فنکاروں کو اعزازات سے زیادہ ’عزت‘ کی ضرورت ہے

فنکاروں کو اعزازات

فنکاروں کو اعزازات سے زیادہ ’عزت‘ کی ضرورت ہے

شاہد کاظمی

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں واقعات، سانحات اور حادثات اِس طرح رونما ہوتے ہیں جیسے چیونٹیاں زمین سے نکلتی ہیں۔ جس طرح چیونٹیوں کا شمار کرنا ممکن نہیں ہوتا اِسی طرح پاکستان کے معروضی حالات میں یہ بتانا بھی اب ممکن نہیں رہا کہ کون سا واقعہ اہم اور کون سا غیر اہم ہے۔ کس حادثہ کو زیادہ کوریج مل گئی اور کس سانحہ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں ترجیحات، قومی مفادات یا عوام نہیں ترتیب دیتے بلکہ ہمارا میڈیا خود ترتیب دیتا ہے۔ ہمارا میڈیا ہمیں یہ نہیں دِکھاتا کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے یا کون سی خبر، واقعہ، سانحہ دِکھانا ملکی مفاد میں ہے، بلکہ بریکنگ نیوز کے چکر میں ہمارا میڈیا ذمہ داری اور مدد کے دائرے سے بالکل باہر نکل چکا ہے۔

پانامہ کیس کی گرد ابھی تھمی نہیں ہے کہ عمران خان کے خلاف کیس آگے بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ ہر نئے دن نیا موضوع بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اِس پورے جھمیلے میں ہمیں نوشہرہ کے ایک اسپتال کا منظر بالکل بھی متاثر نہ کر پایا جہاں ایک بُڑھیا زخمی حالت میں لیٹی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ بوڑھی خواتین کا زخمی ہوجانا پاکستان میں معمول کی بات ہے، اِس میں حیرانی کیسی؟

بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ پاکستان میں تو ہر دوسرے دن چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا ہی رہتا ہے، اور 1946ء میں لکی مروت کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والی آج کی اِس بُڑھیا کو بھی ہم ایک معمول کا واقعہ سمجھ لیتے اگر یہ عورت ’’زرسانگا‘‘ نہ ہوتی۔

چلیے تھوڑا آسان کر دیتے ہیں۔ یہ زخمی عورت جواسپتال کے ایک بستر پر اپنے زخمی شوہر اور بیٹے کے ہمراہ پڑی ہے، یہ پشتو لوک گلوگاری کی ملکہ کہلاتی ہے۔ اِس بڑھیا کو صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا جاچکا ہے۔

زرسانگا کے خاندان اور پڑوسیوں میں رقم کے لین دین کا تنازعہ ہوا۔ سوات سے جب وہ اپنےعلاقے ازاخیل واپس آئے تو ہفتے کی رات کو یہ واقعہ پیش آیا۔ اِس معاملے میں کم و بیش پانچ (5) لاکھ کی رقم کا تنازعہ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی پہچان کہلانے والی اِس فنکارہ کو لہولہان کردیا گیا۔

زرسانگا کے بیٹے ہجران کے مطابق پولیس نے بھی تعاون نہیں کیا اور وہ بے چاری کرتی بھی کیوں، زرسانگا سیاستدان ہوتی یا کسی این جی او کی نمائندہ ہوتی تو شاید اُس کی سُنی بھی جاتی، اُسے علاج بھی فوری فراہم کردیا جاتا مگر اُس کی آواز میں جب تک دم رہا وہ پشتو کو عالمی سطح پر متعارف کرواتی رہی، جب آواز میں دم ختم ہوا تو اُس کی اہمیت بھی ختم ہوگئی۔

مجھے حیرانی یہ ہوتی ہے کہ ہم فنکاروں کو اعزازات سے تو نواز دیتے ہیں، لیکن کیا اُن کی ضرورت کے وقت کبھی مڑ کے خبر بھی لیتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ اپنے آپ سے شرمندگی ہوتی ہے کہ صوبے کی حکومت تبدیلی کی امین، وفاقی حکومت ترقی کی امین مگر اِن کے پاس پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بننے والی زرسانگا کے قرض کی رقم ادا کرنے کی رقم بھی نہیں؟

ہمارے لیے شاید اُن لوگوں کا دفاع اہم ہے جن کا پیسہ معلوم ہی نہیں دنیا کے کس کس کونے میں ہے، یا شاید ہمارے لیے وہ رہنما اہم ہیں جن کی رہائش گاہیں سینکڑوں ایکڑ میں پھیلی ہوئی ہیں، یا پھر ہمارے لیے کوئی بدیسی ماڈل زیادہ اہم ہوگی جس کے تن پر لباس ضرورت سے ناکافی ہو، لیکن ہمارے لیے زرسانگا بھلا کیوں اہم ہوگی؟

زرسانگا بے چاری نے تو پاکستان کی خدمت کی، پشتو زبان کی ترویج کی۔ اُس کو شاید معلوم نہیں تھا کہ یہاں پرائڈ آف پرفارمنس سے نام زندہ نہیں رہتے، یہاں نام رج کر کرپشن کرنے سے معتبر ہوتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ سادگی سے پاکستان کی خدمت کی جائے بلکہ لوگ اُس کے نام کے نعرے لگاتے ہیں جو اِس ملک کی جڑوں میں دیمک کی طرح لگا ہو۔

ایک چیز ہوتی ہے قومی غیرت جو مفقود تو ہے لیکن پھر بھی عوام کو جھنجوڑنے سے جاگ جاتی ہے، البتہ حکومتی سطح پر خال خال ہی ملتی ہے۔ لہذا کہنا بنتا نہیں، مگر وفاقی حکومت سے کہہ کر، صوبائی حکومت کو ہِلا کر حجت تمام تو کرنی ہے کہ خدارا! آپ جو عدالتوں میں ایک دوسرے کو گھسیٹ رہے ہیں، اِس سے فرصت ملے تو زرسانگا کی کوئی مدد کردیجیے گا، کیوںکہ آپ کے اثاثے پوری دنیا میں بھی پھیلے ہوں تو آپ کے لیے کم ہیں، لیکن غریب پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی ہی میسر آجائے تو شکر ادا کرتے ہیں۔


بشکریہ: ایکسپریس ڈاٹ پی کے