوندل

زندگی کتنے خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر خانے میں ادھوری اور تشنہ ہے۔ کہیں مذہب کا خانہ ہے تو کہیں رسم کا، کہیں اقدار کا خانہ ہے تو کہیں اقتصاد کا ، کہیں ذات پات کا خانہ ہے تو کہیں فرقے کا، آخرایک انسان خود کو کتنے خانوں میں تقسیم کرے اور کس کس خانے میں ایک مکمل فعال کردار ادا کرے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کی دنیا بنی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ روشنی جلانے کے لیے ہاتھ ہلایا تو بجلی ہی نہیں تھی۔ بیزاری کچھ اور بڑھ گئی۔

تیسری دنیا کے ممالک اور اُن کی عوام کا المیہ یہی تو ہے۔ یہ زندگی یہ زندگی کے ہزار ہا خانے، اور سارے خاندے ادھورے، سسکتی، بلکتی، سلگتی اور تڑپتی ہوئی مخلوق سے بھرے ہوئے خانے، جس طرح بھیڑ کے کان میں کیڑے پڑ گئے ہوں، اُن کلبلاتے کیڑوں کی مانند سسکتے ہوئے انسان اور اُن پر حکومت کرنے والے بھیڑیے، کیا زندگی ہے یہ، یہ زندگی عذاب ہے : عذاب ہے؟

کیا ہوا کیوں چلا رہی ہو؟ ماں نے کمرے میں آ کر پوچھا

پھر بجلی نہیں ہے۔ اتنے زیادہ کام رُکے پڑے ہیں۔ یہ زندگی عذاب بن گئی ہے۔ نہ نیند آتی ہے اور نہ کوئی حرکت رہ گئی ہے، وہ پھٹ پڑی تھی۔

    تو میں کیا کروں بیٹا: ۔ ماں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا تو وہ یکدم خاموش ہو گئی۔ اب ابا کا لیکچر شروع ہو جائے گا وہ جانتی تھی۔

    خاموشی سے اُس نے اپنا تھکا ہوا بدن بستر پر گرا دیا اور اپنے پسندیدہ کام میں مشغول ہو گئی۔

    سوچنا: اس کا پسندیدہ کام تھا۔

    مارچ کا مہینہ تھا۔ شہد کی مکھی بھنھناتی ہوئی اس کی پلکوں سے ٹکرائی اور شہد نما عجیب سی خوشبو چھوڑتی ہوئی گذر گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی مخلوق کو انسان کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ اس شہد کی تخلیق اور تشکیل میں نہ جانے کتنا ہی لمبا سفر کرتی ہے۔ اور انسان کا ایک لقمہ بنتا ہے۔ مگر انسان کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ انسان نے تو اس پیاری اور ننھی سی مخلوق کو بھی مزدور ی پر لگا دیا ہوا ہے۔ اس کے اختیارات پر مختار ہو گیا ہے اس کی سمتوں اور بلندیوں پر قابض ہو گیا ہے۔ اُس کو لکڑی کے ڈبوں او رایک ہی سمت واپسی پر مجبور کر دیا ہے انسان نے، انسان کی ہوس کاری کی کوئی انتہا بھی ہے۔ مکھی بھنبھناتی ہوئی دور فضا میں جا چکی تھی۔ اُس کی نظروں نے دور تک اُس کا تعاقب کیا۔ یہ آزاد ہے، کیا یہ آزاد ہے؟ کیاآزاد ہے؟ فضا کے اندر رہ کر بھی اس کی آزادی سلب نہیں ہو چکی کیا؟ سوالات کی بازگشت اُس کے دماغ میں گونجتی رہی۔

    یہ خانے بہت تکلیف دہ ہیں۔ زندگی کی کوئی ایک سمت نہیں ہو سکتی کیا؟ ہوسکتی ہے مگر ہم کرنا نہیں چاہتے، ہم ان خانوں کے بٹوارے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے وجود سالم دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے آخر کیسے کر سکتے ہیں۔اور پھر بے بسی کا احساس اس پر ٹوٹ کر گرا! اشرف الخلق کا د عویٰ کرنے والا اپنی قدروں، سمتوں، رواجوں، نظریوں، معیشتوں اور مذہبوں کا کس قدر قیدی ہے، کتنا انہونا اور شدید قیدی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    گوند سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں میں لکڑی کے بلاک پکڑے وہ ایک بلاک کو دوسرے کے ساتھ جوڑنے ہی والی تھی کہ وہ وارد ہوا۔ اور حسب معمول اس کے چھوٹے سے کارخانے کی کاؤنٹر کے سامنے رکھی واحد ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ خوبصورت سفید مردانہ ہاتھ کو کاؤنٹر پر بجا کر اس نے اس کو متوجہ کیا تو وہ چونکی اور بلاک کو اس کی مقررہ جگہ پر فکس کر کے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

    کیا حال ہے؟

    ٹھیک ہوں۔ ابھی تک تمہارا یہ ڈیزائن مکمل نہیں ہوا، اس نے گردن گُھما کر پیچھے گتے کی دیوار کے ساتھ رکھے کولاج کی طرف دیکھا۔ نہیں ابھی نہیں مکمل ہوا، ہر رات جب میں سوچتی ہوں تو اس کے اندر اور کچھ ایڈجسٹ کرنے کا مارجن بڑھ جاتا ہے اس نے نیم دلی سے جواب دیا اور ایک طرف دیوار کے ساتھ بیسن کی طرف بڑھ گئی۔

    کیا پئیں گے؟

    جواباً وہ چُپ رہا۔ بس چُپ چاپ اسے دیکھے گیا۔

    میں نے کہا کیا پئیں گے؟ اس نے زور دے کر پوچھا

    وہ اس دفعہ بھی کچھ نہیں بولا، بس اضطراری انداز میں انگلیوں کو میز کی چکنی سطح پر بجاتا رہا۔ اور نظروں سے اس کے چہرے کو!

