تعلیمی اصلاحات میں روح اور مادے کا مقابلۂِ جاں گُسِل

Naseer Ahmed
نصیر احمد

تعلیمی اصلاحات میں روح اور مادے کا مقابلۂِ جاں گُسِل

از، نصیر احمد 

پروین غوغائی: دور اندیش کے دوسرے پروگرام میں آپ کو خوش آمدید۔

ویسے تو حسبِ دستور سیما کی ولایتی چیخوں کو لے کر، التائی خاتون کے گیت پر میں نے اپنا پروگرام ماڈل کیا تھا اور ہنہنانے، ڈکرانے، چیخنے، چنگھاڑنے، سسکنے، بلکنے اور سسک سسک کر بلکنے اور بلک بلک کر سسکنے کی بہت پریکٹس کر لی تھی اور دو پٹہ لہرا کر پھررررر سے پروگرام ختم کرنے کی بھی کافی ریہرسل کر رکھی تھی۔

لیکن ایک انتہائی اہم قومی مسئلہ سامنے آ گیا تھا۔ اس لیے غوغا معطل کر کے کچھ سنجیدگی کی طرف آنا پڑا۔ ویسے بھی آپ لوگ مسلسل گِلے کرتے رہتے ہیں کہ صحافت سے سنجیدگی غائب ہو گئی ہے۔ اس سنجیدگی کی بَہ حالی کے لیے مشہور ماہرِ تعلیم عشرت الجماع بِالبقرہ کو خصوصی طور پر مدعُو کیا ہے تا کہ عشرت صاحب اپنے مشہورِ زمانہ اصلاحاتی پروگرام کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں ہم سے شیئر کر سکیں۔

تو عشرت صاحب، آپ نے تعلیمی اصلاحات کن خطوط پر استوار کی ہیں؟

عشرت: نہ تصویرِ بُتاں پر استوار کی ہیں اور نہ حسینوں کے خُطوط پر۔ ان اصلاحات کو میں نے اپنی تاریخی روایات، مذہبی ثقافت اور ایک اپنے پن پر کی ہیں جس سے دوری کے باعث نسلیں خراب ہو رہی تھیں۔

ہمارے پاس ایک عظیم ثقافتی وَرثہ ہے، لیکن ہم غیروں کے چاکر سے بنے اپنی تہذیب برباد کر رہے ہیں۔ ہمارے عظیم اجداد نے سائنسی تصورات کے باطن تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ مگر ہم غیروں کے زہریلے خیالات کے زیرِ اثر ظاہر میں دھنسے ہوئے ہیں۔

ہمارے پاس مغربی مصنفوں کی لکھی ہوئی کیمیا ہے، لیکن اس کیمیا کے باطن کی راز داں کیمیائے سعادت سے ہم نا آشنا ہیں۔ میری اصلاحات اس نا واقفی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے  ربطی کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

پروین غوغائی: یہ بات آپ کسی مثال سے واضح کر سکتے ہیں۔

عشرت: کیوں نہیں۔ در اصل ہم نے کیمیائی عناصر کے فارمولے احیائے ثقافت کی بنیادوں پر ترتیب دیے ہیں۔ علم کے حصول میں طالب علم ہوتا ہے، ظاہری علم  ہوتا ہے اور باطنی علم ہوتا ہے۔ نصاب کا مقصد ظاہری علم کی غیر ضروری منزل کا خاتمہ ہے اور طالب علم کو بَہ راہِ راست باطنی علم تک رسائی دینا ہے۔

تعلیمی اصلاحات پاکستان
Image copyrights Columbia Daily Spectator

پروین: اور یہ رسائی کیسے ہو گی؟

عشرت: مثال کے طور پر ہم سے کم ترقی یافتہ دنیا پانی کا کیمائی فارمولا ایچ ٹو او، یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب بتاتی ہے۔ لیکن ہم نے یہ ظاہری فارمولا ترک کرتے ہوئے پانی کا باطنی فارمولا اختیار کر لیا ہے۔ جس سے طالب علم کا اپنے لوگوں سے ناتا جڑا رہے گا۔

پروین: اور وہ باطنی فارمولا کیا ہے؟

عشرت: ماں کی دعا، جنت کی ہوا۔ اسی طرح سلفر ڈائی آسائیڈ کا باطنی فارمولا تجھے چاہ نہیں، ہمیں پروا نہیں، اور سیسے کا بد نیتاں دے گھر نئیں وسدے اور ہائیڈرو کلورک ایسڈ کا باطنی فارمولا، بم لاری اگ ڈرائیور ہے۔

پروین: یہ تو مجھے معلوم نہیں تھا، لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان فارمولوں کا باطنی روپ میں نے ٹرکوں کی نمبر پلیٹوں پر بھی شاید دیکھا ہوا ہے۔

عشرت: ضرور دیکھا ہو گا۔ ہمارے لوگوں کی ترکیب میں کمال بنیادی عُنصر ہے اور ہمارے ہاں کے ٹرک ڈرائیوروں کی نگاہیں بھی دل وجود کو چیر دیتی ہیں۔ ان کا یہ حال ہے تو ہمارے ہاں کے حُکَماء، فُصَحاء، اولیاء اور عُلَماء سے تو کچھ بھی نہیں چھپا ہو گا۔ بس اسی کو سامنے لانے کے لیے یہ تعلیمی اصلاحات میں سامنے لایا ہوں۔

