اور موت ایک بار پھر جیت گئی

اور موت ایک بار پھر جیت گئی
Stephen Hawking by Drago art

اور موت ایک بار پھر جیت گئی

از، خضر حیات

اور بالآخر موت ایک بار پھر سب انسانوں سے جیت گئی۔

اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے۔۔

ایسا لگتا ہے کہ موت تمام زندہ چیزوں کے ساتھ کبڈی کبڈی کھیل رہی ہے۔ ایک مختصر عرصے کے لیے تو انسان اسے خود کو پکڑنے سے روک سکتے ہیں، اس کے آگے آگے بھاگتے رہتے ہیں، اسے دھوکا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر موت کو ہمیشہ کے لیے دھوکا دینے والی کسی کوشش میں آج تک نہیں کامیاب ہوسکے۔ یہ کھیل بالآخر موت نے ہی جیتنا ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام انسان مل کر بھی موت کو آج تک نہیں ہرا سکے۔

کیسے کیسے جیالے اور غزالے دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کے سامنے سے موت کے پنجے میں پھنستے چلے گئے۔ کیسے کیسے قیمتی وجود چلتے چلتے ایک دم سے رک گئے اور کسی پراسرار عمل کے تحت اس دنیا سے غائب ہو گئے۔

موت بھی کتنی سفاک بلا ہے۔ کسی پہ رحم نہیں کھاتی۔ کسی کو نہیں چھوڑتی۔

آج موت نے زندگی پہ جو ضرب لگائی ہے اس نے موت کو ایک مرتبہ پھر حقیر ثابت کر دیا ہے۔ حقیر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ جاہل بھی ہے جو گدھے اور گھوڑے کو ایک ہی کھونٹے پہ باندھ دیتی ہے۔ یہ ہیرے بھی اسی ترازو میں تولتی ہے جس میں بھوسہ تولہ جاتا ہے۔

یہ قطعاً ذہین نہیں ہے، نری پھوہڑ ہے۔ پوری دنیا کے انسانوں کو ایک ہی ریوڑ کی صورت میں ہانکتی جاتی ہے۔ کسی بھی بڑے انسان کی جان لیتے ہوئے آج تک اس کے ہاتھ نہیں کانپے یا یہ معذرت خواہ نہیں نظر آئی۔

ایک بالکل عام سی زندگی کا خاتمہ بھی اسی انداز میں کرتی ہے جیسے ایک عظیم زندگی کا۔ اسے کیوں ڈر ہے کہ یہ اگر کسی غیر معمولی وجود کو رعایت دے گی تو اس کا کاروبار بند ہو جائے گا۔ ایک زرخیز دماغ کو بند کرتے ہوئے اس کا کلیجہ بھی منہ کو نہیں آتا اور اسے پشیمانی بھی نہیں ہوتی۔ حیرت ہے۔۔

کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے والے انسانوں کے ساتھ چاہے جیسا مرضی سلوک کرتی پھرے مگر بڑے لوگوں کا تو لحاظ رکھا لیا کرے۔

اے موت۔۔

ہماری اس دنیا میں بے پناہ ایسے لوگ ہیں جو پل پل تیرا انتظار کرتے گزارتے ہیں کہ تُو آئے اور انہیں سانسوں کی قید سے رہائی دلائے۔ تُو نے اپنی بھوک مٹانی ہی ہے تو ایسے انسانوں سے مٹاتی پھر، جو ہیں بھی اکثریت میں۔ تُو کیوں ایسے لوگوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتی اور ہمیشہ ایسے لوگوں کو ہی کیوں اٹھاتی جاتی ہے جن کا دنیا میں رہنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ جب تُو موت کے لیے ترستے تمام لوگوں کو اُس پار لنگھا کے فارغ ہو جائے تب پھر ان لوگوں کی فہرست بنا لینا جو اس دنیا میں بڑے بڑے کام کر رہے ہیں اور جن کا ہر گزرتا لمحہ اس دنیا کو کچھ نہ کچھ نیا دیتا چلا جا رہا ہے۔ اسی  لیے تو کہا ہے تُو پھوہڑ ہے جسے بس بندہ اٹھانے سے غرض ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اٹھائے جانے والے بندے کا پورٹ فولیو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔

تُو کیا ایسے لوگوں سے جلتی ہے جو اس دنیا کی صورت گری اپنی ذہانت کی مدد سے کر رہے ہوتے ہیں یا اس دنیا کا نقشہ بدلنے کے مشن پہ روانہ ہو چکے ہوتے ہیں؟

؎ کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت

کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا

(احمد مشتاق)

مجھے یقین ہے اگر آج تُو صرف اتنا جاننے کا ترّد کر لیتی کہ یہ بندہ جو وہیل چیئر پہ بیٹھا ہے یہ کون ہے اور اس کا عزم کیا ہے تو صرف تیرے ہاتھ ہی نہ کانپتے بلکہ تجھے اپنا کام بھی نہایت ذلّت آمیز لگنے لگتا۔ آج شاید پہلی دفعہ تجھے اپنا آپ قاتل لگنے لگتا اور تجھے اپنے وجود سے ہی نفرت ہونے لگتی۔۔

تجھ سی بلا بھی کسی نے کیا دیکھی ہو گی۔ ہمہ وقت جس کے نوکیلے دانت اور حیوانی پنجے خون سے لت پت رہتے ہیں۔ جس کے سر پر ہمہ وقت کسی نہ کسی کا لہو پینے کا جنون سوار رہتا ہے۔ تیری جو حالت ہے تجھے تو خود سے ہی گھِن آنی چاہیے۔

تجھے تو اسی دن ہار مان لینی چاہیے تھی جس دن تجھے تیری ذمہ داری سونپی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ تیری مدمقابل زندگی جیسی حیسن ترین شے ہے۔ تجھے زندگی کی رنگینی اور شادابی دیکھ کے ہی پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔ تیرا اور زندگی کا تو جوڑ ہی نہیں بنتا۔ تم اتنی مکروہ اور زندگی اس قدر دلفریب۔ حیرانگی ہوتی ہے اس بات پہ کہ تیرا حوصلہ کیسے ہوتا ہے زندگی کی شہ رگ پہ اپنے پنجے گاڑنے کا۔ دنیا جہان کے جلادوں کی بے حِسی کو اگر ایک جگہ اکٹھا کرکے کسی مجسم صورت میں دیکھا اور دکھایا جا سکے تو شاید تجھ سے ملتی جلتی کوئی شبیہ بن سکے۔ اگر ایسا کبھی کیا جا سکا تو تم بھی اپنا نقشہ دیکھ لینا۔ مجھے یقین ہے تمہیں اپنا آپ دیکھ کے ہارٹ اٹیک آ جائے گا۔

ذمہ داریاں بانٹنے والے کو بھی ناجانے کیا سوجھی تھی کہ اس نے زندگی جیسی حسین بلبل پر گِدھ جیسی صفات رکھنے والی موت کو قدرت عطا کر دی۔

؎ اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجیے

(حیدر علی آتش)

اسٹیفن ہاکنگ کی طر ہر انسان ایک الگ اور مکمل کائنات ہے۔ اس کے اندر کتنا ہی کچھ جاری و ساری ہے۔ کتنی ڈھیر ساری چیزیں ہیں جو وہ اندر ہی اندر  لیے پھرتا رہتا ہے اور کتنا بڑا جہان وہ اپنے ساتھ ہی لیے مر جاتا ہے۔

ہرانسان کا مرنا ایک جہان کی موت ہے۔ موت ہمارے سارے تجربے، تعلیم، سمجھ، دانش، باریک بینی، معاملہ فہمی، سوچ، منصوبہ بندی اور ہماری انفرادیت سب کو اپنے ساتھ بہا کے لے جاتی ہے۔ اس طرح سوچیں تو ہر لمحہ ہی انتشار اور فنا کا ہے۔

موت بلاشبہ سب سے طاقت ور شکاری ہے جس سے آج تک کوئی نہیں بچ سکا۔

اور یہ بھی سچ ہے کہ آج تک زندگی کو جتنا نقصان موت نے پہنچایا ہے کوئی دوسری شے نہیں پہنچا سکی۔

؎ سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

(غالب)