ڈرائیونگ لائسنس سے پرہیز کیا کر کلفت اس میں قیامت ہے

ڈرائیونگ لائسنس سے پرہیز کیا کر کلفت اس میں قیامت ہے
Illustration courtesy: Times of India

ڈرائیونگ لائسنس سے پرہیز کیا کر، کلفت اس میں قیامت ہے

از، یاسر چٹھہ

ضرور پتا ہی ہو گا کہ منٹو نے لائسنس کے نام سے ایک افسانہ لکھا تھا۔ اس کی مرکزی کردار نیتی کا کوچوان گھر والا جب مر جاتا ہے تو یہ مجبوراً خود سے ٹانگہ چلانا شروع کردیتی ہے۔ لیکن روایتوں کے کیل کانٹے سے لیس سماج اجازت نہیں دیتا۔ اور ایک دن کمیٹی والے نیتی کا ٹانگہ چلانے کا لائسنس ضبط کر لیتے ہیں۔ منٹو کی لائسنس والی کہانی تو وہاں ختم ہوجاتی ہے پر ڈھیر ساری سوچیں چھوڑ کے جاتی ہے۔ آپ کے زرخیز ذہن میں تو پتا نہیں کیا کیا خیال آئے ہوں گے۔ پر میری سُوئی کہیں اور ہی اٹکی ہے۔ ابھی کچھ وقت میں بتاتا ہوں۔

سیانے کہتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے۔ وہ بضد ہیں کہ زمانہ ترقی کر گیا ہے اور اب نہ صرف ٹانگوں کی جگہ انجن اور تیل سے چلنے والے ذرائع آمدورفت نے لے لی ہے۔ پلٹے وقت نے کمیٹیوں کے قانون کو نافذ کرنے والوں کے انداز بھی بدل دیے ہیں۔ اب وہ لائسنس ضبط کم ہی کرتے ہیں۔ اور اگر کرتے بھی ہیں ہو تو چالان وغیرہ کے تقوٰی کے اندر گُندھی عمل کے لیے  بطور ضمانت نامے کے۔ اب قانون والے البتہ کہتے ہیں کہ بس تم لائسنس بنواؤ لائسنس! اور ساتھ ہی ساتھ کہتے ہیں بنوا کہ دکھاؤ ذرا۔

پچھلے دنوں کراچی کے ٹریفک کے نگہبان ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے ڈرائیونگ لائسنسوں کے متعلق حقائق بیان کرکے رقت آمیز سماں باندھ دیا۔ صاحبِ اختیار و علم نے فرمایا بلکہ اپنے آپ کو بھی ساتھ ہی بالواسطہ اور غیر ارادی غیرت دلانے کی کوشش کی کہ کراچی میں صرف ڈھائی لاکھ لوگوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے۔ انہوں نے کراچی کی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بھی انگلیوں پہ گن کہ بتائیں کہ وہ 3641508 ہیں۔ صاحب نے اپنی کارکردگی پہ خود ہی روشنی ڈال دی ورنہ تو آپ کو پتا ہی ہے “کے الیکٹرک” روشنی کرنے کو کتنی بجلی دے پاتی ہے۔

امیرِ ٹریفک نے اپنے خطبہ میں کہا کہ نوّے فی صد ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں۔ حیرانی ہے کہ بقول پوزیراعظم، پاکستان لبرل ہونے والا ہے لیکن لائسنسوں کے متعلق خبر جانی تو معلوم پڑا کہ کراچی کی ٹریفک سب سے اوّل اوّلیں لبرل ہو چکی ہے۔ نہیں، نہیں آپ کا شک درست نہیں ہے، نوّے فی صد لائسنس منٹو کی نیتی کی طرح یا نفاذِ قانون کے لیے ضبط نہیں ہوئے بلکہ ویسے ہی لبرٹی کے مُوڈ میں آئے ہوئے ہیں۔

کراچی کی ٹریفک کےامیرِ محترم نے جو زیادہ خوفناک بات آشکار کی وہ یہ تھی کہ بغیر لائسنس موٹر سائیکل، گاڑیاں، ہائی ایس، بسیں، ٹرک اور ڈمپر والے کھلے مُنھ پھرتے موت کے فرشتے ہیں۔ اب ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ جو باقی ماندہ دس فی صد اہلِ لائسنس ہیں ان کا طبعی و روحانی معاملہ کیا ہے؟ آیا وہ بھی کوئی فرشتوں کی ہی قسم ہیں یا کوئی عامی ہیں اور خاکی ہی ہیں! چلیں یہ سوال ہم ایسے غیر نابغوں کے لیے ٹھیک نہیں، ایسے ہی دماغ پہ بوجھ کیوں ڈالیں۔