    وہ اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔

    کبھی کبھی مجھے تمہاری بالکل بھی سمجھ نہیں آتی اجمیر!

    سمجھ تو تب آئے ناں جب تم سمجھنا چاہو۔

    سمجھنا تو چاہتی ہوں میں، مگر تم پکڑائی ہی نہیں دیتے۔

    میں پکڑائی نہیں دیتا یا تم؟ لکڑی کے ٹکروں ، چمڑے کے ٹکڑوں، کاغذوں، رنگوں، برشوں، چاقوؤں، آٹے کی لیوی، گوند کی ڈبیوں کا ایک ملغوبہ بن چکی ہو، تم وہ عورت ہو جس کے دماغ اور جسم کے درمیان کوئی ربط نہیں جس کا وجود، جس کے دماغ سے الگ ہو چکا ہے، دماغ کی ضروریات تو پوری ہو رہی ہیں مگر جسم______ وہ رک گیا۔ اس کی نظریں اس کے بدن کے گرد آگ کے لاوے پھینک رہی تھیں۔ تجسیم کو یوں لگا، گویاابھی جل جائے گی اور اس خیال کے ساتھ ہی وہ کسمسائی اور سمٹ سی گئی۔ شکر ہے زندگی کے آثار تو ہیں۔ اجمیر کے لبوں پر اب مسکراہٹ تھی۔ دماغ سے منقطع شدہ بدن نے اتنا تو اشارہ کیا کہ وہ زندہ ہے اور اسے کسی دوسرے بدن کی ضرورت ہے۔ اب وہ اسے سنانے پر اُتر آیا تھا۔

    بس کرواجمیر! مجھے میرے دائروں کے اندر ہی رہنے دو! تم شاید اتنا بھی نہیں جانتے کہ جس کو تم مردہ اور دماغ سے منقطع شدہ کہتے ہو میرا یہ بدن زندہ ہے۔ افسوس کہ مرد کبھی عورت کے ضبط کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔

    اچھا اٹھو ترکھانی صاحبہ:۔ چلو چل کر کہیں سے چائے پیتے ہیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور وہ اس کے ساتھ باہر آ گئی۔

    ایک پرانی وضع کے ڈھابے کے باہر بیٹھ کر اُس نے اُترتی ہوئی رات سے لطف اندوز ہونا چاہا۔ اجمیر اس وقت بھی بے قرار نظر آ رہا تھا۔

    میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے آجکل ۔وہ بولی۔

    کیا؟

    میں عجیب و غریب حبس کا شکار ہوں، قید کا احساس ہے، جیسے فرد کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔ یہ کتنا قیدی ہے، پشت ہا پشت سے، یہ کتنا قیدی چلا آرہا ہے۔ اجمیر خدا نے نُطفے کو اتنا تو اختیار دیا ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے پیدا ہو سکے۔ کرب کے آثار! اس کے چہرے پر واضح تھے۔

    یہ کیا کچھ سوچ لیتی ہو تم؟ اجمیر بھی اس وقت پریشان ہو گیا ۔

    کبھی کبھی مجھے بیٹھے بیٹھے اپنے اور تمہارے اس تعلق پر حیرت ہونے لگتی ہے۔

    وہ کیوں؟

    مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دائروں میں کہیں بھی فِٹ نہیں ہیں۔ اگر ہم فٹ نہیں ہیں تو ایک دوسرے سے کیوں منسلک ہیں؟ اور اگر ہم منسلک ہیں تو ہمارا ایک دوسرے کو فائدہ کیا ہے؟ وہ الجھی ہوئی تھی۔

    کوئی بھی تعلق بے کار یا بے فائدہ نہیں ہوتا تجسیم:۔ وہ بولا تو کافی دکھی لگ رہا تھا وہ سمجھ گئی تھی کیونکہ اجمیر جب بھی اس کا نام لے کر کوئی بات کرتا تھا تو ہمیشہ سنجیدہ ہوتا تھا۔

    تم دوہرے معیار کے حامل شخص ہو اجمیر۔

    وہ کیسے؟

    کبھی کبھی تم سچے لگتے ہو او رکبھی جھوٹے، مکار، دھوکا باز اور فریبی اور پھر میں سوچتی ہوں کہ آخر میں تمہیں اتنا کیوں سوچتی ہوں۔ اگر تم مکار اور دھوکا باز ہو تو میں تمہیں چھوڑ کیوں نہیں دیتی، مگر تم نے میرا بگاڑا بھی تو کچھ نہیں، تم خود میرے لیے اہم ہو چکے ہو۔

    وہ خاموشی سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اس وقت وہ بے حد الجھی ہوئی تھی اور اکثر ہی وہ الجھ جاتی تھی۔