پروین: مگر ایک سوال اٹھتا ہے؟

عشرت: سوال اٹھانے کی آرزو ہی ہمیں ظاہر دار بنا دیتی ہے۔ یہی مغربیت کے حملے کا نتیجہ ہے۔ ایک مشورہ میں آپ کو دوں گا کہ سوال جب بھی اٹھے اس کے سر پر دھپ مار کر بٹھا دیں، بل کہ لِٹا دیں۔ ورنہ تو اپنائیت سے جدائی ہو جائے گی۔

پروین: سوال کو لمبا لمبا لِٹانے کا باطنی فارمولا کیا ہے؟

عشرت: دڑ وٹ تے دیہاڑے کٹ

پروین: اس میں میں کافی ماہر ہوں کہ شاید میری ترکیب میں بھی کمال بنیادی عُنصر ہے، لیکن اس دفعہ سوال لیٹنے سے انکاری ہو گیا ہے۔ اس لیے آپ ہی اسے اپنے کسی باطنی فارمولے کے ذریعے اس کی تشَفّی کر دیں۔

عشرت: ایک تو آپ نو جوان لوگ؟ چلیں سوال پوچھ لیں؟

پروین: سوال یہ ہے کہ تجربہ گاہ میں ماں کی دعا اور جنت کی ہوا کے ذریعے آپ پانی کیسے بنائیں گے؟

عشرت: تجربہ گاہ میں ہم نے کچھ بھی نہیں ثابت کرنا۔ تجربہ گاہ تو علومِ ظاہریہ کا فریب ہے۔ باطنی دنیا میں ماں کے آنسو ندیاں رواں کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے آپ کو باطنی دنیا میں اپنا آپ گُم کرنا پڑے گا۔

پروین: (ہنستے ہوئے) ابھی تو میں خود فراموشی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں اور پھر الحمدُ لِلّٰہ میرے شوہر حیات ہیں۔ وہ مجھے ظاہری دنیا میں گم نہیں ہونے دیتے باطنی میں تو بالکل ہی گم نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن آپ نے فزکس میں کیا اصلاحات کی ہیں۔

عشرت: آپ کے شوہر جیسے مادہ پرستوں کی اخلاقی ابتری کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے فزکس کی کتابوں میں جہاں جہاں لفظ مادہ آتا ہے اسے میں نے مردِ مکمل سے تبدیل کر دیا ہے اور ساتھ میں اپنی ایک چھوٹی سی تصویر منسلک کر دی ہے۔

پروین: میرے شوہر کے بارے میں ایسی گفتگو نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ ورنہ میں التائی خاتون والی ریہرسل آپ پر آزمانے لگوں گی۔ لیکن چُوں کہ آج سنجیدہ رہنا ہے اس لیے اس تبدیلی کی کوئی آپ کوئی مثال دے سکتے ہیں؟

عشرت: فزکس میں مادے یعنی مردِ مکمل کی حالت ایک ایسی نمایاں شبیہ ہے جس میں مردِ مکمل موجود ہے۔ روز مرّہ کی زندگی میں مردِ مکمل کی چار حالتیں ہیں۔ حالتِ وجد، حالتِ جنون، حالت برہنگی اور حالتِ تردیدِ مَن و تُو۔ اور حالت برہنگی کے بعد حالتِ تردیدِ مَن و تُو کی طرف کبھی صعُودی اور کبھی نزُولی پرواز بقائے انسانیت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اَن پڑھوں کو ان حالتوں سے دور رکھنا ضروری ہے، لیکن درویش دانا کے لیے یہ حالتیں بہت ضروری ہیں۔

پروین: خوب، اس سلسلے میں ایک مشورہ دے سکتی ہوں؟

عشرت: جی جی فرمائیے!

پروین: آپ مادے کی جگہ مردِ کامل کے بَہ جائے روح کیوں نہیں ڈال دیتے!

عشرت: اس سے ایک غیر ضروری ظاہری زینہ بن جائے گا۔ مردِ مکمل ہی تو روح ہے۔

پروین: اور ان اُمُور کی تعریف کرنے میں کوئی اختلاف ظاہر ہو جائے؟

عشرت: اس کے لیے جماع تو موجود ہی ہے

پروین: یعنی آپ …

عشرت: جی جی خاکسار تُو نے تَو زندگی اصلاح کے لیے وقف کر دی ہے۔

پروین: ایک آخری سوال؟ ان اصلاحات کے عملی اثرات کیا ہوں گے، مثال کے طور پر بنیادی غذا جسے سٹیپل فوڈ کہتے ہیں، پر ان اصلاحات کے کیا اثر ہوں گے؟

عشرت: سٹیپل فوڈ میں تنوُّع آ جائے گا اور دال بھات سے کنارہ کَش ہو کر لوگ نئی ڈشیں بنانے لگیں گے۔

پروین: جیسے …

عشرت: بجلی کے بل کا پلاؤ، گیس کے بل کا سلاد، پانی کے بِل کا بھرتہ۔

پروین: خوب، آپ کا بہت شکریہ۔

ناظرین، ہم عشرت صاحب کو پھر دعوت دیں گے اور تاریخ کے نصاب میں انھوں نے جو اصلاحات کی ہیں، ان پر پیپلز پارٹی کے اگلے دورِ حکومت میں بحث کریں گے۔ خوش رہیں اور بجلی گیس اور پانی وغیرہ کم خرچ کریں۔