بہرحال اب والئیِ ٹریفک کراچی نے کہا کہ لائسنس تو سب کو بنوانا پڑے گا۔ مطلب سیدھی بات ہے وہ موت کے فرشتوں کی آبادی کم کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔ لوگوں میں یہ بات کراچی میں ایم کیو ایم کی طرح پھیل گئی۔ اگلے ہی دن وہ لائسنس لینے کے لیے لپکے تو لائسنس دفتروں کے پاس فارم کے لیے کاغذ تک ختم ہو چکے تھے۔ والئیِ ٹریفک نے موت کے فرشتوں کے لیے تین مہینے تک کا ٹائم بڑھا کر گناہ جاریہ کی رسی کی طوالت کا اہتمام کردیا۔

مزید ملاحظہ کیجیے: چراغ حسن حسرت کی مزاح نگاری

اب لائسنس بن تو رہے ہیں پر دھیرے دھیرے۔ وفاقی درالحکومت اسلام آباد میں بھی لائسنس بنتے ہیں۔ بلکہ یہاں تو دن دگنے لائسنس بنتے ہیں البتہ رات کو چُگنے کی بجائے آرام ہوتا ہے۔ دُگنے سے یہاں مراد یہ ہے کہ اسلام آباد ٹریفک پولیس بھی لائسنس بناتی ہے اور موٹروے پولیس کو بھی یہ خدمت “پُرکشش” محسوس ہوئی ہے اور انہوں نے بھی بڑی اعلٰی جگہ زمین “گھیر کر” لائسنس بنانے شروع کر دیے ہیں۔

ایک بات بڑی حیرانی کی ہے کہ کسی صاحب نے گاڑی کی تعریف کی بابت کہا تھا کہ ہر ایسی چیز جو چلتی ہے صرف وہی گاڑی ہے۔ بھیا کنفیوز مت ہوجائیے گا تھوڑی سے استثناء ہر معاملہ میں ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر چل پڑنے والی چیز گاڑی ہی ہو۔ کچھ رہنماؤں کو بھی چلنے کی عادت ہوتی ہے۔ خیر چھوڑیے ان سماجی و فلسفیانہ علوم کو، ہم ہر چلتی چیز کو فی الوقت گاڑی مان لیتے ہیں۔ اچھا تو ایک اور بات سمجھ یہ نہیں آتی کہ حادثات تو تب ہوتے ہیں جب لوگ گاڑیاں چلاتے ہیں یعنی کھڑی گاڑیاں پرانے وقتوں کے گھوڑے گدھوں کی طرح عدم برداشت میں ایک دوسرے کو دولتیاں تو نہیں مارنا شروع کرتیں۔ لیکن پھر بھی یہ سب لائسنس بنانے والے ادارے لوگوں کو پارکنگ کرنے کی مشکل چرخی میں سے ہی کیوں گزارتے ہیں؟

یہ بھی ملاحظہ کیجیے: ایک راہیِ بیزار کا پبلک ٹرانسپورٹ کا suffer نامہ

مجھے تو اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ڈرائیونگ ٹیسٹ کا پتا ہے جو انگریزی لفظ ‘S’ کے انداز کی پارکنگ کا پُل صراط کھڑا کرکے لوگوں کو موت کے فرشتے کا لقب برقرار رکھنے میں سہولت کار بنتے ہیں، جبکہ موٹروے پولیس والے انگریزی لفظ ‘L’ کے انداز میں پارکنگ کی تربیت دیتے ہیں۔ کراچی کے متعلق سنا ہے کہ وہاں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے کوئی “پاکٹ پارکنگ” ٹیسٹ ہے۔ کراچی پاکٹ کو بہت عزیز رکھتا ہے! چلیں چھوڑیں اس بات کو، آپ بتائیے کہ بھلا کتنے آدمی تھے جو گاڑی پارکنگ نہ کر سکنے پہ ہاتھ پاؤں تڑوا بیٹھے؟ نیتی کا تو لائسنس ضبط ہوا تھا، نامرادوں کا تو لائسنس لینا محال ہوا پڑا ہے۔ اس پہ اب سب سے بڑا افسانہ نگارمنٹو کیا کہے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلیش فارورڈ۔۔۔۔ منٹو چُپ رہے۔۔۔۔ لائسنس مل گیا۔ پانچ سال کے لیے تھا۔ لیکن پانچ سال بھی تو ختم ہو جاتے ہیں۔ تجدید کا لمحہ آن پہنچا۔ تجدید پر کیا بِیتی۔ اس دن کی ڈائری کچھ یوں ہے۔

ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید، ہجوم اور ضمیری خلش

ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کرانے ٹریفک پولیس کے دفتر آیا ہوا ہوں۔ بہت رش ہے۔

ان بے چاروں کو کام کرنا بھی نہیں آتا، یا شاید جس کا کام اسی کو ساجھے کے دفاعی نظام میں کچھ کہیں تو ان کی صلاحیت ہی اتنی ہے کہ ان سے سسٹم نہیں بن پایا۔

جس خدا و قدرت نے انسانی بچے کی پیدائش ایسا پیچیدہ نظام ڈیزائن کیا ہوا، کیا اسے ہمارے جیسے معاشرے جہاں رش بھی دماغ کے عدم استعمال سے جنم لیتا ہے، اور اس رش کا بندوبست بھی randomly چلتا ہے، کیا اس قدرت و خدا کے لیے انسانوں میں عقل کو ہاتھ مارنے کی صلاحیت دینا زیادہ مشکل تھا؟

پر کون پوچھے خداؤں سے، یہاں تو ناخدا جواب دہی میں اپنی اِہانت جانتے ہوں۔ خداؤ اور ناخداؤ، اپنی عدم جواب دہی کے لطف اٹھاؤ، ساڈی خیر اے۔

سب کاموں کا ایک ہی ٹوکن: بھلے S لینا ہو، بھلے ڈرائیو ٹیسٹ دینا ہو، بھلے تجدید  renewal کرانا ہو۔

ٹوکن والوں کو بُلا کیسے رہے ہیں: اس نمبر سے اس نمبر والے آ جائیں؟ یعنی بغیر جانے ان کا reality کے متعلق ontological یعنی وجودیاتی مفروضہ ہے کہ سب کچھ randomly and evenly یعنی بلا تفریق و تقسیم پھیلا ہوا ہے۔ (اپنی حیثیتوں اور وجودوں کی بکواسیت ridiculousness کو کس قدر فلسفیانہ اور دانشانہ کُرتیاں اور لنگیاں پہنائی جا سکتی ہیں۔)

… تو اس بے زار کر دینے والے انتظار کا حل؟

وہی پاکستانی حل… ایک ریفرنس ڈھونڈا۔۔۔ مل بھی گیا ہے۔ پر اس سے رابطہ کر کے چنیدہ استحقاق لینے کا جونہی سوچتا ہوں تو سامنے ان لوگوں کے چہرے آ جاتے ہیں جو کب سے میرے ساتھ اور کچھ مجھ سے بھی پہلے انتظار کر رہے ہیں۔ دل نہیں مان رہا کہ استحقاق سے لطف اٹھاؤں۔ کچھ نہیں، بہت ساری خلش ہوتی ہے۔ خود کو ایک غلط کام نا کر کے بھی اس کے کرنے کی گنہگاری کا احساس ہوتا ہے۔
بھاڑ میں جائے جو آج بھی لائسنس کی تجدید نہیں ہوتی۔ اپنی باری کا انتظار کروں گا، استحقاق استعمال نہیں کروں گا، صرف اس نیت کے ساتھ کہ شاید تھوڑی سی ضمیر کو جواب دہی کسی بہت برے کام کے خلاف ڈھال بن جائے۔ لیکن ساتھ ہی ایک اور سوال ابھر آتا ہے کہ کیا ہر بار ایسے مواقع پر اس قدر ثابت رہ پاؤں؟

اس آخری سوال اور بہت سارے دیگر سوالوں کا جواب سیموئیل بیکیٹ Samuel Beckett کے Waiting for Godot کے ایک کردار کی زبانی، یہی ذہن میں گونج رہا ہے:

It’s awful, it’s awful!

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