    چلو اٹھو میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔ وہ چابیاں اٹھا کر کھڑا ہوا اور چائے پیئے بغیر ہی وہ اٹھ گئے۔ ہوٹل کا مالک ننھا حیرت سے اُن کو جاتے دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    برتن دھونے والی ماسی روز ہی کوئی نہ کوئی رونا لے کے آ جاتی ہے۔ اب تو اس کی باتوں پہ اعتبار نہیں رہا۔ یہ سارے غریبوں کی عادتیں پتا نہیں ایک جیسی کیوں ہوتی ہیں۔ غریب بدصورت بھی ہوتے ہیں۔ شاید کوئی جینیاتی مسئلہ ہے کہ غربت انسان کو بدشکل اور بدہیبت بنا دیتی ہے۔ یا پھر شکل و صورت کے ساتھ معیشت کا کوئی تعلق ہے۔ ہاں شکل و صورت کے ساتھ معیشت کا تعلق ہے تو واقعی:۔ دنیا میں سب سے زیادہ مال دار طبقہ، فلمی اداکاراؤں، طوائفوں کا ہے اور ان کے پاس پیسہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ اس طبقے کی عورتیں اور مرد جسم اور شکل و صورت کی کمائی کھا رہے ہیں۔

    مصنوعی چیزوں، او راجرتی جسموں کی بڑی زیادہ قیمت ہے دنیا میں۔

    محنت کرنے والے جسموں کا معاوضہ سب سے کم ہے۔

    دماغ کی محنت کی اجرت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔

    معاشرے کے نہ جانے کتنے بہاؤ ہیں۔

    ایک طرف وہ بہاؤ ہے کہ دماغ سے کام لینے والے کی اجرت سب سے زیادہ ہے۔ نقشہ نویس سب سے زیادہ رقم لیتا ہے۔ اس کے بعد ٹھیکیدارہے جس کا کام مزدوروں سے اجرت پر کام لینا ہے۔ وہ بس اشارے کرتا ہے اور جو سارا دن بازؤوں کی مچھلیاں اکڑا کے گارا ڈھوتا اور اینٹیں اٹھاتا ہے اس کا معاوضہ سب سے کم ہے۔ دوسرا بہاؤ یہ ہے کہ جو کہانی لکھتا ہے اس کا معاوضہ سب سے کم ہے، جو ہدایات دیتا ہے وہ تو محض اشارے کرتا ہے کام لیتا ہے، اور جو پرایا لباس پہن کر، مصنوعی چہرے کے ساتھ، کسی کے لکھے ہوئے مکالمے بول کر کسی کے اشاروں پر عمل کر کے مزدوری کر رہا ہے اس کا معاوضہ سب سے زیادہ ہے۔

نقشہ نویس            ٹھیکیدار            مزدور

کہانی کار            ڈائریکٹر            فنکار

    یہ کیسے بہاؤ ہیں جو ایک دوسرے کے الٹ بہہ رہے ہیں۔ بدصورتی اور بدہیتی کا تعلق ضرور معیشت کے ساتھ ہے، پیسے کے ساتھ ہے، محنت کے ساتھ نہیں ہے۔ اور ان غریبوں کی عادتیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ جیسے بوڑھے اور چھپڑ او رکچی کالونیاں، دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں ایک جیسی ہی ہوں گی، عورت دنیا میں کہیں بھی چلے جاؤعورت ہی ہو گی اور مرد ، مرد ہی ہوگا۔ پودے، پہاڑ، دریا، آسماں، سڑکیں سارے ایک جیسے ہی ہیں تو پھر اختلاف کہاں ہے؟ اختلاف شاید روّیوں کا ہے۔ روّیے بھی وہ جو اوپر سے اوڑھے جاتے ہیں۔ قائم کیے جاتے ہیں۔ استوار کیے جاتے ہیں۔ کیا سوچ رہی ہو؟ زارا نے اس کے سٹوڈیو میں قدم رکھتے ہی پوچھا۔

    آؤ زارا، آؤ بیٹھو:۔ اس نے سر کو میز سے اٹھا کر زارا کو بیٹھنے کی دعوت دی: ۔ زارا کی نظروں نے دیوار کے ساتھ رکھے کولاج کا جائزہ لیا۔ یہ مکمل ہو چکا ہے۔

    ہاں یار! دعا کرو اچھے داموں بک جائے۔

    بِک جائے گا:۔ آج کل لوگوں کو بڑا کریز ہے ان چیزوں کا۔ نہ جانے کیسی کیسی الم غلم چیزوں کے ساتھ گھروں کو بھر لیتے ہیں:۔ وہ ہولے سے مسکرائی ۔ اچھا تو تم میری تخلیق اور محنت کوالم غلم کہہ رہی ہو۔ اس نے لمبی سانس لے کر بڑے اطمینان اور لطف کے ساتھ زارا کو چھیڑا۔

    ارے نہیں بھئی یہ مطلب نہیں تھا میرا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ہمارے ہاں جو کلچر ہے وہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ غیر ضروری اشیاء کے ساتھ گھروں کو بھر لیا جاتا ہے۔ ساری ساری عمر اُن کو استعمال کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ ایک طرف پیسہ فضول آرائش کی چیزوں پر ضائع ہو رہا ہے اور دوسری طرف وہ بھی لوگ ہیں جن کو چوبیس گھنٹوں میں ایک وقت کی سوکھی روٹی بھی میسر نہیں۔

    سچ کہہ رہی ہو تم۔ یہ نظام نہیں بدل سکتا۔ یہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قائم ہو چکا ہے کہ اس کے لیے قیامت کی ضرورت ہے۔ پیسے کا بہاؤ ایک خودکارانہ طریقے سے ایک طرف ہو چکا ہے اور یہی چیز مقدر کے نام سے یاد رکھی جاتی ہے اس کے لہجے میں دکھ ا ور کرب کی گہری کاٹ تھی۔

