جلتی دھوپ میں چھاؤں جیسا تھا وہ

Dr Shahid Siddiqui
ڈاکٹر شاہد صدیقی

جلتی دھوپ میں چھاؤں جیسا تھا وہ

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

وہ بھی کیسے دن تھے جو پلک جھپکتے میں ہوا ہو گئے۔ اب کتنا بھی چاہیں وہ دن پھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ اسی سکول میں انعام بھائی چھٹی جماعت میں تھے۔ ہماری عمروں میں اتنا ہی فرق تھا۔ سارا دن کھیل کود کے بعد مجھے سرِشام نیند آ جاتی مگر انعام بھائی کی یہ خواہش ہوتی کہ ہم دیر تک باتیں کریں۔

ہمارے گھر کے قریب سے ریلوے لائن گزرتی تھی۔ ہماری کھڑکی سے ریلوے لائن اور ٹرین صاف نظر آتے تھے۔ مجھے اب تک یاد ہے، جب ٹرین ہمارے گھر کے پاس سے گزرتی تو ہمارے گھر کی کھڑکیاں بجنے لگتیں اور گھر بھر میں ارتعاش سا آ جاتا۔ کبھی کبھار رات کو ٹرین گزرتی تو میں جاگ جاتا اور دیر تک جاگتا رہتا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم وہ گھر اور علاقہ چھوڑ کر ایک اور مکان میں آ گئے۔ اب ہم نئے سکول میں آ گئے تھے۔ میں چھٹی جماعت میں تھا اور انعام بھائی دسویں کلاس میں۔ ہم دونوں اکیلے پیدل گھر سے سکول آتے جاتے۔

شام کو ہم باقاعدگی سے کرکٹ کھیلتے۔ انعام بھائی کی شخصیت میں کوئی خاص بات تھی کہ ان کے ارد گرد دوستوں کا جمگھٹا رہتا۔ وہ دوستوں کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہتے۔

وقت گزرتا گیا، انعام بھائی نے پوسٹ آفس میں نوکری شروع کر دی، لیکن شام کے معمولات وہی تھے۔ دوستوں کے ساتھ وہی محفلیں۔ انہیں فوٹوگرافی کا شوق تھا۔ دوستوں کی تقریبات میں انعام بھائی رضاکارانہ فوٹوگرافی کرتے۔

اسی طرح مختلف تقریبات میں کھانے کے انتظامات انعام بھائی کے ذمے ہوتے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انتظامات میں کوئی کمی رہ گئی ہو۔

قربانی والی عید پر بکروں کی خریداری سے لے کر قربانی کے تمام مرحلوں تک کی نگرانی وہی کرتے اور اس سارے کام کو انجوائے کرتے تھے۔ انعام بھائی بہت خوش لباس تھے۔ شروع شروع میں پینٹ کوٹ اور ٹائی اور بعد میں شلوار قمیض اور جیکٹ۔ میں نے انہیں ہمیشہ اجلے کپڑوں میں دیکھا۔ انہیں شعروادب کا شوق تھا اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی کتاب ان کے زیر مطالعہ ہوتی۔

ایک ڈائری میں پسندیدہ اشعار نوٹ کر لیتے۔ انعام بھائی کی طبیعت میں سیلانی پن تھا۔ ہفتے میں ایک بار ضرور دوستوں کے ہمراہ سیر کا پروگرام بناتے۔ تقریباً ہر سال شمالی علاقہ جات کی سیر کو جاتے۔ ہنزہ، گلگت اور سکردو تو وہ کتنی ہی بار گئے ہوں گے۔ ہاں جب دیوسائی گئے تو وہاں کے حسن کے اسیر ہو گئے۔ بہت سی تصویریں لیں اور دیوسائی کے نام سے ایک سفرنامہ بھی لکھا۔ وہ جو ناصرکاظمی نے کہا ہے:

دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو

تو کچھ ایسا ہی معاملہ انعام بھائی کا تھا۔ وہ دوستوں کے درمیان ایک پُل تھے۔ سرِ شام بیٹھک کا دروازہ کھول کر انتظار میں بیٹھ جاتے۔ دوستوں کی محفل میں ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔ مہمان نوازی ان کی شخصیت کی پہچان تھی۔

جو کچھ بن پڑتا مہمانوں کے سامنے پیش کرتے۔ انعام بھائی نے وقت سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ ان کی آزاد منش طبیعت سرکاری نوکری کے شکنجوں سے رہائی چاہتی تھی۔ سو ایک روز انہوں نے گھر آ کر ماں کو بتایا کہ ”بس اور نوکری نہیں کرنی، میں نے استعفیٰ دے دیا ہے‘‘۔

ماں کے چہرے پر تشویش کی ایک لہر آئی اور گزر گئی لیکن انہوں نے کہا کچھ نہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ انعام بھائی کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ ہر صبح سویرے اجلے کپڑے پہن کر تیار ہو جاتے، کسی نہ کسی دوست کو فون کرتے اور اس کے ہمراہ کہیں نہ کہیں کا پروگرام بن جاتا۔
انعام بھائی کے پاؤں میں کوئی چکر تھا۔ وہ ہر وقت متحرک رہتے۔ زندگی کو اپنی مرضی سے جیتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گھر والوں کے اصرار کے باوجود انہوں نے شادی نہیں کی۔ یوں ان کی ساری محبت اپنے بھائیوں اور ماں بہن کے لیے وقف تھی۔ وقت دبے پاؤں گزرتا گیا۔

ہم سب بھائیوں اور بہن کی شادی ہو گئی اور ہم اپنے اپنے گھروں کے ہو کر رہ گئے۔ والد صاحب کا انتقال پہلے ہی ہو گیا تھا سو اب والدہ کے پاس انعام بھائی رہ گئے تھے۔ بھرا پرا گھر اچانک خالی ہو گیا تھا۔ احمد مشاق نے کتنا سچ کہا تھا:

