یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں 

Amer Farooq
عامر فاروق

یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

از، عامر فاروق

مجھے پختہ یقین ہو چلا ہے کہ حکومت کی تمام پالیسیوں اور اقدامات کا مقصد لوگوں کی روحانی تربیت، تزکیۂِ نفس اور راہِ سلُوک میں ان کی بلندئِ درجات کو یقینی بنانا ہے۔

یہ قوم نا شکری کی راہ پر تھی۔ مادہ پرستی ہر سطح پر سرایت کر چکی تھی۔ محض دنیا سنوارنے کی باتیں ہوتی تھیں۔ دنیاوی ترقی کو انسان کی منزل اور مقصد سمجھ لیا گیا تھا۔

صنعتیں، ذرائع نقل و حمل، روزگار کے مواقِع، علاقائی تجارت، نئی منڈیوں کی تلاش جیسے مادی موضوعات ہی حکومتی و عوامی گفتگو میں ملتے تھے۔

رب کا شکر ہے آج یہ مادی موضوعات و امکانات اپنی موت آپ مر گئے ہیں۔ شکر گزاری کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو ایک انڈہ، سیر آٹا، چمچ گھی اور پیالہ کھانڈ کا مل جاتا ہے تو کلمۂِ شکر ادا کرتے اس کی زبان نہیں سوکھتی۔

عالَمِ اسباب سے بے نیازی اور بے رغبتی کا یہ عالم اس سے پہلے تاریخ میں صرف بدھ بھکشوؤں کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے جو دنیا ترک کر کے خانقاہوں تک محدود ہو جاتے تھے۔ اور اگر کسی نے کاسۂِ گَدائی میں کچھ ڈال دیا تو صبر شکر سے کھا لیا ورنہ پڑ رہے کلمۂِ شکر پڑھتے پڑھتے۔

آج، تاہم، مملکتِ مدینۂِ ثانی میں بے نیازی کا رنگ کئی درجے سَوا ہے۔ بدھ بھکشو بے نیازی کے لیے خانقاہوں میں بسنے کے محتاج تھے، جن کہ اپنی ترکیب میں خاص یہ ساکنانِ مدینۂِ ثانی بھرے بازاروں کے بیچ بیٹھ کر آسائشاتِ دنیاوی کو درویشانہ حقارت سے write off کر رہے ہیں۔

ٹھنڈے ٹھار بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑا دینے والی قوم اتنی تن آسان اور آرام طلب ہو چکی تھی کہ بجلی اور گیس کی بندش اور موسم کی شدت پر بلبلا اٹھتی تھی۔ رب کی رحمتیں حکومت کے شاملِ حال رہیں، وہ سہل طلبی قصۂِ ماضی بن چکی۔

آج شکر گزاری، جفا کشی اور پیسے سے بے رغبتی کا یہ عالم ہے کہ گیس سے مکان گرم کرنے اور گیزر جیسی عیاشی کا کوئی نہیں سوچتا۔ چولھا جلا کر انڈہ تلنے میں کام یاب ہونے اور پھر ایندھن کے اس اسراف پر جھولیاں بھر کر بل ادا کرنے پر بھی روحانی مدارج طے کرتے 22 کروڑ صوفیاء شاداں و فرحاں رہتے ہیں۔

ہماری نظروں کے سامنے تاریخ بن رہی ہے۔ وہ ملک جو اسلام کی تجربہ گاہ بننے واسطے وجود میں آیا تھا اور جسے کوتاہ بین قیادت نے دنیاوی شان و شوکت اور مال اسباب کے حریص سگانِ دنیا پرست کا مسکن بنا دیا تھا آج اقوامِ عالَم کی برادری میں ایک سرکردہ روحانی قوم کے طور پر ابھر رہا ہے۔

شاعر کی دور بیں نگہ نے شاید یہی عروج پردۂِ تصور پر دیکھا اور  کہا تھا:

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

حضرت اقبال مستقبل میں جھانکنے میں تو کام یاب ہو گئے تھے، لیکن شاید یہ بات ان کے احاطۂِ خیال میں بھی نہیں آئی تھی کہ یہ درویشانہ انقلاب اتنا ہَمہ گیر اور جامع ہو گا کہ چند ایک نہیں، بَل کہ وقت آئے گا کہ قوم کی قوم راہِ سلوک میں منزلوں پر منزلیں مارتے آگے بڑھ رہی ہو گی۔

آگے کہاں؟ خاکسار سا دنیا کی رغبت میں غلطاں گم راہ شخص تو اس سوال کا حتمی جواب دینے کی تاب یا علم نہیں رکھتا۔ غوثِ زمانہ اور ان کے چند خلفاء تاہم اشارتاً کہتے ہیں کہ حتمی سکون زیرِ زمین ہی ممکن ہے۔