اردو چھوڑیے، پوٹھوہاری اور انگریزی میں لکھا کریں

اردو چھوڑیے، پوٹھوہاری اور انگریزی میں لکھا کریں

اردو چھوڑیے، پوٹھوہاری اور انگریزی میں لکھا کریں

از، نصیر احمد

ایک نوجوان اور نادان سے دوست کہتے ہیں کہ اردو میں لکھ کر اپنی گریس مت کھوئیں۔ صرف پوٹھوہاری اور انگریزی میں لکھا کریں۔ ان کی دوست داری کا بہت شکریہ کہ ہم جیسے کالے کوسوں کے طول و عرض ماپ کر بھی ہنسنے ہنسانے والوں کی گریس کی انھیں کچھ فکر ہے مگر گریس فل تو کسی زبان میں بھی ہو سکتے ہیں۔

اب ہم اسلام آباد کے گردو نواح کے گنوار لارڈ چیسٹر فیلڈ کے گریس پر مقالے پڑھتے ہوئے بھی ‘ہائے مھاڑیے اللہ’ پکار اٹھتے ہیں، اوپر سے شیفیلڈ کے گرد و نواح کے گنوار بھی ہیں آتش و انشا کا کلام پڑھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔جنوبی یارکشائر سے سیکھی ہوئی گالیاں دینے لگتے ہیں، ہم سے کہاں گریس نبھتی ہے؟

ایک بہت ہی شاندار دوست ہین، انھوں نے لطیفہ سنایا تھا، آپ نے سنا ہی ہو گا کہ کسی پوٹھوہاری مرد کی کسی اردو دان خاتون سے منگنی ہو گئی تو ذرا وہ کیا کہتے ہیں سوٹیبل بنانے کے لیے اسے اردو دانوں کے آداب سکھائے گئے کہ آداب و تسلیمات ہو کھانا آئے تو ماحضر تناول کرنے کی بات ہو اور شیروانی کلی سے لٹکا دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ مراحل طے ہو گئے تو سب نے کہا ماشااللہ دلہا بھائی کتنے خوش سلیقہ اور سعادت مند ہیں۔ اب دلہا بھائی گنوار تھے۔ ان سے رہا نہ گیا، بے ساختہ پکار اٹھے شہدیو حالیں کیہہ، حالیں تے میں شروانی کِلی نال نئیں ٹنگی، فیر تے تساں ڈھور بھور ہوئی جاسو ( ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے، ابھی تو میں نے فن آداب میں اپنی مہارت کے تو جوہر دکھائے ہی نہیں)۔

ھاھاھا، دلی، لکھنو، اور کرانچی کی مقفع و مسجع پچکاریوں میں رچی ہوئی اردو ہم کیا جانیں کہ پڑھنے والوں کو دغدغہ حشر میں نغنغہ مطرب سنائی دے۔ ہم تو لٹھ مار سی اردو لکھتے ہیں جو آنے جانے والوں سے کہتی پھرتی ہے ہو بھائی یہ کیا جولا ( یہ کیا لے جا رہے ہو) ہےذرا کَیڑ (خبر) رکھنا۔ اور جہاں کوئی جھاڑی بھی دیکھتے ہیں تو چلا اٹھتے ہیں یہ درخت کیوں لفا (جُھکا) ہوا ہے، ہماری گریس کم کیا ہوتی ہو گی یہ اردوئے معلی ہی عصمت بی بی از بے چادری ہوجاتی ہو گی۔

اب یہ قوم پرستی کی وبا سی چل نکلی ہے، اردو بھی اس میں مبتلا ہے، اب کسی جگہ کچھ گردھر گردھاری آجائے تو لوگ آہ وزاری کرنے لگتے ہیں اور دھکیل دھکیل کر بانکے بہاری جی کو مجلس سے نکالنے لگتے ہیں اور بے اختیاری کے عالم میں جناب شیخ کی سواری مجلس میں گھسا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہندی والے سنسکرت کے ادق الفاظ بلوا لیتے ہیں، پہلے زناب زناب(جناب) کرتے ہیں اور پھر ادیشک مہودے کے ہودے سے اترتے ہی نہیں۔