    اچھا چھوڑو تم پھر جذباتی ہو رہی ہو۔ یہ بتاؤ کہ اجمیر کے ساتھ شادی کب کر رہی ہو؟ اتنی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے تم دونوں کی۔ کیوں نہیں کوئی فیصلہ کر لیتے اور ہاں اس سوال کا جواب دینے سے قبل چائے پلاؤ مجھے ۔ وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دیوار کے ساتھ رکھے میز پر پڑی الیکٹرک چائے دانی میں پانی ڈالا اور بٹن دبا دیا:۔ بجلی نہیں ہے۔ ایک بے بس مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پیدا ہو کر بجھ گئی۔

    جہاں تک تمہارے اس سوال کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اجمیر سے شادی نہیں کر سکتی۔ اور دوسری بات یہ کہ ہر تعلق کا ضروری مطلب شادی تو نہیں ہوتا۔

    کیوں، مگر کیوں شادی نہیں کر سکتی تم اس سے؟ زارا کا دماغ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

    یار اس کے کچھ Complexes ہیں۔ جن کو میں سمجھتی ہوں۔ اور جانتی ہو جہاں انسان ایک دوسرے کو مکمل طور پر سمجھ جاتا ہے وہاں گیم ختم ہو جاتی ہے اب ہم دونوں خواہ مخواہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں۔ ایک خود کار جبلت کے تحت: ۔ ورنہ وہ جو ایک دوسرے کو جاننے، کھوجنے، معلوم کرنے کی کشش اور تجسس ہوتا ہے وہ کب کا ختم ہو چکا ہے۔ اس نے گہرا سانس لیا تو کیا اب تم دونوں ایک دوسرے سے لا تعلق ہو سکتے ہو؟

    ہاں بڑے آرام سے: ۔ اس نے کندھے اُچکائے۔

    نہیں۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ زارا نے اس کو غور سے دیکھا۔ یہ گہرا سانس جو اطمینان کے اظہار کے طور پر تم نے خارج کیا ہے اس کے پیچھے آگ تھی۔ زارا اس کو کھوج رہی تھی۔

    شاید:۔ کہہ کر اس نے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں۔

    میں ایک غریب آرٹسٹ ہوں زارا۔

    آرٹسٹ غریب نہیں ہوتا تجسیم! آرٹسٹ ہی تو امیر ہوتا ہے۔

    امارت اور غربت کو اقتصاد کے پیمانے سے تولو میری بہن۔ تم بعض اوقات کتابوں کی باتیں کرنے لگتی ہو۔

    اجمیر کو تم سے محبت ہے وہ تم میں پناہ لینے آتا ہے اسے قدر ہے تمہاری۔زارا جذباتی ہو گئی۔

    تم سے کس نے کہہ دیا کہ اس کو مجھ سے محبت ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں گھور کر بولی۔

    میرا دل کہتا ہے۔

    دل جھوٹ کہتا ہے زارا۔ اجمیر کی زندگی میں دوہرے معیارات ہیں۔ میں تجسیم ہوں۔ میں ان دیکھی چیزوں، خیالات اور تصورات کو جسم عطا کرتی ہوں۔ اجمیر کے حِسی تقاضوں کی تسکین میرے ہاں آ کر ہوتی ہے۔ اس کے نفسیاتی اور حِسی اظہارئیے یہاں آ کر تشکیل پاتے ہیں۔ مگر اس کا دوسرا معیار مادی ہے۔ بیوی ایک مادی چیز ہے۔ اس کا خاندانی پس منظر سیاسی اور اقتصادی ہے۔ اس کے خاندان نے اس پر روپیا لگایا ہے وہ خاندان کی انویسمنٹ ہے او رکوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی انویسٹمنٹ ضائع چلی جائے۔ اسے مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والی یا کسی بڑے سرمایہ دار خاندان کی لڑکی چاہیے جو مادی بنیادوں پر اس کو سہارا دے سکے ۔

    میاں بیوی کے رشتے کو تم مادی سمجھتی ہو؟ زارا نے حیرت سے پوچھا۔

    ہاں! سمجھتی نہیں ہوں۔ یہ رشتہ ہے ہی مادی۔ اس نے بڑے اعتماد سے دعوی کیا ۔ دیکھو زارا۔ میاں بیوی کا رشتہ مادی اور حیوانی رشتہ ہے۔ سماجی اور معاشی رشتہ ہے۔ عورت کو مرد کی ضرورت ہوتی ہے جسمانی او رمعاشی سطح پر۔ ایک شوہر کی وفات کے بعد وہ کس بات کو یاد کر کے روتی ہے؟ اس کی کمائی کو۔ اس کے کاموں کو اس کے مادی سہاروں کو۔ کما کے لاتا تھا۔ بچوں کو سنبھالتا تھا۔ یہ کام بھی وہ کرتا تھا وہ کام بھی وہ کرتا تھا۔ جب عورت کے کندھوں پر ہر ہر ذمہ داری پڑتی ہے تو اس کو وہ یاد آتا ہے۔ بہت زیادہ محبت کرنے والی بیوی کا شوہر بھی اس سے لاتعلق ہو جائے اس کو معاشی سہارا نہ دے تو اس کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے اور وہ ہر جگہ اس کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ جادو ٹونہ، تعویز گنڈہ، جو کچھ بھی اس سے ہو سکے وہ کرتی ہے۔ اور دوسری طرف مرد کا بھی یہی حال ہے۔ بیوی اس کو ضرورت کے لیے یاد آتی ہے۔ یہ ہمارے معیا رات کے خانے ہیں جن میں ہم تقسیم ہو چکے ہیں۔ اپنے ہی لہجے کی بے بسی کو محسوس کر کے وہ چُپ ہو گئی۔

