معاصر علوم کی حیثیت، نصابِ نو کی تشکیل اور اسلامائزیشن: مولانا مودودی کا نقطۂِ نظر 

Tayyab Usmani
طیب عثمانی

معاصر علوم کی حیثیت، نصابِ نو کی تشکیل اور اسلامائزیشن: مولانا مودودی کا نقطۂِ نظر

از، طیب عثمانی

سید ابو الاعلیٰ مودودی بر صغیر کے علمی قد آور شخصیات میں ایک بلند نام رکھنے والی شخصیت ہیں۔ معاصر عُلُوم کے حوالے سے ہماری خالص روایت پر مبنی فکر کی تو جدید عصری کے حوالے سے resistance موجود رہی ہے، گو کہ اس کی شدت میں کمی واقعی ہوئی ہے۔

اسی سخت رجحان میں فکری اعتدال پسندی کے حوالے سے خواندہ جدید  طبقے میں مولانا مودودی کا شمار ہوتا ہے۔ آئیے ہم یہاں ان کی عُلُومِ جدیدہ کے بارے میں فکر سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔

مولانا مودودی کے نزدیک معاصر علوم فتنہ اور باطل ہیں۔ مسلمانوں میں اس کے سِحَر اور ان علُوم کی تقلیدی روش کو ختم کرنا ہو گا۔ اپنی کتاب علمی تحقیقات، کیوں اور کس طرح میں لکھتے ہیں:

مغربی فکر اور فلسفۂِ حیات کا جو طلِسم قائم ہوا ہے اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلّل علمی تنقید کے ذریعے یہ ثابت کیا جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق و واقعات ہیں وہ در اصل تمام دنیا کا مشترکہ علمی سرمایہ ہے۔

لیکن ان معلومات اور حقائق کی بنیاد پر اہلِ مغرب نے جو فلسفۂِ حیات بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (social sciences) اور معاشرتی فلسفہ انھوں نے گھڑا ہے وہ پوری دنیا کے لیے موجبِ فتنہ و فساد ہے۔

اس لیے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ مسلمانوں پر مغربی فکر و فلسفہ کا جو سِحَر ہے وہ ختم ہو جائے۔ اس کے بَہ غیر مسلمانوں کو ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی اور مقلدانہ روش سے نہیں نکالا جا سکتا۔” (1)

موجودہ علوم کی کالج اور یونی ورسٹیوں میں تدریس کے خاتمے کے بَہ غیر اسلامی تہذیب کا احیاء مشکل ہو گا، لکھتے ہیں:

دوسرا کام یہ کرنا ہو گا کہ اسلامی نقطۂِ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اُسلُوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے۔ بلا شبہ واقعات اور حقائق وہی رہیں گے جو دنیا کا مشترکہ علمی سرمایہ ہیں، لیکن ان پر جب تک ایک پورا نظامِ فکر و عمل اسلامی نقطۂِ نظر سے مرتب نہ کیا جائے گا اور کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں یہ علوم نہ پڑھائے جائیں گے، اس وقت تک آپ توقع نہ رکھیں کہ یہاں کبھی اسلامی تہذیب اٹھ سکتی ہے، بَل کہ اس کا باقی رہنا بھی مشکل ہے۔ (2)

مغربی علوم حقائق کی بَہ جائے مغربی وجدانیات ہے، اور یہ حقائق لینا نا ہوا، بَل کہ مغربی وجدان کی قبولیت ہے:

مغربی علوم و فنون بَہ جائے خود سب کے سب مفید ہیں اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں، بل کہ  ایجاباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائقِ علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔

دشمنی در اصل علم اور اسلام میں نہیں، بل کہ مغربیت اور اسلام میں ہے۔

اکثر عُلُوم میں اہلِ مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصورات، بنیادی مفروضات، نقطہ ہائے آغاز اور زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں جو بَہ جائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں، بل کہ محض ان کی وجدانیات ہیں۔ وہ حقائقِ علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اور اس سانچہ کی مناسبت سے ان کو مرتب کر کے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔

اسلام کی دشمنی در اصل انھی وجدانیات سے ہے وہ حقائق کا دشمن نہیں، بل کہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔” (3)

اس کا لائحۂِ عمل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ علوم کو پھیر کر قرآنی وجدانیات میں سانچہ مرتب کرنا ہو گا:

استدلال و اِستِشہاد اور تحقیق و تمحیص کے لیے صرف وہی ایک نقطۂِ آغاز ان کو دیتے ہیں جو اہلِ مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پر مرتب کر کے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں، جس طرز پر اہلِ مغرب نے ان کو مرتب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے یہ کس طرح ممکن ہے؟

وہ شعبۂِ دینیات کیا کر سکتا ہے جس میں مجرد تصورات ہوں، حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بل کہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ہی ان تصورات کے بالکل بر عکس ہو۔ یہی گم راہی کا سر چشمہ ہے۔

اگر آپ گم راہی کا سدِّ باب کرنا چاہتے ہیں تو اس سر چشمے کے مصدر پر پہنچ کر اس کا رخ پھیر دیجیے جو قرآن نے آپ کو دیے ہیں۔ جب اس وجدانی سانچہ میں معلومات مرتب ہوں گی اور اس نظر سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ مسلم طلبہ بنیں گے اور آپ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں اسلامی سپرٹ پیدا کی۔ (4)