یہ سب کچھ تعصب کے سلسلے ہیں، ثقافت کی پاکیزگی کے نام پر انسانیت سے دوری کی بے رحمی ہے۔ وہی نر، نیل کنٹھ نارائین کے دھوکے اور مرد مومن کے واہمے. لیکن ہستی کو نیستی کرنے کی قساوت کرنے سےعربی، فارسی، ترکی لفظوں سے وطن شتر بانوں کا گہوارہ نہیں بنتا اور نہ ہی عربی ،فارسی اور ترکی لفظوں کے ہندی سے باہر دھکیلنے سے دھرتی ماتا پَوِتر ہوتی ہے۔

ان سب کوششوں کے پیچھے جو زندگی سے نفرت میں مبتلا جو ذہنیت ہے، وہ لفظ لغات سے نکالتے نکالتے لوگوں کو دربدری کے حکم سنانے لگتی ہے۔اس سے کوئی پاکیزگی یا پوترتا نہیں حاصل ہوتی بس در گھٹنا، کانڈ اور بربادی کے شجر ظلمت کی جڑیں گہری ہونے لگتی ہیں، اب ہم جیسے موجک اور ان جیسی بھبھشکا (گنواروں کے لیے روسی لفظ) کو یہ سیدھی سی بات سمجھ آتی ہے، آپ تو لکھے پڑھے ہیں، آپ کو تو زیادہ سمجھ آنی چاہیے۔

ثقافتی ورثہ سنبھالنا اچھی بات ہے لیکن دنیا سے رابطے تو ختم نہیں کرنے چاہیں کہ مختلف قسم کے لوگوں کے آپس میں رابطوں سے ہی علم میں اضافہ ہوتا ہے، اور ہر قسم کے اضافوں سے علم کا کچھ نہ کچھ تعلق تو ضرور ہے۔ جہالت میں اگر اضافہ ہو گا تو اسے علم کی کمی ہی کہیں گے۔ ( یہ ہم ہرگز اپنے دوست کو طعنے نہیں دے رہے) لیکن ثقافتی ورثے کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہر اپنے کو غیر سمجھ بیٹھیں۔

ایک دفعہ ہم ایک پوٹھوہاری مشاعرے میں چلے گئے۔ اب ہمارا تعلق ٹھیٹھ پوٹھوہاری بولنے والے علاقوں سے ہے اور بہت کچھ آٹکا باٹکا تریٹکا چھرا کرتے رہے ہیں اور چم چڑی پر سختی بھی لاتے رہے ہیں (یہ اکڑ بکڑ قسم کی بچگانہ نظمیں ہیں جو دیہی کھیلوں کے آغاز میں پڑھی جاتی ہیں) لیکن وہاں جو پوٹھوہاری وہ نظم کر رہے تھے، اس کی تفہیم تو شاید سائیں ایرانی اور ماسٹر نثار کو بھی نہ ہو پاتی۔ کہ وہ بھی اردو سے عداوت اور فارسی سے دشمنی میں مبتلا نہیں ہیں۔

ثقیل، ادق، مشکل لکھنے میں کچھ ہرج نہیں کہ یہ ذاتی انتخاب کا معاملہ ہے، جو لکھ رہا ہے، اسے جو اچھا لگے، لکھتا رہے لیکن اس کے پیچھے ثقافتی پاکیزگی کا جذبہ نہ کار فرما ہو تو اچھا ہے کہ ثقافتی پاکیزگی کے نام پر الفاظ کے جبری دخول و خروج کی منزل نفرت ہی ہے اور نفرت کوئی اچھی منزل نہیں ہے۔