    وہ تمہیں اب بھی عزیز ہے۔ زارا نے اور کُریدا

    ہاں وہ مجھے بہت عزیز ہے۔ وہ بہت معصوم انسان ہے نفسیاتی سطح پر ، جذباتی سطح پر اتنا شفاف ہے کہ فوراً دکھائی دے جاتا ہے۔ وہ چھپ نہیں سکتا۔ لیکن بعض اوقات جب وہ چھپنا چاہ رہا ہوتا ہے تو میں اس کو دیکھ کر بھی چھپنے دیتی ہوں۔ میں جان کر بھی انجان بن جاتی ہوں۔ میں اس کا بھرم رکھنے کے لیے ایسا کرتی ہوں۔ جب کوئی شخص اپنے منہ سے یہ کہتا ہے کہ وہ دھوکا دینے میں بڑا ماہر ہے تو اس وقت لاچارگی اور کرب کی انتہا سے گذر رہا ہوتا ہے۔ وہ خود کو Hurt کر رہا ہوتا ہے۔ چھوڑو یار کوئی اور بات کرو۔

خوف آدم کی سرشت میں بٹھائے گئے ہیں۔ او ریہ خوف دراصل دھوکا ہیں۔ میں جب تک دوسروں کے دکھائے ہوئے منظر دیکھتی رہی کائنات کا مفہوم میرے لیے کچھ اور رہا۔ دوسروں کے دماغ سے چیزوں کو سمجھنے کا عمل بھی بہت سادہ اور آسان تھا۔ لوگوں کی زبان سے لفظ اُچک کر بولنا بھی سہل لگتا تھا۔ میں معاشرے کی طرزِ فکر کا طفیلیہ تھی پھر ایک دن یوں ہوا کہ مجھے اپنی شناخت مل گئی اب مجھ پر آگہی کے عذاب اترنے لگے، میں بُت تھی۔ چابی والا کھلونا تھی، گڑیا تھی۔ مگر مجھے وجود مل گیا میں بینا ہو گئی۔ میں خود بولنے لگی۔ خود سمجھنے لگی اور خود محسوس کرنے لگی جیسے ہی میں نے شعور اور وجدان کا لباس پہنا میں دنگ رہ گئی۔ مجھے جو سفید دکھایا گیا تھا وہ سیاہ تھا۔ جو حسین دکھایا گیا تھا وہ بدصورت تھا۔ جو پُر سکون دکھایا گیا تھا وہ متلاطم تھا۔ ان دھوکا دینے والے بازی گروں میں ماں کا پہلا نمبر ہے۔ جب میں اس کی گود میں تھی تو وہ مجھ سے جان چھڑانے کے لیے بلی جیسے کمزور اور معصوم جانور سے مجھے ڈراتی تھی۔ ’’وہ دیکھو بلی آ رہی ہے تمہیں کھا جائے گی‘‘ اور میں سہم کر خوفزدہ ہو جاتی تھی ماں کی گود سے موت کا خوف میری سر شت میں پڑا تھا۔ جب میرا وجدان میرے حواس اتنے مکمل نہیں تھے تب بھی اپنی بقا کا احساس میرے اندر تھا۔ ماں نے کتنے ہی خوف میرے اندر بھرے۔ آگ کے قریب نہ جاؤ۔ یہ جلا دے گی، پانی کے پاس نہ جاؤ ڈوب جاؤ گی، چھت کی دیوار پر مت لٹکو گر جاؤ گی۔ دھوپ میں نہ گھوموبیمار ہو جاؤ گی، بارش میں مت بھیگو ٹھنڈ لگ جائے گی۔ ماں میرے گرد زندگی کا دائرہ بڑھانے کے چکر میں موت کے خوف کے پہرے بٹھاتی گئی۔ اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ میری فطرت کی مہم جوئی مسخ ہو گئی۔ میری سر شت میں تجربے اور ایڈونچر کا جو تجسس تھا وہ مر گیا۔ میں بزدل ہو گئی۔ اور یہ خوف یہیں پر ختم نہ ہوئے بلکہ ان خوفوں کا دائرہ بڑھتا گیا۔ تصویریں نہ بنایا کرو ان میں جان ڈالنی پڑتی ہے۔

    قیامت کا دن، حشر کا دن، روزِ جزا کا دن اور اللہ کا تصور درمیان میں آنا شروع ہو گیا۔ اللہ سے میرا پہلا تعارف یہ تھا۔

    یہ نہ کرو۔ اللہ ناراض ہو جائے گا۔

    وہ نہ کرو۔ اللہ مارے گا۔

    اللہ بڑا سخت ہے دوزخ میں جلائے گا۔ اللہ اتنا سخت تھا۔ سارے بڑے بڑے بدکاروں، ظالموں، لٹیروں، سفاکوں کو کھلی چھٹی دے کر میرے اوپر ایک ننھی سی بچی کے اوپر سرخ سرخ نظریں گاڑ کے بیٹھا تھا۔