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

مجھے بھی تلاشِ روزگار لاہور لے آئی۔ اب راولپنڈی کم کم آنا ہوتا۔ خاص موقع یا عیدوں پر۔ لیکن جب انعام بھائی کو خبر ہوتی کہ مجھے فلاں دِن لاہور سے آنا ہے، مجھے رستے میں کئی بار اُن کا فون آتا۔ ”اب کہاں پہنچے؟‘‘ ”اب کہاں پہنچے ہو؟‘‘ ہر بار اُن کا یہی سوال ہوتا۔ اگربس پر آنا ہوتا تو وہ بس کی آمد کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے طاہر بھائی کے بیٹے شہریار کے ہمراہ بس ٹرمینل پہنچ جاتے۔ اس روز گھرمیں خوب رونق ہوتی۔ انعام بھائی دعوت کااہتمام کرتے۔

ہم سب کو اکٹھا پا کر اُن کی آنکھیں چمک اُٹھتیں۔ انعام بھائی دوسروں کو تحفے دے کر بہت خوش ہوتے۔ ایک بار میں نے دیکھا، انعام بھائی نے خوبصورت کوہاٹی چپل پہن رکھی ہے۔ میں نے کہا: انعام بھائی بہت اچھی چپل پہن رکھی ہے۔ کہاں سے لی؟ وہ خوش ہو کر بولے اچھا؟ یہ ایک دوست لے کر آیا ہے۔ اگلے روز میں لاہور واپس آ گیا۔ کپڑوں کا بیگ کھولا تو ایک ڈبے میں چپل کا وہی جوڑا پڑا تھا، جو آتے وقت انہوں نے چپکے سے کہیں میرے کپڑوں کے بیگ میں رکھ دیا تھا۔

اب والدہ کی صحت جواب دے رہی تھی۔ انعام بھائی نے ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ والدہ کو کچھ دنوں کے بعد بلڈ کی ضرورت پڑتی اور اس کا انتظام کرنا ہوتا۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک رہا۔ انعام بھائی نے اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا، لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔

آخر ایک دن ماں ہم سب کو چھوڑ کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ یہ صدمہ ہم سب کے لیے جانکاہ تھا لیکن انعام بھائی کو اس صدمے نے ڈھیر کردیا تھا۔ اسی دوران ہمارے بہنوئی کے انتقال کے بعد ہمشیرہ بھی انعام بھائی کے ساتھ آبائی گھر میں آ گئی تھیں۔

انعام بھائی ہر روز والدہ کی قبر پر جاتے۔ قبرستان ہمارے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ ایک روز جب وہ بہت دیر تک واپس نہ آئے تو سب کو تشویش ہوئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے قبرستان پہنچے تودیکھا وہ والدہ کی قبرسے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ قریب جا کر دیکھا تو ان کے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں تھیں اور وہ ماں کی قبر کے ساتھ لگ کر روتے روتے سو گئے تھے۔ یہ دن ان کے لیے بہت کڑے تھے۔

انعام بھائی شوگرکے مرض میں مبتلا ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا وزن کم ہونے لگا۔ شوگر نے ان کے گُردوں کو متاثرکرنا شروع کر دیا تھا۔ جس دن انہیں (dialysis) کے لیے ہسپتال لے کر گئے میں لاہور سے سیدھا ہسپتال پہنچا۔ انہیں ویل چیئر پر دیکھ کر دل دھک سا رہ گیا۔ میں نے آنسوؤں کو روکتے ہوئے ان کے سرپرہاتھ پھیرا۔ ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ نحیف آواز میں مجھے کہنے لگے: یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔ میں نے کہا: انعام بھائی آپ انشااللہ جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔

اگلے روز مجھے واپس لاہور جانا تھا۔ اب رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا تھا۔ فون پران سے تقریباً ہر روز بات ہوتی۔ یہ 26 رمضان المبارک کا دن تھا۔ روزہ افطار کرنے کے بعد 27 رمضان المبارک کی رات شروع ہو رہی تھی۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ راولپنڈی سے چھوٹے بھائی طاہرکا فون آیا۔ ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے بتایا ”انعام بھائی ہمیں چھوڑکرچلے گئے ہیں‘‘۔ ٹیلی فون میرے ہاتھ سے گر گیا۔ ہم اسی وقت راولپنڈی کے لیے روانہ ہوگئے۔ سفر تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ آج سارے رستے کسی نے کوئی فون نہیں کیا۔ کسی نے بے تابی سے نہیں پوچھتا ”اب کہاں پہنچے؟‘‘ گھر کے اطراف میں لوگوں کا ہجوم تھا۔

انعام بھائی کے چاہنے والے دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے۔ میں صحن سے ہوتا ہوا کمرے میں داخل ہوا جہاں خواتین بیٹھی تھیں۔ کمرے کے وسط میں چارپائی رکھی تھی۔ انعام بھائی کے بے جان جسم پر سفید چادرتھی جو پنکھے کی ہوا سے پھڑپھڑا رہی تھی۔

میں نے انعام بھائی کے سر سے سفید چادر ہٹائی۔ وہ مہربان آنکھیں جومجھے دیکھ کر چمک اٹھتی تھی اب بند تھیں اور ان کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ میں ںے جھک کر انعام بھائی کی پیشانی پربوسا دیا۔ اس بوسے میں ایک ساتھ بِتائے ہوئے ان دنوں کی مٹھاس تھی جو پلک جھپکتے میں ہوا ہو گئے تھے۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