ہمارے ذہن میں بھی علاقائی زبانوں کا بڑا احترام ہے۔ اچھا ہو گا کہ جدید علوم کا علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہو جائے تاکہ لوگوں کو سیکھنے میں سہولت رہے لیکن زبانوں کے معاملے میں رویے ذرا نارمل ہی رہیں تو اچھا ہے۔ اس کے پیچھے یہ ہستی کو نیستی میں بدلنے کا جذبہ تنگ نظری کا رستہ ہے۔

یہ مشترکہ دنیا ہے، اس میں رنگ برنگے لوگ اور رنگ برنگی زبانیں اس کا حسن بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں، بوہے باریاں (کھڑکیاں دروازے) بند کرنے سے دنیا کا حسن کم ہو جاتا ہے کہ شاہد و شہود و مشہود میں ورائٹی مشاہدے کی افادیت بڑھاتی ہے اور مشاہدے کی بہتری سے تجربے کی بہتری منسلک ہے۔

اب جو ہم اردو لکھتے ہیں تو اردو کو کچھ نئی جہتیں ملتی ہیں اور ہمیں بھی اردو سے کچھ حاصل ہو ہی جاتا ہے۔اکرام نہ سہی، الزام ہی سہی۔اب اس سادہ سے معاملے کو کاہے کو عزت بے عزتی کا مسئلہ بناتے رہیں۔بھاپا، اب کلی(گونگی) ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہے تو ہم کیسے ٹخٹر( ٹریکٹر) کو ریس دینے سے باز آئیں۔ بتا ہی دیتے ہیں، کچھ ایسا ڈائیلاگ تھا

بھاپا بھاپا (بڑے بھائی کو کہتے ہیں) پیار ہو گیا۔

کس سے حرامی

کلی سے (گونگی سے)

وہ کلی ہے تو تمھیں پتا کیسے چلا

جب میں ٹریکٹر کو ریس دیتا ہوں، وہ ہنستی ہے۔

ہاں کبھی کبھی ہمیں بھی چشم زلیخا روشن کرنے پر کچھ ملال ہوتا ہے لیکن ہم گم گشتہ ہیں اس لیے جو بھی رستے میں مل جائے، اسی سے ہی بات چیت کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر پوٹھوہاری، اردو اور انگریزی تو اپنی ہیں لیکن جن کو کم جانتے ہیں، وہ بھی غیر نہیں۔

ہمارے دوست کیا سوچیں گے کہ ایک تو ان کی کوئی پھوٹے منہ سے تعریف نہیں کرتا ،ہم نے کر دی تو انھیں راس نہیں آئی لیکن کیا کریں شجر ظلمت کی طرف جاتی ہوئی ہر بات کو روکنا کچھ فرض سا جان لیا ہے، مسلسل ناکام ہوتے رہتے ہیں لیکن کیا کریں جانتے ہیں انسان کی خستگی کا سبب اس کی جبری بے وقعتی ہے اور جو نظام انسان کی بے وقعتی پر استوار ہیں، وہ انسانیت مسمار کرتے رہتے ہیں۔

مسمار شدہ انسانیت بیت پڑھے، غزل سرا ہو،شوپین کا نغمہ بجائے یا ویگنر کے گیت گائے، اس کے نغمے نوحوں کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے ثقافت کا تحفظ نفرت کا ہم سفر نہ ہی تو اچھا ہے، پوٹھوہاری، اردو اور انگریزی میں یہی گفتگو ہی تو کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں کچھ گریس جاتی رہے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا، اور گریس کے جانے پر بس اسی ابھاگن کی آنکھوں کے گوشے نم ہوں گے۔ وہ تو گاہے گاہے ہوتے رہتے ہیں مگر ہمیں بھی ہنسانے کا کچھ ہنر آتا ہے، اس لیے ماحول کچھ زیادہ دکھی نہیں ہوتا۔