    پھر یوں ہوا کہ ایک روز شدید سرخ آندھی آئی۔ کچے گھر کے کھلے صحن کی ساری دھول اڑ کر فضا میں سما گئی۔ میری خوفزدہ ماں سارے بچوں کو لے کر کمرے میں گھس گئی۔ کبھی میری ماں بھی لڑکی ہو گی۔ ہمیں تو ہمیشہ اسی طرح بوڑھی لگتی ہے۔ لگتا ہے ماں پیدا ہی اسی حالت میں ہوئی تھی۔ ماں نے سرگوشی میں بتایا کہ ایک لڑکی قتل ہو گئی ہے۔

    امی قتل کیا ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا تھا۔ تو ماں نے وضاحت کی کہ کچھ لوگوں نے لڑکی کو پکڑ کر مالٹے کے بوٹے کے ساتھ کپڑے کا پھندا دے کر مار ڈالا ہے۔

    امی اس لڑکی نے کیا کیا تھا؟

    وہ گھر سے باہر نکلی تھی دوپہر کو۔ یہ کہہ کر ماں خاموش ہو گئی۔

    امی دوپہر کو گھر سے باہر نکلنا اتنا بڑا گناہ ہے؟ ماں چپ رہی ،اس نے مالٹا توڑا ہو گا؟ بھائی نے قیاس ظاہر کیا۔ ماں پھر بھی چپ رہی۔ ماں کی چپ نے ایک اور خوف کو راہ دے دی۔ اب دوپہر کو گھر سے باہر نکل کر جولائی کی شفیق گرم دھوپ اور سحر انگیز لہروں کی جھِلمل جسے ہم سمجھتے تھے کہ گیدڑوں نے تنور گرم کر رکھا ہے۔ اس دھوپ میں کچے امرودتوڑنے، بیر چننے اور خالی پڑی ہل چلی زمینوں کے اندر “ٹٹیری‘‘ کے انڈے تلاش کرنے کی عیاشی سے محروم ہو گئے۔ زندگی جو دور دور کھیتوں تک پھیلے درختوں، پودوں، جڑی بوٹیوں سے بھی آگے پھیلی ہوئی تھی وہ گھر کے پچھواڑے کی ٹھنڈی چھاؤں پر سٹاپو کھیلنے تک محدود رہ گئی۔ اور پھر ہم یہ سٹاپو کھیلتے کھیلتے اکتا گئے۔ کتنے ہی حسین، خوبصورت تجسس تھے جن پر خوفوں کے ناگ غالب آتے گئے او رپھر ایک دن چلتے چلتے میں نے سارے خوفوں کو اس طرح اتار دیا جس طرح سانپ کینچلی سے نکل جاتا ہے اور زندگی کی بھیڑ میں کھو گئی۔

    سارا الزام اللہ پر جا کر ٹکتا، اللہ نے اس لڑکی کو گھر سے باہر نکلنے کی اتنی بڑی سزا دی تو اللہ اُن کو کیوں سزا نہیں دیتا جنہوں نے لڑکی کو مار ڈالا تھا اور خود بھاگ گئے۔ اللہ بڑا One sided ہے۔ اللہ کو الزام کیوں نہ دیتے ۔ ہمارے اندر سارے خوف ہی تو اس کے نام پر بٹھائے گئے تھے۔ ہم تو کسی کو تنگ بھی نہیں کرتے ہیں۔ پھر بھی اللہ ہم سے ناراض ہوتا ہے۔ ماں نے سہم کر کہا تھا وہ دوپہر کو اکیلی باہر نکلی تھی۔ پھر ماں چپ کر گئی تھی۔ یعنی اس کا یہی قصور تھا۔ پھر پابندیاں لگنا شروع ہو گئیں۔ گھر سے باہر نہیں نکلنا، کسی سے بات نہیں کرنی۔ کوئی بلائے تو بھا گ کھڑے ہونا ہے۔ کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی۔

    سٹوڈیو کا دروازہ چر چرایا تو اس نے جلدی سے ڈائری کو بند کر کے دراز کے اندر رکھ دیا۔ اجمیر اپنے خوبصورت گھنے بالوں اور روشن چہرے کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ مگر بے تاثر رہی۔ کچھ دنوں سے وہ عجیب سی الجھن کا شکار تھی۔

    تم پہلے جیسی نہیں رہی ہو کیا بات ہے؟ اجمیر کی آواز سرگوشی جیسی تھی اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس وقت وہ پورے کا پورا ہی آنکھوں کے اندر سمٹ آیا تھا۔ اور وہ ہمیشہ ہی اجمیر کی ان نظروں کو برداشت نہیں کر پاتی تھی۔

    میں خوفزدہ ہوں۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔

    کس بات سے خوفزدہ ہو۔ اجمیر پریشان ہو گیا تھا۔

    ہمارے تعلق کی طبعی عمر پوری ہو چکی ہے اجمیر: اُس کے لہجے میں لرزش تھی مجھے لگتا ہے بہت جلد ہم ایک دوسرے سے لا تعلق ہو جائیں گے۔ ہر تعلق کی ایک نہ ایک معیاد ہوتی ہے اس کے بعد وہ تعلق اپنی شکل تبدیل کر لیتا ہے۔