چُوں کہ موجودہ علوم مغربیت زدہ ہیں، ان کے خاتمے کے بعد ان علوم کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہو گی۔ یقیناً ان کی اسلامائزیشن ہی ہو گی۔ اپنی کتاب تعلیمات میں مغربی عُلُوم کے ساتھ ایک پیریڈ دینیات کی تدریس پر نقد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

اس کے بعد ضرورت ہو گی کہ ایک نیا نصاب مرتب کیا جائے اور اسلامی نقطۂِ نظرسے تعلیم کے قابل کتابیں تیار کی جائیں۔ اسلامی تعلیم کا یہ معنیٰ نہیں ہے کہ تمام اوقات میں تو ہم وہ عُلُوم پڑھائیں جو مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں اور صرف ایک پیریڈ میں طلبہ سے یہ کہہ دیا جائے کہ ایک ہستی کا نام اللہ ہے اور اس نے ایک ہستی کو رسول بنا کر بھیجا تھا، لیکن اللہ اور رسول کا مظاہرہ ان کو باقی اسباق میں نظر نہ آئے۔

لہٰذا اسلامی نقطۂِ نظر سے نصاب تیار کرنا انتہائی ضروری ہے، تا کہ نئی نسل کے ذہنوں میں نہ صرف اسلامی فکر و فلسفہ نقش ہو جائے، بل کہ وہ نت نئے چیلنجز کا جواب بھی دینے کے قابل ہو جائیں۔ (5)

جدید و قدیم علوم کے نصاب کی تشکیلِ نو طریقۂِ کار کی جانب رہ نمائی کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی مجلسِ اصلاح نصاب و دینیات کو لکھے گئے نوٹ میں رقم طراز ہیں:

  1. اسلامی فلسفۂِ قانون اور اصولِ قانون، سیاسیات، عمرانیات، فلسفۂِ تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی، اردو، انگریزی، جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بَہ عینہٖ لینے کے قابل ہو ان کا انتخاب کر لیا جائے اور جن کو اقتباس یا حذف یا ترمیم کے ساتھ کار آمد بنایا جا سکتا ہو، ان کو اسی طریق پر لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہلِ علم کی خاص جمعیت مقرر کرنی ہو گی۔
  2. چند ایسے فُضَلاء کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں: خصوصیت کے ساتھ اصولِ فقہ، احکامِ فقہ، اسلامی معاشیات،  اسلام کے اصولِ عمران اور حکمتِ قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کے لیے کار آمد نہیں ہیں۔ اربابِ اجتہاد کے لیے تو بلا شبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر ان کو جوں کا توں لے کر موجودہ زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔ (6)

تعلیمات کے متعلق ان اقتباسات کے تناظر میں  چند استفسارات ذہن میں آئے:

  1. حقیقت اور وجدان سے کیا مراد ہوتی ہے؟
  2. مغربی علوم عقلی ہیں، یا وجدانی؟
  3. کیا تجرباتی علوم مغربی و مشرقی ہو سکتے ہیں؟
  4. کیا مخصوص وجدان سے تجربہ و مشاہدہ بدل سکتا ہے؟
  5. قرآنِ کریم عمرانیاتی بنیادوں پر کون سے اصول تشکیل دیتا ہے؟ اگر دیتا ہے تو کیا اس کی ہیئت انسانی تجربات سے ہٹ کر ہو گی؟
  6. علوم درست ہیں اور وجدان غلط، کیا مطلب ہے اس کا؟
  7. کیا وجدانی سانچے سے حقائق مسخ کیے جا سکتے ہیں؟ اگر کیے جا سکتے ہیں تو کیا الزام اس مُجوَّزہ سانچے پر بھی ہو سکتا ہے؟
  8. قدیم علوم کی تشکیلِ نو کی کیوں ضرورت ہے؟ عصرِ حاضر میں ان کی افادیت کیوں ختم ہو گئی؟ کیا یہ تجدد پسندانہ رجحان نہیں؟
  9. جن حاصلات و نتائج کو وجدانی مفروضے قرار دے کر جھٹلا دیا گیا، وہ اگر اس زمانے میں حقائق ہو جائیں تو کیا مغربی حاصلات بَہ طورِ حقیقت قبول ہوں گے یا نہیں؟
  10. کیا مسلمان کا پہلی بار اغیار کے علوم کے ساتھ واسطہ پڑھا ہے اور اخذ و انتقال اس پہلے کبھی نہیں ہوا؟
  11. علوم کی تشکیلِ نو کے بعد مسلم سائنس دانوں و مفکرین کے ساتھ کون سا رویہ اختیار کیا گیا، کیا اب اس تشکیلِ نو اور اسلامائزیشن پر کام کرنے والے متشدد رویوں سے بچے رہیں گے؟

حوالہ جات

1) علمی تحقیقات: کیوں اور کس طرح؟ ص 12-13

2) ایضاً، ص 15

3) تعلیمات، ص 31

(4) ایضاً، ص 32

(5) ایضاً، ص 88

(6) ایضاً، 37