    کیا تم میرے بغیر رہ لو گی؟ اجمیر کی آواز بھرّا گئی۔

    ہاں:۔ اس نے بڑے رسان سے کہا

تعلق جب شکل بدلتے ہیں تو کیا وہ کوئی تکلیف نہیں دیتے؟ کیا وہ اتنے ہی آسان ہوتے ہیں۔ جتنا آسان لباس کو بدلنا ہے؟ وہ اس کے لہجے میں چھپے طنز کو پہچان گئی تھی۔ بڑے جذب کے ساتھ بولی۔

آسان نہیں ہوتے: بڑے مشکل ہوتے ہیں اور تعلق کو بھلا دینا بہت آسان ہے۔ جو کہتے ہیں ان کے لیے یہ مرحلہ اتنا ہی طویل اور مشکل ہوتا ہے۔ اور جو ابتدائی سٹیج پر گھبرا جاتے ہیں وہ بڑا جلدی جانبر ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اسے وہ دس سال کی بچی یاد آ گئی۔ جس نے پہلا تعلق ٹوٹنے کا کرب اٹھایا تھا۔ دیہاتی پرائمری سکول کی جماعت پنجم کی طالبہ جو دل میں اپنے سے بڑی کچھ لڑکیوں کو دوست سمجھتی تھی او ران کی ذات کی پناہ میں فخر محسوس کرتی تھی۔ پھر ایک دن سکول کے دو گروپوں کے درمیان لڑائی ہو گئی۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طرح طرح کی کھانے پینے کی چیزوں سلیٹوں کے اوپر رکھ کے ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ کہ لڑائی کے دوران ایک گروپ کی سلیٹ سے ایک ٹافی نیچے گر گئی جو اس دس سال کی بچی نے اٹھا لی۔ اس گروپ کی لیڈر نے دوسری گروپ کی لیڈر کو طعنہ دیا کہ وہ دیکھو تمہارے گروپ کی بھوکی لڑکی نے ہماری ٹافی اٹھا لی ہے۔دوسری گروپ لیڈر کو ہتک محسوس ہوئی اس نے بڑی نفرت سے کہا:۔ یہ بھوکی ہمارے گروپ کی تو نہیں ہے۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب رشتہ ٹوٹا تھا جب پناہ ٹوٹ گئی تھی ۔ وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ بے سہارا ہو گئی تھی۔ اس کو یاد آیا۔ وہ دس سال کی ننھی سی بچی اپنا منہ اور ننھا سا پیٹ گرم دیوار کے ساتھ چپکائے زارو قطار رو رہی تھی۔ اس کا دل ٹوٹ چکا تھا اور پہلے رشتے کے ٹوٹنے پہ، پہلی بار بے امان ہونے پہ، ایک گرم دیوار نے اس کو سہارا دیا تھا۔ آج بھی اس کو سکول کی دیوار کی شفیق حدت یاد تھی۔

اجمیر چپ چاپ واپس لوٹ گیا۔ دروازہ بند ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر دیوار کا سہارا لینے کی کوشش کی مگر دیوار ڈھے گئی اور وہ تاریک خلا کی نذر ہو گئی۔

کتنے ہی دنوں تک ماحول پر ایک خوفناک خاموشی طاری رہی۔ دنیا میں تصادم روز بروز بڑھتے جا رہے تھے۔ خودکُشیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ آج پھر اخبار میں بھوک کی وجہ سے خود کشی کی خبر نے چونکا سا دیا۔ یوں لگا جیسے اس شخص نے خود کشی کر کے زیادتی کی ہے۔ سسٹم نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ پھر اس نے خواہ مخواہ خود کشی کر لی ہے۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بھوک کی وجہ سے خود کشی کرے۔ وہ بھوکا رہے ہی کیوں؟ گھر سے باہر نکلو، قدم قدم پر فروٹ کی ریڑھیاں لگی ہیں۔ چپے چپے پہ ہوٹل ہیں۔ ڈھابے ہیں۔ کھوکھے ہیں۔ تنور ہیں۔ ہر روز روڈ کے اوپر ایک چمکتا دمکتا شاندار ہوٹل ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ آخر یہ ہوٹل راتوں رات کہاں سے آ جاتے ہیں۔ زمین سے اُگتے ہیں یا آسمان سے برستے ہیں سڑکوں، بازاروں، گلیوں، چوراہوں کے ا ندر مخلوق کا ازدحام ہے۔ گاڑی کے ساتھ گاڑی لگی ہے، آخر یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ یہ کیوں متحرک ہیں؟ اگر یہ متحرک ہیں کہیں جاتے ہیں تو کسی کام سے جاتے ہوں گے۔ اور کام کوئی بھی ہو اس کا معاوضہ تو ہوتا ہے۔ اس حرکت سے تو یہی لگتا ہے۔ سارا معاشرہ متحرک ہے اور کچھ نہ کچھ کر رہا ہے پھر ایک شخص کی خود کشی کیوں؟ وہ شخص کیوں اس بہتے ہوئے ریلے کا حصہ نہ بنا۔ وہ کیوں تنہا ہوا؟ اور اس نے کیوں خود کو مار ڈالا؟

یہ اجتماعی انسانی لا شعور کی کارستانی ہے! نہیں! نہیں! انسانی لاشعور پر الزام لگا کر اس جرم سے نہیں بچا سکتا۔ وہ جُرم جو انسان کی خود کشی کا باعث ہے۔ وہ کیفیات جن کے ساتھ “بے‘‘ کا لفظ لگتا ہے اُن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بے معنویت، بے مقصدیت، بے اعتباریت کچھ انسانوں کی ترقی اور ہوس نے دوسرے انسانوں کی محرومیوں کو بڑھا دیا ہے۔ یہ اونچے ایوانوں والے کب چاہتے ہیں کہ نیچی جھونپڑی ختم ہو جائے۔ آخر اونچے ایوان کی شناخت نیچی جھونپڑی ہی تو ہے۔ ہم لفظوں کے تصور نہیں بدلیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ غربت کا لفظ ختم ہو جائے۔ جب شہر میں سارے گھر ایک جتنے بلند اور ایک جتنے کھلے ہوں۔ تو کوٹھی، بنگلہ، مکان، کٹیا کے تصور کہاں جائیں گے۔ لفظ ہی بے وقعت اور بے معنی ہو جائیں گے۔ جب ہر گھر کے کچن میں ایک جیسا کھانا پکنے لگا گا تو اختلاف، تنوع کہاں جائے گا۔ ذائقہ دربدر ہو جائے گا۔ یکساں ہو جائے گا۔ جب سارے شہر کی عورتیں ایک جتنے مہنگے لباس، زیورات پہننے لگیں گی تو خوبصورت اور بدصورت کے درمیان تمیز کہاں جائے گی۔ جب سارے طالب علم ایک جیسی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگیں گے تو افسروں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ مزدور کہاں جائے گا۔ مزدور کہاں سے آئے گا۔ انقلاب برابری کی سطح کا نام نہیں ہے ، انقلاب نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی زمین نیچے کی طرف کر دینے کا نام ہے۔ لفظ ختم نہیں ہونے چاہیں۔

مسافر بس کے درمیان حبس اور بدبو سے بھرے جسموں کے درمیان بے بسی کے ساتھ کھڑے کھڑے اس نے اجمیر کو یاد کیا۔ اس کے پاس سفر کے لیے سواری بھی نہیں۔ شدید خود ترسی کا احساس اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس گندے، کراہت آمیز اور کربناک ماحول میں وہ اجمیر کو نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ اجمیر اُس کی تنہائی کی پر سکون، پاک اور خوشبودار خلوتوں کا ساتھی تھا۔ اس کا تصور گدلا ہوتا تھا۔ مگر اگلے ہی لمحے اس نے خود کو بے حد بے بس محسوس کیا اگر وہ اجمیر کی یاد کا سہارا نہیں لے گی تو اس ناقابل برداشت ماحول کی گھٹن میں مر جائے گی۔ یہ درست ہے کہ وہ اس سے لاتعلق ہونا چاہتی ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ وہ اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتی۔ نہ جانے کیسی کیسی ناقابل برداشت کیفیتوں میں وہ اس کا سہارا بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور اس وقت بھی یہی ہوا تھا ، اجمیر کا خوبصورت بدن اس کے گرد حصار بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے آفٹر شیو لوشن کی حیات بخش خوشبو اس نے ایک لمحے کے لیے محسوس کی اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو گیا۔

روڈ پر اتر کر وہ پیدل کچے راستے پر ہولی۔ اسے یاد آیا ایک دفعہ ابا جی نے کہا تھا۔ اللہ تعالی جن لوگوں پر راضی ہوتا ہے ان کو سواری دیتا ہے اور وہ پھٹ پڑی تھی۔

کیا اِن سارے بدمعاش حکمرانوں، زانی سیاست دانوں، چوروں، ٹھگو ں، بدمعاشوں، راشیوں، ناحق کھانے والوں اور ’’لمبی توند والے‘‘ انسانوں کو لڑانے والے مولویوں پر اللہ راضی ہے کہ ہر ایک کو کئی کئی شاہانہ سواریاں دے رکھی ہیں۔ اور صرف مجھ سے ناراض ہے۔ میں زیادہ بڑی گناہ گار ہوں ناں۔ اور پھر اگلے ہی لمحے آنسو جیسے اس کی آنکھوں سے پھٹ پڑے۔ کہاں جائے کیا کرے؟ یہ دنیا کتنے بڑے دھوکے اور پروپیگینڈا کا شکار ہے۔ اللہ کو کس کس طریقے سے اپنے حق میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اللہ ہے کہ ہر طریقے سے استعمال ہوتا جا رہا ہے۔ آخر کیوں اپنی رسی نہیں کھینچ لیتااور پھر اس نے خود ہی اپنی سوچ کو ملامت کی اور گھر کی دہلیز پر قدم رکھ دیے:

اس کا بنایا ہوا شاہکار اچھے داموں بک گیا۔ اب وہ کسی نئے آئیڈیا کی تلاش کے لیے کچھ عرصہ آزاد تھی۔ ایک بہت بڑے صنعت کار کی ماں نے جو کہ ایک اور بہت بڑے صنعت کار بیوی بھی تھی وہ کولاج خریدا تھا۔ اسے زارا کی بات یاد آ گئی تھی اور خود کو مجرم تصور کرنے لگی۔ اس کا روزگار بھی تو ایک ایسی سرگرمی سے وابستہ ہے جو بقول زارا کے الم غلم اور فضول اشیاء کا ڈھیر ہے مگر معروضی انسانی مسائل کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی بھی تو کوئی اہمیت ہے۔ زندگی میں صرف مادی مسائل ہی تو اہم نہیں۔ انسان کی کچھ حسی، نفسیاتی اور روحانی ضرورتیں بھی تو ہیں۔ اس نے خود کو بہلاناچاہا اور اپنے کمرے کے اندر جا کر ڈھیر ہو گئی۔

1 Trackback / Pingback

  1. کرفیو — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.